’’ آج معاشرہ اتنا بے لگام کیوں ہے ؟‘‘

0
0

 

قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی، کولکاتا ۔۵۸
mob: 6291697668

آج کل ہر جگہ ،ہر معاشرہ جس تباہی کی طرف جا رہا ہے اور جس طرح سے غیر محسوس طریقہ سے نئی نسل

کو شیطان کے جال میں پھنسا یا جا رہا ہے ، اس سب کو دیکھ کر دل و دماغ پر یشان سا ہو جا تا ہے ۔ ڈش کیبل ، موبائل ، نیٹ ، فحش مناظر، فحش لڑیچر ، مخلوط نظام تعلیم اور ناچ گانوں کی محفلیں وغیر ہ بہت ساری چیزوں کے ذریعہ نئی نسل سے اس کے انسانیت کا لباس اُتار کر اس کو بے حیائی کا لباس پہنا یا جا رہا ہے اور بد قسمتی سے نئی نسل ان چیزوں کو افیون کی طرح استعمال کر رہی ہے اور وہ ان چیزوں کے اس قدر عادی بن چکی ہے کہ شاید اب اس کا اس سے نکلنا ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہے ۔ موجود دور میں مسلم نوجوانوں نے جو طرز زندگی اختیار کر رکھا ہے اس کے پیچھے خاص طور پر فلمی اداکاروں کی نقالی ہے ۔ ان کے چہرے اور ان کی داڑھی کی بناوٹ اور ان کے لباسوں میں مسلم تہذیب اور اسلامی معاشرہ کی کوئی علامتی چیز نظر نہیں آتی ہے ۔ چونکہ غیروں کی نقالی اور مشابہت مسلمانوں کی مغلوبیت کی عکاسی کر تا ہے جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے ، اگر باریکی سے دیکھا جا ئے تو آج کل شیطانی قوتوں نے جس طرح کے جال بچھا رکھے ہیں ، ان کے شکار لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ تر لڑکیا ں نظر آتی ہیں۔ بے پر دگی ، سج دھج اور بنائو سنگار کے ساتھ نکلنا اور زیادہ تر مختلف پارکوں میں موبائل اور نیٹ کے ساتھ گزارنا ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے ۔
آج دنیا تبدیل اور لوگ بدل چکے ہیں ، ہمارے خیالات ، خواہشات ، مقاصد، تہذیب ، کلچر اور سب سے بڑھ کر سوچ ، عجیب صورت حال سے دوچار ہے ، انسانیت نام کی کوئی چیز ہم میں نہیں رہی ، ہم گناہوں اور برائیوں کے دل دل میں پھنس چکے ہیں اور دوسروں کی نقل کر کے فخر کر تے ہیں ۔ ہماری سوچ میں ذاتی مفاد کی اہمیت پہلی اہمیت ہے ، ہماری زندگی کا مقصد دولت کا حصول ہے جو چاہے کسی بھی راستے سے حاصل کر نی پڑے ، ہم اپنی اولاد کو با ادب ، تہذٰب یافتہ نہیں بلکہ امیر دیکھنا پسند کر تے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب بچے کوئی غلط سرگرمی اپناتے تھے تو انہیں بڑوں کا ڈر ہو تا تھا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ بڑے خود بچوں کو اپنے سیاسی عزائم کے تکمیل کے لئے غلط استعمال کر رہے ہیں ، اپنی ہی نوجوان نسل کو بھڑکا کر اور اُکسا کر سوشل میڈیا پر مخالف جماعتوں کی کر دار کشی جیسا قبیح فعل سرزد کروایا جا رہا ہے،یہ ہمارے بچے جنہیں خالد بن ولید ؒ بننا تھا وہ فیس بک پہ خیالی طور پر مثالی ہندوستان بنانے کی سعی لا حاصل کر تے نظر آتے ہیں ۔
ہر گزر تے دن کے ساتھ سے معاشرے میں اچھا ئیوں کا تناسب کم اور برائیوں کا بڑھتا جا رہا ہے ۔ آج معاشرے میں اخلاقی گراوٹ ، اعلیٰ اقدار کی کمی اور عملیت کا فقدان اسی لئے دیکھنے کو ملتا ہے کیونکہ گھر ، خاندان اور سب کی حفاظت نہیں ہو رہی ہے ۔ مرد اور عورت معاشرے کے دو اہم ستون ہیں ، یہ دونوں مل کر گھر اور خاندان کو پروان چڑھاتے ہیں ،مرد اور عورت دونوں بڑھتے ہو ئے مسائل کے ذمہ دار ہیں ، معاشرے میں نوجوانوں کے بڑھتے ہو ئے ذہنی اور نفسیاتی مسائل، طلاق کی بڑھتی ہو ئی شرح اور دیر سے شادیوں کا رحجان بے شمار مسائل ہمارے گھروں ، خاندانوں اور معاشرے کا المیہ بن چکے ہیں ۔ آج کل ہر طرف چار شادیوں کے حوالے سے خوب آگاہی دی جا تی ہے ، اس آگاہی مہم میں ہمارے علما کرام پیش پیش ہیں ، لیکن افسوس کہ ہمارے علما اس حوالے سے خاموش ہیں کہ دین چار شادیوں کے ساتھ ساتھ بیوہ اور طلاق یافتہ کے حقوق کے بارے میں بھی بات کر تا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں اگر مرد طلاق یافتہ ہے تو عورت اس کے بچے قبول کر لیتی ہے لیکن مرد طلاق یافتہ اور بیوہ کے بچے قبول نہیں کر تا ۔ افسوس کہ شادی کے لئے طلاق یافتہ مرد کو بھی ایک غیر شادی شدہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی چاہیئے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ، ایک ایسی مخلوق جس کو اللہ نے علم عطا کیا اور علم کے ساتھ شعور عطا کیا لیکن اس دور کے انسان کو دیکھکر لگتا ہے کہ نہ اس کے پاس علم ہے نہ شعور ۔ آخر ایسا کیوںہے کہ ایک مسلم معاشرہ میں لوگوں کو اپنے جذبات پر قابو نہیں ،جس پر بس چلتا ہے ، بندہ مار کر دم لیتا ہے ۔ کیوںمعاشرے سے برداشت ختم ہو رہی ہے ؟ کیوں ہر گز رتے دن کے ساتھ انسانی رویوں کی جگہ حیوانی رویے جنم لے رہے ہیں ۔
آج معاشرے میں بڑھتی ہو ئی بے لگامی کی بہت سی وجوہات ہیں ، جس میں سے بڑی وجہہ حکومتی سطح پر قوم کی اخلاقی تر بیت کے حوالے سے اقدامات نہیں ہو رہے ہیں، جب تک ہم اپنے بچوں کو اخلاقی لحاظ سے مضبوط نہیں بنائینگے ، یہ معاشرہ بے لگام ہی رہے گا ۔ جب تک ہمارے بچے تعلیم سے نہیں جڑینگے ، لوگوں کی زندگیاں بے مقصد رہینگی اور جس معاشرے میں بے مقصد بہت بڑھ جا ئے وہاں انسانیت کی جگہ حیوانیت ہی لیا کر تی ہے ۔ اس وقت معاشرے میںرویوں کی جو صورت حال ہے کیا بتائوں کہ ہر نسان اچھی گاڑی ، اچھا مکان اور مادی چیزوں کو حاصل کر نے کی خواہش میں بس دوڑتا چلا جا رہا ہے ، مادی خواہشات کو پورا کر نے کی ہوس میں اسے اپنے آس پاس تو کچھ دھائی دے رہا ہے نہ سنائی ۔ معاشرے کی بے لگامی کی بہت بڑی وجہہ یہ ہے کہ ہم نے لینے والے ہاتھ کو دینے والا ہاتھ نہیں بنایا ۔
لہذا ضروری ہے کہ آج ایک لمحہ کے لئے رک کر ہمیں دوبارہ اپنے آپ کو یہ باور کر انے کی ضرورت ہے کہ معاشرہ کون ہے ؟ معاشرہ ہم ہیں ، ہمارا عمل معاشرہ ہے ، ہم کب تک اس معاشرے اور حکومت کو الزام دیتے رہینگے ، یہ معاشرہ سب کی ذمہ داری ہے ، معاشرے کی اصلاح کا عمل بالکل اپنی اولاد کی تر بیت کی طرح ہے جس سے ایک لمحہ بھی نظر ہٹائی نہیں جا سکتی ۔ ہر فرد کو آج یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو روازنہ کی بنیادوں پر اپنی خواہشات کے علاوہ اللہ اور اسول ﷺ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنے نفس اور معاشرے کی اصلاح کو روزانہ کی بنیادوں پر تر جیح دیتے ہیں ۔ اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم سب اپنے سے بڑے لوگوں کی تعلیم و تر بیت پر خاص تو جہ دیں ۔ ایسی محافل کا انتظام کریں جس میں کوئی دین اور دانش کی بات ہو اور ہمارا بگڑا ہوا ان پڑھ طبقہ شعور کی سیڑیاں چڑھنا سیکھ سکے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا