شمالی کوریا نے اتوار کو جوہری ہتھیار کا کامیاب تجربہ کیا
لازوال ڈیسک
واشنگٹن؍؍امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے کہ امریکی یا اس کے اتحادیوں کو شمالی کوریا کی جانب سے کسی بھی خطرے کا سامنا بھرپور فوجی قوت سے کیا جائے گا۔شمالی کوریا نے اتوار کو جوہری ہتھیار کا کامیاب تجربہ کیا جو دور تک مار کرنے والے میزائل پر نصب کیا جا سکتا ہے۔بی بی سی کے مطابق جیمز میٹس نے وائٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اپنے اور اپنے اتحادیوں جنوبی کوریا اور جاپان کے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے۔انھوں نے مزید کہاامریکہ یا اس کے کسی بھی علاقے بشمول گوام یا ہمارے اتحادیوں کو کسی بھی خطرے کا جواب بھرپور فوجی قوت سے دیا جائے گا اور یہ جواب بااثر اور شدید ہو گا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پیر کے روز ایمرجنسی اجلاس میں شمالی کوریا کے جوہری ٹیسٹ پر عالمی ردعمل کے حوالے سے بحث کرے گی۔دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ ایسے ملک کے ساتھ تجارت کو بند کر دے گا جو شمالی کوریا کے ساتھ کاروبار کرتا ہے۔اس سے پہلے شمالی کوریا میں زیر زمین وسیع پیمانے پر آنے والے جھٹکے کے بعد جاپان کا کہنا ہے کہ یہ شمالی کوریا کا چھٹا جوہری تجربہ تھا۔امریکی زلزلہ پیماؤں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے شمال مشرقی علاقے میں 6.3 شدت کے زلزلے کا پتہ چلا ہے جو کہ ممکنہ طور پر جوہری دھماکہ ہو سکتا ہے۔یہ زلزلہ اس علاقے میں محسوس کیا گیا ہے جہاں شمالی کوریا نے اپنے سابقہ جوہری تجربات کیے تھے۔یہ زلزہ شمالی کوریا کےسرکاری میڈیا میں رہنما کم جونگ ان کی تصویر کے جاری کیے جانے کے بعد ریکارڈ کیا گیا ہے جس میں وہ ایک نئے قسم کے ہائیڈروجن بم کا معائنہ کر رہے ہیں۔جنوبی کوریا کے حکام کا کہنا ہے کہ زلزلہ کلجو کاؤنٹی میں آیا ہے جوکہ شمالی کوریا کے جوہری تجربات کا مقام پنگیئی ری ہے۔چین میں زلزلے پر نظر رکھنے والی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ کوئی دھماکہ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلے زلزلے کے بعد اسے ایک دوسرے زلزلے کا پتہ چلا ہے جو کہ 4.6 شدت کا تھا اور اسے انھوں نےدھنسنےسے تعبیر کیا ہے۔امریکہ کے جیولوجیکل سروے کی ابتدائی رپورٹ میں زلزلے کی شدت چھ اعشاریہ پانچ بتائی گئی تھی جسے بعد میں درست کرکے 6.3 کردیا گيا تھا اور اس کا زمین کے دس کلو میٹر اندر بتایا گيا۔
شمالی کوریاکےخطرے کاسامنابھرپورفوجی طاقت سے کریں گے:امریکہ
شیعہ سنٹرل وقف بورڈ چیئرمین وسیم رضوی کاخواب!
اجودھیا میں بابری مسجد اراضی پر عظیم الشان رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئے
لازوال ڈیسک
اجودھیا ؍؍ایک مرتبہ پھرنئی بحث چھیڑتے ہوئے شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے آج پھر کہا کہ اجودھیا میں متنازعہ بابری مسجد اراضی پر عظیم الشان رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئے اور مسلم اکثریتی علاقہ میں مسجد بنائی جانی چاہئے۔ مسٹر رضوی نے کہاکہ انہوں نے دگمبر اکھاڑہ کے مہنت سریش داس، نرموہی اکھاڑا کے مہنت بابا بھاسکر داس اور ہنومان گڑھی نروانی اکھاڑا کے فریق دھرم داس سے مل کر متنازعہ بابری مسجد اراضی پر عظیم الشان مندر کی تعمیر کیلئے آپسی صلح سمجھوتہ کی تجویز پیش کی۔ فریقین نے اس سمجھوتہ کا خیرمقدم کرتےہوئے کہاکہ وہاں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئے۔شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین نے کہا ’سپریم کورٹ میں میں نے حلف نامہ داخل کرکے کہا ہے کہ متنازعہ بابری مسجد اراضی پر رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئے جبکہ مسجد اس سے کچھ دور مسلم علاقے میں بنائی جانی چاہئے۔ اس تجویز سے متنازعہ بابری مسجد اراضی معاملے کے فریقین نے بھی تعاون کی بات کی۔‘انہوں نے کہاکہ اجودھیا میں جتنی بھی مسجدیں بنی ہوئی ہیں، وہ مسلم برادری کیلئے کافی ہیں اور یہ ساری مسجدیں ہندؤں کے تعاون سے ہی بنی ہوں گی۔اسے قبل بھی اس طرح کے بیانات آچکے ہیں جن کی مسلم طبقے میںچوطرفہ تنقیدہوئی ہے تاہم تازہ بیان نے ایک مرتبہ پھر وسیم رضوی کوتنازعات میں گھیرلیاہے۔
مقامات مقدسہ کے لیے ترقیاتی منصوبہ تیار
سال 2030 تک معتمرین اور حجاج کرام کی سالانہ تعداد تین کروڑ تک پہنچانے کیلئے ہم پرعزم : گورنر مکہ
لازوال ڈیسک
مکہ مکرمہ ؍؍ مکہ مکرمہ کے گورنر اور سعودی حج کمیشن کے سربراہ شہزادہ خالد الفیصل کا کہنا ہے کہ مملکت نے رواں سال حجاج کرام کی ریکارڈ تعداد کو بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے منتقل کیا۔ انہوں نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ حجاج کی منتقلی پہلے کے مقابلے میں مختصر وقت میں عمل میں لائی گئی۔نیوز چینل’’العربیہ‘‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں مکہ کے گورنر نے باور کرایا کہ مملکت نے خطے میں جاری تنازعات اور بحرانات سے دُور رہتے ہوئے بیت اللہ آنے والے حجاج کرام کے لیے بہترین خدمات کی فراہمی پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔شہزادہ خالد الفیصل نے کہا کہ2030 تک معتمرین اور حجاج کرام کی سالانہ تعداد تین کروڑ تک پہنچانے کے لیے مملکت بھرپور عزم رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں مقامات مقدسہ کے لیے ترقیاتی منصوبہ تیار کر کے اسے مکہ مکرمہ میں جاری منصوبوں کے ساتھ مربوط کیا جا رہا ہے اور جلد ہی اس پر عمل درامد شروع کر دیا جائے گا۔
مودی کابینہ کی توسیع
نرملا سیتارمن کو وزارت دفاع اور پیوش گوئل کو وزارت ریل
نئی دہلی : وزیر اعظم نریندر مودی نے آج اپنی کابینہ کی توسیع میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کرتے ہوئے محترمہ سیتارمن کو وزارت دفاع کا چارج سونپا ہے، تو پیوش گوئل کو وزارت ریلوے تفویض کی ہے، جبکہ نتن گڈکری کو ان کی موجودہ وزارتوں کے ساتھ آبی وسائل ، ندیوں کی ترقی اور احیائے گنگا کی وزارت سونپی گئی ہے۔ مودی کابینہ میں محترمہ سيتارمن، مسٹر گوئل، مسٹر دھرمیندر پردھان اور مسٹر مختار عباس نقوی کو ترقی دے کر کابینہ وزیر بنایا گیا ہے اور نو نئے چہرے کو وزیر مملکت کی حيثیت سے وزارتی کونسل میں شامل کیا گیا ہے۔ راشٹریہ پتی بھون کی ایک ریلیز کے مطابق مسٹر پیوش گوئل وزارت کوئلہ سنبھالنے کے ساتھ ہی نئے وزیر ریلوے ہوں گے، جبکہ محترمہ نرملا سیتا رمن نئی وزیر دفاع ہوں گی۔ مسٹر مختار عباس نقوی کو وزارت اقلیتی امور میں ہی رکھا گیا ہے۔دو ریلوے حادثوں کے بعد وزارت ریلوے سے استعفی دینے والے مسٹر سریش پربھو کو وزارت تجارت و صنعت دی گئی ہے۔ محترمہ اوما بھارتی کو آبی وسائل، ندیوں کی ترقی اور احیائے گنگا کی وزارت سے ہٹا دیا گیا ہے اور انہيں پینے کے پانی و صفائی کی وزارت میں برقرار رکھا گيا ہے۔ کابینہ وزیر کے عہدے سے استعفی دینے والے کلراج مشرا کے مقام پر چھوٹے اور درمیانی صنعت کی وزارت میں گری راج سنگھ کو آزادانہ چارج دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی وزارت دفاع کی اضافی ذمہ داری سے آزاد ہوگئے ہیں۔ لیکن ٹکسٹائل وزیر اسمرتی ایرانی کو وزارت نشریات اطلاعات میں رکھا گیا ہے۔وزارت کھیل و امور نواجوانان سے مسٹر وجے گوئل کو ہٹا کر مسٹر راجیہ وردھن راٹھور کو اس کا آزادانہ چارج سونپ دیا گيا ہے۔ جبکہ مسٹر گوئل کو پارلیمانی امور اور وزارت شماریات و پروگراموں کے نفاذ میں پہنچایا گیا ہے۔ مسٹر مودی نے سیاسی تجربے اور انتظامی صلاحیت کو اہمیت دیتے ہوئے جو نئے وزراء مملکت بنائے ہیں ، ان میں سے مسٹر ہردیپ پوری کو ہاؤسنگ و شہری ترقیات کی وزارت میں فائز کیا گيا ہے۔ مسٹر ایم وینکیا نائیڈو کے نائب صدر بننے کی وجہ سے دیہی ترقیات کے وزیر نریندر تومر کو اس کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔کیرالہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیاد مضبوط کرنے کے پیش نظر کابینہ میں شامل سابق نوکر شاہ کے جے الفانسو کو وزارت سیاحت کا آزادانہ چارج دینے کے ساتھ ہی الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت میں وزیر مملکت بنایا گیا ہے۔ ارون جیٹلی کے پاس خزانہ اور کارپوریٹ امور کے قلمدان برقرار ہیں جبکہ نتن گڈکری کو آبی وسائل، دریاؤں کے فروغ اور گنگا کے احیاء کی اضافی ذمہ داریاں بھی، جو اوما بھارتی کے پاس تھیں، سونپی گئی ہیں۔ ان کے پاس سڑک ٹرانسپورٹ اور جہازرانی اور شاہراہوں کی وزارت پہلے سے ہی ہے۔ محترمہ اوما بھارتی اب پینے کے پانی اور صفائی کے قلمدان سنبھالیں گی۔ مسٹر دھرمیندر پردھان کو اہلیتوں کے فروغ اور انٹرپرینیورشپ کی اضافی ذمہ داری دی گئی ہے۔ پیٹرولیم اور قدرتی گیس کا قلمدان ان کے پاس پہلے سے ہی ہے۔ نئے وزراء کو آج صبح راشٹرپتی بھون میں ایک پروقار تقریب میں صدر رام ناتھ کووند نے عہدہ اور رازداری کا حلف دلایا۔مودی حکومت کے نئے چہروں میں شیو پرتاپ شکلا (ایم پی راجیہ سبھا، اترپردیش)، اشونی چوبے (لوک سبھا ایم پی، بکسر، بہار) اور ویریندر کمار (لوک سبھا ایم پی، ٹیکم گڑھ، مدھیہ پردیش) شامل ہیں۔ دیگر وزراء راج کمار سنگھ (لوک سبھا ایم پی، آرہ، بہار)، اننت کمار ہیگڑے (لوک سبھا ایم پی، کرناٹک)، ہردیپ سنگھ پوری (سابق آئی ایف ایس)، گجیندر سنگھ شخاوت (لوک سبھا ایم پی، جودھپور، راجستھان)، ستیہ پال سنگھ (لوک سبھا ایم پی، باغپت، اترپردیش) اور الفونس کنن تھنم (سابق آئی اے ایس افسر، 1979 بیچ) ہیں۔چار وزرائے مملکت محترمہ سیتا رمن ، پیوش گوئل، مختار عباس نقوی اور دھرمیندر پردھان کو کابینی وزراء کے حیثیت سے حلف دلایا گیا۔مبینہ طور پر مودی کابینہ میں ہونے والی تبدیلیاں 2019 کے عام انتخابات کے پیش نظر کی جا رہی ہیں۔ بااختیار ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے حکومت کے ان نئے ارکان کا جو محتلف سماجی اور اقتصادی پس منظر رکھتے ہیں اور جنہیں وسیع انتظامی تجربہ ہے، انتخاب، نئے ہندستان کے اپنے تصور کو حقیقی شکل دینے کے ارادے سےکیا ہے۔
نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن
مظفر نگر کے فساد متاثرین کو معاوضہ کب ملے گا؟
محمد انیس الرحمٰن خان
7042293793
[email protected]
” ہم حکومت سے عرض کرنا چاہتے ہیںاگر آپ ہمیں پانچ لاکھ نہیں دے سکتے ،توکم از کم دو یا تین لاکھ ہی دے دو،تاکہ کم از کم ہم اپنے رہنے کے لیے ایک گھر کی تعمیر تو کر سکیں۔ ہمارے لئے سات لوگوں کے خاندان کو چلانا بہت مشکل ہے، طاہر ہمیشہ کام پانے اور کچھ کمانے کی کوشش میں گھر سے باہر ہی رہتا ہے تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔ میرے بچے زیادہ تر کھانے کے وقت میں بھوکے ہی رہتے ہیں”۔ ” ہم حکومت سے عرض کرنا چاہتے ہیںاگر آپ ہمیں پانچ لاکھ نہیں دے سکتے ،توکم از کم دو یا تین لاکھ ہی دے دو،تاکہ کم از کم ہم اپنے رہنے کے لیے ایک گھر کی تعمیر تو کر سکیں۔ ہمارے لئے سات لوگوں کے خاندان کو چلانا بہت مشکل ہے، طاہر ہمیشہ کام پانے اور کچھ کمانے کی کوشش میں گھر سے باہر ہی رہتا ہے تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔ میرے بچے زیادہ تر کھانے کے وقت میں بھوکے ہی رہتے ہیں”۔ درج بالا جملہ مظفرنگر فساد سے متاثر ہونے والی عمرانہ کا ہے ۔2013 میں مظفر نگر اور شاملی کے فسادات کے بعد عمرانہ، طاہر زاہد اور ان کے بچوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے بدل گئیں۔ انھیں دھمکی دی گئی، ان پر حملہ کیا گیا اور کاکرا گاؤں میں اپنے گھر اور ہر اس سامان کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جن کے وہ کبھی مالک تھے۔2013 میں اترپردیش کی ریاستی حکومت نے معاوضہ کے طور پر انھیں 500,000 روپئے دینے کا وعدہ کیا تھا وہ رقم انھیں اب تک حاصل نہیں ہو پا ئی ہے۔ عمرانہ جیسی سینکڑوں بلکہ ہزاروں خواتین اس درد کو ابھی تک نہیں بھول پائی ہیں۔جب7 ستمبر 2013 کو مظفر نگر شہر کے باہر ایک گاؤں کے ایک بڑے اجتماع میں بااثر جاٹ کمیونٹی کے ہندو رہنماؤں نے 100,000 سے زیادہ لوگوں کے ایک مجمع کو خطاب کیا۔ وہ مسلمانوں کے ساتھ ایک تنازع میں ہونے والے دو ہندوؤں کے قتل پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔مبینہ طور پر بھارتی جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے ذریعہ اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں، جس میں ان قتلوں کا بدلہ لینے کے لیے ہندوؤں کو اکسایا گیا۔ اس اجتماع کے بعد پڑوسی اضلاع میں تشدد بھڑک گیا۔ ان جھڑپوں میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جو تین دنوں کے بعد ہی ختم ہوا۔ تقریباً 140 گاؤں سے دسیوں ہزار مسلم خاندان اپنے گھروں سے بھاگنے اور ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ 26 اکتوبر 2013 کو ریاستی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ متاثرین کواپنے گھروں میں منتقلی اور بہتر زندگی گزارنے کے لئے اُن نو گاؤں کے متاثرین خاندانوں کو 500,000 روپئے کی رقم معاوضے کے طور پر فراہم کرے گی جو بری طرح فساد میں متاثر ہوئے تھے۔ اسی درمیان سول سوسائٹی تنظیموں کو پتہ چلا کہ ریلیف کیمپوں میں رہنے والے افراد کو معاوضہ وصول کرنے کی شرط لگاتے ہوئے ایک حلف نامہ پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا ۔حلف نامہ میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے گاؤں میں واپس نہیں جائیں گے، اور یہ بھی کہ وہ کسی بھی غیر منقولہ جائیداد کو ہونے والے کسی بھی نقصان سے متعلق معاوضے کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ دسمبر 2013 میں سپریم کورٹ نے، جو فسادات سے متعلق کئی عرضیوں کی سماعت کر رہی تھی، میڈیا کی رپورٹوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ 50 سے زائد بچے ریلیف کیمپوں میں مر گئے تھے، اور اس نے ریاستی حکومت کو فوری طور پر معالجاتی امداد فراہم کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ریاستی حکومت نے ریلیف کیمپوں کو منہدم کرنا شروع کر دیا، اور بہت سے ان لوگوں کو زبردستی نکال دیا جو خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں سے بھاگ گئے تھے۔ تقریبا 30,000 مسلمان سول سوسائٹی تنظیموں کی مدد سے مظفر نگر میں 28 بحالی کالونیوں اور شاملی میں 37 بحالی کالونیوں میں منتقل ہوگئے۔ اگست 2016 اور اپریل 2017 کے درمیان، ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا اور افکار انڈیا فاؤنڈیشن اور شاملی میں واقع ایک این جی او نے 12 بحالی کالونیوں کا دورہ کیا، 65 خاندانوں سے ملاقات کی اور 190 خاندانوں کے دستاویزات کا تجزیہ کیا جو اب بھی معاوضہ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی زندگیوں کی تعمیر نو کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سرکاری ریکارڈوں کے مطابق، اب تک نو شناخت کردہ گاؤں میں سے مظفر نگر میں 980 خاندانوں اور شاملی میں 820 خاندانوں نے معاوضہ وصول کیا ہے۔ تاہم ان گاؤں کے تقریبا 200 خاندان اب بھی معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دیگر خاندانوں کو محررانہ غلطیوں اور بدعنوانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جب کہ بہت سے خاندان نام نہاد ریلیف کالونیوں میں خوفناک حالات میں رہتے ہیں، جہاں انھیں پانی، صفائی، بجلی اور مناسب رہائش تک نصیب نہیں ہوپارہی ہے۔ درج بالا باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ریاست اترپردیش کی حکومت بین الاقوامی اور ہندوستانی قانون کے تحت مناسب معاوضہ اور تلافی فراہم کرنے اور 2013 میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فساد کے تین سال بعد بھی مظفر نگر میں سیکڑوں خاندانوں کے حقوق اور وقار سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا اور افکار انڈیا فاؤنڈیشن نے مظفر نگر اور شاملی میں 200 سے زیادہ خاندانوں سے ملاقات کی ہے۔ یہ خاندان بحالی کالونیوں میں رہتے ہیں جہاں زیادہ تر لوگوں کو بجلی، پینے کے پانی اور صفائی کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ چار سالوں سے یہ خاندان اپنی زندگیوں کی تعمیر نو کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے قارئین ان متاثرین کے لئے کیا کرسکتے ہیں اس کے جواب میں مذکورہ بالاتنظیموں کے ذمہ داران یہ کہتے ہیں کہ” وہ ہماری مدد اپنے اپنے موبائل فون سے اس نمبر 08881666736 پر ایک ایک مسل کال کے ذریعہ بھی کرسکتے ہیں تاکہ ہم ریاست اتر پردیش کی حکومت پر دبائو بناسکیں اور انہیں یہ دکھا سکیں کہ اتنے سارے لوگوں کی آرزو ہے کہ آپ ان متاثرین کی مدد کریں”۔میں نے خود بھی مذکورہ نمبر پر مس کال کی تھی جس کے بعد مجھے ایک پیغام حاصل ہوا ۔ لہٰذ اآپ قارئین سے یقین ہے کہ آپ مفت میں بغیر کسی مشقت کے 08881666736اس نمبر پر مس کال ضرور کرینگے۔تاکہ آپ بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا اور افکار انڈیا فاؤنڈیشن کی مظفر نگر متاثرین کو انصاف دلانے کی جدوجہد میں شامل ہو سکیں،ممکن ہے آپ کا ایک مسل کال کسی مجبور کی زندگی بدل دے۔ (چرخہ فیچرس) کیپشن :۔اترپردیش کے وزیر اعلی سے کارروائی کا مطالبہ کرنے کے لیے 08881666736 مس کال کریں!
کشمیر میں تشددکی وجہ محض غلط بیانی
مظہراقبال خان
9107324244
- آئے دنوں پورے ملک سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت یعنی آیئن ہند کے دفعہ370اور 35A کو ختم کرنے یا،ختم ہونی چاہے اور کشمیر کو پوری طرح سے ہندوستان کے ساتھ جوڑے جانے کی آواز یں آرہی ہیںکشمیریوں کو غیرانسانی طریقے سے کچلنے کا پرچار کیا جا رہا ہے، لیکن کیوں ملک کے لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جارہا ہے کہ حکومت ہند کا ایک فیصلہ یہ بھی تھا کہ کشمیرہندوستان کا کبھی حصہّ نہیں رہا اور کشمیرکو جب 1947ء میں اپنے ساتھ ملایا تو دو فریقین کے درمیان معاہدہ کیا تھاکشمیر ہندوستان کا آئینی حصہ نہیں ہے لیکن ہندوستان کے آئینی نظام میں حق خود داری کے لئے دفعہ 370خصوصی حیثیت کے ساتھ دیا گیا جس کی وجہ بھارتی نظام حکومت امور خارجہ ، کرنسی اور فوج کے علاوہ کشمیر کی حکومت میں کس طرح کی مداخلت نہیں کر سکتا۔لیکن 65سال سے دہلی کی حکومت نے کشمیر میں کیا نہیں فوج جو سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہے کشمیر کی اندرونی معاملات پر فائز کر دیا گیا اندازہ لگائے کہ ہندوستان میں اتنا بڑا جاٹ آندولن ہوا ،گوجر ا ٓندولن ہوا ،کاویری کو لے کر کرناٹک اور بنگلور میں اتنا بڑا آندولن ہوا،ان میںکوئی گولی نہیں چلائی گئی، فوج کے دستوں کوتعینات نہیں کیا گیا، پولیس کی طرف سے کوئی بھی کاروائی نہیں کی گئی، کسی کو بھی دہشت گرد نہیں کہا گیا ،اس کی نسبت جب کشمیری عوام اپنے حق خود واریت کی مانگ کرتے ہیں تو اُن کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، اُن پر بھارت کی تمام طرح کی فوجیں لگادی جاتیں ہیں ،پیلٹ کا استعمال ہوتا ہے، گلی گلی چورا ہے ، چوک ، سڑک ، بازار ، قصبہ ، محلہ میں دفعہ 144لگا دیا جاتا ہے ،حق کی آواز کو دبانے کے لئے طرح طرح کے حربے کے جاتے ہیں اور اب تو کشمیریوں کو پاکستانی کہا جا رہا ہے ،کیوں ؟بہت کشمیری شہید ہوتے ہیں سیکورٹی فورسز کے جوان شہید ہوتے ہیں ،لاکھوں زخمی ہوتے ہیں ،ہزاروںبے اولاد ہوتے ہیں ،بے شمار عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں ،بہت سارے یتیم ہو جاتے ہیں غر ضکہ کشمیر میں کوئی ایسا فرد نہیں جس کا کشمیر کی اس تحریک میں کوئی گزر نہ چکا ہو جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کی حق داو رادیت کی مانگ آزادی کی مانگ میں بدل گئی اور آج کشمیر کے 6 سال کے بچہّ سے لے کر قریب از مرگ بزرگ کی زبان پر آزادی کی مانگ ہے آخر ایسا کیوں ہے اگر وہ خود مختاری مانگتے ہیں تو اُنہیں دہشت گرد اور پاکستانی کیوں کہا جارہا ہے؟۔ آئے دنوں پورے ملک سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت یعنی آیئن ہند کے دفعہ370اور 35A کو ختم کرنے یا،ختم ہونی چاہے اور کشمیر کو پوری طرح سے ہندوستان کے ساتھ جوڑے جانے کی آواز یں آرہی ہیںکشمیریوں کو غیرانسانی طریقے سے کچلنے کا پرچار کیا جا رہا ہے، لیکن کیوں ملک کے لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جارہا ہے کہ حکومت ہند کا ایک فیصلہ یہ بھی تھا کہ کشمیرہندوستان کا کبھی حصہّ نہیں رہا اور کشمیرکو جب 1947ء میں اپنے ساتھ ملایا تو دو فریقین کے درمیان معاہدہ کیا تھاکشمیر ہندوستان کا آئینی حصہ نہیں ہے لیکن ہندوستان کے آئینی نظام میں حق خود داری کے لئے دفعہ 370خصوصی حیثیت کے ساتھ دیا گیا جس کی وجہ بھارتی نظام حکومت امور خارجہ ، کرنسی اور فوج کے علاوہ کشمیر کی حکومت میں کس طرح کی مداخلت نہیں کر سکتا۔لیکن 65سال سے دہلی کی حکومت نے کشمیر میں کیا نہیں فوج جو سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہے کشمیر کی اندرونی معاملات پر فائز کر دیا گیا اندازہ لگائے کہ ہندوستان میں اتنا بڑا جاٹ آندولن ہوا ،گوجر ا ٓندولن ہوا ،کاویری کو لے کر کرناٹک اور بنگلور میں اتنا بڑا آندولن ہوا،ان میںکوئی گولی نہیں چلائی گئی، فوج کے دستوں کوتعینات نہیں کیا گیا، پولیس کی طرف سے کوئی بھی کاروائی نہیں کی گئی، کسی کو بھی دہشت گرد نہیں کہا گیا ،اس کی نسبت جب کشمیری عوام اپنے حق خود واریت کی مانگ کرتے ہیں تو اُن کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، اُن پر بھارت کی تمام طرح کی فوجیں لگادی جاتیں ہیں ،پیلٹ کا استعمال ہوتا ہے، گلی گلی چورا ہے ، چوک ، سڑک ، بازار ، قصبہ ، محلہ میں دفعہ 144لگا دیا جاتا ہے ،حق کی آواز کو دبانے کے لئے طرح طرح کے حربے کے جاتے ہیں اور اب تو کشمیریوں کو پاکستانی کہا جا رہا ہے ،کیوں ؟بہت کشمیری شہید ہوتے ہیں سیکورٹی فورسز کے جوان شہید ہوتے ہیں ،لاکھوں زخمی ہوتے ہیں ،ہزاروںبے اولاد ہوتے ہیں ،بے شمار عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں ،بہت سارے یتیم ہو جاتے ہیں غر ضکہ کشمیر میں کوئی ایسا فرد نہیں جس کا کشمیر کی اس تحریک میں کوئی گزر نہ چکا ہو جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کی حق داو رادیت کی مانگ آزادی کی مانگ میں بدل گئی اور آج کشمیر کے 6 سال کے بچہّ سے لے کر قریب از مرگ بزرگ کی زبان پر آزادی کی مانگ ہے آخر ایسا کیوں ہے اگر وہ خود مختاری مانگتے ہیں تو اُنہیں دہشت گرد اور پاکستانی کیوں کہا جارہا ہے؟۔ کشمیر کے لوگوں گزشتہ 65 برسوں سے نظام کی چوک لا پرواہی یا مجرمانہ چشم پوشی کی وجہ سے یاد آگیا ہے کہ کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ شامل کرنے کا سمجھوتہ ہوا تھا۔مہاراجہ ہری سنگھ اور آزاد ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ مونٹبیٹن کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس کے گواہ مہاراجہ ہری سنگھ کے صاحبزادے مہا راجہ کرن سنگھ ابھی موجود ہیں اُس میں صاف لکھا ہے کہ کشمیرکو ہندوستان کے ساتھ جوڑنے کے لئے آئین ہند کے دفعہ 370 کو خصوصی حیثیت کے ساتھ نافذ کیا جائے گا اور instrument of accession میں شامل معاہدات کو دفعہ 370کی حصوصی درجہ کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر میں عملا یا جائے گا اور کشمیر میں امور خارجہ ، فوج اور کرنسی صرف تین معاملات کے علاوہ حکومت ہند کس بھی معاملہ میں دخل نہیں دے گیا۔اور آئین ہند کا یہ دفعہ تب تک کشمیر کو اندرونی خود مختاری دے گا جب تک کشمیر کی عوام خود اپنے مستقبل کولے کر فیصلہ ریفر نڈم کے ذریعے نہیں کرتے ۔کشمیر کے لوگوں کو ریفرنڈم چار پانچ سال میں بھول گے۔ اور شیخ محمدعبداللہ کا کامیابی کے ساتھ حکومت کر رہے تھے۔لیکن بھارت کے پہلے وزیر اعظم نے شیخ محمد عبداللہ کو جیل میں ڈالایا جس کی وجہ سے کشمیر میں ہندوستان کے تیئس عدم اعتمادی پیدا ہوئی ۔1974میں شیخ عبداللہ اور ہند کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان معاہدہ ہوا جس کی بنا پر شیخ صاحب کو ریاست کا وزیرا اعلیٰ بنا دیا گیا اور انہوں نے اس معاہدہ کے دوران بھی حکومت چلائی انہوں نے حکومت ہند سے جن جن چیزوں کی مانگ کی تھی اُن کو سرکار نے پس پشت ڈالایا اور ایک بار پھر سے کشمیر ی عوام کے دلوں میں زخم ڈالئے کئی مرتبہ کشمیر یوں کی مانگوں کو ٹھکرا دیا گیا اور کشمیر کو آیئن ہند کی طرف سے دی گئی حصوصی حیثیت کو کم کرتے کرتے آج اُس کو ختم کرنے کے دھانے پر آپہنچے۔ قابل ذکر بات ہے کہ آئے دنوں کشمیریوں کو دہشت گرد کہنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی بھی کہا جا رہا ہے کہ کشمیر ی نوجوان پاکستانی ہیں ؟ کیا وہ دہشت گرد ہیں ان باتوں کا جواب یہی ہے کہ اگر ایک آدمی چوری نہیں کرتا ہے لیکن پھر بھی ہر کوئی اُس کو چور کہے گا تو وہ چوری ضرور کرے گا ،حالانکہ وہ چور نہیں تھا ایسا ہی ہو رہا ہے ،کشمیری نوجوانوں کے ساتھ۔ آپ مشاہدہ کیجئے اور کرتے بھی ہوں پورے بھارت میں عام شہری بھی مسلمانوں کو حصوصا ًکشمیری جوانوں کو دہشت گرد کہتے ہیں اتنا ہی آئین کا ستون میدیابھی کم نہیں ہے وہ ہر بات کے ساتھ پانچ مرتبہ مسلمانوںکو دہشت گرد کہتے ہیں خاص طور سے الیکڑانک میڈیاکے مباحثوں (Debates)میں مسلمانوں کو بلا یا جاتا ہے ،بے عزتی کی جاتی ہے، کچھ دن پہلے ایک ڈیبیٹ میں ایک صحافی تو سیدھا کیہ رہا تھا کہ کشمیر ی پتھر باز پاکستانی ہیں پاکستان چلے جائیں شاید انہی وجہوہات سے کشمیر کے نوجوان پتھر اُٹھا رہے ہو نگے اور پاکستان کے جھنڈے لہراتے ہوں گے ۔جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ کشمریوں کی تحریک خود داریت کی مانگ کی تحریک تھی شاہد اسی وجہ سے یہ آزادی کی مانگ میں بدل گئی ہو۔ ریاست کے موجودہ حالات کتنے اچھے ہیں اور ان کو سدھارنے کی کتنی کوششیں کی جا رہی ہیں اوران کا ذمہ دار کون ہے یہ تو سب جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود دفعہ 35Aپر ایک نئی بحث چھیڑلینا کون سی عقلمندی ہے۔ یہ تو ریاستی عوام کے پیلٹ کے زخم پر پھر سے گولی مارنے کے مترادف ہے، ایسے میں کسی کشمیری یا کسی مسلمانوں کو پاکستانی کہنا بھی کوئی عقلمندی نہیں۔ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے دوسری طرف وادی کے شہریوں کو پاکستانی کہا جا رہا ہے۔ یاد رہے کس مسئلہ کا حل تشدد گالی گلوچ غلط بیان بازی سے نہیں ہو سکتا اور نہ ہی پولیس تھا نوں ،جیلوں اور ڈنڈے بندوق ، پیلٹ ، فوج اور پولیس سے کیسی معاملہ کا حل نہیں ہو سکتا ،ہر مسئلہ کا حل محض بات چیت عدالت اور پنچائت سے ہی ہو سکتا ہے۔ 15اگست کی تقریب لال قلعہ سے مودی نے اپنی تقریر میں کشمیر ی عوام کو ایک خاص جگہ دی اور اُمید ہے کہ وہ دل میں بھی کشمیر کو جگہ دیں گے اُنہوں نے کہا نہ گالی سے ،نہ گولی سے ،پر یورتن ہو گا گلے لگانے سے، مسئلہ کا حل ہو گا ہر کشمیری کو گلے لگانے سے، اُن کا یہ بیان خوش آئیند تب ثابت ہو گا جب وہ اس کو عمی طور پر اپنا ئیں گے۔ریاست کی مخلوط حکومت نے بھی یقین دہانی کرائی کہ وادی کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی لیکن اگر دیکھا جائے تو موجود مخلوط حکومت جس کی قیادت بی جے پی اور پی ڈی پی کر رہی ہیںجن میں بی جے پی ریاست کو حصوصی پوزیشن دینے والے دفعات کو ختم کرنا چاہتی ہے جبکہ پی ڈی پی اُس کا دفع کر رہی ہے۔ دونوں پارٹیوں کی سوچ بھی الگ الگ ہے یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک سانپ کے دو منہ ۔ریاستی حکومت کو حصوصی درجہ کے متعلق اپنا موقف ظاہر کر دینا چائیے تاکہ وادی کی عوام کو مزید رنج و الم اور فکر اندیشہ کا سامنانہ کرناپڑے۔ضرورت ہے کہ موجودہ مسائل و حالات کو مِد نظر رکھتے ہوئے اور ریاست کی خصوصی حیثیت ک بغیر چھیڑے براہ راست کشمیری عوام کی امنگوں اور خواشہات کو دریافت کیا جائے۔میں تو یہاں تک کہوں گا کہ کشمیر اصل میں مہا راجہ ہری سنگھ کی وراثت تھی اور اُن کے صاحزادے مہا راجہ کرن سنگھ آج بھی زندہ موجود ہیں موصوف مہاراجہ کو چاہے کہ موقع کی مناسبت سے وہ ریاست کی تحریک آزادی کی قیادت کر رہے حریت کا نفر نس کے قائدین سے بذات خود بات چیت کریںہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے اس مسئلے کا کوئی حل نکل سکے۔
اندھی عقیدت اور ہمارا معاشرہ
راحت علی صدیقی قاسمی
9557942062
ہندوستان صوفی سنتوں کا دیش ہے ،قدیم زمانے سے یہاں لوگ صوفیاء کرام سے محبت کرتے ہیں ،عقیدت رکھتے ہیں، ان کے کارناموں کو یاد کرتے ہیں ،ان کی کوششوں کو قابل تعریف گردانتے ہیں ،ان کے عقائد و اعمال کو باعث تقلید گرادنتے ہیں ،چشتی ، اجمیری اور ان خیالات کے حامل صوفیاء نے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ محبت، شرافت، ایمانداری کو عام کیا تھا ،مالک حقیقی سے بچھڑے ہوئے لوگوں کو صحیح راہ دکھائی تھی اور بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے تھے ، انہیں حق و صداقت کا خوگر بنایا تھا ، امانت و دیانت کا علم بردار بنایا تھا ، خدمت انسانی کی تعلیم دی تھی اور ان کی صحیح تربیت و رہنمائی کی تھی ،اپنی زندگی کا ہر لمحہ وہ اسی کار خیر میں صرف کرتے رہے تھے ۔ ہندوستان صوفی سنتوں کا دیش ہے ،قدیم زمانے سے یہاں لوگ صوفیاء کرام سے محبت کرتے ہیں ،عقیدت رکھتے ہیں، ان کے کارناموں کو یاد کرتے ہیں ،ان کی کوششوں کو قابل تعریف گردانتے ہیں ،ان کے عقائد و اعمال کو باعث تقلید گرادنتے ہیں ،چشتی ، اجمیری اور ان خیالات کے حامل صوفیاء نے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ محبت، شرافت، ایمانداری کو عام کیا تھا ،مالک حقیقی سے بچھڑے ہوئے لوگوں کو صحیح راہ دکھائی تھی اور بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے تھے ، انہیں حق و صداقت کا خوگر بنایا تھا ، امانت و دیانت کا علم بردار بنایا تھا ، خدمت انسانی کی تعلیم دی تھی اور ان کی صحیح تربیت و رہنمائی کی تھی ،اپنی زندگی کا ہر لمحہ وہ اسی کار خیر میں صرف کرتے رہے تھے ۔ دولت و شہرت عزت و ناموس کے حریص نہیں تھے ،دولت کا انبار نہیں لگاتے تھے ،عورتوں کو خدمت کے لئے نہیں اکساتے تھے ،انسانوں کی توہین نہیں کرتے تھے ، دھوکہ ان کی سرشت میں شامل نہیں تھا ،اپنی تعریف میں قصیدے نہیں پڑھواتے تھے ،دنیا سے رخصت ہوئے ، توچند سکے ان کی ملکیت میں تھے ،مگر ان کی یاد میں آنسو بہانے والوں کا ہجوم تھا ، ان کے کارناموں سے متأثر ہونے والے افراد بے شمار تھے ، ان کی شہرت و عظمت کئی صدیوں پر محیط ہے اور ان کی عقیدت قلوب میں پیوست ہے ، تصوف و سلوک کی دنیا ان کے دم سے آباد ہے۔ تاریخ کے اس تابناک دور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند ڈھونگی باباؤں نے اپنا کام شروع کیا ، لوگوں کو چھلنے لگے ،ان کے جذبات سے کھیلنے کو حسین مشغلہ سمجھنے لگے ،عورتوں کی عزتوں کو تار تار کرنے لگے ، دان کے نام پر دولت جمع کرنے اور آسائش و آرائش سے پُر زندگی گذارنے کا انہیں بہترین نسخہ نظر آیا ، سادہ لوح افراد ان کے اس جال میں پھنستے چلے گئے اور ان باباؤں کی دکان چمک گئی،ان کی شہرت کا ڈنکا بجنے لگا ، لوگ ان سے مرادیں مانگنے لگے ،ان کے سامنے آرزوئیں اور تمنائیں ظاہر کرنے لگے ،انہیں اپنا ہمدرد سمجھ بیٹھے ،بات یہیں تک نہیں بلکہ انہیں مسیحا اور خدا گرداننے لگے ،ان کے اقوال وافعال کو خطا سے بری خیال کرنے لگے ،ان کی ہر بات کو فرمان خدا سمجھ کر قبول کرنے لگے ، عقیدت کے نام پر انہیں جو تکلیف پہونچائی گئی اسے بھی انہوں نے ہنس کر قبول کیا ،اپنے بیوی بچوں پر بھروسہ نہیں کیا ،ان باباؤں پر بھروسہ کیا ،عقیدت کے نام پر بلیاں چڑھائی گئیں ،عزتیں تار تار کی گئیں اور لوگوں کی آنکھوں سے عقیدت کی پٹی نہیں اتر سکی ،ان سب کرتوتوں کے باوجود وہ بابا کے گن گانے میں مشغول رہے۔ آسارام کے جرم ثابت ہوئے ،عدالت میں اس کی کرتوتوں کالا چٹھا کھل گیا ،اس کی حرکتیں طشت از بام ہوگئیں ،عورتوں کے جذبات سے کھیلنا ،انہیں اپنی شہوت کا شکار بنانا ،مردوں کو مجبور کرنا ،انہیں ذہنی اور جسمانی تکلیف پہنچانا ،سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا ،اس کے باوجود لوگوں کی نگاہیں ،بابا کے اندر چھپا شیطان نہیں دیکھ سکیں اور اس کی محبت و عقیدت میں سڑکیں بھری ہوئی نظر آئیں ،لوگ اس کی حفاظت میں جان قربان کرنے کے لئے تیار تھے اور جو شدید ترین حالات پیدا ہوئے ،اب تک ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں۔ بابا رام پال قتل کے ملزم پائے گئے ،عدالت کی توہین کے مجرم پائے گئے ،مگر ان کے معتقدین نے ان کی حفاظت میں جانیں قربان کردیں اور پولیس کو ان تک پہنچنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرنا پڑا ، اسٹائلش گرمیت سنگھ بابا رام رہیم کروڑوں کی دولت ،حسن خوبصورتی کا جلوہ، سیاست میں پکڑ ،گانے اداکاری کرنے کی بھرپور صلاحیت، پانچ فلمیں کر اسے ثابت کر چکے ،لوگوں کے چہیتے انسانیت کی بلندی اس کی عزت و توقیر کی گفتگو کرنے والے ،انسانیت کی حفاظت کی آڑ میں کاروبار کرنے والے اور سادھویوں کی عزت سے کھیلنے والے بابا رام رہیم کے خلاف جب ایک سادھوی نے آج سے پندرہ سال پہلے وزیر اعظم کو خط لکھا اور حالات پر مطلع کیا تو کسی کے لئے اس بات پر یقین کرنا آسان نہیں تھا ،ان کی عقیدت شباب پر تھی ،لوگ پاگلوں کی طرح بابا کو چاہتے تھے ، عام آدمی سے لے کر وزیر اعلیٰ تک ہر شخص کا یہی عالم تھا ،چوٹالہ سرکار نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ بابا کی سی بی آئی جانچ نہ کرائی جائے ، اخبار پورا سچ کے مدیر نے حقائق سے لوگوں کو مطلع کرنا چاہا اور صحافت کے فرائض کو ایمانداری سے ادا کرنا چاہا تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا ،گولیوں سے بھون دیا گیا ،بھیانک موت دی گئی تاکہ پھر کوئی یہ جرأت نہ کرسکے ،اور چھاترپتی کا یہ انجام ان لوگوں کے حوصلوں کو توڑ دے جو بابا کے خلاف ہیں ،لیکن چند لوگوں نے اس لڑائی کو جاری رکھا ،حوصلوں کے بل پر اس مشکل تر مقابلہ کو فتح کیا ،تکالیف برداشت کیں ،خوف و ہراس کا مقابلہ کیا ،مگر اڑے رہے چٹان کی طرح اور سچائی کو کرید کرید کر باہر نکالتے رہے ،آج حقائق سب کے سامنے ہیں ، بابا رام رہیم پر عصمت دری کا کیس ثابت ہوچکا ہے ، پندرہ سال کی کڑی محنت کے بعد سی بی آئی نے ثابت کردیا کہ بابا زانی ہے اور قتل کا مقدمہ ابھی جاری ہے ،مگر لوگ اب بھی بابا کی حمایت کر رہے ہیں ، اس کی عقیدت میں جان گنوا رہے ہیں ،گاڑیاں جلا رہے ہیں ،سسٹم کو معطل کررہے ہیں ، تصویر وہی ہے جو پندرہ سال پہلے تھی ،36لوگ جان گنوا چکے ہیں ،300 سے زیادہ زخمی ہیں ،500 سے زیادہ گرفتار کئے جاچکے ہیں اور دہلی، ہریانہ، پنجاب بہت زیادہ شدید ترین حالات کا شکار ہواہے ،زندگی مفلوج ہوئی ہے ،حالات انتہائی دردناک ہوئے ہیں ،زندگیاں جلی ہیں ،قلوب چھلنی ہوئے ہیں اور یہ حادثہ سوالات کا طویل سلسلہ چھوڑ گیا ہے ، عقیدت کے نام کب تک ہم حقیقت کو جھٹلاتے رہیں گے ؟ کب تک بلی چڑھائی جائے گی ؟کب تک معصوموں کے خون سے آرزوئیں پوری کرنے کا ڈھونگ جاری رہے گا ؟کب تک عورتوں کو عقیدت کے سہارے غلام بنایا جائے گا ؟عورتوں کی حفاظت کا دعوی کرنے والے ،ان کے حقوق دلانے کا دعوی کرنے والے ،انہیں سماج میں عزت دلانے کا دعوی کرنے والے ،کب تک ان پر ظلم و ستم ہوتا دیکھتے رہیں گے ؟کب تک ان کے حقوق کی پامالی کو برداشت کریں گے ؟کب تک ان کی عزتوں کو تار تار ہوتا دیکھتے رہیں گے ؟کب تک ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی رہے گی ؟بابا گرمیت سنگھ کے جرائم کا پردہ فاش ہوا ہے ،اس کے خوبصورت چہرے کے پیچھے چھپے حیوان کو زمانہ دیکھ چکا ہے ،پھر بھی عقیدت کا دامن کیوں کر سلامت ہے ، اسے اندھی عقیدت نہیں تو اور کیا کہا جائے ،یہ تو چند لوگوں کی محنت و جفا کشی کا ثمرہ ہے ،ورنہ ہمارے معاشرہ میں ہر جگہ پر لوگوں کو ٹھگا جارہا ہے ،سینکڑوں بابا ہیں ،جو انہیں لوٹ رہے ہیں ،ان کے جذبات سے کھیل رہے ہیں ،ان کے عقائد کو مسخ کررہے ہیں ،یقین نہ آئے تو آنکھیں کھول کر معاشرہ کے احوال کو دیکھئے، حقائق آپ کی نگاہوں کو خیرہ اور قلوب کو حیران و ششدر کردیں گے، باباؤں کی دولت، ان کے ٹھاٹھ، ان کی موج مستی آپ کے سامنے واضح ہوجائے گی اور سمجھ میں آجائے گا ان باباؤں پر دولت لٹانے کا کیا فائدہ ،اگر آپ قلبی سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں ،ثواب کے متلاشی ہیں ،تو راہیں کھلی ہوئی ہیں ، ہندوستان دنیا کے ان ممالک میں ہے جہاں بھوک سے مرنے والے افراد کی تعدادکثیر ہے ،غربت سے لڑتے افراد بے شمار ہیں ،اسکول نہ پہنچنے والے بہت سے بچے ہیں ،کیا ضرورت ہے باباؤں پر دولت لٹانے کی ؟بھوکوں کو کھانا کھلائیے ،غریبوں کو لباس پہنائیے ، غیر تعلیم یافتہ بچوں کو علم کی دولت سے آشنا کرائیے ،ان امور پر دولت خرچ کیجئے، قلبی سکون بھی حاصل ہوگا اور قربت الٰہی بھی۔ اندھی عقیدت کو ختم کیجئے ،آپ اکیسوی صدی میں ہیں ،حقائق سے آنکھیں چرانے کی کوشش مت کیجئے ، ڈھونگیوں سے متاثر مت ہوئیے ،اگر آپ نے ہوش کے ناخن نہیں لئے ،کل کوئی اور آپ کی عقیدت کے سہارے پر شہوت رانی کرے گا، قتل کرے گا ،سیاسی رہنماؤں کا استعمال کرے گا ،دولت جمع کرے گا ،جرائم کو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر انجام دیکھا اور ملک کو کھوکھلا کردے گا ،لوگوں کو حقائق سے دور کردے گا ،ہوش میں آؤ، حقائق سے آنکھیں ملاؤ۔
ٹریفک نظام میں سدھارکے بیماردعوے!
- ٹریفک نظام میں سدھارکے بیماردعوے! بٹھنڈی میں ایک اسکولی بچی کوتیزرفتار میٹاڈورنے کچل کرموت کے گھاٹ اُتاردیا،دوسرے روزٹریفک پولیس نے خوب تصویری نمائش کرتے ہوئے میٹاڈوروالوں کے لائوڈاسپیکر نکال کرسڑک پر’نمائش سی لگادی،اوریہ ظاہرکیاکہ وہ اب سختی برتے گی، لیکن یہ دکھاواایک دِن کاہی رہااوراُسی علاقے تک محدود رہاجہاں حادثہ ہوا، یعنی ٹریفک پولیس کوکسی معصوم کوکچلے جانے کاانتظار ہوتاہے تبھی وہ ہوش کے ناخن لیتی ہے اورصرف ایک دو دِن کیلئے ہی حرکت میں رہتی ہے، یہ انتہائی افسوسناک اورشرمناک رویہ ہے،ویسے ‘جموں وکشمیرٹریفک پولیس اِن دِنوں اپنے نظام میں بہتری کے دعوئوں کوعام کرنے کیلئے سوشل میڈیاکاسہارابھی لے رہی ہے، اورباضابطہ طورپرایک فیس بک پیج بھی سرگرم ہے جہاں ٹریفک پولیس اپنے ’اچھے کرموں‘کی تشہیرکرتی ہے لیکن کتنابہترہوتااگروہ اپنے نظام کی خامیوں کوبھی اپنے صفحے پرعام کرے اوراعتراف کرے کہ ابھی بہت کچھ کرناباقی ہے، سرمائی دارالخلافہ جمو ںمیں گاڑیوں کی سست رفتاری ،ٹریفک جام اور’ اوور لوڈنگ‘ کی وجہ سے مسافروں کو ذہنی کوفت کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے جبکہ متعلقہ محکمہ کی خاموشی کی وجہ سے ٹریفک قوانین پر عمل نہ کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔جمو ںمیں ایک طرف محکمہ ٹریفک ٹرانسپورٹ نظام میں سدھار لانے کے دعوے کر رہا ہے وہیں دوسری طرف ٹریفک نظام دن بے دن بد سے بتر ہوتا جا رہا ہے، جمو ں شہر میںٹریفک جام اور لوڈنگ اور جگہ جگہ سٹاپ کی وجہ سے نہ صرف عوام کو اپنے اپنے مقام پر پہنچنے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہیں ان گاڑیوں میں سوا رطلبا و طلبات بھی وقت پر اپنے اپنے کالجوں ٹیوشن سنٹروں اور یونیورسٹی میں نہیں پہنچ پاتے ہیں جس کی وجہ سے طلبا وطلبات کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔کئی طلبا وطلبات کے علاوہ ملازمین بھی اس بتر نظام کی وجہ سے ذہنی انتشار کے شکار ہو گے ہیں ۔شہرکے مختلف روٹوں پر چلنے والی گاڑیوں مسافروں کو اپنے اپنے مقام پر ایک سے دو گھنٹے میں پہنچاتی ہیں جب کہ ان روٹوں پر صر ف15سے 30منٹ کا سفر ہے مگر جگہ جگہ سٹاپ اور گاڑی میں ’’اور لوڈنگ ‘‘کی وجہ سے مسافر وقت پر اپنے اپنے مقا م پر نہیں پہنچ پاتے ہیں ،مسافروں کے مطابق گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو تیر چلنے اور اور لوڈ نگ نہ کرنے پر مسافروں کے ساتھ سخت کلامی اور ناشائستہ سلوک کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے مسافر تاخیر سے اپنے اپنے مقام پر پہنچتے ہیں ۔ان کا مزید کہنا ہے کہ شہر کے مختلف روٹوں پر چلنے والی گاڑیوں میں اورلوڈنگ اس قدر ہوتی ہے کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ ان گاڑی میں انسان نہیں بلکہ مال مویشی بھرے ہوئے ہو ں مگر آور لوڈنگ پر پابندی عایدہونے کے باوجود محکمہ ٹریفک ہاتھ پر ہاتھ دہرے ہوئے بیٹھا ہو ا ہے اور خاموش تماشائی کا رول ادا کر رہا ہے ۔ اس دوارن ڈرائیور حضرات گاڑی کو جگہ جگہ روک کرمسافروںکو گاڑی میں چڑھنے کی آواز دیتا ہے اور جب تک نہ گاڑی کی چھت پر بھی سواریاں بھری جاتی ہیں تب تک ڈرائیور چلنے کا نام نہیں لیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گاڑی میں اتنی سواریاں بھری جاتی ہے کہ پائوں رکھنے کی جگہ بھی میسر نہیں ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس دوران سب سے زیادہ مشکلات کا سامناچھوٹے بچوں، بزرگوں اور خواتین کو اٹھانا پڑتا ہے اور کبھی کھبی گاڑیوں میں ان کی حالت متغیر ہو جاتی ہے۔اس دوران جمو ںیونیوسٹی میں زیر تعلیم کئی طلبا و طلبات نے کہ وہ کبھی وقت پر یونیوسٹی نہیں پہنچ پائے ہیں ،کئی ملازمین نے بتا یا کہ شہر میں کچھوے کی رفتار سے چلنے والی گاڑیوں کے خلاف محکمہ کوئی بھی کاروائی عمل میں نہیں لا رہا ہے جبکہ صرف چھوٹی گاڑیوں کے خلاف مہم شروع کی گئی ہے،بڑی گاڑیوں کی سست رفتاری کی وجہ سے ہی اکثر وبیشتر جام لگ جاتے ہے اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں سڑکوں پر آرام کرتی ہوئی نظر آرہی ہے جبکہ متعلقہ محکمہ صرف سرد مہری کا مظاہرہ کر رہا ہے ،ٹریفک پولیس پااپنی شبیہ بہتربنانے کیلئے جموں شہرمیں ٹریفک نظام سدھاناہوگا۔
شاراپووا، وینس تیسرے راونڈ میں، جیوریو باہر
نیویارک چوتھی سیڈ ایلکزینڈر جیوریو کا کیریئر میں پہلا گرینڈ سلیم جیتنے کا خواب یوایس اوپن ٹینس ٹورنامنٹ کے دوسرے راونڈ میں شکست کے ساتھ ختم ہوگیا لیکن روس کی ماریہ شاراپووا اور وینس ویلیمس نے جیت کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے خاتون کے سنگلز کے تیسرے دور میں داخلہ حاصل کرلیا۔ جرمنی کھلاڑی جیوریو کو مردوں کے سنگلز کے پہلے دور کے مقابلے میں بورنا کورچ نے 3-6 7-5 7-6 7-6 سے شکست دے کر باہر کردیا۔ اس سال مانٹریل اوپن سمیت پانچ خطاب حاصل کرنے والے جیوریف نے پہلا سیٹ چھ۔تین سے جیت کر اچھی شروعات کی تھی لیکن ۶۱ ویں رینکنگ کے کورچ نے باقی کے تین سیٹوں کو نزدیکی فرق سے جیتا جن میں آخری دو سیٹ انہوں نے ٹائی بریک میں جیتے ۔ بارش کی وجہ سے ایک دن پہلے منسوخ ہوئے پہلے دور کے خاتون اور مردوں کے سنگلز کے میچوں اور دوسرے دور کے میچ کو بھی پورا کرایا گیا۔ بارش سے بدھ کو تقریباً ۵۵ میچ منسوخ کیے گئے ۔ خاتون کے سنگلز میں دو بڑی کھلاڑیوں نویں سیڈ امریکہ کی وینس نے بھی فرانس کی اوشین ڈوڈن کو سات۔پانچ، چھ۔چار سے جبکہ وائلڈ کارڈ روسی کھلاڑی شاراپووا نے ہنگری کی ٹیمیا بابوس کو 6-7 6-4 6-1 سے شکست دے کر تیسرے راونڈ میں جگہ بنائی۔ ڈوپنگ کی وجہ سے پندرہ مہینے کی معطلی کا سامنا کرنے کے بعد واپسی کررہی شاراپووا نے پہلے دور میں دوسری سیڈ سیمونا ہالیپ کو حیرت زدہ کیا تھا۔ دوسرے راونڈ میں ۳۰ سالہ روسی کھلاڑی کے سامنے اب امریکہ کی صوفیا کینن کا چیلنج رہے گا۔ دوسری طرف پسندیدہ کھلاڑی ۳۷ سالہ وینس نے ریکارڈ ۳۲ ونرس لگاتے ہوئے اوشین کے خلاف اپنی جیت کو یقینی کیا۔ مردوں کے سنگلز کے دوسرے دور کے دیگر میچوں میں پانچویں سیڈ کروشیا کے مارن سلچ نے جرمنی کے فلوریئن میئر کو 6-3 6-3 6-3 سے اور ۲۳ ویں سیڈ جرمنی کے میشا جیوریو نے فرانس کے بینوایٹ پیئر کو 6-3 6-2 3-6 6-7 7-5 سے میراتھن مقابلے میں شکست دی۔ ۲۳ ویں سیڈ جنوبی افریقہ کے کیون اینڈرسن نے ایرنیسٹ گلبیس کو 6-3 7-5 6-4 سے ہرایا۔ ۲۰ ویں سیڈ ایلبرٹ راموس اور ۱۹ ویں سیڈ لگزمبرگ کے جائلس مولر میراتھن مقابلے کے بعد اپنے مقابلے غیرسیڈ کھلاڑی سے ہار گئے ۔ ۱۲ ویں سیڈ اسپین کے پابلو کارینو نے برطانیہ کے کیمرن نوری کو چھ۔دو، چار۔چار، چھ۔تین سے ، ۱۶ ویں سیڈ لوکاس پوئلی نے امریکہ کے جیرڈ ڈونالڈسن کو 7-5 6-4 4-6 3-6 6-4 سے ، ۱۷ ویں سیڈ امریکہ کے سیم کویری نے ڈوڈی سیلا کو 6-4 6-1 6-4 سے جبکہ ۱۰ ویں سیڈامریکہ کے ہی جان اسنر نے جنوبی افریقہ کے چونگ ہیون کو 6-3 6-4 7-5 سے ہرایا۔ اس کے علاوہ پہلے دور کے مقابلے میں ۳۱ ویں سیڈ فلسیانو لوپیز ، ۱۱ ویں سیڈ اسپین کے رابرٹو بتیستا، نویں سیڈ بلیجیم کے ڈیوڈ گافن اور ۲۴ ویں سیڈ ارجنٹینا کے جوان مارٹن ڈیلپٹرو نے جیت کے ساتھ دوسرے دور میں جگہ بنالی۔حالانکہ ۱۴ ویں سیڈ آسٹریلیا کے نک کرگیوس اپنا مقابلہ ہارکر باہر ہوگئے ۔ آسٹریلیائی کھلاڑی کندھوں کی چوٹ کی وجہ سے حریف کھلاڑی جان ملیمین کے خلاف خاص چیلنج پیش نہیں کرسکے اور چھ۔تین، ایک۔چھ،چھ۔چار اور چھ۔ایک سے میچ ہارگئے ۔ حالانکہ الٹ پھیر کے درمیان گافن نے فرانس کے جولیئن بینتیو کو 6-4 2-6 6-4 6-2 سے شکست دے کر جیت اپنے نام کرلی۔ ڈیل پیٹرو نے سوئزرلینڈ کے ہینری لاکسونین کو 6-4 7-6 7-6 سے ہرایا۔ ساتویں سیڈ بلغاریہ کے گریگور دیمتروف نے چیک جمہوریہ واکلاو سیفارانیک کو چھ۔ایک، چھ ۔چار، اور چھ ۔دو سے شکست دے کر دوسرے راونڈ میں جگہ بنالی۔ اس کے علاوہ ۱۸ ویں سیڈ فرانس کے گائل مانفلس نے ہم وطن جرمی چارڈی کو 7-6 6-3 6-4 سے ، ۱۵ ویں سیڈ ٹامس بردچ نے امریکہ کے ریان ہیرس کو چھ۔چار، چھ۔دو، سات۔چھ سے ہرایا۔ گرینڈ سلیم فاتح اور چھٹی سیڈ آسٹریلیا کے ڈامنک تھیئم نے ایلکس ڈی مینور کو 6-4 6-1 6-1 سے شکست دے کر اپنے مہم کی شروعات کی اور دوسرے راونڈ میں داخلہ حاصل کرلیا۔ تھیئم نے بارش کی وجہ سے ایک دن پہلے کے میچ کو مکمل کیا۔ خاتون کے سنگلز کے دوسرے راونڈ کے مقابلے میں امریکہ کے سلوین اسٹیفنس نے ۱۱ ویں سیڈ سلوواکیہ کی ڈومینکا سبلکووا کو 6-2 5-7 6-3 سے الٹ پھیر کا شکار بنایا۔ لتویا کی ۱۶ ویں سیڈ اناستاسیا سیواسیوا نے یوکرین کی کیٹرینا کوزلووا کو چھ۔چار،چھ۔چار سے ہرایا۔ ۱۳ ویں سیڈ چیک جمہوریہ کی پیترا کیویتوا نے فرانس کی ایلائز کورنیٹ کو چھ۔ایک ، چھ۔دو سے ہرایا۔ خاتون کے سنگلز کے پہلے دور کے مقابلے میں ۱۰ ویں سیڈ پولینڈ کی اگنزسکا ردوانسکا نے کروشیا کی پیترا مارٹک کو چھ۔چار، سات۔چھ سے ہراکر دوسرے دور میں داخلہ حاصل کیا۔ امریکہ کی کوکو ویڈویگے نے ایک سیٹ پیچھے ہونے کے بعد ہم وطن ایلسن ریسکے کو 2-6 6-3 6-4 سے ہرایا۔ ۱۹۸۷ ومبلڈں چیمپئن پیٹ کیش سے کوچنگ لینے والی امریکی کھلاڑی نے ۳۱ ونرس لگاکر دوسرے راونڈ میں داخلہ حاصل کیا جہاں ان کے سامنے تیونیشیا کی اونس جابیو ہوں گی۔ آٹھویں سیڈ روس کی سیتلانا کزنتسوا نے چیک کھلاڑی مارکیٹا ونڈروسوا کو 4-6 6-4 7-6 سے ہرایا۔ چوتھی سیڈ یوکرین کی ایلینا سویتولینا نے کیٹرینا سنیاکووا کو 6-0 6-7 6-3 سے ہراکر دوسر دور میں جگہ بنائی۔ ۱۷ ویں سیڈ ایلینا ویسنینا نے اینا کو چھ ۔ایک، چھ تین سے ہرایا۔ رومانیہ کے مونیکا نے ۱۴ ویں سیڈ فرانس کی کرسٹینا کو چھ ۔تین ۔چھ دو سے الٹ پھیر کا شکار بنایا۔ ایسٹونیا کی ۲۶ ویں سیڈ اینٹ کونٹاویٹ بھی لوسی سفارووا کے ہاتھوں شکست کھا کر باہر ہوگئیں۔ اناستاسیا کو کرسٹینا میک ہیل نے تین۔چھ، چھ۔تین اور چھ ۔دو سے ہرایا۔