الرئيسية بلوق الصفحة 7645

مدرس قوم کی بنیاد کا معمار ہوتا ہے

0

سمیرہ حاشمی

متعلم گورنمنٹ ڈگر کالج مہنڈر

  • اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ والدین بچے کو جنم دیتے ہیں اور اساتذہ اس کو ایک زندگی جینا سکھاتے ہیں ۔بچہ ماںکی گود میں سے سیکھنا شروع کرتا ہے اور قبر کی گود تک سیکھنے میں مائل رہتا ہے لیکن اس سب میں مدرس کا ایک قلیدی رول ہوتا ہے کہ ایک آدمی سے ایک انسان بنانے میں استاد اپنا تن من دھن نچھاور کر دیتا ہے ۔استاد ایک ایسی ہستی ہے کہا جائے کہ اس کی مٹھی میں ایک طالب علم کی قسمت کی لکیریں ہوتی ہیں ۔قارئین مجھ میں وہ جسارت نہیں کہ ایسی ہستی کی بات کروں کہ جس کی مٹھی میں وحداھو لا شریک نے ہماری قسمت کے فیصلے رکھے ہوتے ہیں ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ استاد ہی کائنات میں ایک ایسی ہستی ہے جس کی محفل میں بیٹھنا ایک ہزار دن کی محنت سے افضل ہے کیونکہ وہ ایک شمع کی مانند جل کر بچوں کو روشنی دیتا ہے ۔استاد ایک معمار اور استاد بیمار روحوں کا مسیحا اور خون جگر کا سوداگر ،بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اگر سبق کتاب ہے تو نظر استاد ہے ،اگر چاہت علم ہے تو طاقت استاد ہے ،اگر دل نور ہے تو دھڑکن استاد ہے۔ادب ایک درخت ہے تو علم اس کا پھل ہے۔استاد ہی ہے جو باپ کی طرح پیار کرتا ہے اور ماں کی طرح غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے۔ وہ ایک شمع کی طرح جل کر اپنی شاگردوں میںعلم کی روشنی پھیلاتا ہے ۔جب ایک بچہ جنم لیتا ہے تو وہ صرف ایک آدمی کی شکل میں ہوتا ہے لیکن جب وہ استاد کے پاس آتا ہے تو وہ ایک انسان بن جاتا ہے ،وہ استاد ہی ہے جس نے ہمیں والدین کا رتبہ بتایا اور جہالت کی طرف بھٹکتے ہوئے اقدام کو جنبش دیکر نور کی طرف روانہ کیا ،اخلاق و اخلاس ،امن و محبت کا پیغام بھی اسی استاد نے دیا ۔عرفان ذات کا احساس،خدمت حلق کا جنون ،عمل پیہم،جہد مسلسل اور سعی ناتمام کے اوصاف سے مستفیض شخص جب شخصیت بن جائے تمام چہار سو چاندنی بکھیرتا ہے ۔فاتح عالم بننے کا خواب دیکھنے والے سکندر اعظم اپنے استاد آرستو کی حکمت و دانائی کے بغیر تاریخ میں نام پیدہ نہ کرسکتا،تاریخ ہند میں گپت خاندان کا سنہری دور نہ جانے کن الفاظ میں لکھا گیا ہوتا اگر چندر گپت کو چانکیہ جیسا استاد نہ ملتا اور جلال الدین کو اکبر اعظم بنانے والا دماغ بہرام خان جیسے اتاکیف کا تھا۔استاد وہ پُل ہے جو بچے اور اس کے مقصد کے مابین حائل ہے اور اس پل سے گزر کر ہی ایک بچہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے ۔انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گزارتا وہ کئی رشتوں اور ناطوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خونی ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روحانی،اخلاقی اور معاشراتی طور پر بنتے ہیں ان ہی میں سے ایک رشتہ استاد کا بھی ہے ۔استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ بھی حاصل ہے ۔اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے، کیونکہ دنیا میں والدین کے بعد اگر بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہی ہے اور ایک استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں رہناسہنا سکھاتا ہے اور کتابوں کا علم سمجھنے میں مدد دیتا ہے چنانچہ اس لحاظ سے استاد واجب الاحترام شخصیت ہے گویا استاد معلم یا مدرس کی تعریف اگر ان الفاظ میں کی جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ استاد لوہے کو تیار کر کے کندن بنا دیتا ہے تو پتھر کو تراش کر ہیرا بنا تا ہے اور بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بناتا ہے ۔استاد معمار بھی ہے اور کسان بھی ہے استاد واجب الاحترام اور لائق تعظیم ہے ۔استاد کا درجہ ماں باپ کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ طالب علم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل کرتے تھے ،سالہا سال ملکوں ملکوں گھومتے تھے،گھر بار سے در کنار رہ کر اپنے من کو سیراب کرتے تھے ،اساتذہ کی مار کھاتے تھے،ڈانٹ بگھتے تھے ،سزا  جھیلتے تھے تب کہیں جا کر نگینہ بنتے تھے۔ مگر اس دور کے طالب علم با ادب اور با تمیز ہوا کرتے تھے ،استاد کے قدموں میں بیٹھنا،استاد کی باتوں کو حاموشی سے سننا اور استاد کے سامنے چوں تک نہ کرنا کجا مزاق اڑانا تو دور کی بات مگر نظر اٹھا کر مقصد کی بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی ترقی کی کئی منزلیں طے کرتا چلا گیا اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے چلے گئے ۔چنانچہ یہ حقیقت ہے آج کے دور میں استاد بننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔موجودہ دور میں اول تو کوئی استاد بنا پسند ہی نہیں کرتا اگر کوئی بد قسمتی سے بن جائے تو وہ اپنی عزت گنوا دیتا ہے کیونکہ موجودہ دور کا طالب علم استاد کو عزت دینے کا کاردورا نہیں ہے وہ ایک استاد کو ایک تنخواہ دار ملازم سمجھتا ہے جس کی عزت کرنا ضروری نہیں سمجھتا اور بچوں کی سوچ کے سب سے بڑے ذمہ دار خود والدین بھی ہیں جو بچپن میں بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ یہ ہمارا تنخواہ دار ملازم ہے اور انھیں اتنی عزت دی جائے کہ جتنی اوروں کو دی جائے ۔حقیقتاً موجودہ دور کا اتالیقی طریقہ کار اور اکیڈمک کلچر نے بھی استاد کی عزت کو بہت کم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج علم بھی تقریبا ً ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے اور اتنے اسکول،کالج،مدرسے اور یونیورسٹیاں بن جانے کے با وجود معاشرے میں اخلاقیات،ادب ،آداب اورتہذیب نام کو چیز نہیں رہی ۔اسلام میں جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے وہاں اسلام کی نظر میں استاد کو بھی معزز مقام حاصل ہے تا کہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے،استاد کی اہمیت علم کی بارش کی سی ہے جو زمیں بارش کو جزب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ بارش کے فیض سے سر سبز و شاداب ہو جاتی ہے ۔جب ہمارے رسولﷺ تعلیم دیتے تو صحابہ اکرام اس قدر خاموشی سے بیٹھتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور انہوں نے ذرا سی بھی حرکت کی تو وہ اڑ جائیں گے ۔دنیا میں علم کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہو۔جو طالب علم کا استاد کا ادب و احترام کرنا جانتے ہیں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے استاد کا کہنا مانتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی وہی عزت و مقام حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے اساتذہ کو  عزت دی اس لئے کسی دانشمند نے کیا خوب کہا ہے کہ’با ادب با نصیب،بے ادب بد نصیب‘۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ والدین بچے کو جنم دیتے ہیں اور اساتذہ اس کو ایک زندگی جینا سکھاتے ہیں ۔بچہ ماںکی گود میں سے سیکھنا شروع کرتا ہے اور قبر کی گود تک سیکھنے میں مائل رہتا ہے لیکن اس سب میں مدرس کا ایک قلیدی رول ہوتا ہے کہ ایک آدمی سے ایک انسان بنانے میں استاد اپنا تن من دھن نچھاور کر دیتا ہے ۔استاد ایک ایسی ہستی ہے کہا جائے کہ اس کی مٹھی میں ایک طالب علم کی قسمت کی لکیریں ہوتی ہیں ۔قارئین مجھ میں وہ جسارت نہیں کہ ایسی ہستی کی بات کروں کہ جس کی مٹھی میں وحداھو لا شریک نے ہماری قسمت کے فیصلے رکھے ہوتے ہیں ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ استاد ہی کائنات میں ایک ایسی ہستی ہے جس کی محفل میں بیٹھنا ایک ہزار دن کی محنت سے افضل ہے کیونکہ وہ ایک شمع کی مانند جل کر بچوں کو روشنی دیتا ہے ۔استاد ایک معمار اور استاد بیمار روحوں کا مسیحا اور خون جگر کا سوداگر ،بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اگر سبق کتاب ہے تو نظر استاد ہے ،اگر چاہت علم ہے تو طاقت استاد ہے ،اگر دل نور ہے تو دھڑکن استاد ہے۔ادب ایک درخت ہے تو علم اس کا پھل ہے۔استاد ہی ہے جو باپ کی طرح پیار کرتا ہے اور ماں کی طرح غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے۔ وہ ایک شمع کی طرح جل کر اپنی شاگردوں میںعلم کی روشنی پھیلاتا ہے ۔جب ایک بچہ جنم لیتا ہے تو وہ صرف ایک آدمی کی شکل میں ہوتا ہے لیکن جب وہ استاد کے پاس آتا ہے تو وہ ایک انسان بن جاتا ہے ،وہ استاد ہی ہے جس نے ہمیں والدین کا رتبہ بتایا اور جہالت کی طرف بھٹکتے ہوئے اقدام کو جنبش دیکر نور کی طرف روانہ کیا ،اخلاق و اخلاس ،امن و محبت کا پیغام بھی اسی استاد نے دیا ۔عرفان ذات کا احساس،خدمت حلق کا جنون ،عمل پیہم،جہد مسلسل اور سعی ناتمام کے اوصاف سے مستفیض شخص جب شخصیت بن جائے تمام چہار سو چاندنی بکھیرتا ہے ۔فاتح عالم بننے کا خواب دیکھنے والے سکندر اعظم اپنے استاد آرستو کی حکمت و دانائی کے بغیر تاریخ میں نام پیدہ نہ کرسکتا،تاریخ ہند میں گپت خاندان کا سنہری دور نہ جانے کن الفاظ میں لکھا گیا ہوتا اگر چندر گپت کو چانکیہ جیسا استاد نہ ملتا اور جلال الدین کو اکبر اعظم بنانے والا دماغ بہرام خان جیسے اتاکیف کا تھا۔استاد وہ پُل ہے جو بچے اور اس کے مقصد کے مابین حائل ہے اور اس پل سے گزر کر ہی ایک بچہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے ۔انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گزارتا وہ کئی رشتوں اور ناطوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خونی ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روحانی،اخلاقی اور معاشراتی طور پر بنتے ہیں ان ہی میں سے ایک رشتہ استاد کا بھی ہے ۔استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ بھی حاصل ہے ۔اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے، کیونکہ دنیا میں والدین کے بعد اگر بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہی ہے اور ایک استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں رہناسہنا سکھاتا ہے اور کتابوں کا علم سمجھنے میں مدد دیتا ہے چنانچہ اس لحاظ سے استاد واجب الاحترام شخصیت ہے گویا استاد معلم یا مدرس کی تعریف اگر ان الفاظ میں کی جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ استاد لوہے کو تیار کر کے کندن بنا دیتا ہے تو پتھر کو تراش کر ہیرا بنا تا ہے اور بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بناتا ہے ۔استاد معمار بھی ہے اور کسان بھی ہے استاد واجب الاحترام اور لائق تعظیم ہے ۔استاد کا درجہ ماں باپ کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ایک زمانہ تھا کہ طالب علم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل کرتے تھے ،سالہا سال ملکوں ملکوں گھومتے تھے،گھر بار سے در کنار رہ کر اپنے من کو سیراب کرتے تھے ،اساتذہ کی مار کھاتے تھے،ڈانٹ بگھتے تھے ،سزا  جھیلتے تھے تب کہیں جا کر نگینہ بنتے تھے۔ مگر اس دور کے طالب علم با ادب اور با تمیز ہوا کرتے تھے ،استاد کے قدموں میں بیٹھنا،استاد کی باتوں کو حاموشی سے سننا اور استاد کے سامنے چوں تک نہ کرنا کجا مزاق اڑانا تو دور کی بات مگر نظر اٹھا کر مقصد کی بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی ترقی کی کئی منزلیں طے کرتا چلا گیا اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے چلے گئے ۔چنانچہ یہ حقیقت ہے آج کے دور میں استاد بننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔موجودہ دور میں اول تو کوئی استاد بنا پسند ہی نہیں کرتا اگر کوئی بد قسمتی سے بن جائے تو وہ اپنی عزت گنوا دیتا ہے کیونکہ موجودہ دور کا طالب علم استاد کو عزت دینے کا کاردورا نہیں ہے وہ ایک استاد کو ایک تنخواہ دار ملازم سمجھتا ہے جس کی عزت کرنا ضروری نہیں سمجھتا اور بچوں کی سوچ کے سب سے بڑے ذمہ دار خود والدین بھی ہیں جو بچپن میں بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ یہ ہمارا تنخواہ دار ملازم ہے اور انھیں اتنی عزت دی جائے کہ جتنی اوروں کو دی جائے ۔حقیقتاً موجودہ دور کا اتالیقی طریقہ کار اور اکیڈمک کلچر نے بھی استاد کی عزت کو بہت کم کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج علم بھی تقریبا ً ناپید ہوتا چلا جا رہا ہے اور اتنے اسکول،کالج،مدرسے اور یونیورسٹیاں بن جانے کے با وجود معاشرے میں اخلاقیات،ادب ،آداب اورتہذیب نام کو چیز نہیں رہی ۔اسلام میں جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے وہاں اسلام کی نظر میں استاد کو بھی معزز مقام حاصل ہے تا کہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے،استاد کی اہمیت علم کی بارش کی سی ہے جو زمیں بارش کو جزب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ بارش کے فیض سے سر سبز و شاداب ہو جاتی ہے ۔جب ہمارے رسولﷺ تعلیم دیتے تو صحابہ اکرام اس قدر خاموشی سے بیٹھتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور انہوں نے ذرا سی بھی حرکت کی تو وہ اڑ جائیں گے ۔دنیا میں علم کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں عزت کا مقام حاصل ہو۔جو طالب علم کا استاد کا ادب و احترام کرنا جانتے ہیں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے استاد کا کہنا مانتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی وہی عزت و مقام حاصل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے اساتذہ کو  عزت دی اس لئے کسی دانشمند نے کیا خوب کہا ہے کہ’با ادب با نصیب،بے ادب بد نصیب‘۔

’’جذبہ محبت کل اور آج‘‘

0

تبسّم منظور ناڑکر تبسّم منظور ناڑکر 

موربہ (مانگاوں ) مقیم،ممبئی9870971871
محبت کیا ہے؟  محبت پھول کی خوشبو کی طرح ہے،  سیپ میں چھپے موتی کی طرح ہے، محبت ایک جذبہء لافانی ہے محبت تو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی ۔محبت اگر صرف "حاصل کرنے” کا ہی نام ہوتی تو ہم جو تاریخ میں آج تک پڑھتے آئے ہیں کیا وہ سب غلط تھا؟  شیرین فرہاد کی کہانی، ہیر رانجھا کے افسانے، لیلیٰ مجنوں کے قصّے، کیا انھوں نے ایک دوسرے کو حاصل کیا تھا؟ محبت صرف پانے یا حاصل کرنے کا ہی نہیں بلکہ کھونے اور قربانیاں دینے کو بھی محبت کہتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی خوشی اور عزت کے لئے قربان ہونا بھی محبت کہلاتی ہے ۔جس میں اکثر اپنی خواہشات اور جذبات کو صرف اس لئے قربان کر دیا جاتا ہے کہ رشتوں کا تقدس اور احترام بنا رہے ۔    آج کے اس نئے دور نے تو محبت کے معنی ہی بدل دیئے ہیں ۔اس پر اس شوشل میڈیا کے آنے سے تو محبت کو کپڑوں کی طرح بدلا جاتا ہے ۔پہلے لڑکی کو شرم و حیا کا پیکر سمجھا جاتا تھا ۔ آج لڑکا اور لڑکی سرعام گھومتے پھرتے ہیں، کھلے عام بےحیائی سے ایک دوسرے کو پروپوز کرتے ہیں، ایک دوسرے کے گلے لگتے ہیں ۔اور یہ سب شہروں میں ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی بہت زیادہ عام ہو رہا ہے ۔آئے دن ہمارے سننے میں آتا ہے کہ فلاں لڑکی فلاں لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ۔کسی کو بھی کسی کی پرواہ ہے نا لحاظ ۔      جب ایک لڑکی گھر سے بھاگ جاتی ہے تو کیا اس کو احساس بھی ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے اس کے گھر والوں کا کیا حال ہوا ہوگا۔ کیا بیتی ہوگی اس کے گھر والوں پر،  کسی لڑکی کے بھاگنے کی خبر جب محلے  میں پھیل جاتی ہے تو کئی طرح کی باتیں ہوتی ہیں ۔اور باتیں ہی نہیں بلکہ لوگ مزہ لینے کے لئے اس گھر کے چکر کاٹتے ہیں جہاں سے لڑکی بھا گی ہو۔ اس وقت بھائی بہنوں کا، ماں باپ کا گھر سے نکلنا محال ہو جاتا ہے ۔رشتے دار منہ پھیر لیتے ہیں ۔کئی تو زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے بھی آتے ہیں ۔ والدین بیچارے بیٹی کے غم میں نڈھال،  دوسری جانب لوگوں کی چبھتی ہوئی باتوں سے روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں ۔          حیرت ہوتی ہے ایسی لڑکیوں پر جو کسی غیر شخص اور چار دن کی محبت کے لئے اپنے والدین کی عزت داغ دارکرتی ہیں انکی دل آزاری کرتی ہیں ۔ایسی بھاگ جانے والی لڑکیاں ذرا سوچیں ان کے بھاگ جانے کے بعد ان کے والدین کا کیا ہوا ہوگا ۔لوگوں نے کتنے طعنے دیئے ہونگے ۔کیا والدین نے اسی دن کے لئے اولاد کو جنم دیا تھا؟  ان کی پرورش کی، اپنی اوقات سے زیادہ اچھے سے اچھا پہنایا، اچھی تعلیم دلوائی ، انھیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا ۔جب تک یہ لڑکیاں اسکول کالج جاتی ہیں تب مائیں  خود گھر کا کام کرتی ہیں اور خوش ہوتی ہے کہ بیٹی پڑھائی کرنے گئی ہے ۔لیکن بیچاری ماں یہ نہیں جانتی کہ ان کی بیٹی کسی ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے عاشق کے ساتھ کافی پی رہی ہوگی یا کلاس چھوڑ کر پارک میں گھوم رہی ہوگی ۔کیا اسی دن کے لئے اولاد مانگی جاتی ہے ؟         اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ اس لڑکی کو بھگا کر نہیں بلکہ دونوں کے والدین کی رضامندی سے نکاح کر کے لے جائے گا ۔ یہاں پر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ والدین کو بھی اپنے بچوں کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا چاہیے ۔بچوں کے جذبات بھی سمجھنے چاہیئے ۔بے شک ہر عاقل اور بالغ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کا اظہار کرے ۔اس طرح بھاگ کر کی گئی شادیوں میں کبھی کبھی لڑکیوں کو در در کی ٹھوکریں بھی کھانی پڑتی ہیں ۔یا تو کبھی گھر والے نہیں اپناتے یا مرد حضرات محبت کے ڈرامے سے جاگ جاتے ہیں ۔پھر آئے دن بات بات پر بحث لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ۔محبت کا بھوت جو سر پر سوار ہوتا ہے وہ آہستہ آہستہ اترنے لگتا ہے ۔ایسی لڑکیاں خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لیتی ہیں ۔       والدین اپنے بچوں کا کبھی بھی برا نہیں چاہتے ۔ہاں !  والدین سے بھی کبھی کبھار غلط فیصلے ہوجاتے ہیں ۔کبھی کبھی والدین بھی کسی کے بہکاوے میں آکر بچوں کے حق میں غلط فیصلہ کر لیتے ہیں ۔والدین کو اپنے بچوں کی باتوں کو سمجھنا چاہئے ۔اس کے علاوہ مختلف وجوہات ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ۔اسلامی تعلیم کے مقابلے میں مغربی تعلیم کو اولیت دی جاتی ہے ۔ ہاں! یہ ضروری بھی ہے کہ اس مقابلے کے دور میں مغربی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے ۔لیکن بچوں میں اخلاقی تعلیم کے لئے،  صحیح غلط کو سمجھنے کے لئے، حلال اور حرام کی تمیز کے لئے مغربی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم بھی بچوں کو دینا بے حد ضروری ہے ۔        لڑکے اور لڑکیوں کی ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ اتنا گھل مل جاتے ہیں کہ اپنی تمیز ہی کھو بیٹھتے ہیں ۔ہنسی مذاق،  دوستی حد سے زیادہ ہو جاتی ہے ۔ کبھی کبھی بچے اپنی حدیں بھی پار کر لیتے ہیں ۔ٹی وی پر پر گھریلو پروگرام کے نام پر کتنی برائی اور بے حیائی پھیلائی جارہی ہے ۔مرد اور عورت کی ایک سے زیادہ شادیاں،  شادی شدہ ہونے کے باوجود کسی اور سے پیار وغیرہ، ان برائیوں کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے کوئی برائی ہی نہ ہو ۔         کبھی کبھی والدین شادی کے لئے راضی نہیں ہوتے ایسے میں لڑکے اور لڑکی کے دوست بھاگ کر شادی کرنے کے پورے انتظامات کر دیتے ہیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہی دوست لڑکی اور لڑکے کے والدین کے بیچ سفارشی کردار ادا کرتے، جس کی وجہ سے بھاگ کر شادی کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔     والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی مصروف زندگی میں سے بچوں کو وقت دینا چاہیے ۔بچوں کی پسند اور ناپسند جاننا چاہئے ۔بچوں کے دوستوں کے بارے میں معلومات رکھنی چاہئے ۔اپنے بچوں میں ماں اپنی بیٹی کے ساتھ اور باپ اپنے بیٹے کے ساتھ دوستی پیار اور محبت سے پیش آنا چاہئے ۔ تو بچے اپنے دل کی ساری باتیں اپنے والدین کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں ۔کئی بار ماں باپ کے غصے کی وجہ سے بچے کھل کر اپنے ماں باپ سے بات نہیں کر پاتے ہیں اور ڈرتے ہیں پھر وہ دوسرے لوگوں میں اپنے دوست اور ہمدرد تلاش کرتے ہیں ۔     اس دور جدید میں والدین کو بھی اور بچوں کو بھی ایک دوسرے کی دلی کیفیات کا خیال رکھنا چاہئے ۔کبھی والدین کی ضد کی وجہ سے بچے غلط فیصلے کر لیتے ہیں ۔بچے اور والدین اپنی اپنی ضد پر نہ رہتے ہوئے ایک دوسرے کو سمجھ کر فیصلے کریں ۔

ٹیچرس ڈے ہمارے غور وفکر کا متقاضی

0

عارف عزیز(بھوپال)عارف عزیز(بھوپال)9425673760
انسانی زندگی میں یوں تو ہر دن کی ایک اہمیت ہے، لیکن معاشرہ میں سال کے جن ایام کو خصوصی درجہ دیا گیا ہے، ان میں ایک ’’یوم اساتذہ‘‘ ہے، جو ۵ ستمبر کو ہر سال ملک میں منایا جاتا ہے اور اس موقع پر جلسے ومباحثے منعقد کرکے ایک قابل احترام اور شخصیت ساز پیشہ میں مصروف اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ اساتذہ کو یاد کرنے کا یہ دن ہندوستان کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر سراواپلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر ایک استاد تھے۔ اور اساتذہ کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہے۔ اساتذہ کے بارے میں ان کا جو نقطہ نظرتھااس پر ہمارے ملک میں کبھی خاطر خواہ عمل تو نہ ہوا لیکن ان کے یوم پیدائش پر ’’یوم اساتذہ‘‘ منانے کی روایت ضرور پڑگئی ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن جو ایک استاذ کی حیثیت سے ترقی کرکے صدر جمہوریہ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ خود کو استاد کہلانا پسند کرتے تھے، وہ نہایت منکسرالمزاج تھے، ان کا لباس سفید کوٹ، پگڑی اور دھوتی ہوا کرتا تھا، طلباء میں اتنے مقبول تھے کہ یونیورسٹی سے رخصت ہونے پر طلباء ایک گھوڑا گاڑی پھولوں سے سجاکر لائے، اس میں انہیں سوار گھوڑوں کے بجائے اپنے کاندھوں پر کھینچ کر اسٹیشن لے گئے اور نم آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا۔  جمہوری ہندوستان میں صدارت کا عہدہ سب سے معزز شمار ہوتا ہے حسن اتفاق سے ڈاکٹر رادھا کرشنن کے بعد صدارت کے لئے دوسرے ماہر تعلیم اور معلم ڈاکٹر ذاکر حسین خاں کا انتخاب عمل میں آیا اور اس کے بعد ایک اور صدر ڈاکٹر شنکر دیال شرما بھی بنیادی طور پر ایک استاد تھے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے جو بلاشبہ کافی روشن ہے جبکہ دوسرا پہلو اتنا ہی دھندلا اور قابل غو رہے جو ہمیں بتایا ہے کہ ہندوستان میں اساتذہ کی مادی حالت ضرور بہتر ہوئی ہے ان کے مشاہرات میں بھی اضافہ ہوا اور دوسری سہولتیں بڑھ گئیں ہیں مگر استاد وشاگرد کا جو مستحکم رشتہ تھا، وہ پہلے سے کافی کمزور پڑگیا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب استاد کو معمار قوم تصور کیا جاتا تھا اور حاکم وقت بھی اپنے استاد کے احترام میں سرجھکا دیتے تھے، سکندر اعظم کا مشہور واقعہ ہے کہ وہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ سفر کررہا تھا، راہ میں ایک دریا آیا تو دونون میں یہ مشورہ ہوا کہ پہلے پانی میں اتر کر کون اس کی گہرائی کا اندازہ لگائے، سکندر اعظم کی ضد تھی کہ دریا کی گہرائی اسے ناپنے کا موقع دیا جائے، ارسطو نے سکندر کو اس سے باز رکھتے ہوئے کہا کہ میں تمہارا استاد ہوں، تمہیں میری بات ماننا ہوگی، پانی میں پہلے میں اترونگا، سکندر کا برجستہ جو اب تھا کہ استاد محترم اس عمل میں آپ کی جان بھی جاسکتی ہے لہذا میں ہرگز نہیں گوارہ کروں گا کہ دنیا آپ جیسے لائق استاد سے محروم ہوجائے کیونکہ سینکڑوں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو پیدا نہیں کرسکتے جبکہ ایک ارسطو سینکڑوں کیا ہزاروں سکندر پیدا کرسکتا ہے۔ تمام مذاہب نے بھی استاد کی تعظیم وتکریم پر زور دیا ہے، خاص طور پر اسلامی معاشرہ میں تعلیم دینے والے یا سکھانے والے کی جو قدر دانی کی جاتی ہے ، کسی اور مذہب میں نہیں ملتی، اسلام نے اللہ کے حقوق کے ساتھ والدین اور استاد کے حقوق واحترام ادا کرنے کی تلقین کی ہے ایک موقع پر رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معلم یعنی استاد کا مرتبہ کتنا اہم ہے، عام طو رپر کسی قانونی بندش کے بغیر اسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے لیکن وقت کے ساتھ استاد اپنے فرائض ادا کرنے میں جہاں کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں شاگردوں میں بھی ان کا پہلے جیسا احترام باقی نہیں رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں، پانچ چھ سال پہلے مدھیہ پردیش کے اوجین شہر میں طلباء کے ہاتھ کالج کے ایک پروفیسر کا قتل ہوگیا تھا، ایک اسکول کا لڑکا بھی اپنی ٹیچر پر کلاس روم میں حملہ کرکے اس کی جان لے چکا ہے، دوسری طرف ٹیچر پہلے جیسے ذمہ دار اور محنتی نہیں رہے بلکہ بعض استاد وشاگرد کے مقدس رشتے کو پامال کررہے ہیں،ایسے ہی ایک ٹیچر کو ۲۰۰۸ء میں عین ’’یوم اساتذہ‘‘ پر سپریم کورٹ نے ۹ برس کی ایک بچی کی آبروریزی کے بعد اسے قتل کرنے پر پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ اسی طرح معیارِ تعلیم میں بھی کافی گراوٹ آئی ہے اور رفتہ رفتہ تعلیم تجارت بنتی جارہی ہے آج کے دن ہونا یہ چاہئے کہ اساتذہ کی حالت بہتر بنانے یا سماج میں انہیں ایک باوقار مقام دلانے کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں ان کے کردار پر غور وخوض ہوتا کیونکہ سماج کی تربیت میں جو حصہ ماں ادا کرتی ہے وہی ایک استاد نبھاتا ہے۔ جو بچہ کل کا شہری بنے گا اسے پہلا سبق اپنے استادوں سے ہی لینا پڑتا ہے اور ان کی نگرانی میں بچہ جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے، اسے اپنے اساتذہ سے صرف کتابی علم حاصل نہیں ہوتا۔ اخلاق، تہذیب اور ثقافت کا درس بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ماضی قریب تک استاد اور شاگردوں کا یہ تعلق ایک مقدس رشتہ تصور کیا جاتا تھا لیکن مشینی زندگی نے جہاں دوسرے سماجی تعلقات کو کمزور کیا، وہیں گرو اور چیلے کا رشتہ بھی پہلے جیسا نہیں رہا، رہی سہی کسر ہمارے جمہوری نظام کی ہر سطح میں سیاست کے عمل دخل نے پوری کردی۔ کیونکہ کئی اساتذہ اپنا کارِ منصبی فراموش کرکے پارٹ ٹائم ٹیچر اور فل ٹائم سیاست داں بن گئے ہیں۔ پرائمری یا سیکنڈری اسکولوں میں تو پھر استاد پڑھنے پڑھانے پر توجہ دیتے ہیں لیکن کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تو ان کی ساری توجہ عہدوں اور سیاسی مواقع کے حصول میں صرف ہوجاتی ہے۔ سوال صرف پرائمری، سیکنڈری یا کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا نہیں، زوال ہر سطح پر ہوا ہے بلکہ یونیورسٹی اور کالج کی سطح پر تو بعض ریاستوں بشمول مدھیہ پردیش میں صورت حال پہلے سے کچھ سدھری ہے، وقت پر امتحانات ہورہے ہیں اور نتائج نکل رہے ہیں ایک طے شدہ تعلیمی کلینڈر کے مطابق پڑھائی بھی ہورہی ہے لیکن اصلاح کا یہ عمل نچلی سطح تک اسی وقت پھیلے گا جب حکومت کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی اپنی ذمہ داری محسوس کریں گے۔ ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج ہمارے نام نہاد سیاسی رہنماؤں اور نو دولتیوں کو جو فضیلت دی جارہی ہے اس کا عشر عشیر بھی ایک استاد کے حصہ میں نہیں آتا لہذا ’’یوم اساتذہ‘‘ پر جہاں سماج میں استاد کی ضرورت واہمیت کا تعین ہونا چاہئے وہیں اساتذہ کے فرائض وذمہ داری کی نشاندہی بھی ضروری ہے اور اسی طرح ہم معاشرہ کے ایک اہم شعبہ سے لاپرواہی برتنے کے الزام سے بچ سکتے ہیں۔

یوم اساتذہ:رسم نبھانی ہے!

0

رسم نبھانی ہے! عالمی یوم اساتذہ دنیا کے کئی ممالک میں’’اساتذہ کا عالمی دن‘‘ یا "ورلڈ ٹیچرزڈے‘‘ ہرسال 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یوم اساتذہ منانے کا مقصد معاشرے میں اساتذہ کے اہم کردار کو اجاگرکرنا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھرمیں کئی سیمینارز، کانفرنسیں اورتقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 2009ء میں عالمی یوم اساتذہ کے حوالے سے یہ ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ 2015ء تک دنیابھر میں تعلیم کو عام کیا جائے گااور بلند معیار تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ معاشرے میں پیشہ ور اساتذہ کو ان کا جائز مقام ملے اورانہیں دورجدید میں نظام تعلیم میں ہونے والی تبدیلیوں سے وقتًا فوقتًا باخبر کیا جائے۔لیکن جہاں تک ہماری ریاست جموں وکشمیرمیں تعلیم کے معیارکاتعلق ہے،یہاں خاص طورپرسرکاری سطح پرتعلیمی معیارگراوٹ کی جانب رواں دواں ہے،ایک طرف جہاں بہت کم اسکولوں میں تعلیمی نظام بہتری کی جانب گامزن ہوتاہے وہیں دوسری جانب اسکولوں کی ایک بڑی تعدادایسی ہوتی ہے جہاں نظامِ تعلیم اساتذہ کی غفلت شعاری کاشکارہوکردرہم برہم ہوجاتاہے،تعلیم کے معیارکی بدحالی میں صرف اساتذہ ہی ذمہ دارنہیں بلکہ حکومتی غفلت بھی اس کے پیچھے کارفرماہے، سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کافقدان، عملے کی قلت، کھیل کود کے میدان کانہ ہونا، پائخانہ اورپینے کے پانی کی نایابی جیسے مسائل آج بھی بدستوردرپیش ہیں، چند شیطان صفت ’اساتذہ ‘کی غیراخلاقی سرگرمیاںبھی لفظ ’استاد‘کی مٹی پلید کرتی ہیں،ایسے میں ٹیچرزڈے منائے جانے کے دوران جہاں بہترین کارکردگی کامظاہرہ کرنے والے اساتذہ کی عزت افزائی کی جاتی ہے وہیں ایسے شیطان صفت اساتذہ اور غفلت شعار اساتذہ کے اعدادوشماربھی منظرعام پرلائے جانے چاہئے اوراُن کیخلاف کی جانے والی کارروائی بھی منظرعام پرلانی چاہئے، تاکہ عبرت حاصل ہو، صرف انعامات دینے سے محکمہ تعلیم اورحکومت اپنی خامیوں پرپردہ نہیں ڈال سکتی، جواچھے اساتذہ ہیں اپنے فرائض بخوبی انجام دیتے ہیں اورغیرمعمولی کارنامے انجام دیتے ہیں اُن کی حوصلہ افزائی لازمی ہے لیکن ساتھ ہی ناقص کارکردگی کامظاہرہ کرنے والے اساتذہ کوبھی آج کے روزہی بے نقاب کیاجاناچاہئے، حکومت کو چاہئے کہ اساتذہ کی کارکردگی کاباضابطہ طورپراعدادوشمار ٹیچرزڈے کے روز عام کرے۔اساتذہ کوبھی اپنامحاسبہ کرتے ہوئے اپنے مقام کواورشبیہ کوبہتربنانے کی کوشش کرنی چاہئے اوراس کوشش کاآج کے روزہی عہدکرناچاہئے ورنہ یہ ’یومِ اساتذہ‘ایک رسم بن کررہ جائےگی اس سے حاصل کچھ ہونے والانہیں۔

اترپردیش میں فساد متاثرین کی بے قدری اور مغالطہ آمیز معاوضہ

0

آکار پٹیل

۰۰۰۰۰۰۰۰ مظفر نگر اور شاملی میں فسادات کے چار سال بعد بھی اترپردیش کے اس حصے میں بہت سے مسلم خاندانوں کے لیے لفظ” معاوضہ” ایک ظالمانہ مذاق بن گئی ہے۔ستمبر 2013 میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے دسیوں ہزار افراد کے بے گھر ہونے کے ایک ماہ بعد ریاستی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ منتقلی اور بحالی کے لیے ان خاندانوں کو 500,000 روپئے کی ایک بار کی معاوضہ کی رقم فراہم کرے گی۔ تاہم یہ صرف ان نو گاؤں کے خاندانوں کو ملیں گے جن کے بارے میں حکام نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس سے سب سے زیادہ ”بدترین طریقے سے متاثر” ہوئے ہیں۔   دسمبر تک اترپردیش کی سماج وادی پارٹی کی حکومت نے بہت سے ریلیف کیمپوں کو منہدم کر دیا تھا، اور بہت سے ان لوگوں کو زبردستی نکال دیا تھا جو فسادات کے دوران اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاک آئے تھے۔ مظفر نگر سے 980 اور شاملی سے 820 خاندانوں نے وعدہ کیے گئے معاوضہ کو حاصل کیا۔ لیکن ان گاؤں میں سے کم از کم 200 خاندان اب بھی انتظار کر رہے ہیں، اور بحالی کالونیوں میں خستہ حالات میں رہ رہے ہیں۔بہت سے معاملات میں ‘فیملی’ کی تعریف معاوضہ کے انکار کا سبب رہی ہے۔ اترپردیش کی ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ وہ فیملی کی تعریف اس بنیاد پر کرتی ہے کہ آیا اس کے اراکین ایک ہی باورچی خانے کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں؟ (جو ہندوستان کی مردم شماری کے ذریعہ استعمال کیے جانے والے گھرانے کی تعریف کے مشابہ ہے)۔ ضلع مظفر نگر کے چیف ڈویلپمنٹ افسر کا کہنا ہے کہ، ”ایک فیملی یونٹ ایک چھت اور ایک چولہا کے اصول پر مبنی ہے۔ اس کی کئی مختلف حالتیں ہو سکتی ہیں، لیکن اگر کسی گھر میں باورچی خانہ ہے، تو اسے ایک علیحدہ گھرانہ سمجھا جاتا ہے۔” تاہم یہ مقامی حکومت کے اہلکار کی اس تعریف کی تشریح ہے جو بالآخر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا کسی خاندان کو کوئی معاوضہ ملے گا یا نہیں؟۔ اور ان اہلکاروں کی فہرستوں نے بہت سے ان خاندانوں کو باہر کر دیا ہے جو کہتے ہیں کہ انھیں معاوضہ دینے سے منع کر دیا گیا اس کے باوجود کہ وہ اس بات کو ثابت کرنے کے قابل ہیں کہ ان کے پتے ان کے رشتہ داروں سے مختلف تھے۔مثال کے طور پر، کاکرا گاؤں کے رہنے والے طاہر کو ریاستی حکام کے ذریعہ معاوضہ دینے سے منع کر دیا گیا۔ حکام نے کہا کہ انھوں نے پہلے ہی’ اس کے والد کو معاوضہ دے دیا تھا، اور اسے اب مزید نہیں ملے گا کیونکہ وہ ایک ہی خاندان سے تھے۔ طاہر کی بیوی عمرانہ نے ہمیں بتایاکہ ”اگر حکومت ہمیں معاوضہ دے دے، تو ہم اپنا گھر بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں پانچ لاکھ نہیں دے سکتے ہیں تو ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ ہمیں کم از کم دو یا تین لاکھ ہی دے دیں۔ کم از کم ہم اپنے رہنے کے لیے ایک گھر بنا لیں گے۔ سات لوگوں کے خاندان کو چلانا بہت مشکل ہے، طاہر ہمیشہ کام پانے کی کوشش کرنے کے لیے باہر رہتا ہے تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔ میرے بچے زیادہ تر وقت میں بھوکے رہتے ہیں۔”کم از کم دو معاملات میں، خاندانوں کو اس بنیاد پر معاوضہ دینے سے انکار کر دیا گیا کہ اسے ان کے بوڑھے رشتہ داروں کو پہلے ہی ادا کر دیا گیا ہے جن کی کئی سال پہلے موت ہو چکی ہے۔ 65 سالہ یامین حمید، جو تشدد کی وجہ سے پھوگانہ گاؤں سے بھاگ گیا تھا، اسے اترپردیش حکومت نے اس بنیاد پر منتقلی کا معاوضہ دینے سے منع کر دیا کہ حکام نے اس کے والد حامد کو پہلے ہی منتقلی کا معاوضہ دے دیا تھا۔ جبکہ یامین کے والد حامد کی وفات 1985 میں ہو چکی تھی۔ خاندان نے معاوضہ کا دعوی کرنے کے لیے ان کی موت کے سرٹیفکیٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہے۔ محمد شفیع فسادات کے دوران پھوگانہ گاؤں سے بھاگ گیا تھا۔ اس کو اس بنیاد پر معاوضہ دینے سے انکار کر دیا گیا کہ اس کے والد نے اسے پہلے ہی وصول کر لیا ہے۔ اس کے والد کی وفات 30 سال قبل ہو چکی ہے۔  انسانی حقوق کے محافظ اکرم اختر چودھری کا کہنا ہے کہ ریاست کے بہت سے خاندانوں کو ایک مشترکہ خاندان تسلیم کرنا بہت سے ایسے خاندانوں کو مؤثر طریقے سے نظر انداز کرتا ہے جو معاوضہ کے لیے اہل ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں ”آپ مجھے بتائیں، کہ چار بھائی جنھوں نے اپنی زمین، اپنا گھر سمیت ہروہ چیز جس کے وہ مالک تھے ، چھوڑ دیا ہے اور جو شادی شدہ ہیں اور ان کے پاس بچے ہیں، ان سے 500,000 روپئے میں زندگی گزارنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟”یہاں تک کہ بہت سے خاندانوں کو ریاست کی طرف سے اس بات کا جواب بھی نہیں ملا ہے کہ انھیں معاوضہ دینے سے کیوں منع کر دیا گیا ہے۔ مسلم خاندانوں نے ہمیں بتایا کہ معاوضہ کے لیے اہل خاندانوں  کی شناخت کرنے کے لیے کیے گئے سروے تعصب پر مبنی تھے، کیونکہ انھوں نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی گواہیوں پر اعتماد کیا، جن کے بارے میں امکان ہے کہ وہ خود ان فسادات میں شامل رہے ہیں۔ درحقیقت سرکاری حکام کو مناسب طور پر متاثرین کی شناخت کرنے میں ناکامی کی وجہ سے معطل کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی بہت سے خاندانوں کی درخواستیں بلا جواز ختم ہو جاتی ہیں، اور ان کے حقوق اور وقار سے انکار کر دیا جاتا ہے۔   کچھ خاندان کہتے ہیں کہ مزید وقار حاصل کرنا غیر ممکن سا لگتا ہے۔ جو لوگ بحالی کالونیوں میں قیام کرنے کے لیے مجبور ہیں کہ جن چیزوں کو وہ اپنا حق سمجھتے تھے ،جیسے صاف پینے کا پانی، کام کرنے والے بیت الخلاء، بجلی وغیرہ، وہ اب روزانہ کے چیلنج بن گئے ہیں،منور حسن کالونی میں، پانی کے پمپ سے جو پانی آتا ہے وہ پیلا ہے۔ وسیلہ پوچھتی ہیں، ”براہ مہربانی ہمیں بتائیں کہ ہم اس پانی کو کھانا پکانے اور پینے کے لیے کیسے استعمال کر سکتے ہیں،”۔ فساد متاثرہ خاندانوں کی مناسب رہائش، پانی اور صفائی کے آئینی حقوق صرف کاغذوں پر موجود ہیں۔ اترپردیش اور مرکز کی پچھلی حکومتیں مظفر نگر اور شاملی کے بے گھر خاندانوں کے حقوق کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں۔ فسادات اور ان کے بعد کے حالات کو سمٹ کر صرف ایک سالگرہ نہیں بن جانا چاہئے جسے ہم ہر سال 8 ستمبر کو منائیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی اپنی اجتماعی ذمہ داری کو پوری کرنی چاہئے کہ اترپردیش حکومت ان خاندانوں کی زندگیوں کی تعمیر نو میں مدد کرے۔اس لئے آپ حضرات بھی میری اس مہم میں شامل ہوں تاکہ مظلوموں کو انصاف دلایا جاسکے۔ اگر آپ میری اس مہم میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو برائے کرم ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیاکے اس نمبر8881666736پر ایک مس کال نہ صرف آپ دیں بلکہ اپنے احباب سے بھی درخواست کریں تاکہ مظلومین کو انصاف د لایا جاسکے۔وسیلہ،محمد شفیع، یامین حمید ،طاہر اور عمرانہ جیسے متاثرین بھائی بہن آپ سے صرف ایک مس کال کی امید رکھتی ہیں کیا آپ یہ بھی نہیں کرسکتے ۔؟؟؟ (چرخہ فیچرس)

ڈوگری شعرا نے کی کشمیری قیادت کی مخالفت

0
مقامی زبان ڈوگری کے بجائے کشمیری کو جموں میں سرکار کی حمایت :چھترپال
لازوال ڈیسک
جموں//ڈوگری سنستھا کی جانب سے ڈوگری بھون کرن نگر ایک مشاعرے کے دوران ڈوگری شعراء نے کشمیری قیادت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے کلام پیش کئے جن میں کشمیری قیادت کی مخالفت کی جھلکیاں واضح رونما ہوئیں ۔شعراء نے اپنے کلام کے ذریعے جموں خطے کے کالجوں میں کشمیری زبان کے نفاذ پر تنیقد کرتے ہوئے کہا کہ ایک پلان کے تحت کشمیری کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے ۔مشاعرے میں شرکت کرنے والوں میں گنیشور شرما،عبدالقادر کنڈاریا،ایم ایس کمرا،سوشیل بگننا،رتن بھردواج،سنیل شرما،شیو دیو منہاس،چنچل بھسین،بنسی لال و دیگران سر فہرست رہے جبکہ اس موقع پر ٹیم جموں چیئر مین زور آور سنگھ جموال کی قیادت میں شرکت کی ۔اس موقع پر ڈوگری سنستھا کے صدر شری چھترپال نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا جموں و کشمیر سرکار کی جانب سے کشمیری کے فروغ کیلئے کالجوں اور یونیورسٹی میں سرکولر جاری ہوئے ہیں جبکہ ڈوگری یہاں کی مقامی زبان ہے جس کیلئے کوئی بھی سرکولر جاری نہیں ہوا مقامی زبان ڈوگری کے بجائے کشمیری کو جموں میں سرکار کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور کالجوں کے پرنسپل حضرات پر کالجوں میں کشمیری پڑھانے کے سلسلہ کو شروع کرنے پر مختلف ذرائے سے دبائو ڈالا جا رہا ہے

بھارت سیوآشرم سنگھا نے نگروٹہ میں کھولی ڈسپینسری

0
سابق چیف میڈیکل آفیسرپیش کریںگے اپنی خدمات
امت کمار
نگروٹہ//بھارت سیوآشرم سنگھا کی جانب سے نگروٹہ میں سوامی پرانوآنند سیوا نکیتن ڈسپینسری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں ڈاکٹر پی ایس سلاتھیہ سابق چیف میڈیکل آفیسر سوموار،بدھوار اور جمعہ کے روز اپنی خدمات انجام دیں گے ۔واضح رہے کہ بھارت سیوآشرم سنگھا کی جانب سے اس طرح کی کئی اور تقاریب کا انعقاد عمل میں لایا جا چکا ہے جس میں تعلیم،صحت،تربیت وغیرہ قابل ذکر ہیں اور تنظیم کے سینکڑوں کی تعداد میں آشرم ہندوستان اور بیرونی ممالک میں پائے جاتے ہیں ۔

ایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی نے عید الاضحٰی کی مبارک بادکے ساتھ اور عالم اسلام کیلئے کی دعا

0
نمائندہ لازوال
کشتواڑ//ریاستی کانگریس نائب صدر و ایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی نے نماز عید الاضحٰی عید گاہ کشتواڑ میں ادا کرنے کے بعد عالم اسلام کے مسلمانوں کو مبارک بادی پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست جموں و کشمیر میں بالخصوص اور ملک کی عوام کو بالعموم امن ،سکون اور خوشحالی کیلئے دعا کی ۔اسی یوم علاقہ کے کئی لوگوں نے موصوف کی رہائش گاہ پر پہنچ کر مبارک بادی کے پیغامات پیش کئے۔
غلام محمد سروڑی کا اظہار تعزیت
نمائندہ لازوال
کشتواڑ///ریاستی کانگریس نائب صدر و ایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی نے پرویز احمد اور ارشاد احمد کی موت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے مرحومین کیلئے دعا مغفرت اور لواحقین کیلئے صبر و تحمل کی دعا کی ہے ۔موصوف نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ارشاد احمد اور پرویزاحمد کی موت ایک بڑا نقصان ہے وہ ہمیشہ ہمیش دوسروں کی مدد کیلئے پیش پیش رہتے تھے اور انکی موت کا گہرا صدمہ ہوا ہے ۔

ایک ہی خاتون کی دو بار کٹی چوٹی

0
نہیں تھم رہے چوٹی کٹنے کے واقعات،صوبہ جموں پہ خوفناک ڈرکاسایہ
کرن دیپ سنگھ؍؍ونے شرما
  • ریاسی؍؍کافی عرصے سے جموں صوبے میں چوٹی کاٹنے کے واقعات رونماہورہے ہیںلیکن ریاسی میں پیر کو مختلف تین جگہ پر چوٹی کٹنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ایک واقعہ ریاسی کے جیوتیپورم علاقے ہے، واقعہ کے بعد علاقے میں دہشت کا ماحول بنا ہوا ہے۔ متاثرہ کی شناخت انو رادھا عمر32 سال زوجہ راکیش کمار ساکنہ جیوتیپورم کے طورپرہوئی ہے۔اس کی دو بار چوٹی کٹ گئی، اسی متاثرہ خاتون کی گذشتہ اتوار کی صبح کو بھی چوٹی کٹی تھی اور دوسری واردات میںریاسی کے تحت پڑنے والے نئے بستی علاقے میں بھی ایک واقعہ پیش آیااور تیسراواقعہ گراں موڑ علاقے میں پیش آیاہے۔اس صورت میں چوٹی کافی نیچے سے کٹی ہے۔وہیں چوٹی کٹنے کی خبر سن کر پولیس کا سلسلہ موقع پر پہنچا۔جنہوں نے موقع کا جائزہ لیا۔ اس ضمن میں جیوتپرم پولیس کے تھانہ انچارج وید پرکاش نے کہا کہ مقدمہ درج کر لیا ہے، اور آگے کی کارروائی کی جا رہی ہے۔ شہر کے ساتھ لگتے دندیال علاقے میں بھی ایک 15 سالہ لڑکی کی چوٹی کٹنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔۔جا نکار ی کے مطابق دندیال  علاقے کی رہنے والی کانتا دیوی دختر رتن لال رہائشی د ندیال ادھمپور کی گھر میں چوٹی کٹنے کا واقعہ پیش آیا ۔ جبکجہ لڑکی اس حالت میں کچھ وقت کے لئے بیہوش ہو گئی وہیں جیسے ہی اس کی اطلاع اس کے اہل خانہ کو ملی تو وہ لڑکی کو بیہوشی کی حالت میں ڈسٹرکٹ ہسپتال میں لائے یہاں اسے کچھ دیر بعد ہوش آیا اور اس لڑکی نے آپ بیتی سنائی واقعہ کی معلومات جیسے ہی علاقے میں پھیلی تو شہر میں گھبراہٹ کا ماحول بن گیا اور لوگ اس واقعے سے سہم گئے ۔

رام بن میںفوڈ پوئزنگ 

0
2افراد ہلاک :6 کی حالت متغیر ،2جموں منتقل
شوبھم انتال
  • رام بن ؍؍رام بن کے گامی گائوں میں فوڈ پوائزنگ کے نتیجے میں آٹھ افراد بے ہوش ہوئے جن میں سے بعد میں 2اسپتال میں چل بسے ۔ چیف میڈیکل آفیسر نے اسکی تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ مزید دو کو علاج ومعالجہ کی خاطر گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں منتقل کیا گیا ہے۔ رام بن کے دور افتادہ گائوں گامی میں اُس وقت سنسنی اور خوف و دہشت کا ماحول پھیل گیا جب ایک ہی کنبے کے آٹھ افراد زہریلا خوراک کھانے کے بعد بے ہوش ہو گئے جنہیں فوری طوپر بٹوٹ اسپتال روانہ کیا گیا جہاں پر آٹھ سالہ بچی سمیت 2افراد زندگی کی جنگ ہا ر گئے ۔ اسپتال ذرائع کے مطابق آٹھ سالہ پلوی اور 80سالہ شوبا دیوی اسپتال میں دم توڑ بیٹھی جبکہ باقی چھ کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ چیف میڈیکل آفیسر ایس ڈی خان کے مطابق ڈاکٹروں کے ایک ٹیم نے اسپتال کا دورہ کیا اور وہاں پر زیر علاج بیماروں سے بات کی ۔ چیف میڈیکل آفیسر نے مزید بتایا کہ چھ میں سے دو کو مزید علاج ومعالجہ کی خاطر جموںمیڈیکل کالج روانہ کیا گیا ہے۔