الرئيسية بلوق الصفحة 7644

پاکستان نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم وتشدد پر رنج وغم کا اظہا رکیا

0

یواین آئی

اسلام آباد؍؍پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انکا دکھ درد بین الاقوامی برادری کے سامنے ایک چیلنج ہے ۔وزارت خارجہ نے کل ایک بیان جاری کر کے کہا کہ مسٹر آصف اس سلسلہ میں تنظیم برائے اسلامی تعاون (او آئی سی ) کی حمایت کرتے ہیں اور روہنگیا مسلمانوں پر حملے کی مذمت کرتے ہیں ۔ تشدد کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا مسلمان میانمار سے نقل مکانی کر گئے ہیں۔ ان کے گھروں اور گاؤں کو منصوبہ بند طریقہ سے پوری طرح سے تباہ کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ان کے حقوق انسانی کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی قابل مذمت ہے ۔ انہوں نے اشتعال انگیز تقریروں، تشدد اور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور ان کے ساتھ تعصب پسندی پر تشویش ظاہرکی ۔ وزیر خارجہ نے اس طرح کے تشدد کو دوبارہ ہونے سے روکنے ، سبھی کے لئے تحفظ اور ہر فرد کو زندگی گزارنے اور کسی خوف کے بغیر کہیں بھی رہنے کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لئے موثر قدم اٹھانے کی بات کہی۔ انہوں نے دنیا بھر میں مظلوم مسلم آبادی کو پاکستان کی مسلسل حمایت کی یقین دہانی کرائی ۔

8 ستمبر کو روہنگیائی مسلمانوں سے یوم یکجہتی کے طور پر منانے کا اعلان

0

متحدہ مجلس علماء کااجلاس
عالم اسلام کی خاموشی کو حد درجہ افسوسناک ، شرمناک اور مجرمانہ قرار دیا دیا
لازوال ڈیسک

سرینگر؍؍وادی کشمیر کی تمام مذہبی جماعتوں نے برما میں روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام اور سینکڑوں مسلمان بستیوں کو مسمار و خاکستر کرنے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس ننگی بربریت اور جارحیت پر عالمی برادری خصوصاً عالم اسلام کی خاموشی کو حد درجہ افسوسناک ، شرمناک اور مجرمانہ قرار دیا دیا ہے۔ انہوں نے 8 ستمبر جمعتہ المبارک کو روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ یوم یکجہتی کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ متحدہ مجلس علماء جموں وکشمیر اور اس سے منسلک مذہبی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی جموںوکشمیر ، جمعیت اہلحدیث جموںوکشمیر ، جموںوکشمیر انجمن شرعی شیعان،اسلامک سٹیڈی سرکل،اتحاد المسلمین جموںوکشمیر، دارالعلوم رحیمہ بانڈی پورہ،انجمن تبلیغ الاسلام، انجمن حمایت الاسلام،مفتی اعظم جموںوکشمیر، مسلم پرسنل لاء بورڈ جموںوکشمیر،دارالعلوم بلالیہ، دارالعلوم قاسمیہ، انجمن نصرۃ الاسلام،انجمن مظہر الحق بیروہ، درالعلوم نور الاسلام ترال، پیروان ولایت جموںوکشمیر، اہلبیت فائونڈیشن اور انجمن علمائے احناف نے منگل کو یہاں جاری ایک مشترکہ بیان میںبرما کے روہنگیائی مسلمانوں پر ہونے والے مظام کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ان مذہبی جماعتوں کے سرپرستوں بالخصوص میرواعظ مولوی عمر فاروق نے کہا کہ برمی مسلمانوںکو جس بے دردی کے ستاتھ تہہ تیغ کیا جارہا ہے اور بستیوں کی بستیاں راکھ کے ڈھیر میںتبدیل کی جارہی ہیں۔ عورتوں کی عزت و عصمت کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے اس ضمن میں عالم اسلام اور مسلمان ممالک کی حکومتوں کی خاموشی حد درجہ مجرمانہ ہے اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ برمی مسلمانوں کے خلاف وہاں کے اکثریتی فرقے کی جارحیت اگرچہ گزشتہ کچھ عرصے سے جاری ہے اور اس دوران ہزاروں مسلمانوںکو قتل کیا گیا، لاکھوں افراد کو بے گھر اور مہاجرت پر مجبور کیا گیا اور ان کی املاک و جائیداد کو لوٹا گیا ، لاکھوں افراد کو شدید زخمی اور اس طرح برمی مسلمانوںکی نسل کشی کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بیان میں اس قتل عام پر عالمی برادری خاص طور پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) کے کردار کوانتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے ان سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنی خاموشی توڑ کر روہنگیائی مسلمانوں کو بچانے کے لئے فوری طور پر آگے آئیں۔ بیان میں حقوق البشر کے عالمی اداروں سے پر زور اپیل کی گئی کہ وہ برمی مسلمانوں کے خلاف اس ننگی جارحیت اور بربریت کا فوری نوٹس لیں اور وہاں کے مسلمانوں اور ان کی عزت و آبروکے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ کشمیری عوام کی جانب مورخہ8 ستمبر2017 ء جمعتہ المبارک کو یوم یکجہتی کے طور پر منانے کے ساتھ ساتھ نماز جمعہ کے موقعہ پر متحدہ مجلس علماء کی جانب سے مرتب کردہ ایک جامع قرارداد کشمیر کی تمام مرکزی مساجد ،خانقاہوں ، امام باڑوں اور آستانوں میں پیش کرکے عوام سے تائید حاصل کی جائے گی اور برما میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا جائے گا۔ بیان میں کہا گیا کہ متذکرہ قرارداد کو عالم اسلام کے ذمہ داروں ، اقوام متحدہ بالخصوص او آئی سی کے ممبر ممالک کو بھیجا جائے گا تاکہ روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام کو رکوانے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ دریں اثنا جموں کشمیر اتحاد المسلمین کے سربراہ اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین مولانا محمد عباس انصاری نے برما میں رہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام اور بستیوں کی بستیاں خاکستر کرنے ، ہزاروں لوگوں کو شہید و زخمی کرنے کئے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس ننگی جارحیت اور بربریت پر عالمی برادری اور عالم اسلام کی خاموشی کو حد درجہ مجرمانہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج جب کہ رہنگیائی مسلمانوں پر خود اپنے ملک کی زمین تنگ کی جارہی ہے ، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ، عورتوں کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کیا جارہا ہے ، ہزاروں افراد کو قتل اور بستیوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کیا جارہا ہے یہ اس لحاظ سے اس درجہ افسوس ناک ہے کہ یہ سب کچھ وہاں کی حکومت کی سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔ مولانا عباس انصاری نے کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تہغ کیا جارہاہے معصوم اور شیر خوار بچوں کو قتل اور ہر چار طرف بر بریت کا بازار گرم ہے لیکن اس سب واقعات کے باوجود عالمی برادری خاموش تماشاہی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ رہنگیائی مسلمانوں کے خلاف وہاں کے اکثریتی فرقے جارحیت گذشتہ کچھ عرصہ سے جاری ہے اور برما میں مسلمانوں کی نسل کشی ایک منصوبہ بند پروگرام کے تحت مسلسل عملائی جارہی ہے تاہم اس ضمن میں عالمی برادری خصوصاً مسلم ممالک نے جو خاموشی اختیار کر رکھے ہے وہ ہر لحاظ سے مجرمانہ ہے۔ مولانا نصاری نے عالمی برادری، او آئی سی اور حقوق بشر کی عالمی اداروں پر زور دیا کہ وہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کاروائیوں کو روکنے ان کے قتل عام کے خاتمے اور ان کی عزت و آبرو کو فراہم کرنے کے حوالے سے عملی اقدامات کو یقینی بنائے۔

شمالی کشمیر میں جنگجوؤں کی ہلاکت کے خلاف ہڑتال

0

یواین آئی

سرینگر؍؍شمالی کشمیر کے دو اضلاع بارہمولہ اور کپواڑہ کے متعدد علاقوں بالخصوص ایپل ٹاون سوپور اور ہندواڑہ میں منگل کے روز حزب المجاہدین سے وابستہ دو مقامی جنگجوؤں کی ہلاکت کے خلاف غیراعلانیہ ہڑتال سے معمول کی زندگی بری طرح متاثر رہی۔ خیال رہے کہ ایپل ٹاون سوپور کے شنکر گنڈ براٹھ میں پیر کی صبح جنگجوؤں اور سیکورٹی فورسز کے مابین ہونے والے ایک مسلح تصادم میںحزب المجاہدین کے ڈویژنل کمانڈر سمیت دو جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔ مارے گئے جنگجوؤں کی شناخت حزب المجاہدین کے ڈویژنل کمانڈرپرویز احمد وانی عرف پرویز گلورہ ساکنہ گلورہ ہندواڑہ اور نعیم احمد نجار ساکنہ براٹھ کلان سوپور کے بطور کی گئی تھی۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ شمالی کشمیر کے کسی بھی حصے میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر پابندیاں نافذ نہیں کی گئی ہیں، تاہم کسی بھی طرح کے تشدد کو روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ متعلقہ ضلع مجسٹریوں کے احکامات پر آج سوپور اور ہندواڑہ کے تمام تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیاں معطل رہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیوں کی معطلی کا قدم احتیاطی اقدامات کے طور پر اٹھایا گیا ہے۔ اگرچہ علیحدگی پسند قیادت یا کسی دوسری تنظیم نے آج کوئی ہڑتال کال نہیں دی تھی، لیکن باوجود اس کے سوپور اور ہندواڑہ میں دکانیں اور تجارتی مراکز شٹرڈاون رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت بند رہی۔ سرکاری دفاتر اور بینکوں میں بھی معمول کی سرگرمیاں متاثر رہیں۔ ان دونوں قصبوں کی سڑکوں پر سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کی بھاری جمعیت گشت کرتی ہوئی نظر آئی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق ضلع بارہمولہ میں انٹرنیٹ خدمات کم از کم بارہ گھنٹوں کی معطلی کے بعد گذشتہ رات دیر گئے بحال کردی گئیں۔ دریں اثنا شنکر گنڈ براٹھ میں مارے گئے دونوں جنگجوؤں کو گذشتہ شام اپنے اپنے آبائی دیہات میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا۔ سیکورٹی اداروں نے ایچ ایم ڈویژنل کمانڈر پرویز گلورہ کو جنگجوؤں سے متعلق اے پلس پلس زمرے میں رکھا تھا۔ ریاستی پولیس سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید نے کامیاب آپریشن انجام دینے پر سیکورٹی فورسز کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا ’سوپور میں پیر کی صبح ایک مشترکہ آپریشن میں حزب المجاہدین کے 2 جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا‘۔

تاریخ انسانیت میں ایک سیاہ کن باب

0

مسلم دنیا روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کیلئے فوری اقدامات اٹھائیں: مصطفی کمال
لازوال ڈیسک

سری نگر؍؍جموں وکشمیر کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس نے برما میں روہنگیائی مسلمانوں پر جاری بدترین مظالم پر تشویش اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اقوام عالم خصوصاً مسلم دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھائیں۔ پارٹی کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ میانمار میں مسلمان کا تہیہ تیغ کرنے کے لئے جس طرح سے ظلم و تشدد، مار دھاڑ، قتل و غارت اور نسل کشی کی جارہی ہے وہ تاریخ انسانیت میں ایک سیاہ کن باب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ جہاں صرف بیان بازی میں مصروف ہیں وہیں سلامتی کونسل نے روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کے تئیں اپنی آنکھیں موند کر رکھی ہیں۔ روہنگیائی مسلمانوں برما کے پشتینی باشندے ہیں اور ان کی اس طریقے سے جاری جلائی وطنی ایک افسوسنا ک اور تشویشناک امر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینکڑوں مکانات کو خاکستر کیا گیا ہے، سینکڑوں لوگوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیا گیا، جن میں خواتین، بزرگ یہاں تک کہ شیر خوار بچے بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر کمال یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر نوائے صبح کمپلیکس میں پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقعے پر پارٹی کے صوبائی صدر ناصر اسلم وانی، سینئر لیڈر و ایم ایل اے حبہ کدل شمیمہ فردوس، صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر، صوبائی جوائنٹ سکریٹری غلام نبی بٹ، اقلیتی سیل کے چیئرمین جگدیش سنگھ آزاد کے علاوہ کئی سرکردہ لیڈران موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ روہنگیائی مسلمانوں کے تہیہ تیغ کرنے کے عمل پر ابھی تک اقوام متحدہ اور چند ممالک کی طرف سے صرف بیانات ہی سامنے آئے ہیں لیکن عمل طور پر ابھی تک کوئی نہیں کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر کمال نے مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی پر بھی زور دیا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے برما کے مسلمانوں کی سلامتی اور اُن کو اپنے حقوق دلوانے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ امن کا نوبیل انعام (پانے والی آنگ سان سوچی کی ناک کے نیچے میانمار کے مسلمانوں کو جلایا جارہا ہے،جس سے اس اعزاز کے حصول پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی حکومت اور عوام سے اپیل کی کہ وہ برما سے آئے ایک لاکھ 20ہزار سے زائد رفیوجیوں کو پناہ دینے کے علاوہ اُن کی ہر سطح پر مدد کرکے ایک مثال قائم کریں۔ دریں اثناء یوتھ نیشنل کانفرنس کی جانب سے بھی ایک اجلاس میں روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جارہے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور اقوام متحدہ سے اپیل کی گئی کہ اس معاملے میں فوری مداخلت کی جائے۔یوتھ صوبائی صدر سلمان علی ساگر نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روہنگیا کے مسلمانوں کے سیکڑوں گھر جلادیے گئے، سینکڑوں کو قتل عام کیا گیا، کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے،اقوام متحدہ خاموشی تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی روہنگیائی مسلمانوں کے بے دردی سے قتل کا فوری نوٹس لے ۔سلمان علی ساگر نے کہا کہ اقلیتوں کے تحفظ کا نعرہ لگانے والے اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں برما میں ہورہے مظالم پر خاموش کیوں ہیں۔

فوجی ہیلی کاپٹر کی لداخ میں کریش لینڈنگ

0

سینئر فوجی عہدیدار بال بال بچے
یواین آئی

سری نگر؍؍لیہہ کے 14 کارپس کمانڈر اور دیگر سینئر فوجی عہدیداروں کو لے جانے والے ایڈوانسڈ لائٹ ہیلی کاپٹر (اے ایل ایچ) نے خطہ لداخ میں منگل کو کریش لینڈنگ کی، تاہم حادثے میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ فوج کے ایڈوانسڈ لائٹ ہیلی کاپٹر نے منگل کو قریب دوپہر ڈیڑھ بجے لیہہ سے 200 کلو میٹر دور مشرقی لداخ میں کریش لینڈنگ کی۔ انہوں نے بتایا کہ اس ہیلی کاپٹر میں 14 کارپس کمانڈر اور دیگر سینئر فوجی افسران سوار تھے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا ’ہیلی کاپٹر میں سوار سبھی فوجی عہدیدار اور عملے کے ارکان صحیح سلامت ہیں۔ کسی کے بھی بری طرح زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے‘۔ دریں اثنا حادثے کی کورٹ آف انکوائری کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔

چوٹی کاٹنے کے واقعات ٹنل کے اُس پاربھی!

0

ککرناگ میں ایک اسکولی طالبہ کے بیہوشی کی حالت میں بال کاٹ دئیے گئے
یواین آئی

سرینگر؍؍ملک کی مختلف ریاستوں میں خواتین کے بال پراسرار طریقے سے کاٹنے کے واقعات سامنے آنے کے بیچ وادی کشمیر میں اس طرح کا پہلا واقعہ پیش آیا ہے۔ جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے ککرناگ میں ایک اسکولی طالبہ کے بیہوشی کی حالت میں بال کاٹ دیے گئے ہیں۔ یہ واقعہ پیر کی شام کو پیش آیا ہے۔ ایک مقامی انگریزی روزنامے کے مطابق ایک نویں جماعت کی طالبہ اسکول سے گھر لوٹنے کے بعد بیہوش ہوگئی۔ اس کے والدین جب اس کے کمرے میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنی بیٹی کو نہ صرف بیہوش پایا بلکہ اس کے بال کٹے ہوئے پائے۔ متاثرہ لڑکی کو فوری طور پر نذدیکی اسپتال منتقل کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ لڑکی کو بیہوشی کی حالت میں اسپتال لایا گیا اور کچھ گھنٹوں تک زیر علاج رہنے کے بعد رخصت کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق متاثرہ لڑکی کے والدین نے پولیس میں شکایت درج نہیں کی ہے۔ دوسری جانب جموں خطہ کے مختلف حصوں میں خواتین کو بیہوش کرکے پراسرار طریقے سے ان کے بال کاٹنے کے 30 سے زائد واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات سے جہاں خواتین میں خوف وہراس کی لہر دوڑی ہوئی ہے، وہیں پولیس اور فارنسک سائنس لیبارٹری اب تک اس معمے کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ پولیس نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ چوکس اور پرسکون رہیں۔ ایک سینئر پولیس عہدیدار نے بتایا ’پولیس تھانوں پر اب تک پراسرار طریقے سے خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے 30 معاملات درج کئے گئے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے‘۔ انہوں نے بتایا ’3 ستمبر کو جموں میں تین اور راجوری میں ایک پراسرار طریقے سے بال کاٹنے کے واقعات کی شکایت پولیس تھانوں میں درج کرائی گئی‘۔ مذکورہ عہدیدار نے بتایا کہ پولیس معمے کو حل کرنے کے لئے مختلف تھوریز پر کام کررہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چوٹی کاٹنے کا پہلا واقعہ رواں برس جون کے مہینے میں راجستھان میں سامنے آیا اور اس کے بعد ایسے واقعات ہریانہ، ہماچل پردیش ، مغربی اترپردیش اور دوسری ریاستوں سے بھی سامنے آنے لگے۔ پولیس عہدیدار نے مزید بتایا ’ہم نے کاٹے گئے بالوں کے نمونے فارنسک لیبارٹری کو بھیج دیے ہیں۔ ہم نے لوگوں سے بھی کہا ہے کہ وہ پرسکون رہیں‘۔ ذرائع نے بتایا کہ جموں میں قائم فارنسک سائنس لیبارٹری معاملے میں کوئی پیش رفت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس نے اب بالوں کے نمونے ایف ایس ایل سری نگر اور دوسری ریاستوں میں قائم لیبارٹریز کو بھیج دیے ہیں۔ انہوں نے بتایا ’جموں میں ماہرین نے ایک ہفتے تک بالوں کے نموں کی جانچ کی ، لیکن وہ کوئی پیش رفت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد یہ نمونے سری نگر اور دوسری ریاستوں میں قائم سائنس لیبارٹریز کو بھیجے گئے‘۔ پولیس ذرائع نے بتایا ’بیشتر واقعات میں خواتین بیہوش ہوگئیں اور بعدازاں اپنے بال پراسرار طریقے سے کٹے ہوئے پائے‘۔ انہوں نے بتایا ’کم از کم دس متاثرہ خواتین کو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا‘۔

’پھرڈوکلام جیسے واقعات نہ دہرائیں گے‘

0

مضبوط اورمستحکم تعلقات چاہتے ہیں:جن پنگ بہترتعلقات کیلئےسرحد پر امن ضروری :وزیر اعظم مودی مضبوط اورمستحکم تعلقات چاہتے ہیں:جن پنگ بہترتعلقات کیلئےسرحد پر امن ضروری :وزیر اعظم مودی 

لازوال ڈیسک

شیامین؍؍وزیراعظم نریندر مودی نے آج چین کے صدر جن پنگ سے ملاقات کی۔چینی نے ماضی قریب کا سرحدی تنازع بھلا کر بھارت کے ساتھ مضبوط اور مستحکم تعلقات قائم رکھنے کی خواہش کا اظہار کردیا۔اسی دوران بھارت نے چین سے تعلقات میں بہتری کے لیے سرحد پر امن کو ضروری قرار دے دیا۔چینی شہر شیامن میں ہونے والے برکس سربراہ اجلاس کے اختتام کے بعد چینی صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اپنے وفود کے ہمراہ ملاقات ہوئی۔چینی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق ملاقات کے دوران صدر شی جن پنگ نے بھارتی وزیراعظم سے کہا کہ چین اور بھارت کے مضبوط اور مستحکم تعلقات ہونے چاہئیں جو دونوں ہمسایہ ممالک کے مفاد میں ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘چین، بھارت کے ساتھ امن کی ہم عہدی کے پانچ اصولوں کی بنیاد پر مل کر کام کرنا چاہتا ہے جو سیاسی اعتماد بحال کرنے، باہمی تعاون کے فروغ اور بھارت اور چین کے تعلقات کو صحیح سمت میں لانے کے لیے دونوں ممالک کی جانب سے لائے گئے تھے۔تفصیلات کے مطابق نویں برکس چوٹی کانفرنس میں حصہ لینے کے لئے چین کے تین دن کے دورہ پر آنے والے مسٹر مودی نے دورے کے آخری مرحلے میں میزبان ملک کے صدر کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کی جس میں دو طرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر تبادلہ خیال ہوا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم مودی نے برکس سربراہ اجلاس کے کامیاب اور شاندار انعقاد کے لئے چینی قیادت کی تعریف کی۔ چینی صدر نے کہا کہ ان کا ملک پنچ شیل کے اصول پر ہندوستان کے ساتھ کام کرنے کا خواہش مند ہے ۔ قبل ازیں مسٹر مودی نے مصری صدر عبد الفتح السیسی کے ساتھ دو طرفہ ملاقات کی ۔ میٹنگ کے بعد مسٹر مودی چین سے میانمار کے دارالحکومت کے لئے روانہ ہوگئے ۔ڈوکلام تنازع ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان آج یہاں مثبت ماحول میں ملاقات ہوئی جس میں باہمی تعلقات کو ‘مستحکم’ اور بہتر’ رکھنے کی خاطر سرحد پر امن ، حالات کو جوں کی توں قائم رکھنے اور باہمی اعتماد کو بڑھانے پر زور دیا۔نویں برکس سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے چین کے تین دن کے دورے پر آنے والے مسٹر مودی کے دورے کے آخری مرحلے میں میزبان ملک کے صدر کے ساتھ ایک گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہنے ولی ملاقات میں برکس متعلق سے موضوعات اور باہمی مسائل پر بامعنی بات چیت ہوئی۔ ملاقات کے بعد، خارجہ سکریٹری ایس جے شنکر نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری اور استحکام پر توجہ مرکوز کر رہی تھی اور یہ بہت مثبت اور خوشگوار رہی۔ انہوں نے باہمی مسائل پر بات چیت کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان وسیع بات چیت ہوئی اور بات چیت آستانہ میں ہونے والی رضامندی کے مطابق تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات تصادم کی وجہ سے نہ بنیں۔میٹنگ میں اتفاق ہوا کہ ہندستان اور چین کے رشتوں میں استحکام اور امن برقرار رہنا چاہئے ۔ یہ بھی محسوس کیا گیا کہ رشتوں کے فروغ کے لئے سرحد پر امن و استحکام پیشگی شرط ہے ۔ دونوں ممالک نے سرحد پر باہمی اعتماد کو بڑھانے کے لئے مزید اقدامات پر زور دیا اور کہا کہ اگر کوئی اختلاف ہے تو اسے باہمی احترام کے ساتھ حل کیا جانا چاہئے ۔خارجہ سکریٹری نے بتایا کہ میٹنگ میں یہ بھی محسوس کیا گیا کہ سرحد پر دونوں طرف کی سلامتی دستوں اور فوجیوں کے درمیان ہر حال میں رابطہ اور تعاون برقرار رکھنا ہوگا تاکہ ڈوکلام جیسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ دونوں ممالک نے تعلقات کو فروغ دینے کے لئے پہلے سی ہی قائم مختلف فورموں کا مکمل استعمال کرنے پر زور دیا۔ ڈوکلام کے واقعہ سے متعلق ایک سوال پر، انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو معلوم ہے کہ وہاں کیا ہوا تھا ۔ یہ گفتگو مستقبل رخی تھی ، اس میں ماضی کی طرف رجوع نہیں کیا گیا ۔ دہشت گردی اور جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر پر اقوام متحدہ میں پابندی کے تعلق سے چین کے رویہ کے بارے میں پوچھے جانے پر خارجہ سکریٹری نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ دو طرفہ میٹنگ میں نہیں اٹھا۔ اس مسئلہ پر برکس کی میٹنگ میں بات چیت ہوئی تھی، اور یہ کہ نہ صرف ہندستان بلکہ بہت سے ممالک کا اس بارے میں یکساں موقف ہے ۔ ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ مجموعی طور پر بات چیت بہت ہی نتیجہ خیز رہی اور مستقبل میں ہندستان اور چین کے دو طرفہ رشتوں کی سمت طے کرنے میں مددگار ہوگی ۔ میٹنگ میں ہندستان کی طرف سے وزیر اعظم کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، ڈاکٹر جے شنکر، وزارت خارجہ میں سکریٹری (مشرق ) پریتی سرن، وزیر اعظم کے دفتر میں جوائنٹ سکریٹری گوپال باگلے ، چین میں ہندستان کے سفیر وجے گوکھلے اور وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار موجود تھے ۔ چین کے وفد میں صدر جن پنگ کے علاوہ، وزیر خارجہ وانگ ای ، اسٹیٹ کونسلر یانگ جی چی اور وزارت خارجہ کے چیف ترجمان لو کانگ موجود تھے ۔ ذرائع کے مطابق، چینی صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ چین پنچشیل کے اصولوں سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے ہندستان کے ساتھ ملکرکام کرنے کو تیار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندستان اور چین ایک دوسرے کے بڑے پڑوسی ہیں اور دنیا کے دو بڑی اور ابھرتی ہوئی معیشتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہیں۔ وزیراعظم نے چینی صدر کو برکس کے شاندار انعقاد اور بہترین میزبانی کے لئے شکریہ ادا کیا۔

وراٹ نے سچن کی برابری کی ، بمراہ چوتھے نمبر پر

0

ریٹنگ پوائنٹس کی برابری کر لی؛بمراہ گیندبازی کی رینکنگ میں چوتھے نمبر پر پہنچ گئے

یواین آئی

دبئی؍؍ہندوستانی کپتان اور دنیا کے نمبر ایک ون ڈے بلے باز وراٹ کوہلی نے سری لنکا کے خلاف سیریز میں مسلسل دو سنچریوں کی بدولت آئی سی سی بلے بازی رینکنگ میں ماسٹر بلاسٹر سچن تندولکر کی ریٹنگ پوائنٹس کی برابری کر لی ہے جبکہ تیز گیندباز جسپریت بومراہ 27 پائیدان کی لمبی چھلانگ کے بعد گیندبازی کی رینکنگ میں چوتھے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان پانچ میچوں کی سیریز کے اختتام کے بعد تازہ ترین رینکنگ میں ویراٹ کوہلی سچن کے برابر پہنچ گئے ہیں ۔ ہندوستان نے سیریز پانچ ۔صفر سے اپنے نام کی ہے ۔وراٹ نے سیریز کے آخری دونوں میچوں میں سو بہترین سنچری بنائی تھی۔ ون ڈے کے نمبر ایک بلے باز وراٹ کو 14 پوائنٹس کا فائدہ ہوا جس سے ان کے پوائنٹ کی تعداد 887 تک پہنچ گئی جو سچن کے 887 ریٹنگ پوائنٹس کے برابر ہے ۔ سچن کی یہ درجہ بندی ایک روزہ رینکنگ میں کسی ہندوستانی بلے باز کی سب سے بہترین ریٹنگ تھی۔ پانچ میچوں کی سیریز میں 15 وکٹ حاصل کرکے بہترین فارم میں کھیلنے والے بمراہ نے 27 پائیدان کی لمبی چھلانگ لگائی اور وہ 31 ویں سے اپنے کیریئر کے بہترین چوتھے مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ وراٹ نے بھی سیریز کے اختتام کے بعد جیت کاکریڈٹ بمراہ کی گیندبازی کو دیا۔ وراٹ اور بمراہ کے علاوہ نائب کپتان روہت شرما اور سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی کی درجہ بندی میں بھی بہتری آئی ہے اور وہ ٹاپ -10 میں پہنچ گئے ہیں۔ روہت نے سیریز میں 302 رنز اور دھونی نے 162 رنز بنائے ۔ روہت کو پانچ مقام کا فائدہ ہوا ہے اور وہ نویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں، جبکہ دھونی دو مقام کی اصلاح کے ساتھ دسویں نمبر پر آگئے ہیں ۔ آسٹریلیا کے ڈیوڈ وارنر دوسرے اور جنوبی افریقہ کے اے بی ڈیلیرس تیسرے نمبر پربرقرار ہیں۔گیندبازی کی رینکنگ میں بمراہ کے علاوہ لیفٹ آرم اسپنر اکسر پٹیل نے بھی اپنی پوزیشن میں اصلاح کیا ہے اور وہ ۲۰ویں سے ۱۰ پائیدان کی چھلانگ لگا کر دسویں نمبر پر آگئے ہیں۔ بمراہ سے آگے آسٹریلیا کے مشل اسٹارک، جنوبی افریقہ کے عمران طاہر اور آسٹریلیا کے جوش ہیزولڈہیں۔بمراہ کے 687ریٹنگ پوائنٹ ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ ون ڈے میں ہندوستان کے ٹاپ رینکنگ گیندباز بن گئے ہیں۔ ہاردک پانڈیا دو مقام کی بہتری کے ساتھ 61 ویں، کلدپ یادو 21 پائیدان کی چھلانگ کے ساتھ 89 ویں اور یوجوندر چہل 55 پائیدان کی چھلانگ لگا کر 99 ویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ٹیم رینکنگ میں ہندوستان تین پوائنٹ کے فائدے کے باوجود تیسرے نمبر پر ہے ۔ آسٹریلیا 117 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ،جنوبی افریقہ 119 پوائنٹس کے ساتھ چوٹی پر ہے ۔ سری لنکا کی ٹیم 86 پوائنٹس کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہے ۔

ثانیہ مرزا کی جیت کا سلسلہ جاری

0

یو ایس اوپن ٹینس ٹورنامنٹ کے کوارٹر فائنل میں جگہ بنالی

یواین آئی

نیویارک؍؍ہندوستان کی اسٹار کھلاڑی ثانیہ مرزا نے یو ایس اوپن ٹینس ٹورنامنٹ میں خواتین کے ڈبلز میں جبکہ روہن بوپنا نے اپنی جوڑی دار کے ساتھ مکسڈ ڈبلز کے کوارٹر فائنل میں داخلہ حاصل کر لیا ہے لیکن مردوں کے ڈبلز میں لینڈر پیس اور پورو راجہ کی ہندستانی جوڑی شکست کھاکر باہر ہو گئی ہے ۔ثانیہ اور چین کی پینگ شوائی کی چوتھی سیڈ جوڑی نے کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون ڈبلز کے تیسرے راؤنڈ میں سورانا سرسٹیا اور سارہ سوربس ٹرمو کی جوڑی کو تین سیٹ کی سخت جدوجہد میں 6۔2، 3۔6، 7۔6 سے شکست دے کر کوارٹر فائنل میں جگہ بنالی ۔اگرچہ ہندوستانی چینی جوڑی کو دو گھنٹے اور 15 منٹ تک جیتنے کے لئے سخت محنت کرنا پڑی تھی، دوسرے سیٹ کو کھونے کے بعد، انہوں نے حتمی سیٹ میں بہترین واپسی کی اور میچ کو اپنے حق میں کیا۔چوتھی سیڈ جوڑی نے میچ میں تین ڈبل فالٹ کئے اور 31 بے جا بھولیں کیں ۔ لیکن 12 میں سے چھ بار حریف جوڑی کی سروس بریک کی جبکہ حریف جوڑی نے میچ میں 41 ونرس لگائے لیکن انہوں نے 10 ڈبل فالٹ کئے جس سے میچ ثانیہ،شوائی کے حق میں ہو گیا۔ثانیہ نے مکسڈ ڈبلز میں ہارنے کے بعد جہاں اپنا چیلنج خواتین کے ڈبلز میں برقرار رکھا ہے تو وہیں بوپنا نے مرد ڈبلز میں ہارنے کے بعد مکسڈ ڈبلز میں اپنا چیلنج برقرار رکھتے ہوئے کینیڈا کی گیبریلا ڈابرووسکي کے ساتھ کوارٹر فائنل میں داخلہ حاصل کر لیا۔بوپنا اور گبرییلا کی ساتویں سیڈ جوڑی نے اسپین اور امریکی ماریا جوس ماریناز سنچنز اور نکولاس منرو کو مسلسل سیٹ میں 6۔3، 6۔4 سے شکست دے کر اپنا میچ جیت لیا۔اگلے راؤنڈ میں، وہ اب مائیکل وینس اور چن ہاؤ چنگ جوڑی کا سامنا کریں گے ۔تاہم، مردوں کے ڈبلز میں، لینڈر پیس اور پورو راجہ کی جوڑی نے دوسرے دور میں شکست کے ساتھ اپنا سفر مکمل کیا ۔ آئرش روبیل اور کیرن ختنانوف کی جوڑی نے انہیں مسلسل سیٹ میں 4۔6، 6۔7 سے شکست دی۔

یوم اساتذہ : آج بھی زیادہ تر استا د پیسے کو اہمیت نہیں دیتے ہیں

0

فیروز بخت احمد

26984517

آج تما م ا سکولوںاور کالجوں و دیگر تعلیمی اداروں میں "یو م اسا تذہ” منا یا جا رہا ہے۔کچھ طا لب علم اپنے استا دوں و استا نیوںکو بطور تعظیم پھول یا مبا رکبا دی کارڈ پیش کریںگے۔تمام تعلمی اداروں میں استا دوں کی اہمیت پر تقار یر کی جا ہیںگی اور کئی جگہ دعوتیں بھی ہوںگی ۔اس قسم کی تقریبا ت ہرسال ہوا کرتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے نے اساتذہ کو وہ مقام اور احترام دیا ہے جو ان کا مقدر ہے ؟ ہوتا یہ ہے کہ ہر سال ’’یوم اساتذہ‘‘ پر محض ایک ڈرامہ سا ہو جاتا ہے اور استادوں کو یہ تسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سماج میں ان کا بڑا وقار وعزت ہے ۔ مگرحقیقت کچھ اور ہی ہے ۔پچھلے دنوں جنوبی ہند سے نکلنے ایک انگریزی روزنامے میں ایک مضمون شائع ہوا تھا کہ خواتین کو کس طرح کے مرد شادی کے لئے در کار ہیں۔ایک سروے اس سلسلے میں کیا گیا جس میں انھوں نے بزنس، کارپوریٹ ہائوسزکے افسران ، سول سروسز،ڈاکٹروں،انجینئروں وغیرہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی ۔جہاں تک اساتذہ کا تعلق تھا،خواتین کی فہرست میں یہ آخری چوائس تھی۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ استادوں کا کیا مقام رہ گیا ہے ہمارے سماج میں۔
دراصل اس میں اساتذہ کا اتنا قصور نہیں ہے جتنا ان ذہن ساز افراد یا تنظیموں کا کہ جو ہر چیز کو روپیہ پیسہ ودولت کے اعتبار سے پرکھتے ہیں ۔حالانکہ زمانے کا مزاج کچھ یہی بن گیا ہے کہ ہر چیز کو روپیے کی افراط کی ترازو پر تولا جاتا ہے۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ استادوں کی گھروں میں اکثر ان کی فیملی کے مختلف ممبر یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ استاد بن کر آپ نے کون سا تیر مار لیا ،پیسہ کمانا آپ کے بس کا نہیں، ایمانداری سے آپ گھر کیسے چلا لیں گے وغیرہ ۔اس قسم کی ذہنیت کا اثر یہ ہوا کہ استاد بھی اس بات کو سوچنے لگے کہ واقعی یہ بات صحیح ہے اور وہ ٹیوشن وغیرہ کے چکروں میں پڑنے لگے۔پھر بھی زیادہ تر استاد ایسے نہیں ہیںکہ جو پیسے کو اہمیت دیتے ہیں ۔ان کے نزدیک درس وتدریس کا سلسلہ تبلیغ کی طرح ہے کہ جس میں خدا کی رضا دیکھی جاتی ہے نہ کہ یہ بات کہ ان کا بینک بیلنس کتنا ہے یا یہ کہ وہ اسے کتنا بڑھا سکتے ہیں ۔
۶۶۔۱۹۶۴ء؁ کی کوٹھاری کمیشن کی رپورٹ میں اساتذہ کو کتنی اہمیت دی گئی ہے، اس بات کا اندازہ اس رپورٹ کے اس پہلے جملہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں تحریر کیا گیا ہے، ’’ہندوستان کے مقدّر کی تشکیل اس کے کلاس رومز میں ہو رہی ہے ۔‘‘یہ کوئی عام جملہ نہیں ہے بلکہ اس کے معنیٰ میں بڑی گہرائی ہے۔رپورٹ میں یہ بات بالکل بجا کہی گئی ہے کہ آزاد ہندوستان کا مستقبل ہمارے اساتذہ کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ملک کی تعلیمی، سائنسی، سماجی، جمہوری و فنّی ترقّی کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ اساتذہ کی اہمیت کو سمجھا جائے اور خود اساتذہ اس بات کو سمجھیں کہ ملک کی قسمت میں چار چاند لگانے کا اہم کام وہی کر سکتے ہیں۔
تمام نظامِ تعلیم میں کلاس روم میں تدریس کا کام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم سبھی اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ معاشرہ اور ملک کے مفاد میں سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ بچوں کو سب سے اچھی تعلیم دی جائے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کی جسمانی، اخلاقی، ذہنی، روحانی اور سماجی تربیت کو بھی اہمیت حاصل ہونی چاہیے کیوں کہ یہ تمام چیزیں کسی بھی بچہ کی روحانی نشونما کے لیے ازہد کارگر ہوتی ہیں۔
کلاس روم میں محض اُستاد کا جانا ہی خود میں بڑی بات ہوتی ہے کیوں کہ بچے اُس کی ہر بات کو بغور نوٹ کرتے ہیں چاہے وہ اُس کا جماعت میں داخل ہوکر، چل کر اپنی سیٹ پر بیٹھنا ہو یا سیدھے بلیک بورڈ تک جانا ہو۔بچے ہر چیز کو بڑے غور کے ساتھ دیکھتے ہیں اور اس حد تک کہ وہ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ اُستاد کی قمیض یا کُرتہ میں کس طرح کے بٹن لگے ہیں یا یہ کہ اُس کے جوتے چپّل چمک رہے ہیں۔ یہ تو خیر معمولی سی تفصیلات تھیں مگر سچّائی تو یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی سطح تک ایک اچھے اُستاد کا ملنا بہت دشوار سا ہو گیا ہے۔
جیسا کہ پہلے بھی ہم عرض کر چکے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ دور مادّیت کا دور ہے اور اس میں زیادہ تر لوگ بجائے اُستاد بننے کے دوسرے پیشوں کو اپنانا زیادہ پسند کرتے ہیں جیسے ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، سول سروسز، چارٹر اکائونٹنٹ، بزنس منجمنٹ، صحافت،تجارت وغیرہ۔ ایسا دیکھا جارہا ہے کہ تدریس کا کام وہی شخص کر رہا ہے کہ جو شوق کے نہیںبلکہ مجبوری کے تحت اس جانب آیا ہے۔ اس دور میں اُستادی کے فن کی اہمیت اتنی گھٹ گئی ہے، اس بات کا اندازہ ہم اس سے کر سکتے ہیں کہ مختلف اخبارات میں آئے دن’’میٹریمونیل‘‘(matrimonial) اشتہارات شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں دولہا کی ڈمانڈ کے لیے پیسے والے لوگوں کی چاہت رہتی ہے۔ مگر یہ لائن کہیں پڑھنے کو نہیں ملتی کہ شادی کے لیے اُستاد کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ سماج میں بھی آج اُستاد کا وہ مقام نہیں جو کہ آج سے پچاس برس قبل تھا کہ گائوں، قصبہ میں اگر ایک ماسٹر جی ہوا کرتے تھے تو کوسوں دور اُن کا نام بڑی عزّت کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ اساتذہ کا المیہ یہ ہے کہ اُنہیں آج کوئی نہیں پوچھتا۔
اب سماج میں ایسا سوچا جانے لگا ہے کہ جو شخص ہر طرف سے ناکامیاب ہو جاتا ہے ، وہ ٹیچر بن جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے مگر دنیا ایسا ہی سوچتی ہے۔ پھر پڑھانے سے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ درس و تدریس کے لیے کسی خاص ڈگری کی ضرورت نہیں اور یہ کہ ہر وہ شخص بچوں کو پڑھا سکتا ہے کہ جو اُن سے معلومات میں چند قدم آگے ہوتا ہے۔ بچے کا کام تو بس سیکھنا ہوتا ہے اور ماسٹر کا کام پڑھانا۔ لہٰذا کیا پڑھانا اور کیا پڑھنا۔ یہ تو ایک بہت عام بات ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس فن کے بارے میں اس طرح سے سوچ لینا ایک بڑی غیر مناصب سی بات ہے کیوں کہ اُستاد کا فن کوئی چھوٹا موٹا ذریعہ معاش نہیں۔ یہ تو صحیح معنوں میں ڈاکٹری یا انجینئری کی طرح ہی ایک پروفیشنل لائن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُستاد ہی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اُسے کس کو پڑھانا ہے، بچوں کی عمر کیا ہے، اُن کی قابلیت کیاہے، اُن کی خوبیاں و کمزوریاں کیا ہیں اور یہ کہ وہ کس طرح کے ماحول سے آ رہے ہیں۔ اُس کے بعد یہ دیکھنا بھی بہت اہم بات ہے کہ کس بچّے میں کس موضوع کے لیے کتنی صلاحیت ہے یا یہ کہ وہ مستقبل میں کس سمت میں جانا چاہے گا۔یہ اُستاد ہی ہے جو کہ کسی بھی شخص کو کامیابی کی بلندیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔اگر اُستاد اس بات پر عبور نہ رکھے کہ کس مضمون میں اور کس موضوع پر کتنی گہرائی سے طلبہ کو سمجھانا ہے، تو اُس کی محنت رائیگاں جائے گی۔
ایک اچھے اُستاد کی نشانی ہے کہ وہ اپنے مضمون پر عبور تو رکھتا ہی ہے، ساتھ ہی بچّوں کو اپنے طور طریقوں پر ڈھال لیتا ہے۔ ویدک سوسائٹی میں تو بچوں کے لیے اُستاد کا وجود ایک دیوتا کی طرح ہوتا ہے کہ جسے بچے پوجنے لگتے ہیں اور اُس کی ہر بات کو سہی جانتے ہیں۔ اچھے اُستاد کو عام طور پر اس بات کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ اپنے طلبہ کو ڈانٹ ڈپٹ، غصّہ اور جھنجھلاہٹ سے پیش آئے یا اُن کو سزا دے۔ اگر ایک اُستاد کا ہر کلاس میں یہی رویہ ہے تو یہ باتیں خود اُس کی خامیوں کو عیاں کرتی ہیں۔ جہاں تک اُردو میڈیم اسکولوںکا تعلق ہے، جب بھی کسی اسکول کی انتظامیہ سے سابقہ پڑا تو یہی سننے کو ملا کہ اچھے و تربیت یافتہ اُستاد بڑی دُشواری سے ملتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ ہمارا اُردو میڈیم کا نظامِ تعلیم پورا کاپورا درہم برہم ہے۔ کہ جس میں اگر کوئی اُّستاد بن بھی جاتا ہے تو وہ اپنی قابلیت کی بنا پر اُستاد نہیں بنتا بلکہ امتحانوں میں نقل کر کے یا اس قسم کی دیگر باتوں سے جیسے کچھ پیسہ دے کے ڈگری خرید لینا وغیرہ سے ہی آگے بڑھتا ہے۔ لہٰذا اس قسم کا اُستاد بچوں کو کس طرح سے قابل بنا سکتا ہے؟ ایک اُردو میڈیم اسکول میں ایک عجیب واقعہ دیکھنے کو ملا کہ جب پرنسپل صاحب رائونڈ پر نکلے تو اُنہوں نے پایا کہ بریک یعنی آدھی چھٹّی کے بعد ایک اُستاد بجائے اپنی کلاس لینے کے اسٹاف روم میں قریب کے ہوٹل سے منگائی گئی نہاری کے چٹخارے لے رہے تھے۔ پرنسپل صاحب نے باز پرس کی تو حضرت اُستاد بولے، ’’توفوراً یہاں سے دفعہ ہوجا ہماری نہاری کا مزہ خراب نہ کر۔‘‘ اب جب اساتذہ کا یہ معیار ہو جائے گا تو وہ بچوں کو کیا پڑھائیںگے اور بچے اُن سے کیا تعلیم حاصل کریں گے۔اچھے اُستادوں کی کمی کی ایک دیگر وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کو مناسب معاوضہ نہیں ملتا ۔ جو اُستاد ایمانداری و جفا کشی اور محنت کے ساتھ تدریس کے عمل میں سرگرم رہتے ہیں، اُن کو بھی مناسب تنخواہیں نہیں دی جاتیں لہٰذا ہوتا یہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد وہ بھی عام و معمولی اُستادوں کی طرح ہی کام سے جی چُرانے لگتے ہیں۔ کچھ اساتذہ اپنی کم تنخواہ کی وجہ سے ٹیوشن کا کام شروع کر دیتے ہیں جس سے وہ اتنے تھک جاتے ہیں کہ اگلے روز جماعت میں آکر وہ اپنے فنِ تدریسی کا بہترین مظاہرہ نہیں کر پاتے۔
جہاں تک اساتذہ کے انتخاب کا تعلق ہے، کسی سفارش یا دوسری باتوں یا پیر پریشر کا لہاذ نہیں رکھنا چاہیے ایک ناقص اُستاد ہزار ہا طلبہ کی زندگی خراب کر سکتا ہے۔ اُسی طرح سے اگر اُستاد قابل ہو تو پوری ایک نسل اُس کی ذات سے فیضیاب ہوتی ہے۔ منجمنٹ کے لوگوں کو اس بات کا اشد دھیان رکھنا چاہیے کہ جس اُستاد کو اسکول میں پرنسپل کی جگہ دی گئی ہے، وہ اس کے لائق بھی ہے یا نہیں۔ عام طور سے ہندوستان کے تعلیمی قوانین کے مطابق ہوتا یہ ہے کہ سینیارٹی کے اعتبار سے کسی بھی اسکول میں پرنسپل کا تقرر ہوتا ہے۔ اس میں اکسر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پرنسپل ناقص اور نالائق قسم کے کُرسی پر جم جاتے ہیں اور کئی ہزار بچوں کی زندگی کو برباد کر دیتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہو کہ پرنسپل نہ صرف سینیارٹی بلکہ صلاحیت کے اعتبار سے بھی قابلیت رکھتا ہو اور اپنے اسٹاف کے لوگوں میں اُس کی عزّت بھی ہو۔ اگر پرنسپل کے اندر کچھ خامیاں ہوںگی تو یہ ظاہر سی بات ہوگی کہ دیگر اساتذہ و اسٹاف اُس کے کنٹرول میں نہیں آئیںگے۔اچھے اُستاد کسی بھی تعلیمی ادارے کی شان ہوتے ہیں اور اُن کی اپنے طالبِ علموں و سماج میں بے تحاشہ عزّت بھی ہوتی ہے۔ (راقم مولانا آزاد کے پوتے ہیں)lll