الرئيسية بلوق الصفحة 13

سرمد حفیظ نے جموں میں 68 ویں نیشنل سکول گیمز کا اِفتتاح کیا

0

کہا اس طرح کی تقریبات اتحاد اور کھیلوں کی مہارت کو فروغ دیتی ہیں

لازوال ڈیسک

جموں؍؍سیکرٹری اَمورِ نوجوان و کھیل کود محکمہ سرمد حفیظ نے آج یہاں ایم اے سٹیڈیم میں 68ویں نیشنل سکول گیمز کا اِفتتاح کیا۔جوڈو اَنڈر 17 لڑکوں کے زُمرے پر مشتمل یہ کھیل ان مقابلوں کی سیریز کا حصہ ہے جن کی میزبانی جموں و کشمیر چار کھیلوں جوڈو، ووشو، فینسنگ اور فٹ بال میں کر رہی ہے۔ملک بھر سے پینتیس (35) ٹیمیںجن میں تقریباً 350 ایتھلیٹس شامل ہیں، اَپنی مہارت اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلی اعزازات کی خاطر مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

https://jkgad.nic.in/common/iasOfficer.aspx?Id=303
سرمد حفیظ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اَمورِ نوجوان و کھیل کود محکمہ کی کامیابیوں اور سرگرمیوں کو سراہا۔اُنہوں نے ملک بھر سے آنے والے شرکأ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی تقریبات اتحاد اور کھیلوں کی مہارت کو فروغ دیتی ہیں۔سیکرٹری نے جموں و کشمیر میں اس طرح کی تقریبات کی میزبانی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی تقریبات کھیلوں کو فروغ دینے ، امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے علاوہ سیاحت کو بھی فروغ دیتی ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اِس طرح کے ایونٹ خطے کی قومی سطح کے کھیل مقابلوں کی میزبانی کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ڈائریکٹر جنرل اَمورِ نوجوان او رکھیل راجندر سنگھ تارا نے اَپنے اِستقبالیہ خطاب میں امید ظاہر کی کہ شرکأ جموں و کشمیر میں گزارے گئے اَپنے وقت کا لطف اُٹھائیں گے اور ٹورنامنٹ کی دیرپا یادیں اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔اُنہوں نے کہاکہ کھیلوں کے دوران زائد اَز 4,000 شرکأ مختلف شعبوں میں حصہ لیں گے اورجموںوکشمیر کے اُبھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی حوصلہ اَفزائی کرنے اور یونین ٹیریٹری میں کھیلوں کو فروغ دینے کے عزم پر زور دیا۔یہ بات قابلِ ذِکر ہے کہ 68 ویں نیشنل سکول گیمز نوجوان ایتھلیٹوں کے لئے ایک دلچسپ پلیٹ فارم بننے کا وعدہ کرتی ہیں جس سے رِیاستوں میں سپورٹس مین شپ اور بھائی چارہ کو فروغ ملے گا۔

https://lazawal.com/?cat=

جاوید احمد ڈار نے عوامی نمائندوں اور مختلف وفود سے ملاقات کی

0

لوگوں کو بروقت شکایات کے اَزالے اور فوری خدمات کی فراہمی کی یقینی دہانی کی

لازوال ڈیسک
سری نگر؍؍وزیر برائے زرعی پیداوار اور دیہی ترقی و پنچایتی راج جاوید احمد ڈار نے آج یہاں سول سیکرٹریٹ میں مختلف قانون سازوں اور مختلف عوامی وفود سے ملاقات کی۔اُنہوں نے نمائندوں کی جانب سے اُٹھائے گئے مطالبات اور مسائل کوبغور سنا اور حقیقی مسائل پر فوری کارروائی کا یقین دِلایا۔وزیر موصوف نے ملاقاتوں کے دوران عوامی شکایات کے مؤثر ازالے اور عوام الناس تک خدمات کی فراہمی کی اہمیت پر زور دیا۔ جاوید احمد ڈار جو الیکشن اور کوآپریٹیو محکموں کے وزیر بھی ہیں، نے کہا کہ عوامی شکایات حکومتی پروگراموں اور پالیسیوں کی کارکردگی کے بارے میں قیمتی آرأ فراہم کرتی ہیں جس سے حکومت کو مؤثر طریقے سے فراہمی اور نچلی سطح پر بہتری کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Javid_Ahmad_Dar
اُنہوں نے یقین دِلایا کہ تمام حقیقی مسائل کو بروقت حل کرنے کے لئے متعلقہ حلقوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا اوراِس کے علاوہ عوام الناس تک مؤثر خدمات کی فراہمی پر بھی زور دیا۔متعلقہ افسران کو اُن کے مسائل کے بروقت حل کے لئے موقعے پر ہی ہدایات بھی دی گئیں۔وزیرموصوف سے ملاقات کرنے والے اراکین اسمبلی میں ایم ایل اے گریز نذیر احمد خان، ایم ایل اے پہلگام الطاف احمد وانی، ایم ایل اے چاڈورہ علی محمد ڈار، ایم ایل اے خانصاب سیف الدین بٹ، ایم ایل اے کٹھوعہ راجیو جسروٹیہ، ایم ایل اے بیروہ ڈاکٹر محمد شفیع، ایم ایل اے بارہمولہ جاوید احمد بیگ اور ایم ایل اے بانڈی پورہ ہلال احمد لون شامل ہیں۔اُنہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت مسائل کے بروقت حل اور مؤثر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عوام کے اعتماد کو فروغ دینے اور جموں و کشمیر کے عوام کے لئے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کو یقینی بناتے ہوئے مؤثر حکمرانی اور عوامی اطمینان پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے پُرعزم ہے۔

https://lazawal.com/?cat=

عارف نقوی جیسے لوگ ادب کی خدمت کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں: پروفیسر قدوس جاوید

0

عارف نقوی کے چھوڑے ہوئے ادبی کاموں کو آگے بڑھاناسچا خراج ہوگا: پروفیسر صغیر افراہیم

عارف نقوی نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمیشہ نئی نسل کو آگے بڑھایا جائے:پروفیسر ریشما پروین

عارف نقوی کا جانا اردو ادب اور تہذیب کا بڑا نقصان ہے: پروفیسر فاروق بخشی

شعبہئ اردو میں ادب نما کے تحت معروف ادیب و شاعر عارف نقوی کی یاد میں تعزیتی جلسے کا آن لائن و آف لائن انعقاد

میرٹھ
عارف نقوی صاحب کے چھوڑے ہوئے ادبی سرمائے کو مطالعے میں لایا جائے اور ان پر تحقیقی کام کرایا جائے۔یہ ان کے لیے بڑا سچا خراج ہوگا۔ وہ ترقی پسند تحریک کے اہم ارا کین میں سے ایک تھے۔عارف نقوی جیسے لوگ ادب کی خدمت کے لیے ہی پیدا ہوتے ہیں۔یہ الفاظ تھے معروف ناقد پروفیسر قدوس جاوید کے جو شعبہئ اردو اور آ یوسا کے ذریعے منعقد معروف ادیب و شاعر اور ڈراما نگار عارف نقوی،جرمنی کی یاد میں تعزیتی جلسے میں اپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Arif_Naqvi
اس سے قبل پرو گرام کا آغاز آف لائن صبح ساڑھے گیارہ بجے شعبہئ اردو کے پریم چند سیمینار ہال میں ایم۔ اے سال اول کے طالب علم محمد اکراماللہ نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔ ہدیہئ نعت بی۔ اے آنرز کے طالب علم محمد عیسیٰ نے پیش کیا۔اس سیشن کی نظامت کے فرائض شعبے کے استاد ڈاکٹر آصف علی نے انجام دیے۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سابق آئی جی آر کے بھٹنا گر نے کہا کہ آج مجھے بڑے فخر کا احساس ہو رہا ہے کہ عارف نقوی صاحب نے جرمنی میں رہ کر ہندوستان کا نام خوب روشن کیا اور وہ92سال کی عمر میں بھی بڑی دلجمعی اور سنجیدگی سے ادب اور سماج کے لیے کام کرتے رہے۔ واقعی یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ہمیں اس طرح کے لوگوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔بھارت بھوشن شرما نے کہا کہ عارف نقوی بہت ہی شریف النفس انسان تھے۔ ان کی تخلیقات ان کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی اور ہما ری خوا ہش ہے کہ ان کے ادبی سرمائے کو ہندی زبان میں بھی منتقل کیا جائے اور ہندی والے بھی ان کے چھوڑے ہوئے سرمائے سے فیض یاب ہوں۔ آفاق احمد نے کہا کہ عارف نقوی لکھنؤ کے تھے اور وہ لکھنوی تہذیب کی بہترین نمائندگی کرتے تھے، ان کی انکساری، شگفتگی، نرم لہجہ، انسان دوستی کمال کی تھی اور ان کا بڑا کار نامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ اسپورٹس میں کیرم بورڈ کو جرمنی میں متعارف کرایا۔باری تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔انل شر ما نے کہا کہ لکھنؤ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جرمن میں اپنا وجود بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا مگر عارف نقوی نے ایسا کر کے ایک شاندار مثال قائم کی کہ محنت، لگن اور ایمانداری سے سب کچھ ممکن ہے۔ انہوں نے ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ ریڈیو، اسٹیج، ہدایت کاری، کیرم بورڈ کا فروغ کے لیے بھی بہت کام کیے۔ ہم کو ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔
آن لائن پروگرام دو پہر دو بجے سے سعید احمد کی تلا وت کلام پاک سے شروع ہوا۔صدارت کے فرا ئض ایو ساکی صدر پروفیسر ریشما پروین نے انجام دیے۔عارف نقوی کا تعارف ڈاکٹر شاداب علیم، نظا مت عر فان عارف جموں نے اور شکریے کی رسم ڈاکٹر سیدہ مریم الٰہی نے ادا کی۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف ادیب و ناقد پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ عارف نقوی صاحب کا جانا ادب کا ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کا نقصان ہے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ جو دنیا میں آ یا ہے اس کو جانا ہی ہے مگر ان کا جانا ہم سب کا نقصان ہے۔
پروفیسر فاروق بخشی نے کہا کہ لکھنؤ،دہلی، حیدر آ باد اور میرٹھ میں ان سے کئی بار ملا قاتیں ہوئیں۔ حیدر آ باد سے بھی ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔ ان کا جانا اردو ادب اور تہذیب کا بڑا نقصان ہے۔ اب ایسا کوئی شخص نظر نہیں آ تا جو عارف صاحب کے مقا بل ہو۔انہوں نے ادب اور تہذیب کے لیے جو کام کیا اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ عارف نقوی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ہر میدان میں میر کارواں کی حیثیت رکھتے تھے۔میں نے اپنی زندگی میں پروفیسر زماں آزردہ اور عارف نقوی کو ہی ایسا پایا کہ جس محفل میں موجود ہو تے پوری محفل ان کی گرویدہ ہوجاتی اور ایسا محسوس ہوتا کہ وہ شاید اسی مجلس کے لیے موزوں ترین انسان ہیں۔ وہ سنجیدہ ادبی لوگوں میں جہاں دانشور نظر آ تے وہیں وہ بچوں میں بچے۔ حتیٰ کہ وہ غیر تعلیم یافتہ طبقے میں بھی بیٹھ جاتے تھے تو ان کے ہم مزاج نظر آ تے۔ ان کا جانا نہ صرف ادبی دنیا یاہندو جرمن کا ہی نہیں پوری انسانیت کا خسارہ ہے۔معروف افسانہ نگار ارشد منیم نے کہا کہ عارف نقوی کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہے گی۔میرا ان سے ملنا خوش بختی کی علامت تھا جسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔معروف غزل سنگر مکیش تیواری نے کہا کہ عارف نقوی صاحب پر ایک بڑا پروگرام ہونا چاہئے۔ میرٹھ میں میری جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑے پیار اور محبت سے ملے اور میری غزلیں بھی محبت سے سنیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کی یاد میں ایک بڑا جشن ہونا چا ہئے۔معروف افسانہ نگار رقیہ جمال نے کہا کہ ہمیں آج بڑا افسوس ہے کہ ہم نے اردو کی ایک بڑی شخصیت کو کھو دیا ہے۔میں نے اکثر ادب نما کے پرو گرام دیکھے اور سنے ہیں۔وہ بہت ہی محبت سے پروگرام میں شامل رہتے تھے۔ڈاکٹر الکا وششٹھ نے کہا کہ آج کی محفل بڑی اداس لگ رہی ہے۔کیو نکہ آج وہ ہماری محفل میں شریک نہیں ہیں۔ ان کا وجود ہمارے لیے بہت اہم تھا۔ان کی کمی کو کبھی پورا نہیں کیا جاسکتا۔ڈاکٹر شاداب علیم نے کہا کہ ایو سا کے سر پرست اور بابائے اردو عارف نقوی کا جانا ہمارے لیے اتنا بڑا نقصان ہے کہ اس کمی کو کبھی بھی پورا نہیں کیا جاسکے گا۔
عارف نقوی کی صاحب زادی نرگس عارف نے کہا کہ میں بہت شکر گزار ہوں کہ میرے والد کی یاد میں یہ تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری ہمارے والد کے اچھے دوستوں میں سے تھے۔ میں شعبہئ اردو کے تمام اراکین کی شکر گزار ہوں۔
لندن سے فہیم اختر نے کہا کہ عارف نقوی تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔ دیگر مذہبی کاموں کو بھی احسن طریقے سے نجام دیتے تھے۔ عارف نقوی صرف ایک نام ہی نہیں ہے بلکہ ادب کا ایک بڑا مرکز تھے۔ ادب نما کا پلیٹ فارم خالی ہوگیا ہے۔لکھنؤ سے عاصم رضا نے کہا کہ میرے ماموں شارب رودولوی کے بچپن کے دوست تھے۔ ان کے ذریعے کھولے گئے کالج کی بھی عارف نقوی نے بہت مدد کی۔ ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
جرمنی سے عشرت معین نے کہا کہ عارف نقوی اور ان کے خاندان سے ہمارا بڑا قریبی رشتہ رہا ہے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ نئی نسل کو آگے بڑھایا جائے۔ اردو ادب کے سفر میں عارف نقوی ہمیشہ ساتھ رہے۔ان کی خواہش تھی کہ جرمنی میں ادب کے ایک بڑے پروگرام کا انعقاد ہو۔
پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ عارف نقوی کے چھوڑے ہوئے ادبی کاموں کو آگے بڑھانا۔ سچا خراج ہوگا۔اردو کی مقبولیت کے لیے آپ نے جو کام انجام دیے انہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر ریشما پروین نے کہا کہ عارف انکل کے جانے کا یقین نہیں ہو تا۔ان کے اندر عاجزی و انکساری اتنی تھی کہ لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ میں ان کو انکل ہی کہا کرتی تھی۔ ایسا محسوس ہو تا تھا کہ وہ انسان نہیں بلکہ انسان کی شکل میں فرشتہ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ترقی پسندی کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتی۔ عارف انکل ہمیشہ ہما رے دلوں میں زندہ رہیں گے۔جس طرح سے ادب نما کے تمام پروگراموں کو کامیاب بنانے میں عارف نقوی صاحب نے ہمارا ساتھ دیا۔ اس طرح سے کوئی دوسرا فرد ساتھ نہیں دے سکتا تھا مگر عارف نقوی نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمیشہ نئی نسل کو آگے بڑھایا جائے۔ عارف نقوی نے جانے سے قبل ایک نئی نسل کو تیار کیا ہے۔ ہمیں ان کے مقاصد کو سمجھنا چاہئے اور ہمیں چاہئے کہ ہم عارف نقوی کے نام سے ایک ایوارڈ جاری کریں۔
پروگرام سے ڈاکٹر سیدہ خان، عمر فاروق، پروین شجاعت، جہانگیر روش، سفینہ خان،ندھی کنسل،صبیحہ، شہناز، سیدہ مریم الٰہی،علما نصیب،شہناز پروین، عظمیٰ سحر،شاہ زمن، محمد شمشاد،عمائدین شہر اور طلبہ و طالبات جڑے رہے۔

https://lazawal.com/?cat=

عبوری حکومت بنگلہ دیش میں ہندوؤں کو تحفظ فراہم کرے: ہندوستان

0

لازوال ویب ڈیسک

نئی دہلی، // ہندوستان نے بنگلہ دیش کے چٹاگانگ میں ہندو اقلیتوں پر حملے اور لوٹ مار کی مذمت کرتے ہوئے وہاں کی عبوری حکومت سے مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے اور ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپیل کی ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال سے جب یہاں ایک باقاعدہ بریفنگ میں بنگلہ دیش کے واقعات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ چٹاگانگ میں ہندو برادری کو نشانہ بناتے ہوئے سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز تبصرے کیے جانے کے بعد کافی لڑائی ہوئی تھی۔ ہندو برادری کے لوگوں کے گھروں پر حملے اور لوٹ مار کی گئی جس کے پیچھے انتہا پسند عناصر کا ہاتھ تھا۔ یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

https://twitter.com/meaindia?lang=en
مسٹر جیسوال نے کہا "اس طرح کی چیزیں سماج میں توازن بگاڑتی ہیں اور تناؤ کو بڑھاتی ہیں۔ ہم بنگلہ دیش کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مجرموں کے خلاف کارروائی کرے اور ہندوؤں کو تحفظ فراہم کرے۔
بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے اسٹیٹس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے واضح کیا کہ ہندوستان کی نظر میں محترمہ حسینہ ایک ‘سابق وزیر اعظم’ ہیں۔

https://lazawal.com/?cat=

ایوان کے تقدس کو پامال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی : سپیکر عبدالرحیم راتھر

0

لازوال ویب ڈیسک

سری نگر//جموں وکشمیر اسمبلی کے سپیکر عبدالرحیم راتھر نے بی جے پی ممبران کو آخری وارننگ دیتے ہوئے کہاکہ اگر آپ نے اس طرح کا رویہ جاری رکھا تو سخت اقدامات اٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق جمعرات کی صبح جوں ہی اسمبلی کی کارروائی شروع ہوئی تو اس دوران بی جے پی کے ممبران نے ہنگامہ کیا ۔ سپیکر عبدالرحیم راتھر نے ممبران کو یقین دلایا کہ ان کی بات کو سنا جائے گا لیکن بھاجپا نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Abdul_Rahim_Rather_(born_1944)
اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے کئی مرتبہ ممبران کو سمجھایا کہ وہ شور اور ہنگامہ نہ کرئے اگر آئندہ بھی بی جے پی ممبران نے ایسا رویہ جاری رکھا تو سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اسپیکر نے بی جے پی ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ آپ اسمبلی رولز کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور اس کو اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔

https://lazawal.com/?cat=

ملک میں ہماری ملی قیادت

0

محمد اعظم شاہد

سال 1986 ،بنگلور میں معروف صحافی، مدیر ہفت روزہ ’’نئی دنیا‘‘دہلی جناب شاہد صدیقی سے میں نے ایک انٹرویو کیا تھا۔مختلف موضوعات پر بات کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ ملک میں مسلم قیادت کا شدید بحران ہے۔ملت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے ۔باہمی اعتماد اور اتحاد ہم سے دور ہوگئے ہیں۔اسی لیے کوئی ایک بھی ایسی شخصیت ہمارے درمیان نہیں ہے ،جو ہماری قیادت کرے،ہماری رہنمائی کرے ۔اب بھی یعنی 38 سال گزرجانے کے بعد بھی ملک میں حالات ایسے ہیں کہ مسلم قیادت کا بحران اپنی جگہ پر قائم ہے۔

https://minorityrights.org/communities/muslims-2/

مجھے یاد ہے جناب شاہد صدیقی نے مشورہ دیا تھا کہ اُردو اخبارات کو ملی قیادت کا فرض ادا کرنا ہوگا کیونکہ اخبارات نہ صرف ترسیل وابلاغ کا موثر ذریعہ رہے ہیں بلکہ یہ ہمارے شعورکو بیدارکرنے Conscience Keeper کا وسیلہ بھی رہے ہیں ۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کم وبیش ملک بھر میں شائع ہونے والے اردو اخبارات نے مسلم قیادت کا کردار بخوبی نبھایا ہے ۔یہ روش آج بھی قائم ہے ۔ ان اخبارات میں گذرتے حالات وواقعات کی خبروں کے ساتھ ہی قارئین کی ذہن سازی کے لیے مضامین، تبصرے اور تجزیئے بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو اخبارات پڑھنے والے ہمارے قارئین کی تعداد لگاتار گھٹتی ہی جارہی ہے ۔سوشیل میڈیا پلاٹ فارمس پر بھی ذہن سازی کا سلسلہ رواں دواں ہے۔ٹیکنالوجی میں تبدیلیوں کے زیر اثر انٹرنیٹ،موبائل فون، یوٹیوب، فیس بک اور واٹس ایپ پر بھی حالات سے آگہی حاصل کرنے کا چلن زور پکڑتا جارہا ہے۔ جہاں اچھے نتائج سامنے ہیں وہیں خرافات اور جذباتی معاملات میں الجھانے والے ویڈیوز اورپوسٹس نے خصوصی طورپر فیس بک اور واٹس ایپ پرشورمچایا ہوا ہے۔ اندھا دھند لوگ کثرت سے بیکار کی چیزیں شیئر کرنے میں آسودگی محسوس کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی نئی ایجادات سے فیض مند استفادہ کرنے پر بہت کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔

 

 

 

مسلم قیادت کے بحران کی جو صورتحال اب بھی برقرار ہے اس پر غورکریں تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ہم خود ہی وجہ Cause ہیں اور ہم ہی حاصل Effect ہیں ۔یعنی مسلم معاشرے میں لیڈر شپ کو پروان چڑھانے (قیادت سازی) کے رجحان کا ہمارے ہاں فقدان ہے۔اپنی اپنی ذات کے حصار میں قید احباب اپنے مفادات کے حصول اور اقتدار کی انفرادی نعمتوں سے سرفراز ہونے کے متمنی رہے ہیں، جو ہمارے نام نہاد قائدین (جبکہ منتخب سیاسی نمائندوں کو جنہیں قیادت سے کوئی سرورکار نہیں ہے) ہیں اکثریت ان میں ایسے کرم فرماؤں کی ہے جن کے پاس ملی کاذ کی پاسداری اور مسائل کی یکسوئی کے لیے نہ کوئی بصیرت ہے اورنہ ہی جستجو۔وہ اجتماعی فلاح کے جذبے سے بیزار اوربے نیاز ثابت ہوتے رہے ہیں۔یہی اہم وجہ رہی ہے کہ ملک میں قومی سطح پر ہمارا کوئی اپنا ہماری قیادت کیلئے ابھر کر آیا ہی نہیں۔البتہ ملک کی چند ریاستوں میں قابل مسلم نمائندے اُبھرے جنہوں نے نمائندگی کا حق ادا کیا اور ان کی احسن کارکردگی کے باعث قومی سطح پر بھی ان کی سیاسی شناخت قائم ہوئی۔ مگر خود ان کے ہی سیاسی پارٹیوں میں ان کے سرکردہ سینئر مسلم رہنماؤں نے ان کی ترقی کی راہوں میں رکاوٹیں پیدا کردیں ۔ اناپرستی اورذاتی کینہ پروری کے باعث خود ہمارے احباب ہی ہمارے اپنوں کی سرخروئی کی راہوں میں کانٹے بچھاتے رہے۔ اب ایسی صورتحال ہے تو سیاسی پارٹی جو بھی ہو وہ کس طرح مخالفتوں کے ماحول میں اپنے مسلم سیاسی کارکنان کو بڑھاوا دے گی۔
اسی آپسی خلفشار کے چلتے ہماری مسلم قیادت خانوں میں بٹ کر رہ گئی ہے ۔ ہماری مسلم نمائندے ریاستوں میں ہوں یا پھر قومی سطح پر جزیروں میں بٹ گئے ہیں ۔ دوسری جانب ملک کے مسلمان مسلم قیادت کے بحران سے مایوس ہوکر اپنی اپنی ریاستوں میں سیکولر سیاسی پارٹیوں میں قابل مسلم اُمیدوار ہوں تو انہیں یا پھر دیگر مذاہب کے سیاسی نمائندوں کی تائید کرنے میں عافیت محسوس کرنے لگے ہیں۔یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ ملک کے مسلمانوں میں عام طورپر بہت کم ہی ایسے افراد ہوں گے جو صالح سیاسی شعور کے حامل ہوں گے۔ اورایسے بھی ہیں جو الگ الگ سیاسی جماعتوں (پارٹیوں) کی شطرنج کی بساط پر مہرے بن کر کام کرتے ہیں ۔پہلے سے زیادہ اب حکومتوں کی فیصلہ سازی میں ہمارے نمائندوں کی ضرورت ہے۔ایوان اقتدار میں ہماری تعداد ہماری غلط اورناقص حکمت عملی کے باعث گھٹتی چلی جارہی ہے ۔ روشن خیال علمائے کرام وقتاً فوقتاً ملک کے مسلمانوں کو حالات سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔مگر مختلف جماعتوں کے زیر اثر اس شعبہ میں بھی اتفاق رائے اورحکمت عملی کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ملک میں مسلم دانشوروں ،سیاستدانوں اور علمائے کرام اور دیگر Stake holders ذمہ دار احباب میں باہمی مشاورت اور حکمت عملی کے لیے آپسی مسلط کردہ فاصلے واقع ہیں جو کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جاتے ہیں ۔ اجتماعیت کو انفرادیت پر فوقیت دینے کا رجحان جو بنیادی طورپر ہمارے ذمہ داروں، کے اذہان وقلوب کو جب چھولے گا تب اُمید ہے کہ حالات کچھ تو بدلیں گے۔
[email protected]

cell: 9986831777

https://lazawal.com/?cat=14

ملازمین اور حکومتی تال میل سے ہی عوام خدمت ممکن:فاروق عبداللہ

0

لازوال ویب ڈیسک

سری نگر// جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹرفاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ ملازمین اور حکومت ایک گاڑی کے پہئے ہوتے ہیں اسی بنیاد پر حکومتی مشینری صحیح ڈھنگ سے چل سکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ سرکار کے اعلیٰ حکام اور ادنیٰ اہلکار اسی تناظر میں لوگوں کی صحیح خدمت کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں اور ملازمین کو ہمیشہ دل کو اس بات کی جگہ کرنی چاہئے کہ ہم عوام خصوصاً غریب اور پسماندہ لوگوں کی خدمت کرنے کیلئے وقف ہوتے ہیں۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Farooq_Abdullah
ان باتوں کا اظہار موصوف نے اپنی رہائش گاہ پر آئے سرکاری محکموں کے نمائندوں سے خطاب کے دوران کیا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ملازمین وفد کے مشکلات اور مسائل غور سے سُنے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ اُن کے جائز مطالبات وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور متعلقہ وزراءکی نوٹس میں لاکر ان کا ازالہ کرانے کی حد درجہ کوشش کی جائے گی۔ ملازمین وفد نے اپنے اپنے مسائل و مشکلات اور مطالبات کو تحریری طور پر آگاہ کیا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ ملازمین دوست اقدامات اُٹھائے تاکہ سرکاری مشینری احسن طریقے سے چلے۔ نیشنل کانفرنس نے ہی یہاں لگ بھگ تمام پے کمیشن لاگو کئے، ریٹائرمنٹ کی حد 55سے 58اور پھر58سے60کرائی۔
انہوں نے کہاکہ ہماری حکومتوں کے وقت وقت پر ملازمین کے ایسے مطالبات کو پورا کیا جن کی مانگ وہ سالہاسال سے کررہے تھے۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے وفود سے کہا کہ گذشتہ برسوں کے دوران یہاں کے ملازمین کو کن کن مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرناپڑا ہے۔ باہر کی افسرشاہی نے یہاں کے ملازمین کو کس طرح سے تنگ اور ہراساں کیا اور ناروا سلوک روا رکھا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ملازمین کو تاکید کی کہ اپنے فرائض تندہی اور دیانتداری کیساتھ انجام دیں اور ورک کلچر میں شفافیت لائیں۔

https://lazawal.com/?cat=

کاروبار مخالف نہیں، میں کاروبار میں اجارہ داری کے خلاف ہوں: راہل

0

نئی دہلی //کانگریس کے سابق صدر اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے  کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) انہیں کاروبار مخالف قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ وہ کاروبار مخالف نہیں ہیں، بلکہ کاروبار میں اجارہ داری کے خلاف ہیں۔

https://www.instagram.com/rahulgandhi/?hl=en
مسٹر گاندھی نے آج ایک ویڈیو پیغام میں کہا "بی جے پی نے مجھے کاروبار مخالف کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن میں واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ میں کاروبار مخالف نہیں ہوں بلکہ کاروبار میں اجارہ داری کے خلاف ہوں۔ میں اس پالیسی کا مخالف ہوں۔ جس میں صرف ایک ، دو، تین، چار یا پانچ افراد کاروبار میں مکمل طور پر حاوی ہیں۔
مسٹر گاندھی نے یہ بھی واضح کیا "میں نوکریوں کا حامی ہوں، کاروبار کا حامی ہوں، اختراع کا حامی ہوں، مسابقت کا حامی ہوں لیکن میں اجارہ داری کا مخالف ہوں۔ ہماری معیشت تبھی پھولے پھلے گی جب تمام کاروباروں کے لیے آزادانہ اور منصفانہ جگہ ہوگی ۔”

https://lazawal.com/?cat=

ہمیں غدار کہنے والے اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں :نائب وزیر اعلیٰ

0

لازوال ویب ڈیسک

سری نگر//جموں وکشمیر کے نائب وزیر اعلیٰ سریندر کمار چودھری کا کہنا ہے کہ لوگوں کے جذبات و احساسات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسمبلی میں خصوصی اختیارات کی بحالی کی خاطر قرار داد پیش کی۔
انہوں نے کہاکہ بی جے پی کے 28ممبران جئے چند بھی ہیں اور غدار بھی ۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Surinder_Kumar_Choudhary
ان باتوں کا اظہار موصوف نے اسمبلی کے باہر نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کیا۔
انہوں نے کہاکہ نیشنل کانفرنس نے الیکشن منشور میں لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ خصوصی درجے کی بحالی کی خاطر وہ اسمبلی میں قرارداد پاس کریں گے اور ہم نے یہ وعدہ پورا کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خصوصی درجے کی بحالی کے حوالے سے نیشنل کانفرنس کا اصولی موقف ہے کہ اس کو جلداز جلد بحال کیا جائے۔
بی جے پی ممبران کی جانب سے غدار کہنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں نائب وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ریزولیشن پاس ہوتے ہی جموں میں لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔
انہوں نے کہاکہ جموں صوبے کو تباہ کرنے میں بی جے پی نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی لیکن اب انہیں من مانی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔
ان کے مطابق سمارٹ سٹی کے نام پر جموں میں غریبوں کے آشیانے مسمار کئے گئے اور کئی ایک کو روزگار سے محروم کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ مذہبی مقامات اسکولوں اور کالجوں کے نزدیک شراب کی دکانیں کھولنے والے بھاجپا لیڈروں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب جموں وکشمیر میں منتخب سرکار ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ لوگ ہمیں غدار کہیں یا جئے چند حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی کے 28ممبران غدار ہیں ۔

https://lazawal.com/?cat=

جموں و کشمیر اسمبلی: خصوصی حیثیت کی قرارداد پر ہنگامہ آرائی کے بعد کارروائی دن بھر کے لئے ملتوی

0

لازوال ویب ڈیسک

سری نگر،//جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے منظور کی گئی قرار داد کے خلاف جمعرات کی صبح بی جے پی کے اراکین کی طرف سے ہنگامہ

https://www.thehindu.com/news/national/jammu-and-kashmir/jk-parties-criticise-nc-for-dropping-article-370-aug-5-2019-terms-from-resolution/article68837484.ece/amp/

 

آرائی کے بعد ایوان کی کارروائی کو اگلے روز یعنی جمعہ تک معطل کر دیا گیا۔ایوان میں بی جے پی اراکین کی طرف سے جاری ہنگامہ آرائی کے بیچ اسپیکر نے ایوان کی کارروائی کو دن بھر کے لئے ملتوی کرنے کا حکم دیا۔

اسپیکر عبدالرحیم راتھر کی ہدایت پر بی جے پی کے کم از کم تین اراکین کو باہر نکال دیا گیا تھا لیکن اپوزیشن اراکین کی طرف سے مزاحمت کی وجہ سے ایوان میں جھگڑا ہوگیا۔قبل ازیں جمعرات کی صبح جوں ہی ہائوس کی کارروائی شروع ہوئی تو بی جے پی اراکین نے احتجاج شروع کیا۔بی جے پی ایم ایل اے اور لیڈر آف اپوزیشن سنیل شرما قرارداد پر بات کر رہے تھے کہ اس دوران عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر اور ایم ایل اے لنگیٹ شیخ خورشید ویل میں کود پڑے اور ایک بینر اٹھایا جس پر لکھا تھا کہ دفعہ 370 اور 35A کو بحال کیا جائے۔بی جے پی کے اراکین اس حرکت سے مشتعل ہوگئے جنہوں نے ویل میں چھلانگ لگا کر اس بینر کو پھاڑ دیا۔

اس دورا ن سپیکر عبدالرحیم راتھر نے ہائوس کی کارروائی پندرہ منٹوں کے لئےمعطل کردی تاہم اس کے باوجود بی جے پی کے اراکین نے احتجاج جاری رکھا۔تاہم جب ہائوس میں ہنگامہ آرائی جاری رہی تو اسپیکر نے کارروائی کو دن بھر کے لئے ملتوی کر دیا۔بتادیں کہ جموں و کشمیر اسمبلی نے اجلاس کے تیسرے دن بدھ کے روز دفعہ 370 کی بحالی کی قرارداد کو اکثریتی ووٹوں سے منظور کیا۔اس قرار داد کی منظوری پر جہاں نیشنل کانفرنس نے جشن منایا وہیں بی جے پی نے جموں میں اس کے خلاف احتجاج درج کیا۔

http://Lazawal.com