"میرے شہر کی بے لباس حقیقت٬
(محمودہ قریشی اگرہ یو۔پی ۔انڈیا)
خود دار تو میرے شہر کا فاقوں سے مر گیا
راشن تو بہت تھا مگر فوٹو سے ڈر گیا
السلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے ایمان ،نماز ،روزہ زكوةوصدقہ اور حج ان پر عمل کرتے ہوئے ہم مسلمان سچچے مسلمان بنتے ہیں اللہ تبارک و تعلی قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے ،
"”اچھا وہ شخص ہے جو اللہ پر ،قیامت کے دن پر ،فرشتوں پر ،اللہ کی کتابوں پر،اور نبیوں پر ایمان رکھے ،جو اپنے مال سے محبت کے باوجود اسے قربت داروں یتیموں پر مساکینوں پر اور مسافروں پر خرچ کرے دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے یہی لوگ سچچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں٬٬.( سورةالبقره)
مصیبت کے وقت صبر کرنا اور مساکینوں پر خرچ کرنے کی دعوت اسلام دیتا ہے ہر صاحب دولت پر صدقہ لازمی ہے اسے اپنی جان کا مال کا اور وہ دولت جو وہ کماتا ہے اس میں غریبوں مساکینوں کاحصہ لگانا چاہے یہ خدا کا حکم ہے اور غریبوں مساکینوں مسافروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنا ہمارا فرض ہے اورہمارے ایمان کا ہی حصہ ہے
اج پوری دنیاcovid19جیسی مہاماری سے جوجھ رہی ہے ایک چھوٹے سے وائرس یعنی کرونا وائرس نے پوری دنیا میں جو تباہی لائی ہوئی ہے اس سے سب ہی لوگ پریشان ہیں
یہ ہمارے ہی گناہوں کی سزا بے یا اللہ تبارک و تعلی کی طرف سے بھیجا ہوا عزاب یہ اس قدر تیزی کے ساتھ بڑ رہا ہے کہ روز بہ روز اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا جس کے چلتے ہمارے وزیر اعظم نے پورے ملک میں ۲۱ دن کا لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے جو قابل داد ہے
مسلیم معاشرہ وزیر اعظم کی کہیں ہوئی ہر ایک بات پتھر کی لکیر کی طرح مان رہا ہے وزیر اعظم نریندر مودی جی کہتے سب لوگ شام کو تالی تھالی بجائیے سب لوگ تالی تھالی بجاتے ہیں ،پھر مودی جی کہتے ہیں رات نو بجے دیا مومبتی جلائے مسلیم معاشرہ اپنے مزہب کی پرواہ نہیں کرتے ہوئے مودی جی کے کہیے کو پتھر کی لکیر کی طرح ہی مان رہا ہے ایک طرف اذان ہو رہی ہے تو دوسری طرف مومبتتیاں جلائی جا رہی ہیں بس سب مل کر ایک ہی بات چہاتے ہیں کہ کسی بھی طرح ہمارے ملک میں وہی بے خوف زندگیاں ،امن وامان لوٹ ائیے اور پھر ہم سب ایک ہو کر رہیے لکین اس مشکل گھڑی میں ایک طرف جو بیماری کا اثر ہے تو دوسری طرف فاقہ کشی کا ماحول نظر ا رہا ہے
اس کا پورا اثر غریب کی زندگی پر پڑ رہا ہے ان لوگوں کی زندگی تو پلٹ فارم پر سے ہی اتر گئی ہے غریب مزدور طبقہ کی مشکلات و فکر اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ بے چارے تو اندر ہی اندر گھول کر رہ جا رہے ہیں ایسے ماحول میں ان کی یہ فکر لازمی بھی ہے کہ غریب گھائے کہاں سے؟اپنے اور اپنے بیوی بچچوں کے لئے غلہ اناج وغیرہ کا وہ کیوں کر انتظام کرے ،
ماحول کے چلتے اور وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمارے معاشرے کے طاقتور سمجھے جانے والے لوگوں نے اس طرح قدم بھی بڑھایا ہے بڑی بڑی فکٹریس کے مالک ٹرسٹ ائجنسی نے اور امیر سمجھے جانے والے لوگوں نے بڑے پیمانہ پر لوگوں کے لئے راشن اور دوسری ضروریات کا سامان وغیرہ کا انتظام تو کیا ہےغریب بے سہارا یتیم بیوہ اور ضرورت مندوں کو راشن تقسیم بھی کیا جا رہا ہے لکین اس کے ساتھ ساتھ باقعدگی سے فوٹو سیشن بھی چلایا جاتا ہے راشن تقسیم کرتے ہوئے اس قدر تصویر پوشی کی جاتی ہے اور ان تصاویر کو سوشل میڈیا ،واٹس ایپ ،فیسں بک ،اور اخبارات میں اس تیزی کے ساتھ ڈالا جاتا جس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے یہ لوگوں کی مدد نہیں بلکہ اپنے لئے سوشل میڈیا پر واہ واہی لوٹنے کے لئے فوٹو سیشن چلا رہے ہیں ہوڑ لگی پڑی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قطاروں میں کھڑا کر تصویر کھچائی جائے اخبارات کے ایڈیٹر کو سامان بانٹنے سے پہلے فون کیا جاتا ہے ہے کہ ہم فلاح فلاح دن راشن تقسیم کر رہے اخبار میں پوری فوٹو انی چاہے ، ہم نے اتنے لوگوں کو راشن تقسیم کیا ،ہم نے اتنے لوگوں کے لئے راحت پیکٹ محیہ کر ائے ہیں
کیا ہے یہ ؟کیا یہی غریبوں کی مدد ہے؟
کبھی سوچا ہے جو حقیقت میں ضرورت مند ہوگا اور جس کی انا ،اس کی خودداری اس کو یہ سب کرنے سے منا کر رہی ہے کیا وہ اس فوٹو سیشن میں شامل ہوگا ؟پھر یہ کیسی مدد ہے ؟
اس خوددارشخص کے بچچے یہ کہتے ہیں ابا ہم اس کرونا سے نہیں بھوک سے مر رہے ہیں، اس شخص کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہےایک خوددار ضرورت مند لوگوں کے ساتھ فوٹو کھیچانے میں اس قدر ڈر رہا ہے کہ وہ بھوک سے مر نے کے لئے تیار ہے لکین ان بے رحم لوگوں کے سامنے جانے کے لئے تیار نہیں ،ان کے ساتھ فوٹو سیشن میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں، یہ ہےان چھوٹے لوگوں میں اس کا بڑا پن
اسلام لوگوں کی امدد کرنے کی ، لوگوں کی مدد کرنے کی دعوت دیتا ہے نہ کہ مفلسوں کا استحصال کرنے کی،نہ سخاوت اور دریا دلی کا دکھاوا کرنے کی، اس سے وہ ثواب کے بجائے عزاب کے زیادہ مستحق ہو جاتے ہیں
خدا کے واستے ایسا مت کیجئے دنیا میں پھیلی اس ہولناک وبا کو دیکھتے ہوئے باز اجائے جس نعمت سے خدا نے تمہیں سرفرا کیا ہے اس مشکل وقت میں اپ لوگوں کی مدد کرتے وقت فوٹو سیشن مت چلائے سوشل میڈیا پر ذرا دیر واہ واہی لوٹنے کے چکر میں اپ اپنا سارا ثواب ضائح مت کیجئے اور ان لوگوں کی مدد کو بھی اگے بڑئے جس کو حقیقت میں مدد کی ضرورت ہے اور گھر گھر جا کر ان لوگوں کی مدد کیجئے انہیں دینا زیادہ ثواب ہے جو مانگ نہیں سکتے ہیں
ہمیں یہ سوچنا چاہے کہ ہم خود اپنی ذا ت سے نہیں دے رہے بلکہ یہ ہمارے مال میں ان غریب ضرورت مندوں کا ہی حصہ ہے جو ہمارے پاس موجود ہے بس ہم اس کو ادا کر رہے ہیں ہم خوش قسمت ہیں کہ اللہ رب العزت نے اس مشکل کی گھڑی میں ہمیں اس کام کے لئے منتخب کیا ہے یہ اس کا ہم پر احسان ہے اور انا پرست شخص کی انا کا بھی پورا پورا خیال رکھا جائے اور سوشل میڈیا اخبارات میں ان غریب ضرورت مندوں کی تصویر کو اپلوڈ کرنے گریز کیا جائے