خواتین کواپنے حقوق کے حصول کیلئے متحدہوناہوگا:ڈاکٹرشہنازگنائی
سیدنیازشاہ
پونچھ؍؍ڈاک بنگلہ ہال پونچھ میں سابقہ ایم۔ایل۔سی ڈاکٹر شہناز گنائی کی صدارت میں خواتین کی ایک روزہ پُر وقار اور عظیم الشان کنونشن منعقد ہوئی۔ خواتین کی اُمید سے زیادہ آمد سے میٹنگ ہال اپنے ناروں تک کھچا کھچ بھرا ہوا نظر آیا۔ غور طلب ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں خواتین آج تک کسی بھی کنونشن میں نہیں دیکھی گئیں جو ڈاکٹر شہناز گنائی کی عوام بالخصوص خواتین میں روز افزوں بڑھ رہی مقبولیت کا نتیجہ ہے۔ اس موقع پر حاضر آئیں مستورات سے محوِ گفتگو ہوئے ڈاکٹر گنائی نے کہا کہ آبادی کا نصف حصہ ہونے کے باوجود عورتوں کو اپنے مساوی حقوق کے لئے کافی جدو جہد کرنی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ موجودہ دئور میںہم حکومت کی جانب سے آئے روز خواتین کو با اختیار بنائے جانے کے متعلق اعلانات سُنتے ہیں لیکن انہیں حاصل کرنے کے لئے تمام خواتین کو متحد ہونا پڑے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ طاقت ہمیشہ اتحاد سے ہی آتی ہے اور اُ س کے لئے ہمیں بِلا لحاظ قوم ، رنگ و نسل، خواندہ یا ناخواندہ، صحت مند یا غیر صحت مند، امیر یا غریب، سفید یا کالی رنگت کو بالائے طاق رکھ کر ہاتھوں میں ہاتھ لے کر یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے مساوی حقوق کے حصول تک اس جدو جہد کو جاری رکھیں گے۔ سابقہ ایم۔ایل۔سی نے ریاستی گورنر انتظامیہ کی جانب سے خواتین کے نام پر خرید کی جانے والی جائداد پر صفر اسٹیمپ ڈیوٹی کو تین فیصد کئے جانے پر نہایت افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اُنہوں نے اس آرڈر کی شدید نتقید کرتے ہوئے اسے خواتین مخالف قانون سے تعبیر کیا ہے۔ موصوفہ کاکہنا تھاکہ پہلے خواتین کے نام پر خرید کی جانے والی جائداد کو اسٹیمپ ڈیوٹی سے مستثنیٰ کیا گیا تھا جس کی مُلکی اور بین الاقوامی سطح پر کافی سراہنا کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ اقوامِ متحدہ کی ایک ایجنسی نے اسیـ’’ خواتین کی بااختیاری کی جانب ایک وسیع قدم‘‘ قرار دیا تھا۔ ڈاکٹر گنائی نے کہا کہ گورنر انتظامیہ کے اس اقدام سے مرکزی و ریاستی سرکار کی لڑکیوں کی بااختیاری کے لئے شروع کی گئی مہم ’’ بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘‘ کی قلعی کُھل کر سامنے آئی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک طرف تو حکومت اُنہیں با اختیار بنانے کے لئے اُن کے حق میں نئی پالیسیاںمرتب کرتی ہے اور دوسری طرف اُن کی با اختیاری کے لئے بنائے گئے قوانین کی یوں دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے خواتین کی اس کنونشن کی ر‘و سے گورنر انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کر کے اسے جلد کا لعدم قرار دے۔ محترمہ کا کہنا تھا کہ ایک عورت کو با اختیار بنانے سے پُورا کُنبہ با اختیار ہوتا ہے، ایک با اختیارکُنبے سے ایک مضبوط قوم تشکیل ہوتی ہے اور کوئی بھی قوم عورت کو با اختیار بنائے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی کیوں کہ عورتیں قومی آبادی کا نصف حصہ ہیں۔ڈاکٹر موصوفہ نے بیلٹ فورس میںخواتین کی دو عدد نئی بٹالین بنائے جانے کے ریاستی گورنر انتظامیہ کے فیصلے کی سراہنا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ایل۔او۔سی اور بارڈر پر رہائش پذیر خواتین کے لئے اسپیشل ریزرویشن کوٹہ مُختص کیا جائے۔ کیوں کہ بارڈر پر رہائش پذیر خواتین کو پڑھائی لکھائی کے وہ مواقع فراہم نہیں ہوتے جو شہر میں رہنے والی خواتین کو ہوتے ہیں اور یُوں وہ میرٹ کی بُنیاد پر اس بھرتی عمل سے محروم ہو سکتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ خواتین کو حقیقی معنوں میں با اختیار بنانے کے لئے اُنہیں سرکاری نوکریوں میں 20 فیصد تک ریزویشن دیا جائے کیوں کہ تعلیم، صحت اور سماجی بہبود سیکٹر کے علاوہ دیگر تمام محکمہ جات میں خواتین کی موجودگی نہ کے برابر ہے۔ اُنہوں نے اس بات پر زوردے کر کہا کہ سرکاری نوکریوں میں خواتین کی بیس فیصد ریزرویشن کے متعلق اُنہوں نے ریاستی ایوانِ بالا میںایک پرائیویٹ ممبربِل بھی لایاتھا جسے مخلوط حکومت نے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا تھا۔ ڈاکٹر گنائی نے ریاستی گورنر انتظامیہ پر زور دے کر کہا کہ وہ ایل۔او۔سی اور بارڈر علاقہ میں رہنے والی خواتین کی فلاح و بہبودی کے لئے مجموعی طور پر ایک اسپیشل ترقیاتی پیکیج دیا جائے کہ جس سے سرحدی علاقہ کی عورتوں کو با اختیار بنایا جا سکے۔ اُنہوں نے اس بات کی بھی تاکید کی کہ خواتین کے لئے قائم کئے گئے پولیس اسٹیشنوں میں خواتین عملہ تعنات کر کے اُنہیں جلد فعال بنایا جائے نیز خواتین کے لئے خصوصی طور پر بینک کھولے جائیں جِن میں عورتیں ہی کھاتہ دار اور عورتیں ہی مُلازم ہوں۔ڈاکٹر شہناز گنائی نے گورنر انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ خواتین کی ترقی و بہبودی کے لئے حکومت کی جانب سے شروع کی گئیںعام اسکیمیں کیوں کر عمل میں نہیں لائی جاتیں جس سے عوامی سطح پر یہ ترقیاتی اسکیمیںاپنا اثر کھورہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ گورنر انتظامیہ کے دئور میں جہاں دیگر کمیشن اپنا کام کاج بھر پور طریقے سے انجام دے رہے ہیں وہیں خواتین کمیشن کی حالت کیوںخستہ ہے کہ جس میں نہ ہی چیئر پرسن ہے اور نہ ہی ممبران!پڑھی لکھی اور کالج جانے والی نوجوان خواتین سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شہناز نے کہا کہ اُنہیں پڑھائی، صحت عامہ اور سماج میں عورتوں کے سیاسی رول جیسے مسائل پر زور دینا ہوگا۔ یہ وقت بے کار بیٹھ کر محض گیت گانے کا نہیں بلکہ اپنے جمہوری حقوق کے لئے اُٹھ کھڑے ہونے کا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ماضی کے سیاسی اداروں میں خواتین کی کم شرکت کی وجہ سے ترقی کی رفتار بھی کم تھی لیکن اب سماج اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ معاشرے کہ مجموعی ترقی صنفِ نازک کی شرکت بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے پاس پنچائتوں میں سرپنچوں اور پنچوں اور میونسپلٹیوں میں کونسلرز کی صورت میں عورتوں کی ایک اچھی تعداد موجود ہے اور اِن شاء اللہ دیگر داروں میں بھی اسی طرح خواتین کی تعداد بڑھتی نظر آئے گی۔ ڈاکٹر گنائی نے پنچائت کی نمائندگی کرنے والی خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اُنہیں یہ بات بخوبی سمجھنی ہوگی کہ عدمِ مساوات، نا انصافی اور دیگر متعلقہ مسائل کا واحد حل مسلسل جدو جہد کرنا ہے۔ اس موقع پر حاضر آئیں خواتین نے اپنے مسائل اُبھارتے ہوئے کہا کہ دیہاتوں میں متعدد جگہوں پر نئے آنگن واڑی سینٹرز کھولے جانے کی ضرورت ہے تاکہ دیہاتوں کی ضروریات اوربے روزگاری کو ختم کیا جا سکے کیوں کہ ایک عرصہ سے محکمہ کی طرف سے یہ سلسلہ بند ہے۔ بُزرگ ، بیوہ اور جسمانی معذور خواتین کو کافی مہینوں سے وظیفہ فراہم نہیں کیا گیا ہے جس کے لئے اُنہوں نے متعلقہ محکمہ اور ضلعی انتظامیہ سے اسے جلد واگزار کرنے کی استدعا کی۔ عورتوں نے بُنیادی سہولتوں کی کمی خاص طور پر دُور دراز پیدل مسافت طے کر کے پینے کا صاف لانے جیسے مسائل پر بولتے ہوئے کہا کہ اُنہیں بُنیادی سہولتوں سے محرام نہ رکھا جائے۔ خواتین نے ڈاکٹر شہناز گنائی کو اپنا صحیح نمائندہ گردانتے ہوئے کہا کہ اُن اس بات پر فخر ہو رہا ہے کہ خواتین کے مسائل ریاستی، مُلکی اور بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کرنے والی اس خاتون کا تعلق ہمارے ضلع سے ہے۔ عورتوں نے کہا کہ رب تعالیٰ ے حضور یہ دُعا کریں گی کہ پروردگار ہر گھر میں ڈاکٹر شہناز جیسی بیٹی پیدا کرے جو اپنے علاقہ اور خاندان کا نام روشن کرے۔ حاضر آئیں خواتین نے اُنہیں مُستقبل میں اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مکمل ساتھ اور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ وہ اُن کے ساتھ ہر میدان میں شانہ بشانہ نظر آئیں گی۔ خواتین نے انتظامیہ کمیٹی کی جانب سے منعقد کروائی گئی اس کامیاب اور شاندار کنونشن پر اُنہیں مبارک باد پیش کی اور اُمید ظاہر کی کہ اس طرح کے خواتین اجلاس دیہاتوں میں بھی منعقد کروائے جائیں۔ ڈاکٹر شہناز گنائی نے کنونشن کی کامیابی پر خواتین کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اُن کی احسان مند ہیں کہ اُنہوں نے اپنی گھریلو مصروفیات کو ترک کر کے اس کنونشن کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ اُنہوں نے اُمید ظاہرکی کہ اِن شاء اللہ آئندہ کے اجلاس میں میری بہنیں اور مائیں اس سے بھی زیادہ تعداد میں حاضر ہو کر اس بات کو ثبوت دیں گی کہ ہم نے اپنے اصل مِشن کا جان لیا ہے۔