یواین آئی
نئی دہلیجواہر لال نہرویونیوسٹی کے سابق استاذ اور مشہور مورخ پروفیسر آدتیہ مکھرجی نے سوشلزم کے نظریے کے علمبردار وں کے ہٹنے اورسرمایہ دار حامی بننے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سوشلزم کے نظریے سے ہٹنے کی وجہ سے فرقہ پرستوں کو اپنا پھیرپھیلانے کی جگہ ملی۔ اب وہ حکومت کے ہر شعبے میں حاوی ہیں۔نیشنل موومنٹ فرنٹ کے منعقد ہ دو روزہ ورکشاپ اور منصوبہ بندی کیمپ کے پہلے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جنگ آزادی میں سماج وادی نظریہ سے وابستہ لوگوں نے بڑھ کر چڑھ کر حصہ لیا اور سماج میں فرقہ پرستی کے زہر پھیلنے سے روکنے کے لئے انہوں نے بھرپور کوشش کی اور ان کا یہ سلسلہ آزادی کے بعد 20،25سال تک چلتا اور وہ کسی نہ کسی صورت میں وہ فعال اور سرگرم رہے اور گاہے بگاہے تحریک بھی چلاتے رہے لیکن اس کے بعد ان کی سرگرمی کم ہوگئی یا ختم ہوگئی اور جو لوگ سوشلزم کے نام پر پیدا ہوئے وہ لوگ یا تو وہ سرمایہ دار بن گئے یا حکومت کا حصول ہی ان کا مقصد ٹھہرا۔پروفیسر آدتیہ مکھرجی نے کہاکہ جب بھی کوئی جگہ خالی ہوتی ہے تو کوئی نہ کوئی اسے پرکرتا ہے اور اس خلاءکو فرقہ وارانہ سوچ کے حامل افراد نے اسے پر کیا اور انہوں نے دعوی کیا کہ آر ایس ایس اور اس کے نظریات کے حامل لوگوں کے لوگوں کو گا¶ں گا¶ں جاکر اپنے نظریات کو پھیلانے کا موقع ملا۔دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر آدتیہ نارائن مشرا نے موجودہ حکومت پر تعلیمی نظام کوتباہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ ریسرچ کے فنڈ میں مسلسل کمی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جب تک تحقیق کا شعبہ مضبوط نہیں ہوگا اس وقت کوئی نئی چیز نکل کر سامنے نہیں آئے گی۔انہوں نے کہاکہ ریسرچ کے بجٹ میں مسلسل کمی جارہی ہے اورانہیں اسی وجہ سے اس وقت محسوس ہوگیا تھا کہ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو ایک دن یہ لوگ ختم کردیں گے جب انہوں نے اس بجٹ میں آدھی کٹوتی کردی تھی۔جواہر لال نہرو کی سابق پرفیسر اور مورخ ڈاکٹر مردولا مکھرجی نے گاندھی کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمی کو دور کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اس وقت گاندھی جی کے بارے میں طرح طرح کی غلط چیزیں پھیلاکر ان کی کردارکشی کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت ہے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ گاندھی کی مختلف شکل تھی اور ان کی ہر شکل ملک ، قوم اور سماج کے لئے تھا وہ سماج سے فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہتے تھے ۔جے این یو کی شعبہ تاریخ کی استاذ ڈاکٹر سچترامہاجن نے گاندھی جی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ فرقہ واریت کے سلسلے میں ان کی سوچ مختلف اور قابل عمل بھی تھی۔ ان کا اس سلسلے میں نظریہ یہ تھا کہ خوف اور ڈر کو ختم کیا جائے تاکہ ہندو¶ں کو مسلمان سے اور مسلمان کو ہند¶ں سے ملنے جلنے میں کوئی دقت نہ ہو۔انہوں نے کہاکہ وہ مخلوط آبادی بسانے کے طرفدار تھے کیوں کہ ایک ہی فرقہ کی آباد ہونے کی وجہ سے فرقہ وارانہ سوچ پیدا ہونے کا خدشہ زیادہ رہتا ہے ۔ انہوں نے موجودہ حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ ان لوگوں نے گاندھی جی کو یرغمال بنالیا ہے اور گاندھی، نہرو اور پٹیل کے درمیان تقسیم کردی ہے اور ایسا پیش کیا جارہا ہے کہ گاندھی جی نے پٹیل کاَ حق مارا ہے ۔صحافی اور وردھا یونیوسٹی کے استاذ ارون ترپاٹھی نے ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ملک پوری طرح صف بندی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ملک کے عوام آسانی سے اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں اورورنہ ملک 1946کے مغربی بنگال کی حالت میں پہنچ جائے گا۔مصف اور نیشنل موومنٹ سے وابستہ ڈاکٹر سجاتا چودھری نے حالات سے گھبرانے کے بجائے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ حالات خراب ضرور ہیں لیکن اسی میں کام کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم فرقہ پرستی کا مقابلہ گھر گھر اور گا¶ں گا¶ں جاکراپنے پیغام کے ذریعہ کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ایک سازش کے تحت تمام اہم شخصیات کی کردارکشی اور ایک دوسرے کے خلاف مواد شائع کئے جارہے ہیں تاکہ قوم میں اس الجھ کر رہ جائے اور فرقہ پرستوں کو اپنے ناپاک منصبو بے کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مل جائے ۔اشوک بھارت، بنارس کے گاندھین رگھوناتھ بھائی، آلوک واجپئی و دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کی نظامت سماجی کارکن اور استاذ واگیش جھا نے کی۔ اس کے بعد ثقافتی پروگرام ہوا جس میں واگیش جھا ، کشور کمار اور انو واجپئی نے سماں باندھا۔واضح رہے کہ نیشنل موومنٹ فرنٹ کے 14،15 جولائی کے دور روزہ ٹریننگ اور منصوبہ بندی کا کیمپ کا مقصد فرقہ پرستوں سے لڑنا اورانہیں اقتدار میں آنے سے روکنا، تاریخ میں چھیڑ چھاڑ کے خلاف آواز اٹھانا، شائع غلط مواد کے خلاف تحریرو تقریر کے ذریعہ جواب دینا اور آپسی بھائی چارہ کو فروغ دینا ہے ۔ اس میں آٹھ ریاستوں کے اہم لوگ حصہ لے رہے ہیں۔فرنٹ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سوربھ واجپئی تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔