یواین آئی
بروسیلزاٹلی نے مطالبہ کیا ہے کہ یوروپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کو تمام رکن ملک میں تقسیم کیا جائے اور جو ممالک ایسا کرنے سے انکار کریں، انہیں یوروپی یونین کی طرف سے فنڈ کی ادائیگی میں کمی کر دی جائے ۔اہم یوروپی رہنما¶ں نے چند روز بعد ہونے والے سربراہ اجلاس سے قبل بروسلز میں ایک اہم ملاقات کی ہے ۔ اس اجلاس میں خاص طور پر یوروپی براعظم کو درپیش مہاجرین کے بحران پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ یوروپی رہنما مہاجرین کے معاملہ پر مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی کوشش میں ہیں۔آج کے اجلاس میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل، اطالوی وزیراعظم جوزیپے کونٹے کے علاوہ لکسمبرگ، اسپین اور بیلجیم کے وزرائے اعظم بھی شریک ہوئے ۔ یورپی یونین کی دو روزہ سمٹ اگلے ہفتے 28 اور 29 جون کو ہو گی۔ اس سمٹ سے پہلے اٹلی نے دس نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے ۔ روم حکومت کے مطابق ان کے تجویز کردہ ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے ۔اٹلی کا کہنا تھا کی جو یوروپی ممالک مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں، اصولا ان کی مالی امداد کم کر دی جانی چاہیے ۔ اس کے علاوہ اٹلی اس ڈبلن معاہدے میں بھی تبدیلیاں لانا چاہتا ہے ، جو مہاجرین سے متعلق رہنما اصول فراہم کرتا ہے ۔تمام یوروپی ممالک اسی معاہدے کے تحت مہاجرین کے ساتھ مناسب سلوک روا رکھتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت جو مہاجر جس یوروپی ملک میں پہلی مرتبہ پہنچتا ہے ، صرف اسی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے کا مجاز ہے ۔ اٹلی کے مطابق اب یہ لکھا جانا چاہیے کہ- ‘جو اٹلی میں اترتا ہے ، وہ یوروپ تک پہنچ گیا ہے ‘۔اٹلی اور اسپین کا مشترکہ موقف ہے کہ امیگریشن سینٹر صرف اٹلی اور اسپین ہی میں نہیں بلکہ دیگر یوروپی ممالک میں بھی قائم ہونے چاہئیں۔ اسپین نے یوروپی یونین سے اپیل کی ہے کہ اس کے ملک میں ہزاروں افریقی مہاجرین پہنچ رہے ہیں اور اس کی جلد از جلد مدد کی جائے ۔اسپین نے اٹلی کی نئی حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ”یورپ مخالف” پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے ۔ فرانس نے زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مہاجرین سے متعلق جو فیصلہ بھی کیا جائے ، وہ انسانی حقوق اور یوروپی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے ۔جرمن حکومت کے مطابق آئندہ ہفتے کسی ایک حتمی معاہدے تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے لیکن فریقین ہنگامی مسائل سے نمٹنے کے لیے دو یا سہ فریقی معاہدے کر سکتے ہیں۔