گاؤں میں بجلی کی کمی کیوں رہتی ہے؟

0
135
ہیما راول
گڑوڑ، باگیشور
اتراکھنڈ
پچھلی چند دہائیوں میں، ہندوستان بجلی کی پیداوار کے معاملے میں تیزی سے خود انحصار ہوتا جا رہا ہے۔ کوئلے سے آگے بڑھتے ہوئے اب یہ ہائیڈرو اور سولر انرجی کے میدان میں دنیا کا سب سے مضبوط ملک بن کر ابھرا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں بجلی کی کٹوتی ایک سنگین مسئلہ ہے جو دیہی اور شہری دونوں علاقوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس سے نہ صرف زندگی کی بنیادی سہولتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ معاشرے کے مختلف شعبے بھی اس سے متاثرہوتے ہیں۔ حالانکہ بجلی ہماری زندگی کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے جیسے پینے کا صاف پانی ہوتی ہے۔ لیکن آج بھی ملک ے بہت سے دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں لوگوں کو یا توبجلی کی سہولت میسر نہیں ہے یا بجلی کی فراہمی برائے نام ہے۔ان میں سے ایک اتراکھنڈ کا پنگلو گاؤں بھی ہے۔جہاں کے مکین بجلی کی بہتر سہولیات سے محروم ہیں۔ موسم گرما ہو یا سردی، اس پہاڑی علاقے میں بجلی کے مسائل اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہاڑی علاقہ ایک سرد علاقہ ہے۔ لیکن وہاں بھی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں بجلی کی کٹوتی مقامی لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ منفی اثر بچوں کی تعلیم پر نظر آرہا ہے۔
اس حوالے سے اسکول کی 18 سالہ طالبہ کماری انشیکا کا کہنا ہے کہ ”ہمارے گاؤں ملا پنگلو میں آج بھی بجلی کی شدید قلت ہے، گاؤں میں زیادہ تر وقت بجلی نہیں ہوتی ہے۔ خراب موسم کی صورت میں تو وہ ہفتوں نہیں رہتی ہے۔جس کا ہمارے تعلیم پڑ منفی اثر پڑرہا ہے۔ا سکول سے واپس آنے کے بعد رات ہوجاتی ہے۔لیکن رات میں لائٹ نہیں ہونے کی وجہ سے ہم اسکول کا کام یا دیگر پروجکٹ کا کام نہیں کر پاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں گھر کا کام اسکول جا کر ہی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے گھر کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ ہمارے والدین ایک انورٹر خریدسکیں۔“وہیں 17 سالہ گنجن بشٹ کہتی ہے کہ ”بجلی کے مسئلے نے نہ صرف ہماری تعلیم بلکہ ہماری روزمرہ کی زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔ پنگلو جنگل کے قریب واقع ہے۔ یہاں ہمیشہ چیتے اور دوسرے جنگلی جانوروں کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسے میں رات کو باہر نکلنے میں کافی دقت ہوتی ہے۔ اکثر لائٹ نہیں ہونے کی وجہ سے اندھیرا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے جنگلی جانوراندھیرے کا فائدہ اٹھاکر گاؤں کے بچوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔
پنگلو ریاست کے باگیشور ضلع میں واقع گروڈ بلاک کا ایک گاؤں ہے۔ جس کی آبادی 1152 کے لگ بھگ ہے۔ یہ بلاک سے تقریباً 11.6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ عام ذات کی تقریباً 85 فیصد آبادی گاؤں میں رہتی ہے۔ ایک دور دراز گاؤں ہونے کی وجہ سے یہ بہت سی بنیادی ضروریات سے نبرد آزما ہے۔ ایسے میں بجلی کی کٹوتی یہاں کے دیہاتیوں کی زندگی میں دوہرا مسئلہ پیدا کر دیتی ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کی 76 سالہ گوڈا دیوی کا کہنا ہے کہ ”گاؤں میں بجلی بہت کم ہے، جس کی وجہ سے ہم بزرگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی طرح دن گزرجاتے ہیں لیکن رات گزرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نہیں معلوم کہ گھنے جنگل سے کب کوئی جانور نکلے گا، اسی لیے زیادہ تر دیہاتی اندھیرا ہونے سے پہلے ہی اپنا سارا کام ختم کر لیتے ہیں۔“ وہ بتاتی ہیں کہ ہمارا کچن گھر کے باہر ہے۔ جہاں ہم بیٹھ کر کھانا بناتے ہیں۔ ایسے میں رات کو بجلی کے بغیر کھانا پکانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں مویشیوں کو گھاس اور پانی دینا، ان کے گوشوں کوبند کرنا وغیرہ ایسے بہت سے کام ہیں جن میں بہت زیادہ روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک اوربزرگ گوالی دیوی کہتی ہیں کہ میرے بیٹے شہرمیں رہتے ہیں۔ گھرمیں صرف میں اور میری بہو رہتی ہیں۔ کبھی کبھی بہو نہیں ہوتیں تو گھر میں اکیلی رہتی ہوں۔ مجھے کھانا پکانا ہے اور جانوروں کی دیکھ بھال بھی کرنی ہوتی ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے رات کو کافی مشکلات کا سامنا رہتاہے۔ اس عمر میں اندھیرے میں کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ اندھیرے میں کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وقت بڑی مشکل سے گزرتا ہے۔ شام کے بعد پورے گاؤں کی سرگرمیاں ٹھپ ہو جاتی ہیں۔ لوگ گھروں میں رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تہواروں میں سب سے زیادہ مشکل پیش آتی ہے۔ جب لوگ رات گئے تک جشن منانا چاہتے ہیں لیکن روشنی کی کمی کی وجہ سے شام کے بعد ہی گاؤں میں خاموشی چھا جاتی ہے۔ بارش کے ان دنوں میں، ایک بار جب لائٹس بند ہو جاتی ہیں، تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ کتنے دنوں کے بعد واپس آئے گی؟ جن گھروں میں نومولود بچے ہوں یا کوئی بیمار ہو وہاں رات کو کتنی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور نہ ہونے سے کتنی مشکلات پیدا ہوتی ہیں؟اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے پنگالو کے سرپنچ پان سنگھ کا کہنا ہے کہ بجلی کی مسلسل بندش کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہ منظم طریقے سے نہیں کیا جاگیا ہے۔کئی مقامات پر بجلی کے کھمبے ٹوٹ گئے ہیں اور تاریں زمین پر گر گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے کسی کو بھی بجلی کا کرنٹ لگنے کا خطرہ رہتا ہے۔ بارش کے دنوں میں ٹوٹی ہوئی تاریں سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں پنچایت کی جانب سے میں نے گاؤں کا مسئلہ بجلی محکمہ کے افسران اور جے ای کے ساتھ اٹھایا ہے اور ان سے جلد ہی اس سمت میں کام کرنے کی تحریری درخواست بھی کی ہے۔ لیکن آج تک اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ محکمہ اس سلسلے میں فوری ایکشن لے تاکہ پنگلو کے عوام کو بھی بلاتعطل بجلی میسر ہو سکے۔
واضح رہے کہ مرکزی وزارت توانائی کی ویب سائٹ پر 31 مئی 2023 تک دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں تقریباً چار لاکھ 17 ہزار 668 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم سہج بجلی ہر گھر یوجنا کے تحت ملک کے دیہی علاقوں کو روشن کرنے کا کام بھی تیزی سے کیا جا رہا ہے۔ تاہم، بجلی کی کمی ایک سنگین مسئلہ ہے جو عوامی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے، خاص طور پر ملک کے دیہی علاقوں میں، اس کی کمی لوگوں کی زندگی کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے نظام کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے فوری اور موثر اقدامات اٹھانے اور متعلقہ اسکیموں کو تیزی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ پنگلو جیسے ملک کے دور دراز دیہی علاقوں کو بھی بجلی جیسی بنیادی سہولت میسّر ہو۔ (چرخہ فیچرس)

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا