پروفیسر مشتاق احمد
اب اس تلخ حقیقت سے اپنے وطنِ عزیز ہندوستان کا ہر شہری واقف ہو چکا ہے کہ رواں پارلیامانی انتخاب میں حکمراں جماعت کے لیڈران اور بالخصوص ہمارے وزیر اعظم انتخابی تشہیری جلسوں میں اپنی دس سالہ مدت کار کے کاموں کا ذکر نہ کرکے پھر ملک کے ایک بڑے اقلیت مسلم طبقے کے تئیں اکثریت طبقے کے ذہن میں منافرت بھرنے بلکہ ایک طرح سے اقلیت طبقے کے خلاف مشتعل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اب تک تین مرحلوں کی پولنگ میں زمینی حقیقت سے ہر سیاسی جماعت بھی واقف ہو چکی ہے اور حکمراں جماعت بھی اپنی کھسکتی ہوئی زمین سے نا آشنا نہیں ہے ۔ شاید اسی لئے روز بروز فرقہ وارانہ زہر فشانی کا زور بڑھتا جا رہاہے ۔ ظاہر ہے کہ جمہوریت میں اکثریت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت ہی حکومت پر قابض ہوتی ہے لہذا حکمراں جماعت کو فکر مندی ہے کہ اگر وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تو اس کا حشر کیا ہوگا۔ شاید اس لئے مسلمانوں کو ہی بلی کا بکرا بنانے میں قومی جمہوری اتحاد کو عافیت نظر آرہی ہے ۔ لیکن اب ایک خوش آئند بات بھی نظر آنے لگی ہے کہ قومی جمہوری اتحاد میں شامل بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کے موقف میں تبدیلی آنے لگی ہے ۔ ایک طرف بہار میں جنتا دل متحدہ کے سپریمو اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار اپنے انتخابی جلسوں میں صرف اور صرف اپنے کاموں کا ذکر کر رہے ہیں اور ووٹروں سے اپنی مدتِ کار میں عوامی فلاحی کاموں کے بدل میں ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں۔دوسرے مرحلے کے بعد بہار میں نتیش کمار جہاں کہیں بھی انتخابی تشہیری جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں اس میں اقلیت طبقے سے خصوصی طورپر اپیل کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی مدتِ کار میں اقلیت مسلم طبقے کے لئے بہت کام کیا ہے ۔ظاہر ہے کہ گذشتہ دودہائی سے بہار کی باگ ڈورنتیش کمار کے ہاتھوں میں ہے اور اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے بہار تصویر بدلنے کی کوشش کی ہے۔اگرچہ وہ کبھی قومی جمہوری اتحاد کے ساتھ رہے ہیں تو کبھی راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے ساتھ ساتھ بایاں محاذ کے ساتھ مل کر حکومت سازی میں کامیاب رہے ہیں۔اس لئے انہوں نے وہ تیور نہیں اپنایا ہے جو قومی جمہوری اتحاد کے دوسرے لیڈر اقلیتوں کے خلاف اپنا رہے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ساتھ لوک جن شکتی پارٹی اور جیتن رام مانجھی کا رویہ بھی اقلیت طبقے کے ساتھ تعصبانہ ہی نظر آرہا ہے لیکن نتیش کمار اپنے کسی بھی انتخابی جلسے میں مسلم اقلیت طبقے کے خلاف کسی طرح کے نازیبا الفاظ کا استعمال نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ اقلیت طبقے سے گذارش کر رہے ہیں کہ ان کے لئے ان کی حکومت نے جو کام کئے ہیں اس کا بدل ملنا چاہئے۔
البتہ جنتا دل متحدہ کے کئی دوسرے لیڈر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کی طرح ہی بیان بازی کر رہے ہیں۔لیکن بہار میں اب تک جو سیاسی تصویر سامنے آرہی ہے اس میں یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم اقلیت طبقے کے خلاف جس طرح زہر فشانی کی جا رہی ہے اس کا کوئی خاص فائدہ قومی جمہوری اتحاد کو ملتا نظر نہیں آرہا ہے اور اس لئے شاید زہر فشانی کی شدت اور تیز کی جا رہی ہے ۔کرناٹک میں جس طرح ایک کارٹون کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمانوں کے خلاف اکثریت طبقے کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے وہ جگ ظاہر ہے کہ ایسا کیوں کیا گیاہے ۔کرناٹک میں ایچ ڈی دیو گوڑاکے پوتے رونّا کی کارکردگی نے نہ صرف کرناٹک بلکہ ملک کی شبیہ کو بین الاقوامی سطح پر مسخ کردیاہے اور قومی جمہوری اتحاد اس کی کارکردگی سے جس طرح ذلیل ہوا ہے اس کی کاٹ کے لئے کرناٹک میں اس طرح کا ماحول بنایا جا رہاہے۔مسلم اقلیت کو ریزرویشن دینے کے نام پر ’’انڈیا‘‘ اتحاد اور بالخصوص کانگریس کے خلاف زہر فشانی کی جا رہی ہے اور اکثریت طبقے کو مبینہ طورپر یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر انڈیا اتحاد کی حکومت بن جائے گی تو مسلم طبقے کو سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن ملے گا اور اس کا نقصان اکثریت طبقے کے ایس سی،ایس ٹی اور دیگر پسماندہ طبقے کو ہوگا۔لیکن ایک طرف ہمارے ملک کے وزیر اعظم مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے خلاف مسلمانوں کے خلاف اکثریت طبقے کے ذہن میں زہر بھرنے کی کوشش کر رہے ہیںتو دوسری طرف قومی جمہوری اتحاد میں شامل چندرا بابو نائیڈو آندھرا پردیش میں مسلمانوں کے لئے چار فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ چندرابابو نائیڈو اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ان کی ریاست میں وزیر اعظم کی زہر فشانی سے انہیں نقصان ہو سکتا ہے اس لئے وہ قومی جمہوری اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے ہی اپنے موقف میں تبدیلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ لیکن ممکن ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اتحادیوں کی یہ انتخابی حکمت عملی بھی ہو کہ جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز فضا تیار کر رہی ہے ایسے ماحول میں قومی جمہوری اتحاد یوں کا بھی نقصان نہ ہو جائے اس لئے کئی اتحادی پارٹیاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جارحیت میں شامل نہ ہو کر میانہ روی اختیار کررہی ہیں۔
غرض کہ بہار اور آندھرا پردیش میں قومی جمہوری اتحاد میں شامل لیڈران ہی وزیر اعظم کے مسلم مخالف بیان کی حمایت میں کھڑے نظر نہیں آرہے ہیں اور اب تک تین مرحلوں کی ووٹنگ سے بھی یہ ثابت ہو اہے کہ اکثریت طبقے میںبھی وہ جوش وخروش نہیں نظر آرہا ہے جو گذشتہ پارلیامانی انتخاب میں دکھا ئی دے رہا تھا ۔اگرچہ حکمراں جماعت جس طرح کی انتخابی ماحول سازی کو فروغ دے رہی ہے وہ کسی طوربھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور آئینی طورپر انتخابی ضابطہ اخلاق کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارا آئینی ادارہ انتخابی کمیشن تماشائی ہے اور اب تک محض کاغذی خانہ پُری کر رہی ہے اور جیسے جیسے انتخابی مرحلے آگے بڑھ رہے ہیں ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو بڑھانے کی کوشش ہو رہی ہے
اس لئے انتخابی کمیشن کو بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئے تاکہ بین الاقوامی سطح پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی شناخت قائم رہ سکے۔واضح ہو کہ انتخابی کمیشن نے جس دن انتخابی عمل کی تاریخ کا اعلان کیا تھا اور دو مہینے تک ملک کو انتخابی عمل سے گذرنے پر مجبور کیا تھا کہ سات مرحلوں کی ووٹنگ دو ماہ کی مدت میں پوری ہوگی اسی دن یہ اندیشہ ظاہر ہوگیا تھا کہ انتخابی عمل کو پورا کرنے میں اتنی طوالت کیوں ہے۔ اب جیسے جیسے پولنگ کے مرحلے طے ہو رہے ہیں ویسے ویسے زمینی حقیقت سے آشنا ہو کر ہمارے لیڈران ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانے کو ہی اپنی کامیابی کا آلہ سمجھ رہے ہیں لیکن ملک کے اکثریت طبقے کا عمل قابلِ تحسین ہے کہ وہ زہر فشانی کرنے والے لیڈروں کی امیدوں پر پانی پھیر رہے ہیں ۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں تمام سیاسی جماعتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوام کے سامنے اپنا مدعا رکھے اور اپنی کامیابی کو یقینی بنائے لیکن اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے کہ ان کے قول وعمل سے کسی طبقے کی دل آزاری نہ ہو اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت و ملک کی سا لمیت کو کسی طرح کا خطرہ لاحق نہ ہو۔اس لئے کہ ہمارا ملک کثیر المذاہب اور کثیر اللسان بھی ہے اور کثیر السیاسی فکر ونظر کا مسکن بھی۔
اس لئے ہر سیاسی جماعت کو اس بات کو ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہمارے ملک کی تہذیبی شناخت قائم رہے اور ہمارے معاشرے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رہے کہ جب تک ملک میں امن وامان نہیں ہوگا ہم ایک ترقی یافتہ ملک کی صف میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیاں اگر صرف اور صرف انتخاب میں کامیابی کے لئے منافرت کو فروغ دے رہی ہیں تو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ اس طرح کی روش ملک کی سا لمیت کو خسارۂ عظیم پہنچا سکتی ہے۔
موبائل:9431414586
٭٭٭