غیر منظم سڑک کی تعمیر بھی ترقی کو متاثر کرتی ہے

0
0

 

 

 

واسودیو ڈینڈور
راجستھان

ملک میں لوک سبھا انتخابات کے تیسرے مرحلے کی ووٹنگ کا عمل بھی ختم ہو گیا ہے۔ ملک کے شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی ترقی کے جن بنیادی مسائل پر لوگ اس الیکشن میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں ان میں بجلی، پینے کا صاف پانی، تعلیم، صحت کے ساتھ ساتھ بہتر سڑکیں بھی اہم ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں میں حکومتوں نے سڑکوں کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ نہ صرف قومی اور ریاستی سڑکوں بلکہ دیہی علاقوں کی سڑکوں کو بھی بہتر اور ہموار کرنے کا کام کیا گیا ہے۔ سال 2000 میں پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے آغاز نے ملک میں دیہی سڑکوں کی حالت بدل دی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں دیہی ترقی کی وزارت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پی ایم جی ایس وائی کے تحت اب تک تین مرحلوں میں کام کیا جا چکا ہے ۔ جس کے تحت 8,14,522 کلومیٹر لمبائی کی 1,86,541 دیہی سڑکوں کی تعمیر کی منظوری دی گئی ہے ۔ اس میں اب تک تقریباً 7,49,363 کلومیٹر لمبائی کی 1,77,628 دیہی سڑکوں کی تعمیر کا کام مکمل ہو چکا ہے۔یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سڑکوں کے ذریعے ملک کے دیہی علاقوں میں بھی ترقی کے اہداف حاصل کیے جا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترقی کا حتمی مقصد صرف گاؤں گاؤں سڑکوں کا جال بچھا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے؟ کیا کسی گاؤں میں سڑک بناتے وقت نکاسی آب کے نظام کو نظر انداز کر کے کام کو مکمل سمجھا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے کچھ گاؤں ایسے ہیں جہاں کنکریٹ کی سڑکیں تو پہنچ چکی ہیں لیکن نکاسی آب کے مناسب نظام کو نظر انداز کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں سڑکوں پر بہنے والا نالی کا پانی ترقی کی آدھی ختم ہونے والی کہانی سناتا ہے۔ اس کی ایک مثال راجستھان کے ادے پور کے گاؤں منوہر پورہ کی رنگا سوامی بستی ہے جہاں غیر منظم سڑک کی تعمیر نے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔تقریباً ایک ہزار کی آبادی والا منوہر پورہ گاؤں راجستھان کے سیاحتی شہر ادے پور سے صرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی اکثریت والا یہ گاؤں برادری کے لحاظ سے مختلف بستیوں میں تقسیم ہے۔ گاؤں میں داخل ہوتے ہی آپ کو ترقی کی خوبصورت تصویر نظر آئے گی۔ یہ گاؤں ادے پور شہر کے قریب ہونے کا فائدہ بھی محسوس کرائے گا جو سال بھر سیاحوں سے گونجتا رہتا ہے۔ یہاں داخل ہوتے ہی سیمنٹ سے بنی پکی سڑک آپ کا استقبال کرے گی۔ سڑک کے دونوں طرف پکی نالیاں دیکھ کر محسوس ہوگا کہ یہ گاؤں ترقی کی دوڑ میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن جیسے جیسے ہم گاؤں کے اندر آگے بڑھیں گے، کہیں بھی کنکریٹ کا نالہ نظر نہیں آئے گا۔ کچے اور ٹوٹے ہوئے نالوں سے اٹھنے والا گندا پانی سڑک پر پھیلتا نظر آئے گا۔ اس لیے سڑک کے کنارے موجود کچھ گھروں میں بھی پانی بہتا نظر آئے گا۔ نالے کا گندا پانی خاص طور پر گاؤں کے اندر پرتاپ گورو سنٹر کے آس پاس کے گھروں میں بہتا ہے۔گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ منوہر پورہ میں لوگ گزشتہ 60 سالوں سے رہ رہے ہیں۔ گاؤں کی سرحد ایک چھوٹے سے کمیونٹی سینٹر پرتاپ گورو کیندر کے قریب ختم ہوتی ہے ۔ جس کے ارد گرد رنگا سوامی برادری کے زیادہ تر لوگ آباد ہیں۔ جن کا آبائی کام بھیک مانگتا رہا ہے۔ تاہم اس کمیونٹی کی نئی نسل نے بھیک مانگنے کی بجائے خود روزگار کو ترجیح دی ہے۔ لیکن تعلیم اور بیداری کی کمی کی وجہ سے اس کمیونٹی کے زیادہ تر مرد ادے پور شہر جا کر روزانہ مزدوری کرتے ہیں۔ کچھ پڑوسی ریاست گجرات کے سورت اور احمد آباد جاتے ہیں اور عمارت کی تعمیر میں مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں جبکہ کمیونٹی کے زیادہ تر لڑکے اور لڑکیاں سکول جانے کے بجائے کچرا اٹھانے کا کام کرتے ہیں۔ تعلیم سے یہ دوری بھی معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
اس حوالے سے رنگا سوامی برادری کی 35 سالہ سنگیتا بائی کا کہنا ہے کہ نئی نسل میں تعلیم کے لیے دلچسپی میں کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن زیادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونٹی کے صرف چند بچے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کر پائے ہیں۔ جبکہ لڑکیاں آٹھویں جماعت سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر سکیں۔ جس کی وجہ سے آج بھی یہ طبقہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے قاصر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہمارے گاؤں میں ایک سڑک تو بنی ہے لیکن اس کا ہونا یا نہ ہونا ایک جیسا ہے کیونکہ اس پر ہر وقت نالی کا پانی بہتا رہتا ہے جس کی وجہ سے آنے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھر کے اندر اب نالے کا پانی داخل ہو رہا ہے جس کی وجہ سے بچے بھی بیمار پڑ جاتے ہیں لیکن آج تک اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں نکلا ہے۔‘‘ گاؤں کی ایک اور خاتون 45 سالہ بسنتی بائی کا کہنا ہے کہ گاؤں کے اندر کنکریٹ کی سڑکیں ہیں لیکن نکاسی کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے پانی سڑک پر بہتا رہتا ہے۔ یہی نہیں بعض اوقات زیادہ بہاؤ کی وجہ سے یہ سڑک کنارے پرانے مکانات میں داخل ہو جاتا ہے جو کہ نئی سڑک کی تعمیر کے بعد اب اس کے نیچے آ چکے ہیں۔ اس کی وجہ سے جہاں لواحقین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں سڑک پر گزرنے والے لوگوں کے لیے یہ کسی پریشانی سے کم نہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس پرتاپ گورو کیندر کے ارد گرد درج فہرست قبائل کے خاندان آباد ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس اپنی زمین کا مالکانا حق بھی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ لوگ یہاں پچھلی چھ دہائیوں سے رہ رہے ہیں لیکن آج بھی بہت سے ایسے خاندان ہیں جو مناسب دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی کئی فلاحی اسکیموں کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔
بسنتی کی بات میں خلل ڈالتے ہوئے، اس کے پاس بیٹھی 70 سالہ جوگری بائی کہتی ہیں کہ ہمیں اسکیموں کا فائدہ کیسے ملے گا، جب ہمارے پاس اسے حاصل کرنے کے لیے صحیح معلومات بھی نہیں ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سی اسکیمیں کس کے فائدے کے لیے ہیں اور اس کے حصول کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ کچھ دو خاندان ایسے ہیں جنہوں نے پنچایت کے لوگوں سے مل کر اسکیموں کا فائدہ اٹھایا ہے لیکن باقی اس کے عمل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب گاؤں میں سڑک بن رہی تھی تو لگتا تھا کہ اب سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور گاؤں میں بھی ترقی ہو گی۔ لیکن سڑک کو بغیر کسی نکاسی کے نظام کے بے ترتیبی سے بنایا گیاجس سے کہ سڑک بننے کے بعد یہ آسان ہونے کی بجائے ہم بزرگوں کے لیے مسئلہ بن گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ نالے کا پانی سڑک پر بہنے کی وجہ سے وہاں سے گزرنا مشکل ہوگیا ہے۔ کئی بار گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہر وقت کسی کا سہارا لے کر سڑک پار کرنا ممکن نہیں۔32 سالہ جھمرو کا کہنا ہے کہ وہ اسی گاؤں میں ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور چلاتے ہیں۔ جس کے لیے انہیں سامان لانے کے لیے ان راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ صرف گاؤں کے شروع میں ہی امیروں کے گھروں کے سامنے سڑکیں، اچھی طرح سے نالیاں اور دیگر تمام سہولیات موجود ہیں۔ گاؤں کے اندر بھی پکی سڑکیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پکی سڑک کے ساتھ ساتھ باضمیر لوگوں کی بستیوں اور گھروں کے سامنے بھی اچھی طرح سے نالیوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ جب سڑک بن رہی تھی تو کچھ باشعور لوگوں نے پہلے ڈرین کا نظام ٹھیک کرنے پر اصرار کیا اور پھر سڑک کی تعمیر کا کام مکمل ہونے دیا۔ لیکن ہم اتنے واقف نہیں تھے کہ سڑک بننے سے پہلے نکاسی آب کے انتظامات کے بارے میں سوچیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ سڑک کی تعمیر سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور ہماری کالونی بھی ترقی کرے گی۔ لیکن نکاسی آب کا انتظام کیے بغیر سڑک کی تعمیر سے نقصان ہی ہوا ہے۔
اس سلسلے میں بڈگاؤں پنچایت کے سرپنچ سنجے شرما، جن کے تحت منوہر پورہ گاؤں آتا ہے، کا کہنا ہے کہ ’’سڑک کی تعمیر سے پہلے ہر جگہ نالے کے پانی کی نکاسی کا انتظام کیا گیا تھا، لیکن بیداری کی کمی کی وجہ سے لوگ اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں لر پا رہے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں،’’چپس کھانے کے بعد، گاؤں کے بچے اکثر اپنے پیکٹ نالے میں پھینک دیتے ہیں، جس سے ان کی نکاسی متاثر ہوتی ہے۔ اگر کچرا یا پولی تھین کو ادھر ادھر پھینکنے کے بجائے اسے صحیح طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے، تو نالہ بھی نہیں بھرے گا اور نالے کا سارا پانی بھی بہہ جائے گا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ نالیوں کی صفائی کے لیے وقتاً فوقتاً انتظامات کیے جاتے ہیں لیکن جب تک گاؤں والوں کو خود اس کا علم نہیں ہوتا، کوئی بھی سہولت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ تاہم دیہی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ دیگر عناصر کو بھی مدنظر رکھا جائے تو بہت سے مسائل کا حل ممکن ہے۔ لیکن اس کا مستقل حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک لوگوں میں اپنے کام اور حقوق کے بارے میں شعور پیدا نہیں ہوتا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا