کشمیر شناس اور منٹو شناس ڈاکٹر برج پریمی

0
296
 پروفیسر شہزاد انجم
صدر شعبۂ اردو، جامیہ ملیہ اسلامیہ،دہلی
کشمیر جنت نشاں اپنے جن ادیبوں اور شاعروں پر بلا شبہ ناز کر سکتی ہے ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر برج پریمی کا ہے  ڈاکٹر برج پریمی ایک اہم کشمیر شناس ،منٹو شناس ،صاب نظر نقاد ،محقق ،استاد ،اور بہترین انسان تھے ۔جن کی پیدائش ۲۴؍ستمبر ۹۳۵ا کو محلہ درابی یار حبہ کدل سری نگر کے ایک معروف پنڈت گھرانے میں ہوئی تھی ۔ان کا پورا نام برج کشن ایمہ تھا ۔ ادبی دنیا میںوہ اپنے قلمی نام بر ج پریمی کے نام سے مشہور و مقبول ہوئے۔ دراصل ایمہ کشمیرپنڈتوں کا ایک اہم خاندان رہا ہے۔برج پریمی کے والد شیام لال ایمہ بھی ایک شاعر افسانہ نگار اور مضمون نگار تھے۔برج پریمی نے جس علمی و ادبی ماحول میں آنکھیں کھولی اور جس طرح ان کی پرورش ہوئی اس کی وجہ سے بچپن سے ہی شعرو ادب سے انہیں گہرا شغف ہو گیا تھا اور روز بہ روز ادب کے تیں ان کی دلچسپی اور دیوانگی میں اضافہ ہوتا گیا ۔برج پریمی نے اپنے ادبی  سفرکا آغاز ۱۹۴۹سے کیا ۔انہوں نے کہانیاں لکھیں، خاکے ،مضامین اور کشمیر یات جیسیاہم موضوع پر متعدد،اہم اور تنقیدی مضامین بھی لکھے ۔ان کے علمی کارناموں میںترجمہ نگاری ،شخصی مضامین  اور سفر نامے بھی شامل ہیں۔ان کی تصانیف میں حرف جستجو ،جلوہ صد رنگ ،سعادت حسن منٹو۔۔حیات اور کارنامے ،ذوق نظر، چند تحریریں، کشمیر کے مضامین ،صمد میر (کشمیری سے ترجمہ)،جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو و نما،مباحث،اور منٹو کتھا  خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں ۔ان کے افسانوں کا مجموعہ سپنوں کی شام،بھی شایع ہوا ۔حقیقت یہ ہے کہ برج پریمی کی ادبی سرگرمیوںکے دو خاص میدان ہیں۔اول کشمیر کی زبان ،اور تہذیب اور دوم منٹو کی شخصیت اور ان کی افسانوی کاینات ۔ ندان کے چشم و چراغ  تھے ۔ اس کلچر کارچائو ان کی تحریروں میںجابجا موجود ہے  بقول پروفیسر حامدی کاشمیری ـ  ۔برج پریمی کی کشمیریات سے وابستگی عشق کا درجہ رکھتی ہے اور بقول پروفیسر عنوان چشتی ڈاکٹر برج پریمی کی تحریروں میںکشمیر کا تمدن مسکراتا ہے ۔تہذیب رقص کرتی ہے اور اس کی روح مشک نافے کی طرح،اپنی گرہیں کھولتی ہے ۔اس موضوع پر ین کی تحریریں بنیادی حوالے کا کام دیتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ عام طور پرہمارے ناقدینادب و شعر اور محتلف اصناف سخن پر گفتگو تو ضرور کرتے ہیںلیکن ادبی تنقید کے علاوہ ثقافت ،تاریخ اور معاشرت پر گفتگو کم کم کرتے ہیں۔برج پریمی نے اپنی کتاب کشمیر کے مضامین میں کشمیر کی تہذیب ثقافت اور تاریخ،ادب ،صحافت ،اور ادبی شخصیات پر مضامین لکھ کر کشمیریات سے نہ صرف لوگوں کو واقف کرایابلکہ ان کے علم میںاضافہ بھی کیا ۔انہوں نے پریم ناتھ پردیسی ،پریم ناتھ در ،حامدی کاشمیری،گوئیند کول ،کے علاوہ لل دید کی شاعری ،منٹو اور شاعر کشمیر مہجور ،کشمیر میں ترقی پسند ادبی تحریک،کشمیرمیں اردو اور جموں و کشمیرمیں صحافت جیسے موضوعات پر علمی و تحقیقی مضامین لکھ کر کشمیریاتک کے باب میں اہم اضافہ کیا ۔برج پریمی نے پروفیسر  عبدا لقادری سروری کے ساتھ ،کشمیر میں اردو ،کے ایک پروجیکٹ میں تقر بیاچھ برس وںتک اس تاریحی کارنامے کو انجام دیا ۔اس دوران انہیں کشمیر کی تہذیب و تمدن کو سمجھنے  محتلف اہم ادبائوشعرا سے ملاقاتیںکرنے کا موقعہ ملا ۔پروفیسر عبدالقادر سروری کی صحبت میں رہ کر ان کی ذہنی تربیت ہوئی ۔وہ کشمیر یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے۔کشمیر سے برج پریمی کی جذباتی وابستگی اور اس پروجیکٹ کے ساتھ شب و روز بسر کرنے کی وجہ سے کشمیریات ان کا محبوب موضوع بن گیا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ برج پریمی اسی کشمیرسے کسمپرسی کی حالت میںنکل کر جموں آبسے اور ۲۰ ۔اپریل ۱۹۹۰ کو اس جہانی سے سے کوچ کر گئے ۔اس وقت وہ شعبہ اردو ،کشمیر یونیورسٹی میں ریڈر کے عہدے پر فائز تھے۔کشمیر سے اپنی وابستگی کو انہوں نے مختلف مواقع پر ظاہر کیا ہے۔کیونکہ ان کی زندگی میں کا ایک بڑا مشن کشمیر کے تہذیبی ،ثقافتی،ادبی خزانوںکو منظر عام پردراصل برج پریمی کی شخصیت اور زندگی پر کشمیر کے کلچر کا بڑا گہرا اثر تھا ۔وہ اس تہذیب کے پروردہ اور اعلی کشمیری برہمن  خاندان کے چشم و چراغ  تھے ۔ اس کلچر کارچائو ان کی تحریروں میںجابجا موجود ہے  بقول پروفیسرحامدی کاشمیری ـ  ۔برج پریمی کی کشمیریات سے وابستگی عشق کا درجہ رکھتی ہے اور بقول پروفیسر عنوان چشتی ڈاکٹر برج پریمی کی تحریروں میںکشمیر کا تمدن مسکراتا ہے ۔تہذیب رقص کرتی ہے اور اس کی روح مشک نافے کی طرح،اپنی گرہیں کھولتی ہے ۔اس موضوع پر ین کی تحریریں بنیادیحوالے کا کام دیتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ عام طور پرہمارے ناقدینادب و شعر اور مختلف اصناف سخن پر گفتگو تو ضرور کرتے ہیںلیکن ادبی تنقید کے علاوہ ثقافت ،تاریخ اور معاشرت پر گفتگو کم کم کرتے ہیں۔برج پریمی نے اپنی کتاب کشمیر کے مضامین میں کشمیر کی تہذیب ثقافت اور تاریخ،ادب ،صحافت ،اور ادبی شخصیات پر مضامین لکھ کر کشمیریات سے نہ صرف لوگوں کو واقف کرایابلکہ ان کے علم میںاضافہ بھی کیا ۔انہوں نے پریم ناتھ پردیسی ،پریم ناتھ در ،حامدی کاشمیری،گوئیند کول ،کے علاوہ لل دید کی شاعری ،منٹو اور شاعر کشمیر مہجور ،کشمیر میں ترقی پسند ادبی تحریک،کشمیرمیں اردو اور جموں و کشمیرمیں صحافت جیسے موضوعات پر علمی و تحقیقی مضامین لکھ کر کشمیریاتک کے باب میں اہم اضافہ کیا ۔برج پریمی نے پروفیسر عبدا لقادری سروری کے ساتھ ،کشمیر میں اردو ،کے ایک پروجیکٹ میں تقر بیاچھ برس وںتک اس تاریخی کارنامے کو انجام دیا ۔اس دوران انہیں کشمیر کی تہذیب و تمدن کو سمجھنے اورمختلف اہم ادبائوشعرا سے ملاقاتیںکرنے کا موقعہ ملا ۔پروفیسر عبدالقادر سروری کی صحبت میں رہ کر ان کی ذہنی تربیت ہوئی ۔وہ کشمیر یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے۔کشمیر سے برج پریمی کی جذباتی وابستگی اور اس پروجیکٹ کے ساتھ شب و روز بسر کرنے کی وجہ سے کشمیریات ان کا محبوب موضوع بن گیا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ برج پریمی اسی کشمیرسے کسمپرسی کی حالت میںنکل کر جموں آبسے اور ۲۰ ۔اپریل ۱۹۹۰ کو اس جہانی سے سے کوچ کر گئے ۔اس وقت وہ شعبہ اردو ،کشمیر یونیورسٹی میں ریڈر کے عہدے پر فائز تھے۔کشمیر سے اپنی وابستگی کو انہوں نے مختلف مواقع پر ظالانا تھا اور کشمیریات کی بازیافت ان کا عشق تھا ۔
  ڈاکٹر برج پریمی ،معروف اور منفرد افسانہ نگار سعادت حسن منٹوکے رمز شناسوں میں تھے۔انہوں نے سعادت حسن منٹو،حیات اور کارنامے، موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جس پر انہیں۱۹۷۶ میں کشمیر یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی ۔حقیقت یہ ہے کہ برج پریمی نے اپنی تحقیق و تنقید میں جس طرح منٹو کے افسانے اور ان کے افسانوں کی نفسیات کا مطالعہ کیا وہ منٹو کے شارح  اور نقاد کی حسیت سے معرو ف ومقبول ہوئے ۔ دراصل برج پریمی کا یہ کارنامہ بڑی محنت ،عرق ریزی ،دلسوزی ،جگرکاوی اور دیدہ ریزی کا ہے ۔ جس میں انہوں نے منٹو کے خاندان ،اسلاف،افسانوں ڈراموں ،خاکوں اور مکاتیب کا نہایت گہرائی اور جامعیت کے ساتھ مطا لعہ پیش کیا ہے ۔ان کی یہ کتاب منٹو کو سمجھنے اور پرکھنے میں معاون اور مدد د گار ہے ۔جگن ناتھ آزاد نے نے اسے منٹو شناسی کا انسیکلو پیڈیا قرار دیا ہے اور یہ فرمایا کہ منٹو پر کام کرنے والاکوئی طالب علم ،کوئی اہل قلم اسے نظر انداز نہیں کر سکے گا ۔جگن ناتھ آزاد کے علاوہ آل احمد سرور،مسعود حسین خان ،خواجہ احمد عباس ،گیان چند جین ،کالی داس گپتا رضا ،سردار جعفری ،محمد حسن،قمر رئیس ،بلراج کومل ،عنوان چشتی،حامدی کاشمیری،خلیل الرحمان اعظمی،شکیل الرحمان ،محمد یوسف ٹینگ ،اور وارث علوی نے بھی اس کتاب کی ستائش کی ہے۔کیونکہ ان کی زندگی میں کا ایک بڑا مشن کشمیر کے تہذیبی ،ثقافتی،ادبی خزانوںکو منظر عام پرکے مقالے کے بندھے ٹکے فریم سے مختلف لکھنے کی کوشش کی گئی تھی یہ خیال کیا گیا کہ منٹو کی تخلیقی فکر کے کے جو  دوسرے میلان ہیں مثلاً ترجمہ، فلم،خطوط وغیرہان پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ منٹوکے خاندان آباواجداداور ان کے اضطراب آساو ناآسودہ شحصیت کے مختلف پہلووں کو بھی روشن کیا جائے ۔ ساتھ ہی ساتھ منٹو کی نایاب تحریروں اور مشاہیر کے نام خطوط کی روشنی میںمنٹو کو جانچا اور پرکھا جائیاور ان کے مختلف گوناگو ں منفی پہلووں کو بھی  اجاگر کیا جائے۔گویا یہ کہ ایک خاص علمی اور معروضی اندازمیں برج پریمینے منٹو کی زندگی ،شخصیت ،ادبی و صحافتی اورفلمی سرگرمیو ں کا  جائزہ پیش کیا ہے جو اس کتاب کو وقع اور اہم بناتی ہے
( بشکریہ روزنامہ انقلاب، دہلی)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا