شمالی و وسطی کشمیر میں انتخابات کے بعد اب تمام نظریں جنوبی کشمیر پر

0
125

 

ننت ناگ؍؍شمالی اور وسطی کشمیر میں عام انتخابات کے دو مرحلے اختتام پذیر ہونے کے بعد اب انتخابی لہر نے وادی کے حساس ترین علاقے جنوبی کشمیر کا رخ کیا ہے جہاں 23 اپریل،29 اپریل اور6 مئی کو تین مرحلوں میں پولنگ ہوگی جس میں قریب 14 لاکھ رائے دہندگان 18امیدواروں کے سیاسی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔چار اضلاع اننت ناگ، کولگام، شوپیاں اور پلوامہ پر مشتمل اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں الیکشن کمیشن نے پولنگ اوقات میں دو گھنٹوں کی کمی کی ہے جہاں سیکورٹی معاملات کے پیش نظر پولنگ صبح کے سات بجے شروع ہوکر سہہ پہر کے چار بجے اختتام پذیر ہوگی۔سال 2104 کے اسمبلی انتخابات میں 16 اسمبلی سیٹوں میں سے11 اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد اننت ناگ پارلیمانی حلقہ پی ڈی پی کے لئے گڑھ ماناجاتا تھا لیکن پی ڈی پی کی طرف سے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد اس حلقے میں حالات میں کافی تبدیلی واقع ہوئی۔اگرچہ اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں تمام سیاسی پارٹیوں بشمول نیشنل کانفرس، کانگریس، پی ڈی پی اور بی جے پی نے سخت حفاظتی حصار میں انتخابی جلسے کئے لیکن ان میں لوگوں کی بہت قلیل تعداد نے شرکت کی اور انتخابی مہمیں جنگجوؤں کے حملوں کا بھی نشانہ بنیں۔ پلوامہ کے ترال علاقے میں نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر کے گھر پر گرینیڈ حملہ کیا جہاں پارٹی کار کنوں جلسہ ہورہا تھا اس کے علاوہ محبوبہ مفتی کے قافلے پر پتھراؤ بھی ہوا۔اننت ناگ پارلیمانی حلقے میں اگر چہ 18 امیدوار اپنی قسمت آزمائی کررہے ہیں لیکن اصل اور سخت مقابلہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی، کانگریس کے ریاستی صدر غلام احمد میر اور نیشنل کانفرنس کے جسٹس (ر) جسنین مسعودی کے خلاف ہے، سی پی آئی ایم جس نے اس حلقے سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے، نیشنل کانفرنس کی امیدوار کو حمایت کرے گی۔ پیپلز کانفرنس جس کی حلقے میں کوئی خاص پوزیشن نہیں ہے نے چودھری ظفر علی کو کھڑا کیا ہے۔ بی جے پی جس کو گذشتہ عام انتخابات میں اس حلقے میں صرف 1.26 فیصدی ووٹ حاصل ہوئے تھے، نے صوفی یوسف جو ایم ایل سی بھی ہیں، کو کھڑا کیا ہے۔سری نگر پارلیمانی حلقے میں انتخابات عمل اختتام پذیر ہونے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے اننت ناگ میں انتخابات مہم شروع کی ہیں تاہم یہاں وہ سیاسی جوش وخروش یکسر مفقود ہے جو شمالی و وسطی کشمیرمیں دیکھنے کو ملا۔یہاں بڑے جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد کہیں نظر نہیں ا?رہا ہے بلکہ سخت حفاظتی حصار میں چھوٹی چھوٹی میٹنگوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں بہت کم تعداد میں لوگ جن میں اکثریت کارکنوں کی ہوتی ہے شرکت کرتے ہیں۔بتادیں کہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں منعقدہ انتخابی جلسوں میں لوگوں کی قلیل تعداد دیکھ کر بار ہا شکوہ سنج ہوئیں یہاں تک ایک جلسے میں لوگوں کی عدم دلچسپی کو دیکھ کر آبدیدہ بھی ہوئیں۔کانگریس امیدوار غلام احمد میر کے لئے سینئر پارٹی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ بی جے پی کے لئے پارٹی کے قومی ترجمان شہنواز حسین نے اپنے امیدوار صوفی یوسف کے حق میں منعقدہ ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا۔یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ رواں انتخابات کے دوران تعمیر ترقی کے نعروں کے بجائے لیڈراں دفعہ 370، دفعہ 35 اے، قومی شاہراہ پرسیول ٹریفک کے لئے دو روزہ پابندی کے معاملات پر لوگوں سے ووٹ طلب کررہے ہیں۔جملہ جماعتوں کے لیڈراں نے اپنے انتخابی خطابوں میں متذکرہ دفعات کے تحفظ کے لئے لوگوں سے ووٹ مانگ کر اپنے ا?پ اور اپنی اپنی پارٹیوں کو ہی ان دفعات کی ڈوبتی نیا کا ناخدا قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔تمام پارٹیاں بالخصوص نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی ایک دوسرے کو ریاست کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار قرار دینے پر ایڑی چوٹی کی زور آزمائی کررہی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ جونبی کشمیر میں سال 2014 کے اسمبلی انتخابات میں 16 سیٹوں میں سے 11 سیٹوں پر پی ڈٰ ی پی نے ہی کامیابی حاصل کی تھی جبکہ نیشنل کانفرنس نے صرف دو سیٹیں حاصل کی تھیں اور دو سیٹوں پر کانگریس نے قبضہ کیا تھا اور ایک سیٹ سی پی آئی ایم کی جھولی میں گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں جب پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا کر ریاست میں اقتدار کی گدی سنبھالی تو صورتحال نے بھی یکسر کروٹ بدلی۔اننت ناگ پارلیمانی سیٹ پر سب سے پہلے کانگریس کے محمد شفیع قریشی نے سال 1967 میں قبضہ کیا تھا انہوں نے لگاتار دوبار اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی بعد ازاں سال 1980 سے سال 1989 تک اس سیٹ پر نیشنل کانفرنس کے تین امیدوار غلام رسول کوچک، زوجہ شیخ محمد عبداللہ بیگم اکبر جہاں اور پی ایل ہنڈو بھاری بھاری براجمان رہے۔بعد ازاں وادی میں ملی ٹنسی شروع ہوئی جس کے باعث یہاں سال 1991 سے سال 1996 تک انتخابات نہیں ہوسکے۔تاہم سال 1996 میں جب یہاں دوبارہ عام انتخابات ہوئے تو اننت ناگ پارلیمانی سیٹ پر جنتا دل کے محمد مقبول ایک غیر معروف سیاسی لیڈر نے کامیابی کا جھنڈا گاڑا اس کے بعد سال 1998 کے عام انتخابات میں اس سیٹ پر پی ڈی پی کے بانی مرحوم مفتی محمد سعید نے کانگریس کی ٹکٹ پرکامیابی حاصل کی۔تاہم اننت ناگ پارلیمانی نشست پر سال 2004 سے سال 2014لگاتار پی ڈی پی براجمان ہے، سال 2004 میں محبوبہ مفتی، سال 2009 میں محبوب بیگ اور سال 2014 میں پھر محبوبہ مفتی نے اس سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ سال 2014 میں مفتی سعید کی رحلت کے بعد جب محبوبہ مفتی نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو یہ سیٹ خالی ہوئی تب سے ہنوز خالی ہی ہے کیونکہ نامساعد حالات کے باعث اس سیٹ پر عام انتخابات نہ ہوسکے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا