لمحوں کی راکھ

0
173

ڈ اکٹر برج پریمی
( اس افسانے کے سب کردار، مقامات واقعات فرضی ہیں اور ان کا کسی شخص جگہ واقعہ، یا ادارے کی مطابقت قطعی اتفقایہ ہو سکتی ہے، جس کے لئے مصنف پر کوئی ذمہ داری عاید نہیں ہوتی)
رات کتنی بھیانک ہے
میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہوں ۔ چاروں طرف اندھیرے کے گھنے جنگل پھیلے ہو ئے ہو ئے ہیں ۔ کچھ بھی سجائی نہیں دیتا۔ میں گم سم سناٹے کی آواز پر کان دھرے ، من کے کیواڑ کھولے ہوئے دیکھتا جا رہا ہوں ۔ پسینے میں شرابور دل کی د ھڑکن لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔ لگتا ہے جیسے کوئی طوفان جاگ رہا ہے ۔ اس کونے میں میری بیمار بیوی لیٹی ہوئی ہے ۔ دو مہینے سے بیمار ہے۔ اس کی پرانی بیماری لوٹ آئی ہے ۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسے موت کے منحوس سائے سے دور رکھوں مگر وہ خون تھوک رہی ہے
وہ میرے بچوں کی ماں ہے۔ میرے ٹوٹے ہوئے گھروندے سے سر اوندکی مالکن ۔میں دن رات ایک کر کے صبح سے شام تک پڑھا پڑھا کر کماتا ہوں تاکہ اس کی زندگی کا سورج ڈوب نہ جائے اور اس کی آنکھوں میں حسرتوں کے آنسو نہ رہ جا ئیں۔ لیکن اسے کون سا گھن کھائے جا رہا ہے؟ میرا ذہن شل ہو چکا ہے میری آنکھوں میں حستروں کے آنسوں ٹپک رہے ہیں ۔۔۔ پاس ہی بچے سر اوندھائے سو گئے ہیں ۔ ان کے بچپنے کے خواب بھی جیسے روٹھ گئے ہوں ۔ اندھیرے کے اس دبیز پردے کے نیچے سے ان کی سہمی سہمی آنکھیں پھیل جاتی ہیں اور الماس کے بے رنگ چہرے میں پیوست ہوتی جا رہی ہے ۔
’’ ہٹ جاو میرے سامنے سے۔۔۔۔۔ مجھ سے کیا لینے آئی ہو؟ اب تو دس سال بیت چکے ہیں، زمانہ کہاں سے کہاں چلا آیا ہے۔ میری آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے ہیں اور میرے خوبصورت چہرے پر وقت کے تھپیڑوں کے نشان صاف نظر آتے ہیں ۔ میں اس دن بھی تم سے متاثر نہیں ہوا تھا، جب تم میرے مردانہ جلال پر لٹو ہو گئی تھی۔ تم میں رکھا ہی کیا تھا ایک یوں ہی سی صورت خالی خولی جسم نہ کوئی قوس اور نہ کوئی زاویہ ، ایک بے ڈھنگی مردانہ آواز۔۔۔۔۔ آوازیں تو مجھے اس وقت بھی رستی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جیسے سناٹوں نے آوازوں کو میرے اردگرد گھیر لیا ہے ۔ یہ آوازیں اس وقت میرے من کے سناٹوں میں گھوم رہی ہیں۔
اور میں نے الماس کی آواز وں کو روند ڈالا۔۔۔ تم نے اپنے طور مجھ سے خوب انتقام لیا ۔ تم راج کی باہوں میں جھول گئیں اور میری طرف ایک آنکھ بھی نہ دیکھا ۔ میں تمہاری تیاگ اور تپسیا کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو گیا ۔۔ تمہاری بے رنگ آنکھوں میں عشق کی قوس قزح جھلملانے لگی ۔ راج کے جیو میٹری بکس نے تمہارے جسم کے خالی کاغذ پر کتنی ہی قوسیں اور کتنے ہی ٹیڑھے میڑھے خطوط ابھار دئے۔۔ سارے گڑھے بھر گئے اور تمہارا جسم ایک جنسی بلاوا بن گیا ۔اور میں ۔۔۔تبسم کی آنکھوں میں کنول کے پھول تلاش کرتا رہا ۔ جس جذبہ شوق کو لے کر تم میرے سایوں کے پیچھے بھاگھتی رہی تھیں اسی گد از نے مجھے تبسم کی مسکراہٹ چومنے کے لئے بے قرار کر دیا ۔ ہم دونوں کی دنیا ایک جیسی ہوتے ہوئے بھی کتنی دور تھی۔ تمہیں پاتال کی تلاش تھی اور مجھے آکاش کی کھوج ۔
آکاش پر سیاہی چھائی ہوئی ہے تارے اندھیرے کے قبرستان میں دفن ہوچکے ہیں اندھرا ہی اندھرا۔ گھٹاٹوپ تاریکی ۔۔۔۔ دنیا مر چکی ہے۔ میرے کمرے میں کتابوں کے اس ڈھیر کے قریب اب ایک سگریٹ سلگ رہا ہے کوئی دھویں کے مرغولے فضا کی اور تاریکی میں بکھیر رہا ہے۔ دھواں ہی دھواں۔۔۔ کڑ ھوا کیلا دھواں۔۔۔۔ کاجل کے گھنے سائے میں ڈوبی ہوئی نیلی آنکھیں پھر بلا رہی ہیں لیکن جوں ہی آگے بڑھتا ہوں ۔ آنکھوں کے دریچے بند ہو جاتے ہیں۔ خاموشی ۔۔۔۔ مکمل خاموشی۔ کوئی آواز نہیں۔۔۔۔ جیسے چاند اچانک گہنا جائے اور میں کٹ کے رہ جاتا ہوں ۔ در اصل میں چغد ہوں ، منٹو کا چغد، عشق کی قوس قزح کو تھامنے کے لئے فنکار ہاتھوں کی ضرورت ہے ، جو دور دور تک پھیل سکیں ۔ جہاں حیا کا اجالا پہرہ دیتا ہے۔ حسن کے مندر میں آرتی کون اتارے گا؟
تبسم۔۔۔۔۔چاند ۔۔۔۔ہے ۔ چاند کی طرف دیکھ کر آہیں بھرنے کا زمانہ بیت چکا ہے ۔چاند ٹکڑے ٹکڑے ہو کر آج ہر ملک کی تجربہ گاہوں میں پڑا ہوا ہے ۔ ۔ گھٹ گھٹ کر گھل جانے کی فرصت کہاں ؟ پرانے لوگ سودائی تھے ۔ چاند سے عشق کرتے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ چاند اور عشق ؟ بات نہیں بنتی۔۔۔: زندگی ان منزلوں تک آگئی ہے جہاں سفید بالوں کی جھا ڑیاں صاف نظر آنے لگی ہیں ۔ پھول مر جھا گئے ۔۔۔ تو ان کی مہک بھی مر جائے گی اور باغ ۔۔۔ باغ میں الو بولنے لگیں گے۔
اف حبس سا طاری ہو رہا ہے سانس رک سی گئی ہے تاریکی کے اس اتھاہ سمندر میں کوئی چپو مار رہا ہے ۔ کوئی آہستہ آہستہ میری طرف بڑھتا آرہا ہے ۔ میری آواز گلے میں اٹک کے رہ جاتی ہے۔ کوئی آسمانی طاقت ۔۔۔؟ میرا ضمیر۔۔۔؟
کل صفا کدل میںآٹھ آدمی جل کر راکھ ہو گئے بیچارے۔۔۔۔۔ عبرت ناک واقعہ۔ لوگ کہتے ہیں گناہ کئے تھے۔ چار بچوں کی ایک ماں اور چار بچوں کا ایک باپ مستقبل کی ساری امیدیں لئے جل گئے۔ ایک نئی دلہن سہاگ رات کی سیج پرجل کر راکھ ہوگئی اور چار بچے اپنی فرشتوں کی سی معصویت اور پاکیزگی کا تاج سر پر لئے اللہ میاں کے دربار میں باریاب ہو گئیاور ۔۔۔۔ اور میں نے کتنے گناہ کئے ہیں ،کتنے جھوٹ بولے ہیں کتنی ریاکاریاں گلے سے لگائی ہیں کتنے ۔۔۔۔۔۔ چاروں طرف آگ سی جلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے اور میں جل کر راکھ ہو جاتا ہوں۔ کہیں دور کوئی سرگوشیوں میں کہہ رہا ہے وہ جو اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ وہ جو کاغذی سڑکیں بنا کر سرکاری خزانے کو لوٹتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو اغوا کر کے ان کی آنکھیں نکال کر بھیک مانگنے کا پیشہ سکھاتے ہیں ۔ اور وہ جو مذہب کے نام پر لوگوں کو زندہ جلاتے ہیں اور وہ جو۔۔۔ میری راکھ میں پھر سے چنگاریاں سلگنے لگتی ہیں۔
میں پاگل ہو جاوں گا۔۔۔۔ مجھے گیان و عرفان کی ضرورت ہے۔ ذہن میں بھگوت گیتا کے اشلوک تازہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ مجھے بدھ کا تیاگ چاہیے ۔۔۔ مجھے عیسیً کے صبر کی ضرورت ہے ۔ کوئی غیر مروئی طاقت مجھے آواز دے رہی ہے ۔ سناٹے کی ان بے پناہ ویرانیوں کو چیرتی ہوئی پکار ۔۔۔۔۔پرتماما؟
آسمانوں سے کوئی پر اسرار بلاوا؟ آرم سٹرانگ آسمانوں کو پھاندتاہوا چاند کے نورانی چہرے کو روندھتا ہوا صحیح سلامت واپس لوٹ آیا ۔۔۔ اور سیاہ فام مارٹن لوتھر کنگ کا خون اب بھی بہہ رہا ہے اور چندی گڈھ کا حسن فق ہو گیا ہے ۔۔۔ اور میرا سر گھوم رہا ہے
وقت بیتتا جا رہا ہے ۔لمحے بہتے جا رہے ہیں کمرے کے اس کونے میں میری رفیقہ حیات کراہ رہی ہے۔ شاید سینے میں پھر درد ہو رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور آنسووں میں حسرتیں۔۔۔۔۔ اور آج ۲۶ تاریخ ہے ، میری جیب خالی ہے اور دوائیوں کا اسٹاک ختم ہو چکا ہے بوتلیں پاس کے طاق پر لڈھک گئی ہیں اور یار لوگ کہتے ہیں تمہاری چاندی ہے ، کتنے کا بینک بیلنس ہے ۔ اب تو ٹکسال بن چکے ہو‘‘ لینڈ لیڈی نے میرے بچے کو پھر صبح صبح کوسنے دئے ہیں لاٹ صاحب کی اولاد؛ لوگوں کا گھر اجاڈ چکے اب میرا گھے مسمار کرنا ہے ۔ دفع ہو جاو یہاں سے، جیسے تمہارے بابا کا گھر ہے۔۔۔۔۔۔ میں بچے کی آنکھوں میں سویرے سویرے شبنم کے دو قطرے دیکھ چکا ہوں ۔ ایک عجیب سی اتھل پتھل ہے من میں
اف یہ رات کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ تاریکی اپنے خونخور جبڑے کھولے میری طرف بڑھ رہی ہے۔ سویرا کب ہو گا۔۔۔۔؟ سویرا کبھی نہیں ہو گا۔ ملک میں سیاسی افراتفری ہے۔ قومی کردار تار تار ہو رہا ہے ۔ طبقاتی کشمکش۔۔۔۔ بور ثرادا ۔۔۔۔ پرولتاریہ ۔۔۔۔ سوشلزم۔۔۔سیاسی پارٹیاں چاروں طرف بلیک میل ہو رہا ہے ۔
راج نے بھی تو الماس کو بلیک میل کر دیا۔۔۔۔ راج ایک جسم فروش مرد ہے عشق اس کا پیشہ اور عورت اس کی مالی ضرورت ہے۔۔۔ اس نے کتنی ہی جوان بیواوںکے نفسیاتی خواہشات کو بجھایا ، کتنی ہے ناآسودہ سہاگنوں کی سلگتی ہوئی آگ کو بھڑکایا۔ اس کی عورت دکان اس کی مسکراہٹ اس کی جنسی تجارت۔۔۔ زندگی کی اس منزل پر آکر اس کے جنسی جذبات سرد ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی امساک کی گولیاں کھا کھا کر اس نے جذبات کی ہانڈی کو اپنے جسم کے ساتھ بھیچ رکھا ہے ۔ الماس نے اپنا مذہب ، ایمان ، دولت ، اور جسم سب کچھ راج پر نثار کر دیا ۔ راج اس کے جسم کے بدلے اس کے زیوروں کو چھین کر اپنی بیہتا بیوی کے زیورات بناتا رہا۔ اپنی مسکراہٹ کے عوض الماس کی ایک ایک کوڑی خریدتا رہا اور اسے اپنی آسائش کا سامان کرتا رہا۔اس کے جسم کے انگ انگ کو مسل کر اس کی کوکھ میںایک بچہ رکھ دیا اور بچہ بے نام ہے بے باپ ہے ۔ اس کے بچے کا کوئی مذہب نہیں، کوئی جسم نہیں ، کوئی روح نہیں ۔ اس نے منٹو سے لے کر ہیگل تک سارے فلسفے کو چاٹ لیا ہے ۔ راج کی خاطر؛
اس کے سامنے صرف ایک سوال ہے ۔ اس کے بچے کی مسکراہٹ کا ضامن کون ہے؟
راج؟ جس نے گناہ کی تپتی ہوئی ریت پر اس کے کنوارے بدن کو گلے لگایا۔
فلسفہ؟
الماس چلی جاو ۔ میری نظروں سے ہٹ جاو اور بھگت لو اپنے گناہوں کی سزا۔۔۔؛ لیکن میں ہانپ کیوں رہا ہوں؟
میری سانسیں اٹک سی کیوں گئی ہیں ۔ یہ دل میں عجیب سی بے نام سی بیقراری کہاں سے چلی آئی ہے؟
تبسم : میری جان، یہ تم ہو
وہی دراز بال وہی مستانہ روی وہی آنکھوں کی نیلی جھیلیں۔ وہی گالوں کے سیب، وہی سپنوں کی شام،
ٹھر جاو میں تمہارے دراز بالوں کوتھام لوں، سرمئی سایوں سے ڈھکی ہوئی تمہاری نیلی جھیلوں میں جھانک لوں اور کنول کا ادھ کھلا پھول کھوج لوں ۔۔۔۔تمہارے انتظار میں میری آنکھیں پک گئی ہیں۔ لیکن تم ہٹ کیوں رہی ہو ؟ تمہاری نیلی نیلی جھیلوں میں یہ سفید سفید دھارائیں کہاں سے آگیئں ہیںکیوں۔۔۔۔۔۔؟ کنول کا وہ ادھ کھلا پھول بھی۔۔۔۔
اف ـ؛ میں پاگل ہو جاوں گا۔
میں نڈھال ہو چکا ہوں۔ سارا جسم ٹوٹ رہا ہے ۔ پسینے چھوٹ رہے ہیں ۔چاروں طرف ایک طوفان گھرج رہا ہے جیسے کوئی کشتی طوفانی لہروں میں گھری ہوئی ڈول رہی ہو ۔ دیواریں ہل رہی ہیں ، میرے دماغ پر کوئی زور زور سے ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ یہ اندھیرے لمحے راکھ ہوتے جا رہے ہیں۔ تاریک جنگلوں میں ہوا سائیں سائین کرتی ہوئی گزرتی جا رہی ہے۔ بے بسی ہاتھ پھیلائے میری طرف بڑھتی جا رہی ہے اور میرے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ رہے ہیں
( بشکریہ ماہنامہ فلمی ستارے، دہلی ۱۹۷۰عہ)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا