سعادیہ ثناء
پونچھ
چند مہینوں پہلے نیٹ کے نتائج سامنے آنے کے بعد جموں کشمیر میں نئے نئے ستارے ابھر کر سامنے آئے ۔ ایسی ایسی کہانیاں ابھر کر سامنے آئی جن کی محنت اور لگن نے سب کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ وہیںضلع پونچھ کے گاؤں چنڈک بیلا کے رہائشی محمد شکیل جن کی عمر محض 18 سال ہے،انہوں نے نیٹ کا مشکل ترین امتحان پاس کر کے نا صرف اپنے ماں باپ کا نام روشن کیا، بلکہ اپنی طرح باقی نو عمر بچوںں کو بھی ایک پیغام اور حوصلہ دیا۔شکیل نے بتایا کہ ان کے والد صرف تین سو روپے دن کے کماتے ہیں اور ان کے پاس گھر بھی پی ایم آئی اسکیم کے تحت بنا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو پڑھانے کا بہت شوق تھا اور انہیں کے شوق کی وجہ سے میں نے سوچا کہ میں بھی ڈاکٹروں کی پڑھائی کرنا چاہتا ہوں اور اپنے گھر کا نام روشن کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے جیسے کئی نوجوان جو اس پڑھائی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس ایسے وسائل موجود نہیں ہوتے ہیں۔بات اگر کوچنگ سینٹر وںکی کی جائے تواس کے لئے ہم جیسے غریب بچوں کے پاس اتنی فیس میسر نہیں ہوتی کہ وہ اس میں داخلہ لیں سکیں۔ خیر کسی بھی طرح میرے والد نے مجھے آٹھ ہزار روپے میسر کروائے جس کی وجہ سے میں نے آن لائن پلیٹ فارم فزکس والا سے اپنی پڑھائی کو جاری رکھااور اپنی محنت اور لگن سے اپنے والدین کے خواب کو مکمل کیا اور اس امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح کی ایک اور کہانی کشمیرکے ضلع پلوامہ کے عمر کی ہے ۔ عمر کی کہانی جتنی دلچسپ ہے اتنی ہی دردناک بھی ہے ۔اس کی محنت اور مشقت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا، سماج میں اس نے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ میں تیسری جماعت سے مزدوری کر کے، اپنی پڑھائی کر رہا ہوں۔ تیسری جماعت یعنی بالکل ایک چھوٹا سا بچہ ۔اس چھوٹی سی عمر میں ہی عمر نے اپنے خواب کو مکمل کرنے کے لئے مسلسل جدوجہد کی۔ اس کا بڑا بھائی بھی مزدوری کرتا ہے اور ایک بہن ہے جو پڑھی لکھی تھی۔ جو اس کو پڑھایا کرتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پیڑ کی شاخیں کاٹنے کا کام کرتا تھا اور رات میں یہ پانچ سو روپے کما کر گھر لاتا تھا۔ جس سے ان کا گھر بھی چلتا تھا اور ان کی پڑھائی بھی چل رہی تھی۔ اسے ڈاکٹر کی پڑھائی کرنے کا شوق تھا۔اس کے لئے اس نے لگاتار کچھ مہینے کام کیا اور پندرہ ہزار روپے کمائیں اور پھر گاؤں پلوامہ سے پیدل چل کر وہ ایک کوچنگ سینٹر میں داخلہ لینے گیا۔جہاں اسے معلوم ہوا کہ وہاں تیس ہزار روپے فیس ہے۔ لیکن اس کے پاس صرف 15 ہزار روپے تھے جس کی وجہ سے وہ ناامید واپس لوٹ آیا اور پھر کچھ عرصہ ایسے ہی چلتا رہا۔ اس کے بعد اسے معلوم ہوا کہ ایک آن لائن پلیٹ فارم پر بہت ہی معمولی فیس پر سائنس کی کوچینگ دی جاتی ہے۔اس سے وہاں ایڈمیشن لے لیا اور اپنی مزدوری بھی جاری رکھی۔ سب سے بڑی بات انہوں نے بتایا کہ وہ چوبیس گھنٹے میںصرف تین گھنٹے ہی سویا کرتے تھے۔ اس قدر ان کے اندر جنون اور شوق تھا جس کی وجہ سے آج وہ ڈاکٹر بن گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ لوگوں کے گھروں میں رنگ سازی بھی کیا کرتے تھے یعنی پینٹر کا کام کیا کرتے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی کے خواب مکمل ہوگئے۔ جس کے پیچھے مسلسل ان کی محنت ، مشقت اور ان کی جدوجہد کا ثبوت ہے۔اسی سلسلہ میں ضلع پونچھ کے گاؤں کلائی اسکول کی ہیڈ میڈم محترمہ نسیم اختر نے بتایا کہ ہمارے اسکول میں اس بار دسویں کلاس کے امتحانات کے نتائج سامنے آنے پر بچوں نے اعلیٰ نمبرات حاصل کیے ہیںاور ان میں بھی ایک بالکل غریب گھر کا بچہ جس کا نام محمد عثمان ہے اور ان کے والد کا نام محمد طفیل ہے۔جن کی مزید یہ خواہش ہے کہ میرا بیٹا بڑا ہو کر اعلیٰ مقام پر فائز ہو۔وہیںاس کے اسکول کی ہیڈ ماسٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ اگر ان جیسے بچوں کی کہانی دیگر بچوں کو سنائی جائے تو ان بچوں میں بھی پڑھائی کا رحجان اور زیادہ دیکھنے کو ملے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جو گاؤں سے نکل کرآج اعلی مقام پر فائز ہیں، انہیں چاہئے کہ کم از کم سال میں ایک بار اپنے گاؤں کا جائزہ ضرور لیا کریںاورسال میں ایک بار کچھ پروگرام منعقد کروائیں، جس میں بچوں کو گورنمنٹ ا سکیم کے بارے میں بتائیں اور کچھ خود اپنی مالی حیثیت کے مطابق ان کی مدد کریں۔ ان میں گائیڈنس اور کونسلنگ کا رجحان پیدا کریں۔ جس سے بچوں کا شوق تعلیم کی طرف بڑھتا رہے۔ ساتھ میں ان بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کچھ انعامات دیئے جائیں جن سے بچوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوسکے۔وہ کہتی ہیں کہ ہمارے سماج میں ان نوجوانوں کی طرح اور بھی کئی بچے ہیں جو پڑھنے میں کافی تیز ہیںلیکن ان کے گھر کی مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ اسے بچوں کی خاص طور پر مدد کریں تا کہ وہ بھی اپنے خوابوں کو مکمل کر سکیں۔اس سلسلے میں مجھے گاندھی جی کا’’ ایچ ون ۔ ٹیچ ون‘‘ والا تصور یاد آ تا ہے۔ یعنی ہرایک پڑھا، لکھا ،کسی ایک کو پڑھائے تو اس طرح آج بھی ہمارے سماج میں کافی حد تک تبدیلی آ سکتی ہے۔ اسلئے گائوںکے پڑھے لکھے اور بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گائوں کی طرف ذیادہ توجہ دیں کہ نئی نسل کس حال میں ہے۔ اس طرح غریب گھروں کے بچے جب مزید ابھر کر سامنے آئیں گئے ۔جب وہ اعلیٰ مقام پر فائز ہوں گے،تو وہ آگے اور کئی بچوں کا سہارا بن سکتے ہیں۔ اگر بچوں کو پڑھائی کا اتنا شوق ہے ،عمر اور شکیل جیسے نو عمربچے اپنی زندگی خود سنوار سکتے ہیں تو یقینا اس چیز کا اشارہ ہے کہ نئی نسل کا شوق اور رحجان تعلیم کی طرف بڑھ رہا ہے۔پس ضرورت اس بات کی ہے ان کے شوق کو مزید فروغ دیا جائے تاکہ آج کے بچے کل ملک کا مستقبل بن کر ملک و قوم کی خدمت کر سکیں ۔ (چرخہ فیچرس)