دیارِ یار دلدار شاعر طرح دار میں ایک دن

0
272

کالم نویس:سلیم شوق پورنوی
مدرسہ چشمہ فیض ململ بہار
9597288002
عام طور پر ایسا انسان بہت مشکل سے ملتا ہے جس کے گفتارکردار کے مخالف نہ ہوں ، جو زبان و بیان پر مہارت رکھنے کے ساتھ دل کا بھی دھنی ہواور اس کا قول و فعل ایک جیسا ہو،اس لئے کبھی کوئی ایسا انسان مل جائے تو اس سے دعاوسلام سے آگے بڑھ کر اس سے گفت و شنید کرکے استفادہ ضرور کرنا چاہیے ، اگر فرصت ملے تو ان کے پاس کچھ وقت ضرور بیٹھنا چاہیے۔ہم نے یہی سوچ کر دیوبند کے سفر میں اپنے رفیق کار مولانا حماد غزالی سے رائے مشورے کے بعد یار دلدار شاعر طرح دار جناب ڈاکٹر ثمریاب ثمر صاحب کوفون کیا کہ ہم آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ،توانہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں تک پہنچنے کی جانکاری دیتے ہوئے کہاکہ آپ نانوتہ یا رامپور آجائیں،ہم وہاں سے آپ کو رسیو کرلیں گے۔چناں چہ! ہم بھائلہ روڈ دیوبند سے نانوتہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ابھی ہم نانوتہ وارد ہوئے ہی تھے کہ میزبان محترم شاعر ڈاکٹر ثمریاب ثمر چوہان صاحب مسکراتے ہوئے استقبال کرتے ملے ، پھر انھوں نے اپنی گاڑی پر سوار کیااور پھر خود ڈرائیو کرتے ہوئے ان بستیوں سے لے کر آگے بڑھے جن میں کبھی بڑے بڑے اللہ والوں کا قیام ہواکرتا تھا،حضرت نانوتویؒ کے گاو¿ں نانوتہ سے ہوتے ہوئے چندان گاو¿ں سے گزر ہوا جہاں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کا بکثرت قیام رہتا اور دعوت و ارشاد کا کام انجام دیتے ، ان گاو¿وں میں سے ایک گاو¿ں ’آبھا‘سے گزر ہوا ،جہاں حضرت تھانویؒ بکثرت تشریف لاتے تھے، دوران گفتگو یہ بھی پتا چلا کہ حضرت تھانویؒ اس گاو¿ں میں جس تخت پر بیٹھتے تھے وہ تخت اب تک محفوظ ہے۔ اور پھر ایک افسوس ناک واقعہ بھی سننا پڑا کہ ”حضرت تھانویؒ کے ایک مرید جن کے ہاں حضرت تھانویؒ اکثر قیام کرتے وہ مولانا تھے،ایک مسجد میں پچاس سال امام رہے مگر انھوں نے لوگوں کے ایمان کی کوئی خاص فکر کی اور نہ ہی ان پر خاص توجہ دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اپنے لڑکے بھی دین سے دور ہوگئے اور آج وہ شراب تک پینے سے پرہیز نہیں کرتے۔ یہ بات چل ہی رہی تھی کہ میں نے شاعرعزیز سے بطور مزاح کہا ڈاکٹر صاحب وہ اپنا مشہور شعر سنائیں جس میں آپ نے اپنی برادری کی ترجمانی کی ہے۔ ڈاکٹر ثمریاب ثمر ! کون سا؟ راقم ! وہ وہ ہے نا جس میں ” اردو زباں بول رہے ہیں“ یا ایسا ہی کچھ ہے۔ڈاکٹر ثمریاب ثمر!! ہوگا کوئی ، اتنا یاد کہاں رہتا ہے۔ اچھا اچھا یہ:
ہجرت کے تقاضوں کا نتیجہ ہے ثمر یہ
ہم خانہ بدوش اردو زباں بول رہے ہیں
پھر ایک اور شعر اسی قسم کا تھا۔ جی ایک نہیں دو شعر تھے:
بکھر نے لگتی ہیں خود ہی گلاب کی پتیاں
نظر جھکا کے وہ جب جب لبوں کو کھولتی ہے
وہ اس لئے بھی مجھے اور بھی حسین لگے
وہ اپنے گوجری لہجے میں اردو بولتی ہے
جب ہم ان کے گاو¿ں ڈھاکہ دیوی پہنچے تو یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہاں کے مسلمان الحمد للہ خوش حال ہیں ،اس گاو¿ں میں کبھی پٹھان برادری کے لوگ رہتے تھے۔ اب پٹھان شاید ہی کوئی ہو ، اس گاو¿ں میں مشہور کرکٹر و فلمی اداکار منصور علی خان پٹودی کی رشتہ داری بھی تھی، جب بات ان کے گاو¿ں کی آہی گئی تو یہ بھی ذکر کردینا فائدے سے خالی نہیں ہے،ہمارے میزبان محترم شاعر ڈاکٹر صاحب گجر قوم کے چوہان قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ، اس قوم کی دو خوبیاں لائق تحسین،بلکہ قابل تقلید ہیں ، 1۔ مہمان نوازی ۔2 ۔ بہادری،اس قوم کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے افراد ہمیشہ اپنی تاریخ یاد رکھتے ہیں اور پوری دنیا میں جہاں جہاں گجر قوم بستی ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں اس سے رابطہ رکھتے ہیں،ان کے احوال سے دوسروں کو واقف کراتے ہیں،پاکستان میں گجروں کی ایک فاو¿نڈیشن ہے جو باضابطہ اسی کام پر مامور ہے، دوران گفتگو محترم شاعر نے اپنی قوم کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گجروں کے ایک وفد کی ملاقات کا ذکر ہے ” قصائد غثریہ“ کے بارے میں بھی بتایا کہ ”غثر“ عربی میں ”گوجر “کو کہتے ہیں۔ گاو¿ں پہنچتے ہی عصر کی اذان شروع ہوگئی تھی، کچھ دیر مہمان خانے میں ٹھہرے۔ وہاں داخل ہوتے ہی ایک طالب علم کو جو چیزیں چاہئیں ۔وہ وہاں وافر مقدار میں موجود تھیں ، ادب کی کئی اصناف کی کتابیں ٹیبل پر رکھی نظر آئیں ان میں ”کلیات کلیم عاجز“اور ڈاکٹر مستمر کی تازہ تصانیف بھی شامل تھیں۔ ابھی ان پر سرسری نظر پڑی ہی تھی کہ میزبان محترم نے کہا،چلیں اندر چل کر چائے پی لیں۔چناں چہ چائے کے ساتھ وائے بھی کافی مقدار میں تھا اور ہونا بھی چاہیے تھا کہ یہ ان کی تہذیب ہے ، مہمان نوازی اس قوم کا خاصہ ہے۔چائے پیتے ہوئے نظر پڑ گئی گھر میں سجے برتنوں پر ،لٰہذا!! میں تجسس میں پڑ گیا کہ اتنے برتن رکھنے کی وجہ کیا ہے ؟ میزبان محترم بھانپ گئے کہ یہ کچھ پوچھنا چاہتا ہے تو انھوں نے خودہی جواب دیا کہ یہ گجر قوم کی پرانی تہذیب ہے کہ ہمیشہ برتن سجا کر رکھے جاتے ہیں؛ تاکہ کبھی اچانک مہمان آجائیں اورہزار کی تعداد میں آجائیں تب بھی انہیں کسی طرح کی تشویش نہ ہواور یہ پیغام بھی ہوتا ہے کہ ہمارے گھر میں ایک ہزار مہمان بھی ایک ساتھ آجائیں تو بلا تکلف کھانا نوش کرسکتے ہیں۔
مجھے یہ بات بڑی اچھی لگی۔ بات چل رہی برتنوں پر کہ ڈاکٹر صاحب مولانا حماد غزالی صاحب کی پیالی میں دوبارہ چائے ڈالنے لگے۔
مجھے اس پر حیرانی ہوئی کہ یہ لوگ چائے بھی کئی کئی کپ پیتے ہیں۔ یہ پوچھنا چاہ ہی رہا تھا کہ مولانا حماد غزالی نے کہا ہمارے یہاں تو چائے ایک ہی کپ دی جاتی ہے ، میں نے تائید کرتے ہوئے کہا ہمارے یہاں دوبارہ چائے ڈالنے کا تصور ہی نہیں ہے۔پھر عصر کی نماز کے لئے قریب کی مسجد میں لے گئے وہاں کے امام جانے پہچانے لگے انھوں نے سلام میں پہل کرتے ہوئے مصافحہ کیا۔مسجد پہنچ کر وضو کرنے لگے اسی درمیان ایک شخص آیا اور ان سے پوچھا یہ مہمان کب تک رہیں گے ؟۔عصر کی نماز کے بعد ہم نے رخصت چاہی تو ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں بولتے ہوئے کہا ! پتا ہے جب وضو کررہے تھے تو ایک آدمی نے کچھ پوچھا تھا ؟جی کچھ تو پوچھ رہا تھا آپ سے۔وہ یہ پوچھ رہا تھا مہمان کب تک رہیں گے ؟ میں نے کہا بس کچھ ہی دیر۔اگر میں یہ بتا دیتا کہ ایک دو دن رہیں گے تو ابھی لوگوں کی بھیڑ لگ جاتی کہ رات کا کھانا میرے گھر ، ناشتہ میرے گھر،دوپہر کا کھانا میرے گھر۔اور میں مہمان نوازی سے محروم ہی ہوجاتا۔آپ ابھی جانے کی بات کررہے ہیں لوگ دیکھیں گے تو کیا سمجھیں گے کہ مہمان کو اتنی جلدی روانہ کردیا۔ یہ بات بھی میرے لئے تعجب خیز تھی کہ یہاں کے لوگ دوسرے کے مہمان کی کس قدر مہمان نوازی کرتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی باتیں سن کررکنا ہی پڑا۔اور پھر کہنے لگے ہم تو سمجھ رہے تھے آپ اہلیہ سمیت آئیں گے؛چنانچہ ہم نے گاڑی کا انتظام بھی کرلیا تھا کہ آس پاس کے بزرگوں کے مقامات کا سیر کرلیں گے۔رات میں دینی، سماجی اورادبی مسائل پر گفتگو ہونے لگی،دوران گفتگواردو ادب پر ادب مافیاو¿ں کی گرفت کی بات آئی تو کلام چوروں تک بات پہنچ گئی،
بات چلتے چلاتے کلیم عاجز تک جا پہنچی،مولنٰا حماد غزالی ان کے بڑے فین ہیں اوران سے ملاقات کا شرف حاصل ہے، انھوں نے ان کی شخصیت پر مختصر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی دین داری اور سادہ لوحی کواجاگر کیا، مغرب سے عشاءتک گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہا۔
بعد عشاءکھانے سے فراغت پاکر اپنے کھیتوں کی طرف چہل قدمی کے لیے لے گئے ، پھر واپس مہمان خانے کی طرف لوٹتے وقت بات چھڑگئی مصروفیات کی تو انھوں نے عربی ادب پر گفتگوشروع کی تو میں محو حیرت ہوگیا کہ آخر ایک ڈاکٹر کو عربی پر اتنی مہارت۔!انھوں نے عربی شعراءکے استعارات و تشبیہات کے بارے میں بولتے ہوے ایک شاعر کا ایک شعر سنایا تو مت پوچھئیے کانوں کو کیسی لذت ملی وہ شعر یہ ہے ، آپ بھی پڑھیں اور محظوظ ہوں۔
طالبھا قلبی فراغت بہ
وامسکت قلبی مع الدین
فکنت کالھقل غدا یبتغی
قرنا فلم یرجع باذ¿نین
”میں نے جس حسینہ کو چاہا وہ میرا دل ہی لیکر فرار ہوگئی اور اس نے قرض سمیت(چاہت سمیت میرے دل وہیں رکھ لیا)واپس نہیں لوٹایا، اب میں اس شتر مرغ کے چوزے کی طرح ہوں کہ جو سینگ لینے کے لئے گیا تو کان بھی وہیں دے آیا تھا “اور بھی دیگر موضوعات پر گفتگو ہوئی خاص طور پر سیاست اور ملکی حالات پر۔فجر کی نماز کے بعد کچھ گفت و شنید اور سیلفی کے ساتھ ناشتہ کرکے دیوبند کی طرف روانہ ہوگئے۔ان کو دیکھنے ان کے ساتھ ایک دن گزارنے اور ان کے یہاں ایک دن قیام کرنے کے بعد میں نے جو دیکھا اور محسوس کیاہے اگر ان کو زبان دوں تو یہ کہوں کہ ”ہم نے ایک ایسے نوجوان شاعر و ادیب کو دیکھا ہے جس کے سینے میں دھڑکتا دل ہے ،آنکھوں میں ایمانی حیا اور چہرے پر عبادت کا نور ہے“ تو شاید کوئی مبالغہ نہیں ہوگا،اور یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ وہ جتنا اچھا شاعر ہے اتنا ہی عمدہ اخلاق کا مالک بھی ہے،چونکہ میں نے شاعریاردلدارطرح دار ثمریاب ثمر صاحب کو دیکھا ہے۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا