سیدہ تبسّم منظور ناڑکر
ممبئی
9870971871
- میں نے بہت سوچا اور سوچ سوچ کر پریشان ہو گئی۔مجھے لگا اس موضوع پر لکھنا ضروری ہے۔ اس لئے قلم اٹھا ہی لیا۔ لوگوں سے سنا ہے۔ شوشل میڈیا پر بھی دیکھا ہے تو سوچا جتنی عزت و احترام ماں باپ کی شوشل میڈیا پر پوسٹ ڈال کر کی جاتی ہے۔کیا اتنی عزت و احترام حقیقی زندگی میں ہوتا ہے؟ ؟؟ نہیں بلکل بھی نہیں!!! اگر عزت و احترام کا معاملہ ہوتا تو اتنے سارے اولڈ ایج ہوم نہیں ہوتے۔ اور یہ اولڈ ایج ہوم دن بہ دن بڑھتے ہی جا رہیں ہیں۔
اب جس موضوع پر لکھنا ہے وہ بیان کردوں۔ یہ جملہ بہت سے لوگوں سے سنا ہے۔ شوشل میڈیا پر لکھا ہوا بھی دیکھا ہے۔۔۔۔۔ "اگر بیٹی کو اپنے ماں باپ کو ساتھ رکھنے کا حق ہوتا تو وہ انھیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی۔۔۔۔۔۔۔ ” کئی لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ آج کے دور میں بیٹیاں ہی پالتیں ہیں۔
میں کہتی ہوں وہ بیٹی ہی ہے نا جو کسی کے گھر کی بہو بنتی ہے ! ہمارے گھر کی بیٹی کسی اور کے گھر کی بہو بنتی ہے تو اس گھر کی بیٹی بھی کسی اور کے گھر کی بہو بنتی ہے۔تو یہ بیٹی ہی تو ہے نا جو ماں باپ کے گھر سے وداع ہو کر کسی کے گھر کی بہو بنتی ہے۔ تو پھر کیوں؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ شادی کے بعد بیٹی تو بیٹی رہتی ہے مگر کسی کی بہو بن کر اس کے جذبات بدل جاتے ہیں۔ بیٹی اگر اپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ رکھ سکتی ہے تو بہو بننے کے بعد اپنے ساس سسر کو جو شوہر کے ماں باپ کی ہیں ساتھ کیوں نہیں رکھ سکتی ؟ وہ کیوں نہیں سمجھتی اور کیوں نہیں سمجھایا جاتا کہ جیسے اس کے ماں باپ ہیں ویسے شوہر کے ماں باپ بھی تو ہے نا !
والدین اگر اپنی بیٹی کو صحیح اور بہترین تربیت دیں تو وہ بیٹی کبھی بھی ایسا برا سلوک اپنے ساس سسر کیساتھ نہیں کرسکتی ، وہ اپنے ماں باپ جیسے ہی اپنے ساس سسر کے ساتھ پیش آئیگی۔ پہلے زمانے میں لوگ کہتے تھے کہ لڑکی دیکھنے سے پہلے ماں کو دیکھا جائے، گھر کا ماحول دیکھا جائے، کیونکہ جیسی ماں ہوگی ویسی ہی تربیت بیٹی کو دے گی۔ مائیں بیٹیوں کو اور بیٹوں کو بھی نیک اور صحیح تربیت دیں۔ ماں اگر بیٹی کو سسرال جاتے وقت یہ سیکھائے کے اب وہی تمہارا گھر ہے وہی تمہارے ماں باپ ہیں۔ جس طرح ہم سے پیش آتی ہو ویسے ہی وہاں پر بھی رہنا، تو وہ بیٹی بہو نہیں بلکہ بیٹی بن کر اپنے ساس سسر کو سنبھال سکتی ہے۔
جب ایک لڑکی شادی کرکے گھر میں آتی ہے تو وہی اس کا اصلی گھر ہوتا ہے۔ جہاں مرتے دم تک رہنا ہے۔اب یہ اس لڑکی کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ اپنے گھر کو جنت بنائے یا دوزخ ! اس لڑکی کے لئے نیا ماحول ،نئے لوگ ، نئے طور طریقے، سب کچھ نیا ہوتا ہے۔اس لڑکی کو نئے ماحول میں ڈھلنے کے لئے وقت لگتا ہے۔ سسرال والوں نے بھی اپنے گھر آنے والی لڑکی کو وقت دینا چاہئے۔ اپنے طور طریقے سیکھانے چاہئے۔ بہو سے غلطی ہو جائے تو اسے سمجھنا چاہئے نہ کے جلی کٹی باتیں سنائی جائے اور طعنے دیئے جائیں۔ اور بہو کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ہماری ماں بھی تو غلطی پر ٹوکتی ہے۔ اسی طرح ساس نے بھی کسی بات پر ٹوک دیا تو برا نہیں ماننا چاہئے۔ یہ سسرال کے رشتے جتنے مضبوط ہوتے ہیں اتنے ہی نازک بھی ہوتے ۔ میں نے سنا ہے عورت چندن کی طرح ہوتی ہے۔ جیسے چندن کو گھسنے کے بعد خوشبو آتی ہے ، اسی طرح عورت جتنا حالات کے پتھر پر گھستی ہے اس میں سے اتنی ہی خوشبو آتی ہے۔
ماں باپ کو اپنی بیٹی کی ازدواجی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ اور بیٹے کے ماں باپ نے بھی اپنے بیٹے کی ازدواجی زندگی میں دخل دینے سے بچنا چاہئے۔ ان رشتوں کا آپسی تال میل برقرار رکھنے کے لئے ایک دوسرے کی باتوں کو سمجھنا اور انھیں عزت دینی چاہئے۔یہ رشتہ دونوں طرف سے اگر خوش اسلوبی سے نبھایا جائے تو ہی بخوبی نبھایا جا سکتا ہے۔ کبھی بہو بیمار ہو جائے تو اسے بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔جیسے بیٹی کو آرام دیتے ہیں۔ اور بہو کو بھی چاہئے اپنے ساس سسر کا خیال رکھیں۔ ان رشتوں میں توازن رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اگر ماوں نے اپنی بیٹیوں کو اچھی تربیت دی تو یہ نہیں کہنا پڑیگا کے بیٹیاں ہی ماں باپ کو سنبھال سکتیں ہیں۔ کئی مائیں ایسی بھی ہیں جو اپنی بیٹیوں کے سامنے لوگوں کی برائیاں کرتی ہیں۔ اپنے سسرال والوں کی برائی کرتی ہیں۔ ان کے اپنے سسرالی رشتوں میں تناو ہوتا ہے۔یہاں کی باتیں وہاں کرتی ہیں چغلی کرتی ہیں۔ وہی سب کچھ ماں سے سیکھتی ہیں یہ بیٹیاں اور پھر وہی سب کچھ وہ اپنے سسرال میں جاکر دہراتی ہیں۔
ماوں کو اپنی بیٹیوں کو اچھی تربیت اور تہذیب سیکھانی چاہئے۔ انہیں بتانا چاہئے کہ ساس سسر بھی ہمارے ماں باپ ہیں۔اگر تم اپنے ساس سسر کی خدمت کروگی تو ہمارے گھر آنے والی ہماری ماں باپ کی طرح خدمت کرے گی۔ اگر ہماری بیٹی نے اپنے ساس سسر کو باہر کردیا ان سے برا سلوک کیا تو ہمارے گھر بھی پبہو آئیگی وہ بھی ویسے ہی کرے گی۔ یہ اللہ کا انصاف ہے۔ جو کروگے وہ بھروگے۔جو بووگے وہی کاٹوگے۔ ہر کوئی اگر اپنے اپنے فرائض کو بخوبی نبھائے تو مسئلے شاید تھوڑے بہت کم ہوجائیں گے۔
میں بھی کسی کی بیٹی ہوں۔ میں بھی اپنے گھر بہو بن کر آئی تھی۔ پہلے پہل سب کو ہی بہت تکلیفیں، مشکلیں، دقتیں آتی ہیں۔ ان کا سامنا کر کے ثابت قدم رہنا چاہئے۔ میری سبھی بیٹیوں سے درخواست ہے کہ جیسے اپنے ماں باپ ہیں ویسے ہی ساس سسر بھی ہیں وہ شوہر کے ماں باپ ہیں جیسے اپنے ماں باپ کی باتوں کا برا نہیں مانتے ویسے ہی ان کی باتوں کا برا نہیں ماننا چاہئے۔تھوڑا سا برداشت کریں، باتوں کو بیٹھ کر سلجھائیں۔اپنے رشتوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں۔گھر میں جو اپنے ساس سسر کو آواز دیتے ہیں تو باہر بھی ان کا ذکر ہو تو وہی نام سے کریں جیسے امی ابا یا ممی پاپا ،اس سے عزت بھی بڑھتی ہے اور پیار بھی، یہ بیٹیاں ہی تو ہیں جو بہو بنتی ہیں۔تو پھر کیوں ! آخر کیوں؟ ایک بیٹی اپنے ماں باپ کو سنبھال سکتی اور بہو نہیں؟ سوچئے گا ضرور۔