سڑکوں پر تیز رفتار ڈرائیونگ لے رہی ہے ہزاروں کی جان

0
44

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

 

ہر دن اخبار سڑک حادثے کی کئی خبریں لے کر آتا ہے ۔ حادثہ میں کسی کی جان جاتی ہے، کسی کو ملتا ہے

زندگی بھر کی معذوری کا زخم، کسی مانگ کا سندور اجڑ جاتا ہے، کسی بچے کے سر سے اس کے باپ یا ماں کا سایہ اٹھ جاتا ہے ۔ کسی گھر میں اس گھر کے چاغ کے بجھ جانے سے اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹالے جانے والے ان سڑک حادثات میں بچوں اور نوعمروں کی موت زیادہ ہوتی ہے ۔ ان میں سے بہت سے واقعات اسکول اور کالجوں کے قریب پیش آتے ہیں ۔ اسکول کے پاس رفتار 25 اور اسپتال کے پاس 30 کلو میٹر فی گھنٹہ کی ہونی چاہئے ۔ لیکن اثر موٹر گاڑی ڈرائیور ٹریفک قوانین کا خیال نہیں رکھتے ۔ یہی وجہ ہے سڑک حادثات میں بھارت دنیا میں سر فہرست ہے، جہاں یومیہ 400 سے زیادہ اموات ہوتی ہیں ۔ جلد بازی اور ڈرائیونگ میں لا پرواہی اس کی بڑی وجہ ہے ۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ بھارت میں دنیا کی صرف ایک فیصد گاڑیاں ہیں، لیکن دنیا کے تمام سڑک حادثات میں 6 فیصد اور اموات میں 11 فیصد شیئر بھارت کا ہے ۔ گزشتہ ایک دہائی میں سڑک حادثوں میں 1.3 ملین سے زیادہ ہلاک اور 50 لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں ۔
واقعات بتاتے ہیں کہ شہروں کے مقابلہ دیہی علاقوں میں سڑک حادثات زیادہ ہوتے ہیں ۔ سڑک حادثات میں ہلاکتوں کی کئی وجہ ہیں مثلاً ٹریفک نگرانی کی عدم موجودگی، آوارہ جانوروں کے سڑک پر گھومنے کی آزادی، تیز رفتاری، ہائی ویز کی تکنیکی کمیاں، روڈ سائن (نشانات) کو نظر انداز کرنا، ٹریفک کے قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنا، بر وقت طبی مدد نہ ملنا وغیرہ ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ 65.1 فیصد روڈ سائن کی واقفیت رکھتے ہیں لیکن اس پر 16 فیصد ہی عمل کرتے ہیں ۔ افسوسناک یہ ہے کہ سڑک حادثات کی زیادہ تر اموات کو کچھ معمولی اقدامات کے ذریعہ روکا جا سکتا ہے ۔ جیسے محفوظ طریقہ سے گاڑی چلانا، سڑک پر چلنے والوں کا خیال رکھنا، تیز رفتاری اور اوورٹیکنگ میں جلد بازی سے بچنا، آوارہ جانوروں کو سڑک پر آنے سے روکنا اور اپنی رفتار کو مقررہ حد میں رکھنا ۔ روڈ ٹریفک پولس کی پیٹرولنگ سے بھی سڑک حادثوں کو روکنے میں مدد

مل سکتی ہے ۔

https://www.who.int/news-room/fact-sheets/detail/road-traffic-injuries
کووڈ کے دوران ملک میں سب سے کم سڑک حادثے ہوئے ۔ مگر 2022 میں جمع کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق دس ریاستوں میں سب سے زیادہ سڑک حادثات ریکارڈ کئے گئے ۔
ریاست کا نام حادثات کی تعداد شیئر %
تمل ناڈو 64015 13.9%
مدھیہ پردیش 54432 11.8%
کیرالہ 43910 9.5 %
اترپردیش 41746 9.0 %
کرناٹک 39762 8.6 %
مہاراشٹر 33383 7.2 %
راجستھان 23614 5.1 %
تلنگانہ 21619 4.7 %
آندھرا پردیش 21249 4.6 %
گجرات 15751 3.4 %
رپورٹ کے مطابق ملک میں 2022 میں کل 461312 سڑک حادثات ہوئے ۔ ان میں 168491 لوگوں کی موت ہوئی جبکہ 443366 زخمی ۔ حادثات سے متاثر ہونے والوں میں خواتین کے مقابلہ مردوں کی تعداد زیادہ ہے، ان میں سب سے زیادہ 15 سے 19 سال کے ہیں ۔ مرنے والوں میں 15 سے 25 سال عمر کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ حادثہ میں 20 – 25 فیصد پولی ٹروما اور 60 فیصد کو دماغی چوک لگی ہے ۔ دو پہیہ گاڑی چلانے والے حادثات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ بدقسمتوں کی جان چلی جاتی ہے تو کچھ کی چوٹوں کی وجہ سے زندگی بدل جاتی ہے ۔ کئی طویل عرصے تک، یا زندگی بھر بستر پر پڑے رہتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اگست 2020 میں روڈ سیفٹی کو بہتر بنانے کی تجویز پیش کی ۔ اس کی روشنی میں اقوام متحدہ نے پائیدار ترقی اہداف 2030 کا ایجنڈہ روڈ سیفٹی طے کیا ہے ۔ اس کے تحت سڑک حادثات میں 2030 تک 50 فیصد کی کمی لانا ہے ۔ اقوام متحدہ اور ڈبلیو ایچ او نے اپنے Umbrella پروگرام کے تحت یو این ڈیکڈ آف ایکشن فار روڈ سیفٹی 2021-2030 کے لیے عالمی منصوبہ تیار کیا ہے، جس میں ثابت شدہ اور موثر مداخلتوں کے ساتھ ساتھ سڑک حادثات کو روکنے کے لیے بہترین طریقوں سے تیار کردہ سفارشی اقدامات کا خاکہ پیش کیا ہے ۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے ذریعہ تیار کردہ پروگرام کے مطابق سڑک پر ہونے والی اموات کو کم کرنے کی عالمی کوشش میں سال 2030 تک ٹریفک سے متعلق حادثات میں ہونے والی اموات کو نصف تک کم کرنے کا عہد کیا ہے ۔ زندگی کے اس انتہائی اہم پہلو، سڑک حادثات اور معاشرے کے کمزور طبقوں یعنی بچوں و نو عمروں پر خصوصی توجہ کے لئے یونیسیف نے ٹریفک اور روڈ سیفٹی کے ماہرین، منتظمین، میڈیا اور تخلیقی پیشہ ور افراد – ریڈیو جاکیز، مصنفین اور سول سوسائٹی کے اراکین کو گجرات کے گاندھی نگر میں اکٹھا کیا ۔ 15 اور 16 اکتوبر کویونیسیف نے حکومتِ گجرات کے انٹرنیشنل آٹوموبائل سینٹر فار ایکسی لینس میں ایک قومی میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا ۔ جس کا مقصد روڈ سیفٹی کے مسئلہ پر غور و خوض کر کے قابل عمل حل تلاش کرنا تھا ۔
کیونکہ سڑک حادثات میں بچوں کی موت کے اعداد و شمار چونکانے والے ہیں ۔ دنیا بھر میں ہر منٹ میں 2 اموات ہوتی ہیں، اور روزانہ 3200 سے زیادہ سڑک ٹریفک حادثات میں، جو 5 سے 29 سال کی عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی موت کا سب سے بڑا سبب بنی ہوئی ہیں ۔
ورکشاپ میں ڈاکٹر جی گروناتھ، FAMS، روڈ سیفٹی ایڈوائزر، اور سابق ڈائریکٹر، NIMHAMS، بنگلور نے سڑک کی حفاظت کے پیچھے بنیادی سائنس کا خاکہ پیش کرتے ہوئے، تقریباً آدھے گھنٹے کی اپنی گفتگو میں مسئلہ اور اسکا حل بہترین طریقہ سے پیش کیا ۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیوں ترقی یافتہ مغرب نے سڑک حادثات میں ہونے والی اموات کو کم کیا ہے، جب کہ بھارت جیسا ملک ایسا برتاؤ کرتا ہے جیسے "یہ کسی اور کا مسئلہ ہے میرا نہیں” اور ہندوستانی اس انداز میں گاڑی چلاتے ہیں جس سے بہت سے لوگ مارے جاتے ہیں ۔ انہوں نے سیٹ بیلٹ لگانے، ہیلمٹ پہننے، ٹریفک قوانین پر عمل کرنے، ڈرائیونگ کرتے وقت موبائیل فون استعمال نہ کرنے، رفتار کو مقررہ حد میں رکھنے اور شراب پی کر ڈرائیونگ کرنے کے نقصانات پر اعداد و شمار کے ساتھ تفصیل سے اپنی بات رکھی ۔ انہوں نے بتایا کہ 72 فیصد حادثات تیز رفتاری کی وجہ سے ہوتے ہیں جبکہ معیاری ہیلمٹ پہننے سے 70 فیصد یلاکتوں کو روکا جا سکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
یونیسیف کے اس مسئلے کو اٹھانے کے پیچھے سڑک حادثات کے متاثرین میں بچے و نوعمروں کی نصف تعداد کا ہونا ہے ۔ اس مسئلہ پر یونیسیف نے اپنی 2022 کی رپورٹ ‘چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ روڈ سیفٹی ان ساؤتھ ایشیا’ میں روشنی ڈالی ہے ۔ اس کے مطابق 2019 میں خطے میں 12.2 ملین اموات میں سے 9 فیصد زخمی ہوئے اور سڑک پر ٹریفک کے تصادم میں ایک چوتھائی بچے اور نوعمر ہیں ان میں سے 171,468 زخموں کی وجہ سے ہلاک ہوئے، ان میں سے 29,859 اموات سڑک پر ٹریفک کے تصادم کے ساتھ ڈوبنے سے ہوئیں ۔ مجموعی طور پر سڑک ٹریفک اموات کی شرح فی 100,000 افراد میں 6 تھی ۔ ان حادثات کی وجہ سے 20 سال سے کم عمر کے افراد میں 2.5 ملین معذوری سے ایڈجسٹ شدہ زندگی کے سال (DALYs) کا نقصان ہوا ۔
ماہرین کا ماننا تھا کہ سڑکوں پر ہونے والی اموات ایسی ہیں جن سے بچا جا سکتا ہے ۔ پھر بھی وہ ہو رہی ہیں اور ان میں سالانہ 10 فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے ۔ وہ اس بات پر متفق تھے کہ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حادثات کیوں ہوتے ہیں اور پھر مصنوعات (گاڑیوں کی اصلاح) اور لوگوں کے طرز عمل میں مزید اہم تبدیلیاں (مسائل) کے ساتھ سامنے آنا چاہیے ۔ تاکہ زمینی مسئلہ سے نمٹنا آسان ہو سکے ۔ اسی طرح اموات میں اضافہ کی
تشخیص ۔ سڑکوں پر ہونے والی اموات کی تعداد کو رفتار کا انتظام کرکے کم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ زیادہ رفتار سڑک حادثات میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ درحقیقت، رفتار کا انتظام بہت اہم ہے، اور اس پہلو پر، عمل درآمد سخت اور سخت ہونا چاہیے، کیوں کہ رفتار سے محبت کرنے والے اموات کا باعث بنتے ہیں اور ایسے تمام ڈرائیور مجرمانہ قتل کے ‘مجرم’ ہیں جو کہ قتل کے مترادف تو نہیں لیکن، عام آدمی کی زبان میں انہیں بغیر مقاصد کے قاتل کہا جا سکتا ہے ۔ اوور اسپیڈنگ کے بار بار مجرم پائے جانے پر ان کا لائسنس منسوخ کر ان پر لگام لگائی جا سکتی ہے ۔ اگر اس کا حل آسان ہے تو بحیثیت قوم ہم کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟ کم از کم 15 مختلف محکمے ایسے ہیں جو روڈ سیفٹی کے مسائل سے جڑے ہوئے ہیں، اور ہر ایک اس پر کچھ کرتا ہے، اور بعض اوقات لاتعلق رہتا ہے، اور مسئلہ حل ہونے کے بجائے بڑا اور بڑا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ کوئی بڑا حادثہ رونما ہو جاتا ہے ۔ ہمیں اس صورتحال کو بدلنا ہوگا ۔ چوبیس گھنٹہ عوام، حکومت، ٹریفک انتظامیہ، ماہرین اور میڈیا کو ساتھ مل کر مسلسل بیداری مہم چلانی ہوگی ۔ عوام تک پیغام رسانی سے حادثات میں ہونے والی اموات کو کم کیا جا سکے گا ۔

https://lazawal.com/?cat=

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا