سرسید احمد خاں کے اسباقِ ابدی !

0
41

 

پروفیسر مشتاق احمد

سرسید احمد خاں (۱۷؍ اکتوبر۱۸۱۷ئ۔۲۷؍ مارچ ۱۸۹۸ئ)عالمی تاریخ کی ان شخصیات میں شامل ہیں جن کے افکار

ونظریات کی اہمیت میں تغیر زمانہ کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ اور اس کی قبولیت کا درجہ بلند ہوتا جا رہاہے۔دراصل سرسید احمد خاں جس عہد کے پروردہ تھے وہ عہد مسلم معاشرے کے لئے عیش وآرام کا بھی تھا اور مشکل وآزمائش کا بھی۔ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ان کی پرورش دہلی میں ہوئی اور ان کے خاندان کا تعلق دربارِ مغلیہ سے رہا ۔ اس وقت دہلی کے شرفاء میں ان کے خاندان کو اولیت حاصل تھی

https://amu.ac.in/about-us/the-founder

اور علم وفن کے شعبے میں بھی اس خاندان کی شہرت تھی۔سرسید دہلی کے اسی سلطنت مغلیہ کے دورِ جاہ وجلال کے چشم دید تھے اور پھر جب سلطنت مغلیہ کا زوال ہوا ،بالخصوص ۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد دہلی کے ادنیٰ واعلیٰ تمام افراد کے سروں پرجو مصائب وآلام کاپہاڑ ٹوٹا اس خونریز منظر کو بھی سرسید نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا تھا اور ایک حساس دل انسان کے طورپر محسوس کیا تھا۔اس لئے سرسید نے ایک طرف ان وجوہ تک پہنچنے کی کوشش کی جن سے مسلم طبقہ ذلیل وخوار ہو رہا تھا تو دوسری طرف انگریزی حکومت کے ذہن ودل میں مسلمانوں کے تئیں جو منافرت پیدا ہوگئی تھی اس کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کی اور وہ اپنی اس کوشش میں قدرے کامیاب بھی ہوئے۔’’اسباب بغاوت ہند ‘‘کی اشاعت اور پھر اس کے انگریزی ترجمہ کے بعد حکومت برطانیہ اس حقیقت سے آشنا ہوئی کہ آخر کار ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی صدا کیوں بلند ہوئی۔سرسید نے نہ صرف سیاسی امور پر حکومت برطانیہ کو ہندوستانی معاشرے کی حقیقت سے آشنا کیا بلکہ مذہبی معاملات میں انگریزوں نے جس طرح نفرت پھیلانے کا کام کیا تھا اس کی طرف بھی متوجہ کیا۔اپنی تصنیف’’خطباتِ احمدیہ ‘‘ کے ذریعہ مشتشرق ویلیم میور کی کتاب ’’دی لائف آف محمد‘‘ (۱۸۶۱ئ)جواب لکھ کر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انگریزی حکومت کے خلاف مسلمانانِ ہند کے دلوں میں جو غم وغصہ ہے وہ ویلیم میور کی تصنیف کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے حضورﷺ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی ہے ۔خطباتِ احمدیہ سے ایک طرف عالمی سطح پر سرسید احمد خاں کی صالح اسلامی فکرونظر کو مقبولیت حاصل ہوئی تو دوسری طرف انگریزوں کو بھی یہ احساس ہوا کہ ویلیم میور نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی سیرت نگاری میں نہایت ہی تعصبانہ فکر ونظر کا مظاہرہ کیا ہے ۔سرسید نے جب انگریزی حکومت کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ ہندوستان کا مسلمان اس ملک میں اپنی تاریخی شناخت کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتاہے اور وہ حب الوطنی کو ایمان کا درجہ دیتا ہے۔اس لئے انگریزی حکومت کو بھی ہندوستان کے معاشرتی نظام کے مطابق اپنے فیصلے کرنے ہوں گے اور ہندوستانی شہری کے حقوق کی پاسداری بھی کرنی ہوگی ۔جب سرسید نے مسلمانوں کی بدحالی پر غوروفکر کرنا شروع کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک ہندوستانی مسلمان تعلیمی شعبے میں اپنی موجودگی کا احساس نہیں کرے گا اور بالخصوص عصری تقاضوں پر مبنی تعلیم کو اپنانے میں کامیاب نہیں ہوگا اس وقت تک اس کی بد حالی دور نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اب سرسید نے شب وروز صرف اور صرف مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے نسخے تلاش کرنے شروع کئے۔ اس وقت کے ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات کا جائزہ لیا اور اپنے معاشرے کا علاج ایک طبیب کی طرح کرنے لگے۔بجنور ، مراد آباد، بنارس اور غازی پور جہاں کہیں بھی رہے بس ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی پر غوروفکر کرتے رہے اور تعلیمی شعبے میں مسلمانوں کے لئے راستے ہموار کرنے کی جد وجہد کرتے رہے۔جیسا کہ سرسید نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :
’’غدر کے بعد نہ مجھ کو اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا، مال واسباب کے تلف ہونے کا کچھ غم تھا ،اپنی قوم کی بربادی کا اور ہندوستانیوں کے ہاتھ سے جو کچھ انگریزوں پر گذرا اس کا رنج تھا ۔میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھتا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور عزت پائے گی اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا ۔ چند روز میں اس خیال اور اس غم میں رہا آپ یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے بوڑھا کردیا ‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس پر آشوب دور میں سرسید ہماری رہنمائی نہیں کرتے تو شاید ہندوستانی مسلمان پسماندگی کے اس دلدل سے باہر نہیں نکل پاتے۔انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کی محرومیوں اور بد نصیبیوں کا مداوا تلاش کیا بلکہ ان کے اندر زندگی جینے کا حوصلہ بھی بخشا۔ انہو ںنے مسلمانوں کو قومیت کے ایک نئے مفہوم سے آشنا کیا اور اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ اب ہماری ترقی کی واحد پونجی تعلیم ہے اور تعلیم بھی روایتی نہیں بلکہ نئے عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے والی تعلیم ہی ہماری تقدیر بدل سکتی ہے ۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ہندوستان میں برادرِ وطن کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے راجا رام موہن رائے، دیا نند سرسوتی اور کیشو چند سین جیسے سماجی اور مذہبی رہنمائوں نے پہلے سے ہی اصلاحی تحریک شروع کردی تھی اور جس کی بدولت ہمارے برادرِ وطن مسلمانوں سے تعلیمی میدان میں کافی آگے نکل چکے تھے ۔سرسید نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے لئے سب سے ضروری تعلیمی تحریک ہے اور اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لئے علی گڑھ میں ایم۔اے۔او کالج کی داغ بیل ڈالی اور اس موقع پر اس تعلیمی ادارہ کے بنیادی مقاصد کی وضاحت بھی کی ۔ بقول سرسید:
’’یہ ادارہ مسلمانانِ ہند کی تعلیم ، تہذیب وثقافت اور دانشورانہ قیادت کا مرکز بن جائے ۔ یہاں ایسے تربیت یافتہ ذہن تیار ہوں جو آئندہ ملک وقوم کے لئے سرمایۂ فلاح ثابت ہوں ‘‘۔
مگر افسوس صد افسوس کہ سرسید کا وہ خواب پورا نہیں ہو سکا ۔ آج جب وہ کالج جس کے لئے سرسید احمد خاں نے علی گڑھ کی نمائش میں ناٹک تک کیا تاکہ اس سے جو پیسے ملیں وہ کالج کو مالی مشکلوں سے نکال سکے ۔ وہ کالج اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صورت میں موجود ہے مگر کیا سرسید کے فکرونظر کا گہوارہ بن سکا؟اس پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف تعلیمی مرکز نہیں ہے بلکہ نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں بلکہ عالم اسلام کے لئے مرکز تحریک ہے ۔لیکن آج کی قیادت کے اعمال وکردار سرسید کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے سنجیدہ ہے ؟حال ہی میں راقم الحروف کو علی گڑھ یونیورسٹی کے احاطے میں جانے کا موقع ملا اور وہاں کے چندرفقاء سے یہ حقیقت جان کر دلی صدمہ ہو ا کہ یونیورسٹی کے مختلف شعبے میں چھ سو سے زائد اساتذہ کی مستقل سیٹیں خالی پڑی ہوئی ہیں ۔جب کہ اس یونیورسٹی کو یہ کلّی اختیار ہے کہ وہاں کی انتظامیہ تقرری کے معاملے میں خود مختار ہے ۔ آخر برسوں سے سیٹیں خالی پڑی ہیں تو اس کے لئے قصور وار کون ہے؟ ہم دن رات حکومت کو کوستے ہیں کہ وہ ہمارے لئے فلاح وبہبود کا راستہ ہموار نہیں کرتی لیکن ہم خود اپنی راہ میں دیوار بن کر بیٹھے ہیں اس پر بھی تو سوچنے کی ضرورت ہے ۔چند محدود ذہن اور تنگ نظر سرسید پر یہ الزام تراشتے ہیں کہ انہوں نے صرف مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی کا رونا رویا ہے جب کہ ان کے مضامین اور تقاریر کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے ملک وقوم کی تصویر اور تقدیر بدلنا چاہتے تھے اور ہمیشہ ’’ہم وطنو!اور قوم کے بچوں !کہہ کر خطاب کرتے تھے۔قومی ہم آہنگی اور حب الوطنی ان کے دلوں کی دھڑکن کی حیثیت رکھتے تھے اس لئے ہندو مسلم اتحاد کو وہ ملک کوقوم کی ترقی کے لئے لازمی جزو سمجھتے تھے۔
سرسید احمد خاں جیسی عبقری شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے اور ان کے افکارونظریات کی معنویت کے آفتاب ومہتاب ہمیشہ روشن رہتے ہیں ۔ آج پھر ہم جس آزمائش کے دور میں ہیں کہ دنیا کا نقشہ اٹھا کر دیکھئے ، جہاں کہیں ہمارے قدم مستحکم تھے وہاں دھواں دھوا ں کا منظر ہے اور اپنے وطن عزیز کی فضا کس قدر مکدر ہو گئی ہے اور ہماری ترقی کی راہیں کس طرح مسدود ہوگئی ہیں وہ اظہر من الشمس ہے ۔ ایسے آزمائش کے دور میں سرسید احمد خاں کے اسباقِ ابدی ہمارے لئے آج بھی مشعلِ راہ ثابت ہو سکتے ہیں کہ ایک طرف برادرِ وطن کے ذہن ودل میں ہمارے تئیں جو نفرت پیدا کی جا رہی ہے ہم اس کے اژالے کے لئے کوشاںرہیں تو دوسری طرف تعلیمی میدان میں اپنی شناخت مستحکم کریں تاکہ ہم اپنی سماجی ، معاشی ، اقتصادی اورسیاسی پستی کو دور کرسکیں۔سرسید احمد خاں جتنے اہم کل تھے اس سے کہیں زیادہ آج اہم ہیں کہ ان کے بعد ان کے جیسا انقلابی فکرونظر کا ہمارے معاشرے کا کوئی نبض شناس اور اپنی حکمت ِ عملی سے ہماری تقدیر بدلنے والا پیدا نہیں ہوا۔مولانا الطاف حسین حالیؔ نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’حیاتِ جاوید‘‘ کے دیباچے میں درست ہی لکھا ہے کہ :
’’اگرچہ ہماری قوم میں بڑے بڑے اولوالعزم بادشاہ، بڑے بڑے دانشمند وزیر اور بڑے بڑے سپہ سالار گذرے ہیں مگر ان کے حالات اس کٹھن منزل میں جو ہم کو اور ہماری نسلوں کو درپیش ہے براہِ راست کچھ رہبری نہیں کر سکتی ۔ ہم کو اب دنیا میں محکوم بن کر رہنا ہے اور اس لئے وہ لیاقتیں جو سلطنت اور کشور کشائی کے لئے درکار ہیں ، ہمارے لئے بے سود ہوگی البتہ سرسید کی لائف ہمارے لئے ایک ایسی مثال ہے جس کی پیروی سے ممکن ہے کہ ہماری قوم کی یہ کٹھن منزل جو تنگنائے دنیا میں ظاہراً اس کی سب سے آخری منزل ہے، آسانی کے ساتھ طے ہو جائے‘‘۔
موبائل:9431414586
٭٭

https://lazawal.com/?page_id=182911/

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا