باپو! تمہارے دیش میں یہ کیا ہورہا ہے؟

0
40

محمد اعظم شاہد

اس سال 2024 میں ہم بابائے قوم مہاتماگاندھی کا 155 واں یومِ ولادت منارہے ہیں۔ ہرسال اس دن ہم باپو کا پیغام عدم تشدد (اہنسا) Non-Voilence اورسچائی کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔عالمی سطح پر 2اکتوبر سال 2007 سے International Day of No-Voilence عدم تشدد کا عالمی دن کے طورپر منایا جاتا ہے۔گجرات کے پور بندر میں 1869 کو جنمے موہن داس کرم چند گاندھی نے اپنے تمام رفقاء کے ساتھ 1930 میں انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں عدم تشددا ورعوامی نافرمانی کے ذریعہ ایک انقلابی لہر ملک بھر میں پھیلائی۔ حصول آزادی کی عوامی تحریک کے دوران گاندھی نے باہمی یگانگت، ہم آہنگی رواداری کا پیغام عام کیا۔ سبھی مذاہب کا مساوی احترام کرنے والے گاندھی جی کے پیغام اُخوت کو فرقہ پرستوں بالخصوص ہندو مہا سبھا نے کبھی بھی احترام کی نظروں سے دیکھا ہی نہیں۔

https://www.mkgandhi.org/

ہندومسلم ایکتا اور بھائی چارہ کا سندیش دینے والے اہنسا کے پجاری کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ آزادی ملنے کے بعد پانچ ماہ کا بھی عرصہ نہیں گذرا تھاکہ ناتھورام گوڈسے نے انہیں اپنی گولیوں کا نشانہ بنادیا۔ گاندھی جینتی کے موقع پر ہرسال گاندھی جی کی تعلیمات،پیغام اور تاریخ راز ان کی خدمات کو یادکیا جاتا ہے۔پھر حسب معمول ان کی یاد اگلے سال ہی آتی ہے۔کسی خاص سرکاری پروگرام کے دوران ان کے مجسموں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔گاندھی جی کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ پھر 2اکتوبر تک گاندھی جی کو تاریخ کے دھندلکوں میں چھوڑدیا جاتا ہے۔
گاندھی جی نے کہا تھا، ”جیو ایسے کہ کل نہ رہوگے (مرجاؤگے) اورعلم سے وابستہ رہو ایسے کہ ہمیشہ زندہ رہو۔” ’’اگر تم دنیا میں بدلاؤ دیکھنے کے متمنی ہوتو پہلے خود کو بدلو، اپنے آپ کو تلاش کرنے کا عمدہ سلیقہ یہی ہے کہ خود کو دوسروں کی خدمت کے لیے وقف کردو۔ کمزورکبھی معاف نہیں کرسکتا جب کہ معاف کردینا طاقتور کا وصفِ خاص ہوا کرتا ہے -‘‘ گاندھی جی سے عام طورپر رسمی وابستگی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔عوامی زندگی میں کسی کو بے عیب اور عوام پرور کردار کا حامل دیکھا گیا تو (ایسا ہونا تقریباً اب ناممکن ہے) تو طنزیہ اس کو گاندھی کہا جاتا ہے۔سادگی، ایمانداری، اب عملی سیاست کا حصہ نہیں رہے۔مفاد پرستی، ریاکاری اور نجی ترقی، نفرت اور جھوٹ، اقتدارکی ہوس یہ سب عام سی باتیں ہوگئی ہیں۔انتخابات میں پانی کی طرح جتنا روپیہ بہایا جاتا ہے، اتنا ہی یا اس سے زیادہ اقتدار میں رہ کر کمایا جاتا ہے۔ایسے میں جنتا کی سیوا کے آدرش اور ستیہ (سچائی) کی طرفداری کی دہائیاں صرف باتیں ہی باتیں ہیں – گاندھی واد، اب صرف باتوں میں، تقریروں میں، جلسوں کے دھواں دار بھاشن میں ہی نظر آتا ہے۔ گاندھی جی کے اصولوں پر پابندی سے عمل پیرا ہونا گاندھی گری(گاندھی واد) کہاجاتا ہے۔ اب غنڈہ گردی کا عنصر سیاست میں داخل ہوگیا ہے۔عوام کے اعتماد کے ساتھ لوٹ کھسوٹ، ووٹ حاصل کرنے کے بعد ووٹروں سے دوری اور داداگری آج کی سیاست کا چلن ہے۔
آج گاندھی جی کی تعلیمات کی معنویت نہ صرف قومی بلکہ عالمی سطح پر بھی مقدم سمجھی جاتی ہے۔حقوقِ انسانی کا تحفظ، ماحولیاتی تحفظ، عوام پرور ترقی وخوشحالی، جنگ ودہشت گردی کا تدارک، سیاسی وسرکاری سطح پر رشوت خوری اوررشوت ستانی کا خاتمہ، مزدوروں، کسانوں اورچھوٹی صنعتوں اورتجارتوں کا فروغ جیسے دیگر اُمور کا ان دنوں بس حوالہ دیا جاتا رہا ہے۔مگر عملی طورپر گاندھی جی کے” پیغام بقائے باہمی” کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ گاندھی کے دیش بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ، حقوق کی پامالی،مذہبی معاملات میں غیرضروری بے جا مداخلت، مذہب کی آڑ میں نفرت اور انتقام کے جذبات کو بھڑکایا جانا، مذہبی منافرت کے زیراثر فسادات مچانا یہ سب یہاں ہوتارہا ہے –

 

 

مگر گاندھی کو بھلاکر گاندھی کے قاتل کی ستائش کرنے والے چند خاص لوگ اس ملک میں چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔راستے پر ساتھ چلتے چلتے اب اجنبی ہم وطنوں ہی سے خوف ہونے لگا ہے۔اندھیری رات میں تنہاگاڑی میں سواری کرنا بھی اب غیرمحفوظ ہوگیا ہے۔گاندھی جی نے اپنے خوابوں کے ہندوستان کے بارے میں کہاتھا کہ آزاد ہندوستان میں ایسا ماحول ہوکہ ہر ایک کا آنسو کوئی دوسرا پونچھ ڈالے۔ملک کو غلامی سے آزاد کروانے والوں کیلئے شردھانجلی یہی ہوگی کہ انصاف کا بول بالا ہو۔ اب تو انصاف اور انصاف کے اصول کتابوں میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔جب رچرڈا ٹین بروکی انگریزی فلم ’’گاندھی‘‘ملک میں ریلیز ہوئی تب مشہور کارٹور نسٹ آر کے لکشمن نے ایک کارٹون بنایا تھا، جس میں ایک موٹی توند والا سیاست دان جس کے سرپر سیاسی ٹوپی تھی وہ سنیما ہال سے فلم دیکھ کر باہر آتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہہ رہا ہے ’’یہ فلم لگتا ہے کسی حقیقی کردار پر بنائی گئی سچی کہانی ہے۔‘‘ اور تو اور ملک کے پردھان منتری مودی نے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’فلم گاندھی کے بننے کے بعد ہی گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے قدردانوں سے گاندھی جی کی قدرافزائی کی کیا امیدیں کی جاسکتی ہیں۔
گاندھی جینتی کے دن سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری کا بھی یوم پیدائش ہے۔مگر چھٹی گاندھی جینتی سے منسوب رہنے کے باعث 2اکتوبرکو گاندھی جی کو ہی رسمی طورپر یاد کیا جاتا رہا ہے۔
مجموعی اعتبار سے گاندھی جی کی معنویت پر باربار مضامین لکھے جاتے ہیں۔ تقاریر ہوتی ہیں، ٹیلی ویژن پر ڈسکشن ہوتے ہیں۔گاندھی جی کے مجسمے نہلائے، سنوارے جاتے ہیں -پھر تصاویر میں ہی گاندھی جی نظر آتے ہیں،اگر ان پر نظر بھی جائے تب۔ اچھائی کی برائی پر جیت، جھوٹ کی سچ کے سامنے ہار ایسا مانتے تھے گاندھی جی، مگر اب اس مہان دیش میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔اکثریت ایسا ہوتا دیکھ کر خاموش تماشائی بنی ہوئی رہتی ہے۔
[email protected] :9986831777

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا