مسلم شناخت پر بحران: حملے اور تحفظ کی جدوجہد

0
85

مولانا قاری اسحاق گورا

ہندوستان میں مسلم شناخت پر حملے، جو کہ وقت کے ساتھ تیز تر ہو رہے ہیں، دراصل ایک منظم حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کی تاریخی، مذہبی، اور ثقافتی شناخت کو کمزور کرنا ہے۔ ان حملوں کی جڑیں کئی عوامل میں پائی جاتی ہیں

https://www.aljazeera.com/news/2024/5/18/has-indias-muslim-population-really-exploded

جن میں سیاسی مفادات، سماجی تعصبات، اور بعض طاقتوں کا مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر مسلمانوں کو اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
مسلم شناخت پر حملوں کا ایک بڑا مظہر شہروں، سڑکوں، اور تاریخی مقامات کے ناموں کی تبدیلی ہے۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس کے ذریعے تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے گہرے تاریخی اثرات کو مٹایا جا سکے۔ الہ آباد کا نام تبدیل کرکے پریاگ راج کر دیا گیا، اور مغل سرائے کا نام دین دیال اپادھیائے جنکشن رکھنا اسی عمل کا حصہ ہے۔ ان ناموں کی تبدیلیوں کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کے تاریخی ورثے کو کمزور کرنا ہے بلکہ اس کا مقصد ایک خاص نظریے کو فروغ دینا بھی ہے جس میں مسلمانوں کو ہندوستانی تاریخ میں ایک غیر اہم کردار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ نام بدلنے کی یہ مہم اس بات کی غماز ہے کہ بعض سیاسی قوتیں مسلمانوں کے خلاف ایک مخصوص ایجنڈا چلا رہی ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کو مٹانے کی یہ کوشش ایک طویل المدتی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو ہندوستانی تاریخ اور ثقافت سے الگ تھلگ کرنا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف مسلم کمیونٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ہندوستان کی کثیر الثقافتی شناخت کو بھی زک پہنچاتے ہیں۔
مسلم شناخت پر حملوں کا ایک اور پہلو مذہبی مقامات کی بے حرمتی ہے۔ ہندوستان میں کئی تاریخی مساجد اور درگاہیں ہیں جو مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کی علامت ہیں۔ بابری مسجد کا انہدام اور اس کے بعد آنے والا عدالتی فیصلہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کس طرح مسلم شناخت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بابری مسجد کے بعد کئی دیگر مساجد پر بھی متنازع دعوے کیے جا رہے ہیں اور ان پر حملے ہو رہے ہیں۔ یہ حملے صرف مذہبی عمارات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد مسلمانوں کی ثقافتی اور تاریخی ورثے کو بھی مٹانا ہے۔ تاج محل جیسی عظیم اسلامی عمارتیں، جو ہندوستان کی شان سمجھی جاتی ہیں، کو بھی تنازعات کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ان عمارات کی دیکھ بھال میں کوتاہیاں کی جا رہی ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کے تاریخی ورثے کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنے نام، حلیے اور مذہبی علامات کو چھپانے پر مجبور ہونا ایک تشویشناک رجحان بن چکا ہے۔ ملازمتوں کی تلاش، سرکاری خدمات کے حصول یا تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت چھپانی پڑتی ہے تاکہ وہ امتیازی سلوک کا شکار نہ ہوں۔ بعض اوقات مسلمانوں کو اپنے ناموں کو تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا انہیں اپنے مذہبی لباس کو ترک کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ معاشرتی یا پیشہ ورانہ میدان میں کامیاب ہو سکیں۔ یہ رجحان نہ صرف مسلمانوں کی شناخت کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اپنی شناخت چھپانے کی مجبوری ان کی روحانی اور ثقافتی زندگی پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے اور وہ اپنی مذہبی تعلیمات اور روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں مسلمانوں کے اندر احساس محرومی اور مایوسی بڑھ رہی ہے جس کا اثر ان کی تعلیمی، معاشرتی اور معاشی ترقی پر بھی پڑ رہا ہے۔
مسلم شناخت پر حملے کا ایک اور پہلو مسلم تہذیب اور ثقافت کو نشانہ بنانا ہے۔ ہندوستان میں مسلم تہذیب کا ایک اہم جزو اردو زبان ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اردو کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور اسے تعلیمی اور سرکاری سطح پر زوال کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ اردو جو کہ ہندوستانی مسلمانوں کی ثقافتی اور علمی شناخت کی علامت ہے، آج اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ اردو کے علاوہ اسلامی فنون اور ادب کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مسلم شناخت پر ہونے والے حملوں میں سوشل میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات منظم طور پر چلائی جا رہی ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کی مذہبی شناخت کو غلط پیش کیا جاتا ہے اور انہیں دہشت گرد یا ملک دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ مہمات مسلمانوں کے خلاف سماجی ماحول کو مزید زہر آلود کر رہی ہیں۔ اس نفرت انگیزی کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کو سماجی سطح پر الگ تھلگ کرنا ہے بلکہ ان کی شناخت کو بھی نقصان پہنچانا ہے۔ نفرت انگیزی کے اس ماحول میں مسلمانوں کو اپنی شناخت کو چھپانے یا اسے کمزور کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے حالات میں مسلمانوں کے اندر خود اعتمادی اور سماجی شرکت کے مواقع بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
مسلم شناخت پر ہونے والے حملوں کا ایک اور اہم اثر مسلمانوں کے تعلیمی مواقع پر پڑ رہا ہے۔ ہندوستانی تعلیمی نظام میں مسلمانوں کے لیے تعلیمی مواقع محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کو تعلیمی نصاب میں کم اہمیت دی جا رہی ہے اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو سرکاری مدد سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اس کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ مسلم طلباء اپنے مذہبی اور ثقافتی پس منظر کے باعث امتیازی سلوک کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ امتیازی سلوک ان کی تعلیمی کارکردگی کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ جب ایک کمیونٹی کو تعلیمی مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے تو اس کا اثر نہ صرف ان کے تعلیمی نتائج پر ہوتا ہے بلکہ ان کی معاشرتی اور معاشی ترقی پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کی حمایت اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ مزید بڑھتا جائے گا۔
مسلم شناخت پر ہونے والے حملوں کے پیچھے ایک اہم عنصر سیاسی ماحول ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے کو فروغ دے رہی ہیں تاکہ اکثریتی ووٹ بینک کو اپنے حق میں موڑ سکیں۔ یہ جماعتیں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور انہیں ملک کے لیے خطرہ قرار دیتی ہیں۔ یہ سیاسی ماحول مسلمانوں کو الگ تھلگ کر رہا ہے اور ان کے خلاف معاشرتی سطح پر تعصبات کو بڑھا رہا ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ واریت کے اس ماحول میں مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مسلم شناخت کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، مسلمانوں کو تعلیم پر زور دینا چاہیے۔ تعلیم نہ صرف ان کی خود اعتمادی میں اضافہ کرے گی بلکہ انہیں سماجی اور سیاسی سطح پر بھی مضبوط بنائے گی۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کو اپنی تہذیبی ورثے کی حفاظت کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ مسلم تنظیموں کو بھی اس مسئلے پر متحرک ہونا چاہیے۔ انہیں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی اور سماجی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے مسائل کو منظم طریقے سے حل کر سکیں۔
ہندوستان میں مسلم شناخت پر ہونے والے حملے ایک سنگین اور پیچیدہ مسئلہ بن چکے ہیں، جن کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی، تاریخی اور ثقافتی شناخت کو کمزور کرنا ہے۔ ان حملوں کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں، جن میں سیاسی مفادات، سماجی تعصبات، اور مذہبی اختلافات شامل ہیں۔ نام بدلنے کی مہمات، مذہبی مقامات کی بے حرمتی، اور مسلمانوں کو اپنی شناخت چھپانے پر مجبور کرنا اس منصوبے کا حصہ ہیں۔ یہ صورتِ حال مسلمانوں کے تعلیمی، معاشرتی اور معاشی مواقع کو محدود کر رہی ہے، جس سے ان کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیزی، تعلیمی نصاب میں مسلمانوں کی تاریخ کو نظرانداز کرنا، اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے مسلمانوں کو تعلیم پر زور دینا ہوگا، اپنی ثقافتی وراثت کی حفاظت کرنی ہوگی اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی اقدامات کرنے ہوں گے۔ مسلم تنظیموں کو متحرک ہو کر مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس وقت مسلمانوں کے اتحاد کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو سکیں اور ہندوستان میں اپنی جمہوری اور آئینی حیثیت کو برقرار رکھ سکیں۔ یہ کوششیں ہی مسلمانوں کو موجودہ حالات سے نکالنے اور ان کی شناخت کو محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
[email protected]

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا