بچوں کی تعلیم و تربیت اور اس کا زریں نصاب

0
68

 

 

نظر عالم قاسمی

اولاد کی خواہش ہر کس و ناکس کو ہوتی ہے، بلکہ ہر جاندار اس کی آرزو رکھتا ہے، انسان ہو یا حیوان، چرند ہو یا پرند ، نر ہو یا مادہ، افضل ہو یا ارذل، بیمار ہو یا صحت یاب ہر کسی کو اس کی احتیاج ہوتی ہے، اور تا دمِ آخر اس نعمت سے بہرہ مند ہونے کی جد و جہد جاری رکھتا ہے _

آپ نے اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ پڑھا اور سنا ہوگا، حضرت زکریا علیہ السّلام کے واقعے سے بھی بے خبر نہ ہوں گے، دونوں بزرگوں نے پیرانہ سالی کے عالم میں حق تعالیٰ کے حضور نیک طینت و پاک سیرت اولاد کی درخواست کی تھی، ادھر دونوں بزرگوار کی اہلیہ محترمہ ماں بننے کی صلاحیت سے پاک تھیں مگر اللہ جل شانہ نے ان کی گذارشوں کو قبول فرمایا اور نیک صالح اولاد کی انہیں بشارت سنائی_
اولاد والدین کے لئے ایک قیمتی سرمایہ اور سب سے بڑی پونجی ہوتی ہے، مگر عام طور پر اس پونجی کو سودمند بنانے میں غفلت سے کام لیا جاتا ہے، ان کی تعلیم و تربیت، اور پرورش و پرداخت میں کوتاہی برتی جاتی ہے، نہ ان کے چال چلن کی کوئی خاص نگہداشت کی جاتی ہے، نہ ان کے دوست و احباب کی فہرست سے آگاہی رکھی جاتی ہے، اور ان کی آمد و رفت پر گرفت نام برابر ہوتی ہے، ان وجوہات کی بناء پر ہمارے بچے علم و عمل میں ازبر نہیں ہوپاتے ہیں، اخلاق و کردار کی چاشنی سے محروم رہ جاتے ہیں، اور فکر و اعتقاد کے مختلف روگ کا شکار ہوجاتے ہیں، ہماری یہ اولاد ہمارے لئے آزمائش اور چیلنج کا باعث بن جاتی ہے، اور یہ

سرمایہ ٹوٹے گھاٹے کا سبب بن جاتا ہے_

https://www.mindler.com/

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے : تم یہ بات خوب سمجھ لو کہ تمہارے مال اور ‘ تمہاری اولاد’ ایک آزمائش ہیں اور یہ کہ عظیم انعام اللہ کے پاس ہے ( الانفال: ٢٨ ).
ایک دوسری جگہ ہے : اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل ایال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (التحريم : ٦ )
سورۂ تحریم کی مزکورہ آیت جب نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے استفسار کیا یا رسول اللہ جہنم سے بچنے کی فکر ہم پر غالب ہوتی ہے، مگر ہاں! اہل و عیال کو دوزخ سے کیسے بچائیں؟ آپ ﷺ نے اس مسئلے کا جواب دیا کہ اللہ پاک نے جن کاموں سے تمہیں منع فرمایا ہے ان کاموں سے تم انہیں باز رکھو، اور جن کاموں کے کرنے کا تمہیں حکم دیا ہے ان کے طرف تم انہیں بلاؤ ۔ قال عمر: يا رسول الله، نقي أنفسنا، فكيف لنا بأهلينا؟ قال: تنهونهم عما نهاكم الله عنه، وتأمرونهم بما أمركم الله به. تفسير الوسيط للواحدى (٣٢١/٤ ) .
اولاد کو پروان چڑھانے کی دو نوعیت ہے ۱_ جسمانی، ٢_ روحانی_
جسم کے نشو و نما، اور صحت و تندرستی کے لئے رکھ رکھاو کو "پروش” کہتے ہیں، انسان میں جوں جوں علم و دانش، اور طور طریق آتا ہے دیگر حیوانات سے وہ ممتاز ہوتا چلا جاتا ہے، حسن ادب، خوش خلقی، اور خدا ترسی میں کمال اسے ہم عصروں میں یگانہ کردیتا ہے، اور اس کی شخصیت پرجمال اور سحر انگریز بن جاتی ہے،تعلیم و تربیت سے ہی انسان "روحانی” منازل کے راستے طے کرتا ہے۔

تعلیم و تربیت
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اپنی اولاد کو زیور علم سے آراستہ کرو، اور انہیں خوش خوئی، سلیقہ، اور ادب کی باتیں سکھاؤ_
قال علي -رضي الله عنه في ﴿قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾: علموهم وأدبوهم. (تفسير الطبري)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کسی شخص کو یہ نصیحت فرما رہے تھے کہ اپنے بیٹے کو ادب سیکھاؤ ، تم سے قیامت کے دن پوچھ گوچھ ہوگا کہ تم نے اسے کیا ادب سیکھایا، اور کیا تعلیم دی،
( سنن الکبریٰ للبیہقی : ٥٣٠١)

قرآن پاک نے سورۂ لقمان میں حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت کا ذکر کیا ہے، جو سبق آپ نے اپنے اپنے بیٹے کو پڑھایا تھا، وہ کسی سنہرے اصول سے کم نہیں، بچوں کی تعلیم و تربیت کے باب میں وہ ایک جامع نصاب ہے، جس میں عقائد کی تعلیم ،اور خدا کی بندگی کا درس ہے ، والدین کی خدمت و اطاعت کا اصول ہے ، آخلاق و آداب کے اسباق کا ذکر ہے، بھلائی کی دعوت، اور برائی سے ممانعت کا کورس ہے ، یہ باتیں تعلیم و تربیت کی روح ہیں، جس کا ذکر فائدہ سے خالی نہیں۔

عقائد کی تعلیم
اپنی اولاد کو کم از کم عقیدے کے بدہی مسائل اور دین کی موٹی موٹی باتوں سے روشناس کرنا از حد ضروری ہے، مثلاً توحید کے بیان میں کہ اللہ ایک ہے، وہ ہر عیبوں سے پاک اور تمام خوبیوں کا مالک ہے، اسی نے اس کائنات کو بنایا ہے، وہی بے جان چیزوں کو زندگانی بخشتا ہے، اور حیات دار مخلوق کو موت کی نیند سلاتا ہے ، بندگی کے لائق صرف وہی ہے، دنیا میں خداۓ پاک کے سوا جن کی بھی عبادت ہوتی ہے وہ سب خدا کے بندے اور غلام ہیں، کچھ ان میں نمونے کے قابل لوگ بھی تھے، مگر راہ ہدایت کے بھٹکے ہوۓ انسان ان کی عبادت کرتے ہیں، جو سرتاسر شرک ہے، اللہ نے شرک کو نہ معاف کرنے کا وعید سنا رکھا ہے۔

رسالت کے مسائل، مثلاً! انسانوں کو آدمیت کا درس دینے کے لئے اللہ نے نبیوں کو مبعوث کیا، خدا کے وہ معصوم بندے اللہ کے احکام و کتاب کی روشنی میں انسانوں کو ہدایت کی گذرگاہ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ کی معرفت کا درس سیکھاتے ہیں، حضرت آدم سلسلہ نبوت کی پہلی کڑی ہیں، خشت آخر خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ ہیں، آپ ﷺ پر نبوت کا سلسلہ اختام کو پہنچ گیا، نئی نبوت کا دعویٰ جن لوگوں نے بھی کیا وہ دجال و کذاب اور شیطان ہیں ، مرزا غلام احمد قادیانی یہ جھوٹا اور ایمان کا ڈاکو ہے، شکیل بن حنیف اسی قادیانی کا ہمنوا اور شعبدہ باز ہے _

آخرت کے مباحث، مثلاً! دنیا امتحان کی جگہ ہے، اکزام مکمل ہونے پر اکزامنیشن حال ختم کر دئیے جاتے ہیں، اور معاون چیزیں سمیٹ اور لپیٹ لی جاتی ہیں، اس عارضی کائنات کو بھی ایک دن بحر فنا میں غرقاب ہونا ہے، آسمان لپیٹ لئے جائیں گے، اور زمین کوٹ دی جائے گی، اس کے بعد ایک زندگی شروع ہوگی جسے آخرت کا نام دیا جاتا ہے، جہاں ہمارے اعمال کا وزن ہوگا، کامیاب لوگوں کا اکرام ہوگا، بہشت ان کی جاۓ آرام ہوگی، جہاں حشم وخدم ہوں گے، حور و غلمان ہوں گے، آرائش و آسائش اور ہرطرح کی نعمتیں وافر مقدار میں مہیا ہوں گی، قسم قسم کے کھانے پینے کی چیزیں ہوں گی، جس کو نہ ہماری نگاہوں نے دیکھا ہوگا، نہ ہماری سماعتوں نے اس سے لطف اٹھایا ہوگا، اور نہ دل اس سے کبھی محظوظ ہوا ہوگا، یہ نعمتیں زوال سے پاک ہوں گی، ناکام لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا، دوزخ ان لوگوں کا پریشان گاہ ہے، جہاں وہ طرح طرح کے درد ناک عذاب کا مزہ چکھیں گے، تکلیف رساں، اور مسلسل اذیتوں سے دو چار ہوں گے، اور آخرت کی زندگی موت کی جکڑ سے آزاد ہوگی _

حسن اخلاق کی تعلیم
اچھی تربیت اور حسن ادب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : کہ ایک باپ اپنے بچے کو سوغات میں عمدہ ادب سے بہتر کوئی چیز نہیں دے سکتا – ما نحل والدٌ ولدًا مِن نحْلٍ أفضلَ من أدبٍ حسنٍ. أخرجه الترمذي (١٩٥٢)
ادب اس کی جمع آداب ہے، اس مفہوم سے قریب ایک لفظ ‘اخلاق’ ہے ، ان سے فقط یہی مفہوم نہیں کہ راہ و ربط کے وقت انسان کا چہرہ خندہ ہو، گفتگو میں وہ شیریں دہاں ہو، آؤ بھگت میں متواضع اور خاطر تواضع میں کشادہ دست ہو، اور معاملات میں نرم ہو، بلکہ اس مفہوم کی وسعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ غصہ ضبط کرنے اور اظہار کرنے کا موقع محل سے اشنا ہو، عفو و در گذر اور قصاص کے اصول سے واقف ہو، اختلاف میں آداب ملحوظ رکھنا جانتا ہو، دوستی و دشمنی میں اعتدال قائم رکھنا اسے آتا ہو، معاملات میں صفائی ستھرائی کا شوقین ہو، وغیرہ وغیرہ۔

بچوں کا رول ماڈل
جوانوں کا رول ماڈل تو کوئی بھی ہو سکتا ہے مگر بچوں کا رول ماڈل اس کے والدین ہوتے ہیں، بچوں کی طبیعت والدین کی طبیعت اور ان کے طور طریق سے بہت کچھ اخذ اور جذب کر لیتی ہے، برابر بچوں کے سامنے اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کریں، ان کے ساتھ عفو و در گذر کا معاملہ کریں، تنبیہ کے وقت تنبیہ کریں چشم پوشی نہ کریں، نہ لعن طعن سے کام لیں، گاہے بگاہے ان کے ہاتھوں سے صدقہ خیرات بھی دیں، ان پر خصوصی توجہ مرکوز رکھیں، ان کے ساتھ بھی آپ اپنا کچھ وقت بتائیں، ان سے گپ شپ کریں، ان کے مسائل کو سنیں اور اسے حل کریں، ان کو موبائل اور یوٹیوبوں کے حوالے نہ کریں، جہاں نفرت و شہوت کی باتیں نشر ہوتی ہیں، ایمان و اخلاق کو تخریب دینے والے پروگرام شائع ہوتے ہیں۔

محنت و مشقت کی عادت
عام طور پر والدین اپنے بچوں کی زندگی کو آسان اور آرام دہ بنانا چاہتے ہیں، اور ان کو راحت میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس لئے وہ ان سے کوئی کام کاج نہیں لیتے، والدین کے اس لاڈ پیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ نکما اور کاہل بن جاتا ہے، محنت و مشقت کے عادی نہ ہونے کی وجہ سے ہلکی پھلکی مصیبتوں پر صبر نہیں کر پاتا ہے، بے چین ہوجاتا ہے اور دکھ کا رونا روتا ہے، جو بچہ محنت و مشقت، اور کام دھام کے خوگرفتہ ہوتے ہیں ان کی زندگی آسان اور مشقت سے خالی ہوتی ہے، مصیبت کو چیلنج جان کر اس سے نمٹتا ہے، اور صبر و شکر سے کام لیتا ہے _
اپنے بچوں کے لئے گھریلو کام میں حصہ رکھیں، استطاعت کے مطابق ان سے برابر کام لیں، ایسا کرنے سے ان کی صحت تندرست ہوگی، ان کے شعور کو ترقی ملے گی ، وہ حساس و بشاش ہوکر پڑھائی لکھائی میں مشغول ہوں گے اس سے ان کی کارکردگی بہتر ہوگی ، خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا، اور قوت برداشت کی صلاحیت بڑھے گی، کسی نے کہا ہے کہ :
کامیابی تو کام سے ہوگی
نہ کہ حسنِ کلام سے ہوگی
ذکر کے التزام سے ہوگی
فکر کے اہتمام سے ہوگی

مثبت سوچ کی تعلیم
کسی بھی معاملے میں اچھی راۓ قائم کرنا، کسی کے ساتھ اچھا گمان رکھنا، یا دوسروں کی باتوں یا کاموں کی اچھی توجیہ کرنا، اور بہتر مطلب نکالنا یہ مثبت سوچ کہلاتا ہے ، اس کے بر عکس نظریہ اختیار کرنا منفی سوچ یا بدگمانی کہلاتا ہے ہے، اللہ پاک نے بدگمانی کو گناہ شمار کیا ہے، خدا کا فرمان ہے ” اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں ” [الحجرات ١٢]
بچوں کو بتائیں کہ مثبت سوچ ایک خوبصورت طاقت اور مضبوط توانائی ہے، جسم و روح کی تندرستی میں اس سے کافی معاونت ملتی ہے، جبکہ منفی سوچ کا حامل شخص ذہنی انتشار کا عادی، اور مختلف اخلاقی امراض کا خوگر ہوتا ہے، نیز انسان کی کامیابی اور ناکامی میں اس کے سوچ کا کافی دخل ہے، مثبت سوچ کامیاب زندگی کی ضمانت ہے، اور منفی سوچ ناکامیوں اور محرومیوں کا پیش خیمہ ہے _

قوت برداشت کی تعلیم
نسل نو سے اس قوت کی اب رمق بھی جاتی رہی، ہلکی پھلکی باتوں پر آپے سے باہر ہونا، غیظ وغضب میں لال پیلا ہونا، زبان کی لگام کا ہاتھوں سے کھسک جانا، گالم گلوچ کرنا، پنگا لینا اور توڑ پھوڑ کرنا ان کے لئے معمولی بات ہوتی ہے، غصہ پینے اور برداشت کرنے کی اہمیت و فضیلت ،اس پر ملنے والے انعام واکرام ، ان باتوں کو اپنی اولاد کے ذہن و دماغ میں منتقل کرنا ضروری ہے_
اللہ کے پیارے رسول کا فرمان ہے: وہ آدمی زور آور نہیں جو کشتی میں لوگوں کو( مارے پیٹ کے، یا ان کے املاک کو ضائع کرکے، یا کم از کم انہیں برا بھلا کہہ کے ) پچھاڑ دے، بلکہ زور آور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر کنٹرول رکھے ۔ ليسَ الشَّدِيدُ بالصُّرَعَةِ، إنَّما الشَّدِيدُ الذي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ. أخرجه البخاري (٦١١٤) ومسلم (٢٦٠٩)
انسان میں جب قوت برداشت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، اور اپنے نفس پر کنٹرول پالیتا ہے، تو اس کا دل امن و ایمان کا گہوارہ بن جاتا ہے ۔ من كَظَم غَيظًا وهو يَقْدِرُ على إنفاذِه، ملأ اللهُ قَلْبَه أمْنًا وإيمانًا. الجامع الصغير الرقم: ٨٩٩٧
اللہ پاک کا وقیع فرمان ہے : کہ غصہ دبانے والا اور لوگوں سے درگذر کرنے والا شخص اللہ کی نگاہ میں نیکوکار اور پسندیدہ لوگوں میں سے ہے۔
﴿ وَٱلۡكَـٰظِمِینَ ٱلۡغَیۡظَ وَٱلۡعَافِینَ عَنِ ٱلنَّاسِۗ وَٱللَّهُ یُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِینَ﴾ [آل عمران: ١٣٤]۔

خود اعتمادی کی تعمیر
خود اعتمادی سے مفہوم انسان کی وہ داخلی قوت یا نفسیاتی کیفیت ہے جس سے امتیازی طاقت پیدا ہوتی ہے، انسان کو جس سے نئے، اور اجنبی معاملوں میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اور خود پر اعتماد بحال ہوتا ہے، کبھی کبھار کوئی شخص محنتی اور اپنے فن کا ماہر ہوتا ہے، مگر وہ احساس کمتری میں جیتا ہے تو ایسے لوگوں کے لئے کامیابی میں حصہ کم ملتا ہے، ترقی کا پہیہ سست رفتار ہوجاتا ہے، کوئی آدمی ایسا بھی ہوتا ہے، جو بہت محنتی یا ماہر تو نہیں ہوتا لیکن وہ خود اعتمادی کے دولت سے مالامال ہوتا ہے تو بڑے بڑے مورچے کو فتح کرجاتا ہے_
طریقہ کار یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اچھی تعلیم کا نظم کریں، نیک بنائیں، کامیاب اور بہادر لوگوں کی کہانی سنائیں، انہیں ان کی صلاحیت اور طاقت کے مناسب کام دیں، کامیابی کی صورت میں شباشی دیں، پیٹھ تھپ تھپائیں، کوتاہی ہو تو منفی تبصرہ سے گریز کریں، ان کی غلطی کی نشان دہی کریں، ان کی خوبیوں کو اجاگر کریں اور سراہیں، ان کے ذہن کو مثبت رخ دیں، دوسروں بچوں سے ان کا موازنہ نہ کریں۔

مناسب ہنر کی تعلیم
مال و زر بلا شبہ قوام زندگی کی بنیاد ہے، بے روزگاری کے اس دور میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو کوئی مناسب ہنر سیکھنا سب سے بڑی ضرورت ہے، جو لوگ بے ہنر ہوتے ہیں وہ پریشان رہتے ہیں، گھروالوں پر بوجھ مانے جاتے ہیں، ہنر مند آدمی کی ایک خاص وقعت ہوتی ہے، اور اس کی باتوں میں وزن ہوتی ہے، وہ اپنی اور گھر والوں کی ضرورت آپ پوری کر لیتا ہے، اور اپنی زندگی کا پہیہ رواں رکھتا ہے_

کفایت شعاری کی تعلیم
کفایت شعاری کا معنی ہے کہ انسان اخراجات میں اعتدال برتے اور توازن قائم رکھے، بخل سے کام لے نہ فضول خرچی کرے، یہ خدا کے خاص بندوں کی علامت ہے، اللہ کا ارشاد ہے: اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ تنگی، بلکہ ان کا طریقہ اعتدال کا ہوتا ہے [الفرقان ٦٧]
خوش حال زندگی بسر کرنے کے لئے قناعت کا ہونا ضروری ہے، بے موقع محل خرچ کرنے یا اسراف اور بخل سے آدمی محتلف پریشانیوں میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔
بچوں کو اس بات کی بھی سیکھ دی جائے کہ وہ اپنی آمد خرچ کا حساب رکھیں، آمدنی سے زیادہ خرچ کرنے کی کبھی حماقت نہ کریں، ہر ماہ کچھ پس انداز ضرور کریں، تاکہ اتفاقی ضرورتوں میں کام آئے، اور ادھر ادھر ہاتھ پسارنا نہ پڑے ، کوئی چیز کیسی ہی سستی ہو بلا ضرورت ہرگز نہ لیں، بے جا خرچ سے لازمی پرہیز کریں، شاہ خرچی سے انسان کنگال دیوالیہ ہو جاتا ہے ۔

دینی ماحول کی تشکیل
انسان کی انفرادی کامیابی ہو یا اجتماعی، دینی ہو یا دنیاوی، اس میں ماحول کا بھی ایک خاص حصہ ہوتا ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت کو ماثر بنانے، ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے، فکر و خیال کو پروان چڑھانے، عقائد و ایمان کو پختہ بنانے، اور ان کی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے گھروں کے ماحول کا دین پر ہو بے حد ضروری ہے ، اس کی فکر کرنا، اور وسائل جمع کرنا والدین کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، اس کے لئے گھروں میں تلاوت و تسبیح، ذکر و اذکار، اور دعا و سلام کا التزام ہو ، دینی کتابوں کی تعلیم، اور خاص خاص مواقع کی ادعیہ وسنن کا اہتمام ہو ، نبی پاک ﷺ اور صحابہ کرام کے اخلاقیات پر مشتمل واقعات، اور بزرگان دین کی وعظ و نصیحت سننے سنانے کا انتظام ہو ، منفی پروگرام، موبائل، ٹی وی، بینی وغیرہ سے اجتناب ہو ، یہ باتیں ماحول کو دیندار اور فضا کو خوشگوار بنانے میں کافی معاون ہیں، اور بچوں میں خوبیاں صرف دینی ماحول ہی میں پنپتی ہے، اور کام زندگی کا خواب اسی ماحول میں شرمندۂ تعبیر ہوتا ہے *******************

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا