اپوزیشن کے سوالوں کی کاٹ ایمرجنسی

0
314

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
کانگریس اور اپوزیشن مہنگائی، بے روزگاری، ذات پر مبنی مردم شماری، مودی کی آمریت جیسے ایشوز پر الیکشن لڑنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ لیکن مودی کے 400 پار کے نعرے اور بی جے پی کے آئین میں بدلاؤ کی سرسری نے مدے کی تلاش میں بھٹک رہی اپوزیشن کو آئین کی حفاظت کا ایشو دے دیا ۔ دو مرحلے کی ووٹنگ تک حزب اختلاف کو اس مدے کی سیاسی طاقت کا احساس نہیں تھا ۔ مگر بی جے پی کے آئین بدلنے کے لئے چار سو پار سیٹوں کی ضرورت والے بیانوں کے بعد اپوزیشن ہاتھ میں آئین کی کاپی لے کر اسے بچانے کی قسمیں کھائی جانے لگیں ۔ کہا جانے لگا کہ بی جے پی اور مودی کی منشاء اس آئین کو بدلنے کی ہے جس سے او بی سی، دلت، آدی واسیوں کو برابری کا حق اور ریزرویشن ملا ہے ۔ اگر بی جے پی کے پاس بہت زیادہ طاقت آگئ تو آئین کو ختم کر وہ سب کچھ ختم کر دے گی ۔ اسی کے ساتھ جمہوریت کے کمزور ہونے، آئینی اداروں کو غلام بنانے یا چور دروازے سے آمرانہ حکمرانی کی آہٹ کے شک و شبہات بھی ہوا میں گردش کرنے لگے ۔ 2024 سے پہلے کے تمام انتخابات میں ریزرویشن و دیگر زمینی مدے زیر بحث رہے لیکن یہ پہلا الیکشن تھا جس کے مرکز میں آئین اور اس کی حفاظت کا مدعا آ گیا یا لایا گیا تھا ۔
اپوزیشن اور کانگریس نے اس مدے کو بڑا بنا دیا اور الیکشن کے بعد بھی اسے نہیں چھوڑا ۔ پارلیمنٹ شروع ہونے سے پہلے انڈیا اتحاد کے ممبران نے آئین کو ہاتھ میں لے احتجاج کیا اور حلف برداری کے وقت بھی آئین کی کاپیاں ہاتھ میں لئے دکھائی دیئے ۔ بی جے پی نے کبھی بھی واضح طور پر آئین بدلنے کی تردید نہیں کی ۔ وہ اپنی یہ بھی صحیح وہ بھی صحیح والی پرانی حکمت عملی پر قائم رہی ۔ اس کی وجہ سے 2019 کے مقابلہ اسے 63 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ بی جے پی سر پر آئین رکھ کر صفائی دی بھی تو بہت دیر میں تب تک کانگریس، اپوزیشن پارٹیوں نے نریٹیو بنا دیا کہ بھاجپا کچھ بھی کہے اس کے ارادے نیک نہیں ہیں ۔ یہ ہتھیار کچھ ریاستوں میں کام کر گیا ۔ ملک میں آئین بچانے بنام آئین بدلنے کی چھپی منشاء، نوکری و تعلیم میں ذات پر مبنی ریزرویشن کے خاتمہ کی نیت، جمہوریت زندہ رکھنے بنام جمہوریت کے مکھوٹے میں آمریت کو لاگو کرنے کا منصوبہ ۔ یہ کچھ ایسے سلگتے سوال ہیں جن پر اب perception تصور کی لڑائی جاری ہے ۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کس کے ہاتھوں میں آئین محفوظ ہے اور کس کی آستین میں اسے قتل کرنے کا خنجر چھپا ہے ۔
مرکز میں بنی بی جے پی حکومت نے اپوزیشن کے "آئین کارڈ کی کاٹ” ایمرجنسی میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تبھی تو مودی سے لے کر اسپیکر اور صدر جمہوریہ کے خطاب میں ایمرجنسی کا ذکر کیا گیا ۔ لوک سبھا اسپیکر نے کرسی سنبھالتے ہی ایمرجنسی کے دوران سیاسی زیادتیوں کی وجہ سے جان گنوانے والوں کو خراج تحسین پیش کیا ۔ مدھیہ پردیش حکومت نے ایمرجنسی کو اسکولی نصاب میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ مدھیہ پردیش میں میسا کے تحت بند ہونے والوں کو جمہوریت کے سپاہی مان کر انہیں 30 ہزار روپے ماہانہ پینشن دی جاتی ہے ۔ کیونکہ انہوں نے ملکی اقتدار اور آمریت کے خلاف لڑائی لڑی تھی ۔ جبکہ 1999 میں جب اٹل جی کی سربراہی والی این ڈی اے کی حکومت تھی تب بھی ایمرجنسی کی 25 سالگرہ کو ایسی توجہ نہیں ملی جس طریقہ سے مودی حکومت نے اب پچاسویں برسی پر اسے ہوا دی ہے ۔ دراصل یہ سیاسی پلٹ وار ہے ۔ جس کے ذریعہ بی جے پی پیغام دینا چاہتی ہے کہ کانگریس اور راہل گاندھی جس آئین کو لے کر اس کی حفاظت کی قسمیں کھا رہے ہیں ۔ ان کی دادی اور کانگریس نے ایمرجنسی لگا کر لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا تھا ۔ مخالفین اور حزب اختلاف لیڈران کو جیل میں بند کر دیا تھا ۔ خبروں پر سینسر تھا کوئی بھی خبر حکومت کی مرضی کے خلاف شائع نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس وقت خبروں کے زیادہ تر ذرائع سر کاری تھے چند اخبار پرئیویٹ تھے ۔ ان کی لائٹ کاٹ دی گئی تھی ۔ البتہ اس وقت ریل گاڑیاں وقت پر چلنے لگی تھیں ۔ سرکاری ملازمین وقت پر آفس میں موجود رہتے تھے ۔ رشوت مانگنے کی کسی کی ہمت نہیں تھی ۔ سب کام آسانی سے ہو رہے تھے نظم و ضبط چست درست ہو گیا تھا ۔ کرائم ہونے بند ہو گئے تھے یا ان کی خبریں آنا بند ہو گئی تھیں ۔
اندرا گاندھی نے سیاسی مجبوری کی وجہ سے سدھارتھ شنکر رے اور دوسرے قریبی لوگوں کے مشورہ کے بعد ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایمرجنسی لگنے کے بعد کابینہ سے اس کی منظوری لی گئی تھی ۔ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ جے پی کے آندولن کی وجہ سے ایمرجنسی لگی تھی ۔ سچائی یہ ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اندراگاندھی کے خلاف فیصلہ دیا تھا ۔ الہ آباد کے جج جگ موہن لال سنہا نے اپنے فیصلے میں مانا کہ اندراگاندھی نے اپنے الیکشن میں سرکاری مشینری اور وسائل کا استعمال کیا ہے ۔ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت عدالت نے اپنے فیصلہ میں اندرا گاندھی کو منتخب عہدے پر رہنے سے روک دیا تھا ۔ عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود رہ سکتی ہیں لیکن انہیں ووٹنگ کا حق نہیں ہوگا ۔ تقریباً اکیس ماہ کے بعد انہوں نے ایمرجنسی کو واپس لے لیا ۔ مشہور سینئر صحافی کلدیپ نیر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ تمام مخالف لیڈران جیل میں بند تھے ۔ ان پر کسی کا دباؤ نہیں تھا ۔ مگر اندرا جی کی بیک گراونڈ جمہوری تھی ۔ ان کے والد اور ان کا پورا خاندان جمہوری قدروں کے لئے آندولن کرنے والوں میں شامل رہا ہے ۔ ہو سکتا ہے انہیں اندر سے لگا ہو کہ انہیں جمہوری راہ ہی اپنانی چاہئے تبھی تو انہوں نے بغیر صلاح مشورے کے ایمرجنسی کو واپس لے لیا ۔ ایمرجنسی کے بعد ہوئے پارلیمانی انتخابات میں شمالی ہند میں کانگریس بری طرح ہاری جبکہ جنوبی ریاستوں کے ووٹروں نے کانگریس کا ساتھ دیا تھا ۔ شمالی ہند میں ہار کی بڑی وجہ ایمرجنسی کے دوران جبراً نس بندی کرانا تھا ۔
پچاس سال بعد بھی آئین کے جذبات کو طاقت کے دم پر کچل دینے کی مثال ہے ۔ تو گزشتہ دس سال میں بار اس کا مشاہدہ ہوا ہے ۔ سماجی کارکنوں، صحافیوں، سول سوسائٹی ممران، طلبہ و اپوزیشن لیڈران اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں پر اس وقت میسا لگی تو اب یو اے پی اے لگایا گیا ۔ وزراء اعلیٰ کو گرفتار کیا گیا، سیاسی لیڈران کے خلاف ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس نے مقدمات قائم کئے ۔ نیوز کلک کے فاؤنڈر ایڈیٹر کو ان کے ایچ آر منیجر کے ساتھ گرفتار کیا گیا ۔ ان کے ساتھ جڑے پچاس سے زیادہ صحافیوں اور کالم نویسوں کے گھروں پر پولس نے چھاپا مارا ۔ گھنٹوں پوچھ تاچھ کی گئی ۔ ان کے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل اور آئی پیڈ ضبط کر لئے گئے ۔ جو سال بھر کے بعد بھی واپس نہیں ہوئے ہیں ۔ جو حکومت کے ساتھ ہے اس کے علاوہ کوئی محفوظ نہیں ہے ۔ ملک میں جس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں ویسے ایمرجنسی میں بھی نہیں ہوئے ۔ موجودہ حکومت آئین کے پیش لفظ، بنیادی حقوق اور رہنما اصولوں کے حصہ کے بجائے قانونی حصہ پر یقین رکھتی ہے ۔ جسے استعمال کرکے اپنے اقتدار کو قائم رکھنا چاہتی ہے ۔ لاگو ہوئے تین نئے کرمنل قانون اس کا ثبوت ہیں ۔ ماہرین کے ذریعہ ان پر شدید تنقید ہو رہی ہے ۔ انہیں ملک کو پولس اسٹیٹ کی طرف لے جانے والا جابرانہ قانون بتایا جا رہا ہے ۔ ان میں سزاؤں کو سخت کرنے کے ساتھ پولس کو زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں ۔ یہ قوانین پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کے 150 ممران کو معطل کرکے بغیر مکمل بحث کے پاس کرایا گیا تھا ۔ پارلیمنٹری کمیٹی میں اپوزیشن کے ذریعہ درج کرائے گئے اعتراضات کو پوری طرح نظر انداز کر دیا گیا تھا ۔ اس لئے آئین کی حفاظت کی لڑائی ابھی لمبی چلنے کا امکان ہے ۔ جس کا اثر آنے والے ریاستی انتخابات میں بھی دکھائی دے سکتا ہے ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا