قربانی کے فضائل و مسائل

0
336

 

از :۔محمد آل مصطفی مرکزی مظفرپوری
محمد پور مبارک ،پوسٹ ،پرشوتم پور ،ضلع مظفرپور ،بہار
قربانی مذہب اسلام کا ایک ایسا عظیم الشان شعار ہے جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔در حقیقت قربانی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بندوں کی جانب سے جذبہ عبودیت کے اظہار کا ایسا انوکھا اور نرالا طریقہ ہے جس کے ذریعے انسان عزیز ترین مال کا گراں قدر نذرانہ خدا کے حضور پیش کرکے اللہ تعالیٰ کے قرب خاص کی منزل پہ فائز ہوجاتا ہے ۔اس لئے اس عظیم عبادت الہی کو ہم قربانی کے نام سے جانتے ہیں ۔در اصل قربانی تمام رسولوں اور نبیوں کی سنت ہے ،سابقہ تمام انبیاء و مرسلین کی امتوں کیلئے یہ حکم نافذ تھا ۔
اللہ تعالیٰ اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرماتا ہے وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَام ’’ہم نے ہر امت کیلئے قربانی مقرر کردی تاکہ وہ بے زبان جانوروں پہ اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کریں ‘‘ ۔(سورہ حج) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ’’اے محبوب اپنے رب کیلئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے‘‘۔(سورہ کوثر)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسول اللہ ! یہ قربانیاں کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :کہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ !ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے ؟ فرمایا :ہر بال کے مقابل نیکی ہے ،عرض کی اُون کا کیا حکم ہے ؟فرمایا :’’ اُون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے ۔(ابن ماجہ)حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ،قربانی کے دنوں میںابن آدم کا کوئی عمل خدائے تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے ،قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا ،اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدائے تعالیٰ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہونچ جاتا ہے ۔(ترمذی شریف)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے خوش دلی سے اور ثواب کا طالب ہوکر قربانی کی وہ آتش جہنم سے حجاب (یعنی روک)ہوجائے گی۔(طبرانی)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے ۔(ابن ماجہ)
ذبیحہ کی دو قسمیں ہیں :۔ذبیحہ عادت اور ذبیحہ عبادت ،ذبیحہ عادت تو وہ ہے جو دن رات ہم کھانے کیلئے جانوروں کو ذبح کرتے ہیں ،ان پر نہ عذاب ہے نہ ثواب ، ذبیحہ عبادت وہ ہے کہ رب کو راضی کرنے کیلئے کیا جائے ۔اس ذبیحہ کی دو قسمیں ہیں ،ذبیحہ جیانت اور ذبیحہ شکر ،ذبیحہ جیانت توحج اور عمرہ میں ہی ہوتا ہے جب کی کوئی واجب چھوٹ جائے اور ذبیحہ کی نہ تاریخ مقرر ہے نہ اس میں محرم خود کھا سکتا ہے ۔ذبیحہ شکر تین قسم کی ہیں : بچہ کا عقیقہ ،بقرعید کی قربانی ،تمتع یا قران کا ذبیحہ ،اس ذبیحہ کی تاریخ بھی مقرر ہے اور ذبیحہ کرنے والا خود کھا سکتا ہے ۔
٭قربانی کی تعریف :۔مخصوص جانوروں کو مخصوص دنوںمیں بہ نیت تقرب الی اللہ ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں۔
قربانی کا وقت:۔ دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے ،یعنی تین روز اور دو راتیں ،جسے ایام نحر کہتے ہیں ۔لیکن شریعت مطہرہ نے دسویں تاریخ کی قربانی کو سب سے افضل قرار دیا ہے۔پھر گیارہویں اور پھر بارہویں کی قربانی یعنی قربانی حسب ترتیب ایام ہے۔
قربانی واجب ہونے کے شرائط:۔(۱)اسلام یعنی مسلمان ہونا غیرمسلم پر قربانی واجب نہیں (۲)اقامت یعنی مقیم ہونا ،اس لئے کہ مسافر پر قربانی نہیں (۳)آزادہونا ،غلام پر قربانی واجب نہیں (۴)بالغ ہونا ،نابالغ پر قربانی واجب نہیں (۵)عاقل ہونا ،غیر عاقل اور مجنون پر قربانی واجب نہیں (۶)صاحب نصاب ہو ،غیر مسکین اور فقیرپر قربانی واجب نہیں ۔مذکورہ اشخاص کے علاوہ اگر کوئی شخص قربانی کرے تو وہ قربانی واجب نہیں بلکہ نفل ہوگی۔
مالک نصاب ہونے کا مفہوم :۔قربانی کے دنوں میں اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولہ یعنی 93 گرام312ملی گرام سوناہو جس کی قیمت آج کل تقریباً 614926،روپے ہے (2)یا ساڑھے باون تولہ یعنی 653 گرام 184ملی گرام چاندی ہو جس کی قیمت آج کل تقریباً62575روپئے ہے۔یا62575روپئے ہوں ۔یا 62575روپئے کے برابر مالِ تجارت ہو۔یا62575روپئے کے برابر بیل ،بھینس،بکری وغیرہ ہو۔یا62575روپئے کے برابر کھیتی کا مالک ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔ گھر میں جتنے لوگوں کے پاس یہ مالیت ہوگی ان سب کو اپنے اپنے نام سے جدا جدا قربانی کرانا ضروری ہوگا اگر کسی شخص پر اتنا قرض ہو کہ جس کو ادا کرنے کے بعدنصاب باقی نہ رہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی ۔اگر کوئی مالک نصاب نہ ہونے کے باوجود قربا نی کرتا ہے تو وہ سنت و مستحب کا ثواب پائے گا ۔اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کے اوپر قربانی واجب ہے مگر اس کے پاس ایام النحر میں اتنا نقد نہیں ہے کہ جانور خرید سکے تو اس کے لئے واجب ہے کہ وہ چاہے قرض لے کر قربانی کرے یا اپنا کچھ مال بیچ کر ۔(فتاویٰ رضویہ جلد ۸،صفحہ ۳۹۳)
مسئلہ :۔مذکورہ نصاب پر سال گذرنا ضروری نہیں ہے بلکہ ایام قربانی میں بھی جو مذکورہ نصاب کا مالک ہو جائے اس پر قربانی واجب ہوگی۔
قربانی کا جانور:۔ قربانی کے جانور کی تین قسمیں ہیں : (۱)اونٹ(۲)گائے (۳)بکری۔اور ہر قسم میں اس جانور کی جتنی نوعیں ہیں سب داخل ہیں ،نر اور مادہ خصی اور غیر خصی سب ایک حکم میں داخل ہیں ،یعنی سب کی قربانی جائز ہے بھینس کا گائے میں شمار ہے،لہذا اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے ،بھیڑ اور دنبہ بکری میں داخل ہیں ،اس لئے ان کی بھی قربانی ہو سکتی ہیں ، قربانی کیلئے بکری بکرے سے افضل ہے لیکن خصی بکرا بکری سے بھی افضل ہے، اونٹنی اونٹ سے اور گائے بیل سے افضل ہے جبکہ گوشت اور قیمت میں برابر ہویہ فضیلت بر بنائے لذت گوشت ہے۔
قربانی کرنے سے پہلے جانور کو چارہ پانی دے دیں یعنی اسے بھوکا پیاسا ذبح نہ کریں اور نہ ہی ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کریں ،بلکہ بہتر یہ ہے کہ چھری بھی جانور کے سامنے تیز نہ کی جائے ،ذبح سے قبل چھری خوب تیز کرلیں تاکہ جانور کو ذبح ہونے میں زیادہ تکلیف نہ ہو ،اور ذبح ہونے کے بعد جب تک جانور کا جسم مکمل طور پر ٹھنڈانہ ہوجائے یعنی تمام اعضاء سے روح نہ نکل جائے اس وقت تک اس کے ہاتھ پائوں نہ کاٹیں اور نہ ہی چمڑا اتاریں ۔اگر اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو تو افضل یہ ہے کہ اپنی قربانی خود سے کرے ،اور اگر نہیں جانتا ہو تو دوسرے کو اجازت دے وہ ذبح کرے ،اس صورت میں افضل یہ ہے کہ بوقت قربانی حاضر رہے ۔چونکہ حدیث پاک میں ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو کہ اس کے خون کے پہلے قطرے میں جو کچھ گناہ ہوتے ہیں سب کی مغفرت ہوجاتی ہے ،یہ سن کر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا !یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ صرف آپ کی اولاد کے ساتھ خاص ہے یا آپ کی اولاد اور عامۃ المسلمین کے لئے بھی ؟ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے اولاد کیلئے خاص ہے اور تمام مسلمانوں کیلئے عام بھی ہے ۔(عالمگیری )
قربانی کے جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ رخ ہو ،اور اپنا داہنا پائوں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کردیں اور چھری چلانے سے قبل یہ دعا پڑھے: اِنِّیْ وَ جَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَآاَنَا مِنَ الْمُشْرِکِین اِنَّ صَلَاْتِیْ وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِین لَاشَرِیکَ لَہ وَبِذَالِکَ اُمِرتُ وَاَنَا مِنَ المُسْلِمِین اَلّٰھُمَّ لَک وَمِنکَ پھر بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر۔اگر قربانی اپنی جانب سے ہوتو ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھیں۔’’ اَلّٰھُم تَقَبَّلْ مِنیِّ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیلِک اِبرَاہِیمَ وَحَبِیبِکَ مُحَمَّدٍصلی اللّٰہُ تعالیٰ عَلیہِ وَسلم ‘‘۔اور قربانی دوسرے کی طرف سے ہو تو مِنِّّیکی جگہ مِن اور صاحب قربانی کا نام ذکر کریں ۔قربانی کے جانور کو اس طرح ذبح کریں کہ چاروں رگیں کٹ جائیں یا کم از کم تین کٹ جائیں اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ یہ جانوں کو بلا وجہ تکلیف دینا ہوگا ۔
قربانی کے کچھ اہم ضروری مسائل :۔مسئلہ:۔مستحب یہ ہے کہ قربانی کا جانور خوب فربہ اور خوبصورت اور بڑا ہو اور بکری کی قسم میں سے قربانی کرنی ہو تو بہتر سینگ والا مینڈھا چت کبرا ہو ۔(عالمگیری)
مسئلہ:۔قربانی کے لئے اونٹ کی عمر ۵؍سال ،بھینس یا اس جیسے جانور کی عمر۲؍سال اور بکرے کی عمر۱؍سال ہونا ضروری ہے اگر اس سے ایک دن بھی عمر کم ہوتو اس کی قربانی شرعاًصحیح نہیں ہوگی۔
مسئلہ:۔اگر اچھی طرح ذبح کر نا جانتا ہو تو بہتر ہے کہ قربانی اپنے ہاتھوں سے کرے۔
مسئلہ:۔اگر دوسرے کو قربانی کرنے کا حکم دے تو بہتر ہے کہ وقت ِقربانی مقام قربانی پر حاضر رہے ۔ حدیث شریف میں ہے نبی کریم ﷺنے خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا:کھڑی ہوجا ،اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہوجا، کہ اس کے خون کے پہلے ہی قطرہ میں جو گناہ کئے ہیں سب کی مغفرت ہوجائے گی۔
مسئلہ :۔ سنت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور کا منہ قبلہ کو کیا جائے اور ایسا نہ کرنا مکروہ ہے۔
مسئلہ :۔گھر میں جتنے لوگ صاحب نصاب ہوں ان پر ضروری ہے کہ سب لوگ اپنی اپنی طرف سے قربانی کریں صرف ایک شخص کی طرف سے قربانی کردینا سب کے لئے کافی نہیں ہیں ۔
مسئلہ:۔قربانی کے وقت قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلاً بجائے قربانی اس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کردی یہ ناکا فی ہے اس میں نیابت ہوسکتی ہے یعنی خود کرنا ضروری نہیں بلکہ دوسرے کو اجازت دے دی اس نے کردی یہ ہوسکتا ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ: ۔جس پر قربانی واجب ہے اس کو خود اپنے نام سے قربانی کرنی چاہیئے دوسرے کے نام سے کرے گا واجب ساقط نہ ہوگا۔اگر کسی رشتہ دار کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو اس کے لئے الگ سے انتظام کرے پھر بھی دوسروں کی طرف سے جو قربانی کی ہوگئی اور ایام قربانی باقی ہو ں تو یہ خود قربانی کرے،گذرنے پر قربانی کی قیمت صدقہ کرے ۔(فتاویٰ امجدیہ جلد سوم صفحہ ۳۱۵)
مسئلہ:۔اگر کسی پر اتنا قرض ہے کہ اگر وہ قرض کی رقم گھٹائے تو مالک نصاب نہیں رہ جاتا ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں اگر قرض کی رقم گھٹانے کے بعد بھی وہ مالک نصاب ہے تو قربانی واجب ہے ۔
مسئلہ:۔جس پر قربانی واجب ہے اس کے پاس اس وقت نقد نہیں ہے وہ چاہیں قرض لے کر یا اپنا مال بیچ کر قربانی کرے۔
مسئلہ:۔اگر شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہو تو پہلی جگہ نماز ہوجانے کے بعد قربانی جائز ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ عیدگاہ میں نماز ہوجائے جب ہی قربانی کی جائے بلکہ کسی مسجد میں ہوگئی اور عید گاہ میں نہ ہوئی جب بھی ہوسکتی ہے (درمختار)
مسئلہ:۔امام ابھی نماز ہی میں ہے اور کسی نے جانور ذبح کرلیا اگر چہ امام قعدہ میں ہو اور بقدر تشہد بیٹھ چکا ہو مگر ابھی سلام نہ پھیرا ہو تو قربانی نہیں ہوئی اور اگر امام نے ایک طرف سلام پھیر لیا ہے دوسری طرف باقی تھا کہ اس نے ذبح کردیا قربانی ہوگئی اور بہتر یہ ہے کہ خطبہ سے جب امام فارغ ہوجائے اس وقت قربانی کی جائے ۔(عالمگیری)
مسئلہ:۔جس جانور کی پیدائشی سینگ نہ ہو اس کی قربانی جائز ہے اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گیا اور جڑ تک ٹوٹا ہے تو ناجائز ہے اس سے کم ٹوٹا ہے تو جائز ہے۔
مسئلہ : ۔جس جانور کا اندھا اور کانا پن ظاہر ہو اس کی قربانی جائز نہیں ،جو جانور پیدائشی اندھا یا کانا ہو اس کی بھی قربانی جائز نہیں ہے ،البتہ جس جانور کے کان چھوٹے ہو اس کی قربانی جائز ہے ۔
مسئلہ:۔جس جانور کے بالکل کان نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں ہے بلکہ ایک کان ہو اور دوسرا کان نہ ہو تب بھی قربانی جائز نہیں ہے اسی طرح جس جانور کی بالکل دُم نہ ہو اس کی بھی قربانی ناجائز ہے اور جس کے چھوٹے چھوٹے کان ہوں اس کی قربانی جائز ہے۔
مسئلہ :۔قربانی سے قبل جس بھیڑ یا دنبہ کے بال کاٹ لئے گئے ہو اس کی قربانی جائز ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ :۔قربانی کے بکرے کے دانت اگر چہ نہ نکلے ہوں اگر وہ سال بھر کا ہے توقربانی ہوجائے گی۔
مسئلہ:۔قربانی کرتے وقت جانور اچھلا کودا جس کی وجہ سے عیب پیدا ہو گیا یہ عیب مضر نہیں یعنی قربانی ہوجائے گی اور اگر اُچھلنے کودنے سے عیب پیدا ہوگیا اور وہ چھوٹ کر بھاگ گیا اور فوراً پکڑ کر لایا گیا اور ذبح کردیا گیا جب بھی قربانی ہوجائے گی ۔(درمختار)
مسئلہ:۔سات شخصوں نے قربانی کے لئے گائے خریدی تھی اُن میں ایک شخص کا انتقال ہو گیا اس کے ورثہ نے شرکا سے یہ کہہ دیا کہ تم اس گائے کو اپنی طرف سے اور اُس کی طرف سے قربانی کروانہوں نے کرلی تو سب کی قربانیاں جائز ہے، اور اگر بغیر اجازت ورثہ ان شرکا نے کی تو کسی کی قربانی نہ ہوئی ۔(ہدایہ)
مسئلہ:۔گائے کے شرکاء میں سے ایک کافر ہے یا ان میں ایک شخص کا مقصود قربانی نہیں ہے بلکہ گوشت حاصل کرنا ہے تو کسی کی قربانی نہیں ہوئی ۔(درمختار ،ردالمختار)
مسئلہ:۔ قربانی واجب تھی اور کسی نے نہیں کی اور ایام نحر گذر گئے تو اب قربانی فوت ہوگئی اب اس پر واجب ہے کہ وہ جانور صدقہ کرے یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔(درمختار)
مسئلہ:۔ کسی نے گذشتہ سال قربانی واجب ہونے کے باوجود نہیں کی تھی اور امسال وہ چاہتا ہے کہ سا ل گذشتہ کی قربانی کرے تو ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ اب ضروری ہے کہ وہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔(درمختار)
مسئلہ:۔ اگر دو شخصوں نے مل کر ذبح کیا تو دونوں کا بسم اللہ کہنا ضروری ہے اگر ایک نے بھی قصداً ترک کیا تو جانور حلال نہ ہوا۔(درمختار)
مسئلہ:۔بالغ لڑکوں یا بیوی کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو ان سے اجازت حاصل کرے بغیر اُن کے کہے اگرقربانی کردی تو اُن کی طرف سے واجب ادا نہ ہوا اور نابالغ کی طرف سے اگر چہ واجب نہیں ہے مگر کردینا بہتر ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ:۔جس کا ارادہ قربانی کا ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد سے قربانی تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
مسئلہ:۔ قربانی کے بڑے جانور میں عقیقہ بھی ہوسکتا ہے
قربانی کے گوشت کا حکم : ۔قربانی کا گوشت خود بھی کھا سکتا ہے اور دوسرے شخص غنی یا فقیر کو دے سکتا ہے بلکہ اس میں سے کچھ کھا لینا قربانی کرنے والوں کیلئے مستحب ہے ۔بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کئے جائیں ،ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لئے ،دوسرا حصہ دوست و احباب میں تقسیم کردے ،اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین کو صدقہ کردے،ایک تہائی سے کم صدقہ نہ کرے ،اورکل کو صدقہ کردینا بھی جائز ہے اور کل گھر ہی رکھ لے یہ بھی جائز ہے ۔لیکن یہ اس صورت میں جب کہ اہل و عیال کثیر تعداد میں ہو۔(عالمگیری)
مسئلہ:۔قربانی کا گوشت کافر کونہ دے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں ۔
قربانی اگر منت و نذر کی ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھا سکتا ہے اور نہ ہی اغنیا (مالدار )کو کھلا سکتا ہے بلکہ تمام گوشت کو صدقہ کرنا واجب ہے ۔اگر چند افراد نے مل کر شرکت میں اونٹ یا گائے کی قربانی کی اس صورت میں ضروری ہے کہ گوشت کو وزن کرکے ہی تقسیم کیا جائے ،اندازہ سے تقسیم کرنا جائز نہیں کیونکہ اس بات کا امکان ہے کہ کسی کو کم یا زیادہ ملے اور یہ ناجائز ہے ۔یہ خیال کرنا درست نہیں کہ کم و بیش ہوگا تو ہر ایک دوسرے کے لئے جائز کردے گا ، چونکہ یہاں عدم جواز حق شرع ہے نہ کہ حق فرد ،لہذا ان میں سے کسی کو ایک دوسرے کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔(درمختار،ردالمختار)
قربانی کے جانور کی عمر کیا ہونی چاہیے :۔اونٹ پانچ سال ،گائے بیل بھینس دو سال ،اور بکری خصی ایک سال، اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں ،عمر زیادہ ہونا جائز ہی نہیں بلکہ افضل و مستحسن بھی ہے البتہ دنبہ و بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا بڑا ہوکہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی مباح ہے ۔قربانی کے جانور کو تمام عیو ب سے منزہ اور پاک ہونا چاہیے ،عیب اگر معمولی ہو تو قربانی تو ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی ،ہاں عیب اگر زیادہ ہو تو قربانی ہوگی ہی نہیں ۔جس جانور کو پیدائش سے ہی سینگ نہ ہو اس کی قربانی جائز اور اگر سینگ تھا مگر ٹوٹ گیا تو اس کی دو صورت ہے اگر تھورا ٹوٹا ہے تب جائز ہے اور اگر زیادہ ٹوٹا ہے تو جائز نہیں ۔
قربانی کے کھال کا حکم :۔قربانی کا کھال قصاب یا ذبح کرنے والے کو اجرت کے طور پر دینا ناجائز ہے ،بعض جگہ لوگ چرم قربانی مسجد کے امام کو دیتے ہیں چرم قربانی مسجد کے امام کو تنخواہ میں دینا جائز نہیں ،البتہ بطور اعانت دینے میں حرج نہیں ہے،چرم قربانی خود کے استعمال میں لانا درست ہے مثلا مشکیزہ ،جانمازوغیرہ کے طور پر ،لیکن کھال فروخت کرکے اس کی قیمت اپنی ذات یا اہل و عیال پر صرف کرنا جائز نہیں ہے ،کھال فروخت کرکے اس کی قیمت صدقہ کرنا درست ہے جیسا کہ آج کل لوگ چرم قربانی مدارس دینیہ کو دیا کرتے ہیں مگر بعض اوقات کھال بھیجنے میں دقت پیش آتی ہے ،اس لئے کھال فروخت کرنے کے بعد نقد بھیج دیتے ہیں یا متعدد افراد کو دینا ہوتا ہے اس لئے بھی بیچ دیتے ہیں تو اس طرح کی بیع جائز ہے۔
حلال جانور میں سات چیزیں کھانا حرام ہیں:۔ (۱)بہتا ہوا خون (۲)آلہ تناسل(۳)دونوں خصیے یعنی کپورے(۴)شرمگاہ(۵)غدود(۶)مثانہ یعنی پھنکنا(۷)پتہ ۔(فتاویٰ عالمگیری جلد پنجم صفحہ ۲۵۶)
دعائے عقیقہ:۔ اگر بڑے جانور میں عقیقہ کرنا ہو تو مستحب ہے کہ لڑکا کیلئے دو حصے اور لڑکی کیلئے ایک حصہ کرے ۔دعائے عقیقہ پڑھ کر جن کے نام سے قربانی کی جارہی اس کے نام کو پیش کرنے کے بعد یہ دعا پڑھیں : اَلّٰھُمَّ ھٰذِہ عَقِیقۃُ فلان ابن فلان دَمُھَا بِدَمِہٖ وَلَحمُھَابِلَحمِہٖ وَعَظْمُھَا بِعَظْمِہٖ وَجِلدُھَا بِجِلدِہٖ وَشَعْرُھَا بِشَعْرِہٖ اَلّٰھُمَّ اجْعَلھَا فِدَائً لَہ‘ مِنَ النَّار۔ بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر اگر بچی ہو تو ہکی جگہ ھَا اور اِبنکی جگہ بِنت کہیں ۔
مسئلہ:۔ عوام میں یہ بہت مشہور ہے کہ عقیقہ کاگوشت بچہ کے ماں باپ اور دادا دادی ،نانانانی نہ کھائیں یہ محض غلط ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔
قربانی کرنے والے بال و ناخن نہ تراشیں :۔حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جب تم ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ (جانورذبح کرنے تک )نہ جسم کے بال کاٹے اور نہ ہی ناخن تراشے‘‘۔(مسلم شریف)
عرفہ کا روزہ :۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عرفہ کے بارے میں دریافت کیا گیا ،تو آپ نے ارشاد فرمایا : یوم عرفہ کا روزہ ایک گذشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہ کو معاف کردیتا ہے۔(مسلم شریف،جلداول ،صفحہ ۳۶۸)
نماز عید کا طریقہ:۔ پہلے نیت اس طرح کریں ،نیت کی میں نے دو رکعت نماز عید الاضحی کی واجب چھ زائد تکبیروں کے ساتھ واسطے اللہ تعالیٰ کے پیچھے اس امام کے منہ میرا کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر ۔کہہ کر ثنا پڑھیں پھر تین تکبیریں زائد کہی جائیں گی ۔دو تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھاکر چھوڑدیں اور تیسری تکبیر میں کانوں تک ہاتھ اٹھا کر باندھ لیں ۔اس کے بعد امام قرات کرے گا ایک رکعت پوری کرے گا۔دوسری رکعت میںقرات سے فارغ ہو کر تین تکبیریں کہی جائیں اور تینوں تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑدیں ۔چوتھی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں جائیں حسب معمول نماز پوری کریں بعدہ‘ خطبہ سننا واجب ہے۔
ایام تشریق :۔ نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز باجماعت فرض کے بعد بہ آواز بلند اَللّٰہُ اَکبَر اَللّٰہُ اَکبَرلَااِلَہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکبَر اَللّٰہُ اَکبَروَلِلّٰہِ الْحَمدْکہنا ہر شخص پر واجب ہے ،تین بار کہنا افضل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قربانی جس عظیم المرتبت پیغمبر کی یادگار ہے ان کی حیثیت عرفی و اسلامی تو ہر طرح سے مسلم ہے ہی مگر سب سے بڑی عظمت کی بات یہ ہے کہ ان کی اس مقدس یادگار کو امت محمدیہ کے لئے اہم عبادت کا لازمی حصہ قرار دیا گیا جو واجب ہونے کے ساتھ شان اسلام کا مظہر بھی ہے۔
مقام :۔محمد پور مبارک ،پوسٹ ،پرشوتم پور ،ضلع مظفرپور ،بہار
9122426786

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا