تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

0
185

۰۰۰
شفا بنتِ سرور
۰۰۰
"یوپی مدرسہ بورڈ قانون کو ہائی کورٹ نے کیا رد، سیکولرازم کے اصولوں کے خلاف قرار دیا”کل اخبار میں یہ خبر پڑھ کر ابھی حیرانی و پریشانی کے عالم ہی میں تھے کہ اگلے دن کی خبر نے مزید تشویش میں مبتلا کر دیا۔خبر کچھ یوں تھی۔’حالیہ فیصلے پر رائے دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ اتر پردیش نے کہا :”عزت مآب کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور اسے صوبے میں ترتیب وار نافذ کرکے صوبے کے تعلیمی نظام کو یکساں تعلیمی نظام کے ساتھ جوڑنے کا کام کریں گے۔”بے اختیار میرے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ ہندوستان میں ہم مسلمانوں پر ظلم و ستم اور ناانصافیوں کا یہ جو سلسلہ چل رہا ہے آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟؟
کبھی ہماری مسجدوں کو مسمار کرکے وہاں مندر کا تعمیر کرلینا۔کہیں ماب لنچنگ(Mob Linching) کر کے درجنوں بے گناہ مسلمان کا قتل کر ڈالنا۔ کبھی NRC اور CAA کے نام پر ہمیں ملک سے نکالنے کی سازشیں کرنا
مظلوم کشمیریوں کی آزادی سلب کرکے ان پر طرح طرح سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا۔۔۔۔!! طلاقِ ثلاثہ کے نام پر ہماری شریعت میں بھی مداخلت کرنے کی کوشش کرنا…!!ہمارے علمائے دین کو بے بنیاد الزامات لگا کر گرفتار کرلینا۔۔۔۔!!اور اب یہ ہمارے مدارس کو بند کرانے کی اور معلمین مدارس کو بے روزگار کرنے کی یہ سازش۔کیا کیا شمار کریں ہم؟؟
*ایک دو زخم نہیں سارا بدن چھلنی ہے*
*درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھوں!*لیکن آخر ہم سے غلطی کہاں ہوئی ؟ہمارے ان حالات کا ذمہ دار کون؟پھر یکایک ذہن میں رب تعالی کا یہ فرمان آیا ترجمہ : اور تم آپس میں اختلاف مت کرو ورنہ (متفرق اور کمزور ہوکر)بزدل ہو جاؤگے اور (دشمنوں کے سامنے)تمھاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائیگی۔ذہن میں گردش کرتے سوال کا جواب قرآن نے دے دیا کہ حالات کی اس سنگینی کہ وجہ تو تم خود ہو۔!تمہارے اپنے اختلافات ہیں۔خیال آیا” کیسے اختلافات؟” جواب ملاکیا تم مسلمان کبھی ایک قیادت پر متفق ہوئے ؟کسی ایک لیڈر پر اتفاق کیا؟کیا تمہارا اپنا کوئی سیاسی موقف ہے۔کیا تمہیں ہر بار الیکشن میں ووٹ بینک کے طور پر نہیں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔سالہا سال سے کیا تم الگ الگ سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی نہیں بنے ہوئے ہو۔ آخر تم کب تک ایسے سنگین حالات کو برداشت کرتے رہو گے؟ تم کب اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لئے اقدام کرو گے؟ یہ تو واضح ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں اپنے حقوق کی حفاظت اور اپنی بات کو منوانے کے لئے تمہیں جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ ہے مسلمانوں کی مضبوط سیاسی قیادت۔پھر تمہاری قیادت کہاں ہے ؟؟
ٹھیک ہے اس سے پہلے تمہارے پاس اپنی کوئی سیاسی قیادت نہیں تھی۔لیکن اب
کیا تمہیں ایک بیباک، بے خوف، ذمہ دار اور حق گو لیڈر نہیں مل گیا۔وہ جو پارلیمنٹ میں انصاف کی آواز بلند کرنے کی جرات رکھتا ہے۔ جو علی الاعلان مسلمانوں کے حقوق کا مطالبہ کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔وہ جو ہر بات دلائل و شواھد کی روشنی میں کرتا ہے۔جو مظلوموں کی آواز بن کر کھڑا ہوتا ہے۔جو ڈنکے کی چوٹ پر ناانصافی کی مخالفت کرتا ہے۔۔نام نامی,اسمِ گرامی *”بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب”* وہ جس کے اندر اسلامی قیادت کی بہترین صلاحیتیں موجود ہیں !!*ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔**بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔*لہذا اب میں عرض کرنا چاہتی ہوں کہاے ہند کے مسلمانوں ! تم مختلف پارٹیوں میں کوئی نہ کوئی مسلم لیڈر موجود دیکھ کر ادھر لڑھک جاتے ہو یہ گمان کرتے ہوئے کہ ہمارے حق کے لئے یہ آواز بلند کرے گا۔۔۔۔۔ ! خوب سوچو ہ ان لوگوں نے آج تک اسلام کا اور مسلمانوں کا کب دفاع کیا ہے جو اب کرینگے؟ وہ جو این آر سی، س اے اے, طلاقِ ثلاثہ( NRC, CAA and Triple Talaq) اور بابری مسجد جیسے حساس معاملے پر خاموش تماشائی بنے رہے۔۔۔۔۔جب بھی کوئی مسلم معاملہ سامنے آیا تو یہ نام نہاد مسلم لیڈران گونگے بہرے بنے رہے۔۔۔یہ کافروں کے تلوے چاٹنے والے لیڈران جنہیں قوم کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں۔۔۔۔جنہیں صرف اور صرف اپنی ذاتی مفادات کی فکر ستاتی ہے۔۔۔۔۔!!تم نے انہیں ووٹ دے کر ہمیشہ اپنی ووٹوں کی طاقت ضائع کی۔۔۔۔
مجھے حیرت ہے کہ ہماری قوم کے لوگوں کو یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ….
جوتے کہاں سے خریدنے ہیں؟
کپڑے کس درزی سے سلوانے ہیں؟
لیکن اب تک وہ بے چارے,غم کے مارے یہ نہ معلوم کر سکے کہ اپنا لیڈر کسے منتخب کرنا ہے؟ اپنا قائد کسے بنانا ہے؟؟
بہت آزمایا تم نے ہر پارٹی کو اور ہر مسلم لیڈر کو مگر حاصل کیا ہوا…؟اب اس قوم کا درد رکھنے والے لیڈر کو بھی موقع دیں۔۔۔۔ ! رہے وہ لوگ جو اسدالدین اویسی صاحب اور AIMIM کو جو "بی ٹیم” کہتے ہیںبی جے پی کے لئے کام کرنے والا کہتے ہیں تو جناب والا یہ نعرہ بھی کافروں اور دشمنوں نے مسلمانوں کو دے رکھا ہے تاکہ ہم ان کے قریب جانے کا سوچیں بھی نہیں۔ورنہ ہندوستان کی سرزمین پر کوئی ایک واقعہ نہیں دکھایا جا سکتا جس پر اویسی صاحب نے زبان نہ کھولی ہو۔وہ تنہا بندہ ہے جس نے پارلیمنٹ میں CAA اور NRC کا بل پھاڑ دیاوہ تنہا بندہ ے جس نے جنید اور ناصر کی مظلومیت پر کھل کر بات کی تبریز انصاری اور اخلاق اور حافظ جنید کی مظلومیت کو ڈنکے کی چوٹ پر بیان کیاطلاقِ ثلاثہ بل کی کھل کر مخالفت کیسڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک بابری مسجد کیلئے آواز بلند کی۔۔۔ !اس سب کے باوجود افسوس صد افسوس ہماری قوم کے اندھے,گونگے اور بہرے "صم,بکم ,عمی” اسے بی ٹیم کہتے ہوئے اپنے گریبان تک میں جھانکنا گوارا نہیں کرتے!!بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ اویسی صاحب صرف ووٹ کاٹتے ہیں ان کا اقتدار حاصل کرنا تو ناممکن ہے۔
ایسی سوچ رکھنے والوں کو شاید یہ ہی نہیں معلوم کہ ہماری لڑائی اقتدار کی لڑائی نہیں۔ہماری لڑائی تو انصاف کی سربلندی کی لڑائی ہے۔ہم اگرچہ حکومت نہیں بنا سکتے لیکن کم از کم ایک مضبوط اپوزیشن پارٹی (Opposition party) تو بن سکتے ہیںیا پھر اتنے مضبوط کہ حکومت بنانے والی پارٹی کو ہم سے اتحاد کی ضرورت پیش آجائے …
ہمارے پاس اتنا پاور ہو کہ کسی کو ہماری مساجد، مدارس کی جانب نگاہِ غلط ڈالتے ہوئے یہ احساس ہو کہ انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالنے والی کوئی طاقت موجود ہے
ظلم کی جانب بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو اندازہ ہو کہ کہ ان کے ظالم ہاتھوں کو جدا کر نے والے بھی موجود ہیں مظلوموں کو انصاف ملنے کا یقین اور ظالموں کے دل میں عبرتناک انجام کا خوف ہواور انصاف کے لئے دہائی دیتے ہوئے ہمیں اپنے ایک مضبوط لیڈر کی پشت پناہی حاصل ہواے مسلمانو !اس بات کو خوب ذہن نشین کر لو کہ قدرت نے ہمیں ہندوستان میں اویسی صاحب کی صورت میں سنبھلنے کا سنہرا موقع دیا ہے شاید بالکل ویسے ہی جیسے بغداد کے مسلمانوں کو اللہ رب العزت کی جانب سے سلطان جلال الدین خوارزم شاہ کی صورت میں سنبھل جانیکا آخری موقع دیا گیا۔لیکن انہوں نے اس کی قدر نہ کی۔انہوں نے اختلافات کے باعث اس کی پکار پر لبیک نہ کہا۔اور پھر ؟ پھر کیا ہوا؟ چشمِ فلک نے تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد والوں کا وہ عبرتناک انجام دیکھا کہ بغداد کی گلیوں میں جدھر نظر اٹھتی تھی، خون کی ندیاں بہتی نظر آتی تھیں۔یونہی اندلس کے مسلمانوں کو موسیٰ بن ابی غسان کی قیادت میں سر اٹھانے کا آخری موقع دیا گیا۔ وہاں بھی اس بے باک سپہ سالار کی قدر نہ ہوئی۔پھر اندلس کے مسلمانوں نے بھی اپنی زندگی کا بد ترین دور دیکھا۔اور اب تم اویسی صاحب کی ناقدری کر رہے ہو۔قدرت کے جانب سے سنبھلنے کے موقع کی ناقدری کر رہے ہو۔تو اپنے انجام کے ذمہ دار بھی تم خود ہوگے ؟تمہیں اہلِ بغداد اور اہلِ اندلس کی طرح تلوار و نیزہ یا گولی بارود اٹھا کر جنگ پر نہیں جانا۔بلکہ صرف اپنے حقِ رائے دہی( Right to vote) کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاسی قیادت کو مضبوط کرنا ہے۔کیونکہ ہر دور میں فتح و شکست کے الگ الگ انداز ہوتے ہیں۔اور یہ دور ووٹوں کی طاقت کا دور ہے۔.. حقیقت تو یہ ہے کہ اویسی صاحب کو جتنا ہمارے ووٹ کی ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ ہمیں ان کی بہترین سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔اسد الدین اویسی صاحب عموماً انہیں مقامات پر انتخابات لڑتے ہیں جہاں مسمانوں کی اکثریت زیادہ ہو۔ اس کے باوجود اگر وہ ہار جائیں تو یہ ان کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے شرم کی بات ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ہماری اجتماعی قوت ایک سیلاب تھی، جو ظلم کی ہر وادی کو بہا لے جاتی تھی۔لیکن جب ہم میں اختلافات پیدا ہوئے تو ہمیں دنیا کی کمزور ترین اقوام کے ہاتھوں بدترین شکستیں نصیب ہوئیں۔ہم کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے؟ کیوں ہم سب اسد الدین اویسی صاحب جیسے باصلاحیت اور دور اندیش لیڈر کی سیاسی قیادت کے پرچم تلے نہیں آ جاتے ؟قدرت کسی کو بار بار موقع فراہم نہیں کرتی۔خدا بھی اس قوم کی مدد نہیں کرتا جسے اپنی فلاح کی فکر نہ ہو۔خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کاہمارے دشمنوں میں بھی بہت فرقے ہیں لیکن انہوں نے ہر بار الیکشن میں یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ ہماری مخالفت میں ایک ہیں۔ہم کب ثابت کریں گے کہ اگر وہ سب ایک ہیں تو ہم بھی ایک ہیں؟؟؟وہ فتح کے شوق میں متحد ہو گئے لیکن ہمیں اپنی شکست کے خوف نے بھی متحد کیوں نہیں کیا؟کیا ہم خوابِ خرگوش سے جاگنے کے لئے صورِ اسرافیل کے منتظر ہیں؟خدا کے لئے اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کریں اور ظلم کے خلاف متحد ہو جائیں۔ابھی بھی وقت ہے۔اگر اپنے مدارس اور مساجد بچانا چاہتے ہیںمظلوموں کے لئے انصاف چاہتے ہیںتو خدارا متحد ہوکر اویسی صاحب کے سیاسی پرچم تلے آ جائیںمیرے ذہن میں جو کچھ آیا میں نے سپردِ قلم کر دیا۔۔
اب فیصلہ آپ پر منحصر ہے کہ آیا آپ متحد ہوکر آزادی، عزت اور فلاح کا راستہ منتخب کرتے ہیں۔یا پھر یوں ہی اپنیاختلاف میں ڈوب کر ذلت و غلامی کی زندگی گزارتے ہوئے اپنی نسلوں کے لئے عبرت کا نشان بن جانا چاہتے ہیں؟؟*نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ھندی مسلمانو!*
*تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں*

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا