ایک تھا مختار!

0
297

۰۰۰
ریاض فردوسی
۔9968012976
۰۰۰
مختار انصاری پر قتل اور قتل کی شازس کے تقریبا 65 مقدمات درج تھے،لیکن ایک بھی مقدمہ لڑکی سے چھیڑ چھاڑ اور (Rape) زنا کا درج نہیں تھا۔
ایک بار لکھنؤ میں مختار انصاری نے خود قسم کھا کر اپنے دوست سے کہا کہ میں نے ایک بھی بے گناہ کا قتل نہیں کیا اور ناہی کروایا ہے،میں نے صرف اپنی خاندان کی بقاء اور مظلوموں کے ل لڑاء کی ہے۔
مختار انصاری کے بھائی اور سابق رکن اسمبلی افضل انصاری جب بیماری کی حالت میں ان سے ملے اور باندہ میڈیکل کالج کے آئی سی یو سے باہر آئے تو انھوں نے باہر موجود میڈیا کو بتایا کہ انھیں مختار سے پانچ منٹ ملنے کا موقع ملا اور وہ ہوش میں آ گئے۔
افضل انصاری نے بتایا کہ ان کے بھائی مختار انصاری کا ماننا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں کھانے میں کوئی زہریلی چیز پلائی گئی تھی۔افضل نے کہا کہ یہ 40 دن پہلے بھی ہوا تھا۔
مختار انصاری کی پیدائش 30 جون 1963ء غازی پور ضلع کے محمد آباد اترپردیس میں سبحان اللہ انصاری اور بیگم رابعہ کے گھر میں ہوئ۔
مختار انصاری بھارتی قومی کانگریس کے ابتدائی صدر مختار احمد انصاری کے پوتے تھے۔مختار انصاری کے دادا ڈاکٹر مختار احمد انصاری جو 17 سال سے زائد عرصے سے جیل میں تھے،آزادی کے متوالے تھے۔سچے ابقلابی تھے۔مہاتما گاندھی جی کے ساتھ کام کرتے ہوئے وہ 1926-27 میں کانگریس کے صدر بھی رہے۔ڈاکٹرمختاراحمد انصاری اتر پردیش کا ایک بڑا نام رہا ہے۔مختار انصاری کے نانا نے ملک کی حفاظت کے لیے بندوق اٹھائی تھی۔مہاویر چکر کے فاتح بریگیڈیئر عثمان مختار انصاری کے نانا نے 1947 ئکی جنگ میں بھارتی فوج کی طرف سے جنگ لڑی اور نوشیرا کی جنگ میں ہندوستان کو فتح دلائی۔وہ دشمن کی گولی اپنے سینے میں کھا کر ملک کے لیے شہید ہوئے۔مختار انصاری بھی اپنے آباؤاجداد کے نقش قدم پر چل کرکمزور اور مظلوموں کی بقاء کے عوض دنیا کی بدنامی بھی اٹھاء اور آخر میں اسی میں اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ صاحب سنگھ کے گینگ کی دہشت غازی پور،مؤ،جون پور ،ورانسی اور تقریبا پروانچل کے ہر علاقوں میں پھیلی ہوء تھی،دن دہاڑے قتل لڑکیوں کا اغوا،لوٹ پاٹ کا بازار گرم تھا۔پورے پروانچل میں دہشت کا بول بالا تھا،کاروباریوں اور عام لوگوں کا جینا حرام ہو گیا تھا۔صاحب سنگھ کے بعد برجیش سنگھ نے اسی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔اس غنڈہ گردی اور بربریت کے خلاف مختار انصاری نے مزاحمت کی۔تب برجیش سنگھ کے اشاروں پر پولیس نے مختار انصاری کو گرفتار کرکے،ان سے مار پیٹ کی،ان پر ان کے کنبے پر ظلم اور بربریت کا پہاڑ توڑا۔مختار انصاری کے جسم پر سگریٹ کو بجھایا جاتا،ان کے جسم کے پیچھے والے نیچے حصے میں سگریٹ سے داغ دیا جاتا،ان پر اور ان کے گھر والوں پر جھوٹے مقدمات درج کئے گئے۔تب تنگ آکر مختار انصاری نے جنگ شروع کی۔پھر بھارت کے آئین کا سہارا لے کر ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔مختار انصاری عوام الناس کے درمیان فرشتہ صفت انسان کے طور پر مشہور تھے۔ہندو،مسلم،سکھ اور عیسائی سب بے انتہا محبت کرتے تھے۔ہر کسی کو گلے لگاتے تھے،ہندو مسلم میں کوء فرق نہیں کرتے تھے،ظالم کے خلاف مختار انصاری ہمیشہ جنگ کرتے رہے،اس کا خمیازہ انہیں بدنام ہو کر چکانا پڑا۔
چند اخبارات،نیوز چینل اور رسائل جو حکومت اور امیروں کے ناجائز اولاد ہیں،ان کے ذریعے انہیں خوب بدنام کیا گیا ہے،دراصل مختار انصاری بے کسوں،کمزوروں،غریبوں اور مظلوموں کے سچے ہمدرد اور مسیحا تھے۔
ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختار انصاری مؤ سے مسلسل 5 بار قانون ساز اسمبلی کے رکن کے طور پر منتخب ہوئے۔مختار انصاری 1996، 2002، 2007، 2012 اور پھر 2017 میں مئو سے جیتے تھے۔
مختار انصاری کا انتقال
28 مارچ 2024ء (61 سال) باندہ اترپردیس میں ہوا۔
مختار انصاری کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں غازی پور میں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ان کے جنازے میں ہندو،مسلم،سکھ اور عیسائی موجود تھے،ہسبھی کی آنکھیں نم تھی۔کمزور اور مظلوموں کی زبان پر ایک ہی صدا تھی،کہ آج ہم سچ مچ یتیم ہوگئے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے مختار انصاری کو خراج عقیدت پیش کیا اور غازی پور میں ان کی رہائش گاہ پر گئے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انہوں نے انصاری کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ "آج ہم متوفی مختار انصاری کے گھر گئے اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔اس مشکل وقت میں ہم ان کے اہل خانہ،حامیوں اور پیاروں کے ساتھ کھڑے ہیں”۔
انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ "انشائ￿ اللہ، روشنی اس اندھیرے کو توڑ دے گی، اگر آپ ‘فرعون’ ہیں تو ‘موسیٰ’ بھی ضرور آئیں گے”۔ اس سے پہلے 29 مارچ کو عدالتی تحویل میں مختار انصاری کی موت پر اسد الدین اویسی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالتی تحویل میں یہ دوسری موت ہے جو یوگی حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے اس معاملے میں عدالتی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا تھا۔بی بی سی اردو کے مطابق۔
"باندا میں موت کے بعد مختار انصاری کا چہرہ دیکھ کر ہسپتال سے باہر آنے والے ان کے چھوٹے بیٹے عمر انصاری کا کہنا تھا کہ ’پاپا نے خود ہمیں بتایا ہے کہ انھیں ’سلو پوائزن‘ دیا جا رہا ہے لیکن شنوائی نہ ہو سکی۔‘
اب مختار انصاری کی موت کے بعد جیل سے ان کے بیٹے عمر سے گفتگو کی آڈیو وائرل ہوئی ہے۔
جس میں مختار انصاری کی خاصی نحیف آواز سنی جا سکتی ہے۔ مختار انصاری اپنے بیٹے عمر سے کہتے ہیں ’18 مارچ کے بعد کوئی روزہ نہیں رکھا۔‘
عمر، مختار انصاری کو بتاتے ہیں کہ انھوں نے میڈیا رپورٹ میں مختار انصاری کو ہسپتال جاتے ہوئے دیکھا جس میں وہ بہت کمزور نظر آ رہے تھے۔
اپنے والد کو حوصلہ دیتے ہوئے عمر کا کہنا تھا کہ وہ عدالتوں سے ان سے ملنے کی اجازت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اپنی کمزوری بیان کرتے ہوئے مختار انصاری کہتے ہیں کہ وہ ’بیٹھ نہیں سکتے۔‘ جواب میں عمر کہتے ہیں کہ ابا جان ہم (آپ پر) زہر کے تمام اثرات دیکھ رہے ہیں۔
مختار انصاری مزید کہتے ہیں کہ ’اگر اللہ مجھے زندہ رکھتا تو پھر روح ہی باقی رہے گی کیونکہ جسم ساتھ نہیں دے ریا ہے، اب میں وہیل چیئر پر آیا ہوں اور وہیل چیئر پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔
نیچے مختار انصاری کے درخواست کی کاپی دی جارہی ہے۔
مختار انصاری نے درخواست میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ”درخواست گزار کو بین الاقوامی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے ذریعہ درخواست گزار کے قتل کی سازش کی جارہی ہے۔
منوج سنہا، مافیا ڈان اور بی جے پی کی حمایت یافتہ ایم ایل سی برجیش سنگھ، بی جے پی ایم ایل اے سوشیل سنگھ، سابق آئی جی ایس ٹی ایف شری امیتابھ یش اور پرنسپل سکریٹری ہوم اتر پردیش کے ذریعہ سازش رچوائی گئی ہے اور حکومت کی طرف سے مذکورہ افسران کو قانونی کارروائی سے بچانے کے لیے درخواست گزار کے قتل کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے’۔ درخوست میں یہ بھی الزام عائد کیاگیا تھا کہ ‘اس سے قبل حکومت کی ایک سازش کے تحت ملزم پریم پرکاش سنگھ عرف منا بجرنگی کو جیل کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا