جمہوریت اور جمہوری ملک میں مسلمان سیاسی اعتبار سے اچھوت کیوں؟

0
28

ریاض فردوسی

۔9968012976

 

برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔
برطانیہ میں جمہوریت کا آغاز برطانوی شہنشاہ جان اور میگناکارٹا کے دجالی نظام کے پرستاروں کے مسلسل دباؤ (جو معاشی اور معاشرتی دونوں تھا) کے عمل سے 13ویں صدی میں ہوا،لیکن عام مردوں اور خواتین کو 1928ء میں ووٹنگ حقوق دیے گئے۔بہانہ یہ بنایا گیا کہ 1603ء میں گریٹ برٹن میں شہنشاہیت کے ظلم و ستم کے خاتمے کے لۓ جمہوریت کی صدائیں بلند ہوئیں ہیں۔اصل میں 1403ء کے بعد ہی دجالی نظام کے سب سے بڑے پجاری یہودیوں کا ناپاک وجود(بنی اسرائیل کے چند‌ نیک اور صالح لوگ اس سے الگ ہیں) انسانیت دشمن عزائم کے ساتھ پوری مستعدی سے آیا۔

https://legislative.gov.in/constitution-of-india/
یوں جمہوی سفر کا آغاز ہوا اور یوں برطانوی پارلیمنٹ معرض وجود میں آگئی(یہودیوں نے ہمیشہ طاقت ور ملک کی عبادت کی ہے،اس وقت برطانیہ حکومت سب سے طاقتور حکومت تھی)
اور پھر بتدریج ہائوس آف کامنز اور 11ویں صدی میں ہائوس آف لارڈز قائم ہوتے ہی شہنشاہیت کو علامتی طور پر دونوں ایوانوں کا حصہ بنالیا گیا۔ برطانیہ ہائوس آف پارلیمنٹ 650 اراکین اور ہائوس آف لارڈز 800 ارکان پر مشتمل ہے،یہ برطانوی جمہوریت کے استحکام کے لیے عوام کی بنیادی رائے اور حق کی پابند ہے۔

Government of the People by the People for the People

حکم الناس للناس علی الناس”،حالاں کہ اسلام کہتا ہے کہ "إن الحكم إلا لله”،پھر جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے،اسلام میں بندوں کے اعمال کو تولتے ہیں اور جمہوریت میں گنتے ہیں،جمہوریت میں ایک مفتی اعظم اور ایک عام مزدور کی رائے میں برابری ہے لیکن اسلام میں دونوں کی رائیوں میں بہت فرق ہے،ان دونوں فرقوں کے علاوہ اسلامی نظام اور جمہوری نظام کے دوسرے اختلاف سب کے سامنے واضح ہیں۔
موجودہ دور میں جب مسلمان پوری دنیا میں مغلوب ہیں،لہذا ایسے موقع پر اگر کسی ملک میں جمہوریت کے تحت مسلمانوں کی اجتماعیت برقرار رہے اور اس راہ سے وہ اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ اور حصول کے لیے مواقع پارہے ہیں تو رائج الوقت ابتر عالمی نظام میں اپنا سیاسی و سماجی وجود باقی رکھنے کے لیے جمہوریت کو کئی اصولی خرابیوں کے باوجود گوارا کیا جاسکتا ہے۔اسں لۓ کے بادشاہوں اور ان کے نا اہل اولادوں نے عیاشی اور نااہلی کی وجہ سے مخلوقِ خدا پر سخت مظالم کیے،اس کی وجہ سے طبعی طور پر انسان نے بادشاہوں کے اختیارات محدود کرنے اور سربراہِ سلطنت کے لیے رعایا سے استصواب کے اصول کو منظور کرایا گیا اور اس کو جمہوریت کا نام رکھا گیا،جس کی تعریف کی گئی کہ قوم خود اپنے اوپر حکومت کریں،اب جب معلوم ہوگیا کہ یہ قرونِ وسطی کے بعد انسانوں نے اجتماعی زندگی میں ایک نئی صورت نکالی،تاکہ ملوک کے استبداد سے محفوظ رہیں،اس لیے یہ تو ظاہر ہے کہ یہ جمہوریت نہ تو سنت ہے اور نہ بدعت،بدعت اس لیے نہیں کہ امورِ دنیا میں سے ہے۔
امرِ دین میں نئی ایجاد کو بدعت کہتے ہیں،سنت اس لیے نہیں کہ خیر القرون میں اس کا پتہ نہیں لگتا۔اسلام قوانین کو لوگوں نے”خسر الدنیا والآخرة”بنانے کی کوشش کی،لیکن لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہاں اصول اسلام تو یہ ہے جیسا کہ ترمذی کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو ہاتھ، زبان اور دل جس طرح ہوسکے،ظالم کے ظلم کی مخالفت کرے وہ مؤمن ہے اور کم از کم ان سے دل میں اس کے ظلم سے نفرت رکھنی چاہیے۔
جمہوریت ہزاروں عیوب کے باوجود فوجی بے دین جہلاء کے حکومت سے شرعاً زیادہ افضل ہے۔باقی حکومت کی کسی خاص شکل پر اللہ نے ہم کو مکلف نہیں کیا،صرف شرط یہ ہے کہ حکومت قانونِ الھی پر چلائ جاۓ اور ملک کو ہر قسم کے دشمنوں سے محفوظ رکھے اور ملک میں کفر اور الحاد وفسق وفجور کی ممانعت کرے”الذين إن مكناهم في الأرض أقاموا الصلاة و آتوا الزكوة وأمروا بالمعروف ونهو عن المنكر” اسلام بس اسی کو ضروری قرار دیتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن ملوک کو اپنے زمانہ میں خطوط لکھے اس میں آپ نے طرزِ حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا،بلکہ ایمان کا مطالبہ کیا” وقاتلوهم حتي لا تكون فتنة ويكون الدين كله لله "اسلام کی غرض تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرانا ہے اور بس،اگر کسی زمانے میں نوعِ انسان حکومت کا کوئی زیادہ بہتر ڈھانچہ تجویز کرلے،جس سے ملوکیت،فوجی ڈکٹیٹڑ شپ اور ظالمین کی جباریت ختم ہوجائے تو اس کو ہم خلافِ اسلام نہیں سمجھیں گے۔
واضح رہے کہ ” إن الحكم إلا لله ” کا یہ معنی نہیں کہ جمہوریت ناجائز ہے۔
امورِ انتظامیہ مباحہ میں قانون سازی ہی ہوسکتی ہے،ہاں امورِ منصوصہ میں پارلیمنٹ کوئی قانون نہیں بنا سکتی،خوارج نے اس آیت کے مطلب میں غلو کیا تھا،اور ہمیشہ مسلمان سلطنتوں کے لیے مصیبت بنے رہے،باقی جمہوریت کی صحیح تعریف آج تک نہیں ہوئی،آدمیوں کو گننا واقعی بسا اوقات ضلالت میں ڈال دیتا ہے،لیکن مشکل یہ ہے کہ اس زمانہ میں کوئی قوم اس کے لیے تیار نہیں کہ اس کو کہا جائے کہ تم سلطنت کے لیے اہلِ رائے نہیں۔ اور حدیث میں "و إتباع كل ذى رأي لرأيه ” والا زمانہ آگیا ہے،اس لیے کسی کو اس بات پر مطمئن کرنا کہ صرف اہلِ علم اور اہلِ دین سلطنت کی شوری میں شامل ہوسکتے ہیں یہ سخت مشکل ہے۔
انسانی معاشرے کو مہذب اور متمدن معاشرہ کہلانے کے لیے کسی نظام اور منتظم کی ضرورت لازمی طور پر محسوس ہوتی ہے،اب یہ نظام اور منتظم کیسے وجود میں آئیں گے؟
اس نظام کے خدو خال کیا ہوں گے اور منتظم کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی؟
اس لیے مختلف زمانوں میں مختلف تجربات آزماۓ گۓ،جن میں سے ایک تجربہ جمہوریت ہے،جو موجودہ زمانے میں دنیا کے بیشتر ممالک بشمول بھارت میں رائج ہے،جمہوریت کومطلقا انسانیت کے لۓ فائدہ مند قرار دینا جس طرح صحیح نہیں ہے،بالکل اسی طرح اس کو مطلقا انسانوں کے لۓ مضر قرار دینا بھی صحیح روش نہیں ہے۔
واضح بات ہے کہ بھارت میں دن بہ دن مسلم اقلیت کی سیاسی حصہ داری کم ہوتی جا رہی ہے۔ بالخصوص پارلیمانی انتخاب میں پارلیمنٹ تک پہنچنے والے مسلمانوں کی تعداد لگاتار کم ہوتی جارہی ہے اور یہی حال مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں کا بھی ہے۔بھارت میں اس طرح کا سیاسی ماحول دوچار برسوں میں نہیں بنا ہےبلکہ گزشتہ تین دہائیوں کے بھارت کی سیاست پر نگاہ رکھیے تو خود بخود یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ آخر کار مسلم اقلیت کے ساتھ اس طرح کا رویہ کیوں کر اپنایا جا رہا ہے۔مسلمانوں کو کیوں کر سیاسی اچھوت بنایا جارہا ہے۔
1۔دور حاضر کی سیاسی جماعتوں کے ذہن میں یہ بات داخل ہوگئ ہے کہ اگر مسلمانوں کی حمایت کروگے تو ایک بڑے طبقے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
2۔مسلم اقلیت کے جذباتی رویے اور غیر جمہوری طرزِ عمل نے بھی اسے اس حال تک پہنچایا ہے۔
3۔جمہوریت میں ہر فرد کو رائے دہندگی کا مساوی حق ہے۔جمہوریت کا تقاضہ یہ ہے کہ رائے دہندہ اعلانیہ طورپر ووٹ نہیں کرتا بلکہ خفیہ ووٹنگ لازمی ہے،لیکن اگر کسی طبقے کے متعلق یہ بات عام ہو جاتی ہے کہ فلاں طبقہ فلاں سیاسی جماعت کو ہی ووٹ دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ دوسری سیاسی جماعت کا اس طبقے سے نا امید ہونا اور اس کے خلاف روز نفرت آمیز بیان دینا ایک فطری عمل ہوتاہے۔
4۔گزشتہ چار دہائیوں میں بھارت کا مسلمان اقلیت نے جانے انجانے کچھ اس طرح کی اپنی سیاسی شکل بنالی ہے کہ اس پر مختلف علاقائی سیاسی جماعتوں اور خاص کر کانگریس کے نام کی مہر لگ گئی ہے۔
5۔یہ بات کسی طرح سے درست نہیں ہے کہ تمام مسلم طبقہ کسی ایک ہی جماعت کو ووٹ دیتا ہے لیکن اس تلخ سچائی سے تو انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ زیادہ تر مسلم طبقہ صرف کانگریس یا علاقائی نام و نہاد کی سیکولر پارٹیوں کو ہی ووٹ دیتا ہے۔
6۔مسلمانوں کے نام و نہاد اور جاہل لیڈران(الا ماشاء اللہ)کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی شناخت اور وجود سے زیادہ دین بچانا ضروری ہے،اور وہ آزادی کے بعد اب تک دین ہی بچا رہے ہیں (واللہ سمیع العلیم )انہیں یہ احساس تک نہیں ہے کہ گذشتہ تقریباً سات دہائیوں میں مسلمانوں کا ایک بھی خالص لیڈر نہیں آیا ہے،جو مسلمانوں کے فلاح وبہبود کے بارے بنا اپنے اور فائدے اور نقصان کے بارے میں بولتا یا غور و فکر کرتا۔
7۔بھارت میں نام و نہاد مسلمان رہنما تو ہیں،لیکن یہ رہنما اپنی اپنی جماعتوں کی پالیسیوں کے پابند ہیں۔سب سے بڑھ کر بھارت کے پارلیمان میں جتنے مسلمان ممبران کی ضرورت ہے،اتنے نہیں ہے۔
جو مسلم سیاستدان کسی اہم سیاسی عہدے یا رتبے پر فائز ہیں بھی تو وہ اپنی پارٹی کی پالیسی کے تحت ہی مسلمانوں کے بارے میں بات کر پاتے ہیں اور اگر کبھی وہ کچھ اس دائرے سے باہر بات کرتے ہیں یا ان کے اندر اسلامی شعائر جوش مارتا ہے تو پارٹی کی طرف سے انھیں بہت سخت سزا اور ذلالت اٹھانی پڑتی ہے اور انہیں کوڑے کی طرح نکال باہر کیا جاتا ہے۔

آخر میں!
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں سماجیات کی پروفیسر اور نیشنل کمیشن فارمائنوریٹیز کی سابق چیئرپرسن زویا حسن کا کہنا ہے:
"مسلمانوں کی ترقی کے مسئلے پر ملک میں ایک رائے بن ہی نہیں پائی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا جو پورا وجود ہے،وہ مائنورٹی اپیزمنٹ یا مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی کے خلاف رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اگر قدم آگے بڑھاتی ہے تو ہندو اکثریت کی تنقید کے بعد دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے۔”
جمہوریت وہ واحد نظام ہے،جہاں انسانی آزادی کی ہر شق کو جمہوری رائے دہی سے فائنل کرلیا جاتا ہے۔جس نظام کو دجالی نظام میں نافظ ہونا ہے کہ انسان جس سے چاہے ملے،ہمبستری کرے،جاہے وہ کوئ بھی رستہ ہو،جو چاہے کرے،کوئ پابندی ناہو،
جمہوری نظام میں دین و مذہب سے زیادہ انسانی خود مختاری اور معاشرتی آزادی پر توجہ دی جاتی ہے۔جمہوریت‌ ایک ایسا طریقہ نظام ہے،جہاں لوگ مرتے رہتے ہیں اور ووٹ بکتے رہتے ہیں۔

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا