پر بہار و سہل نگار قلمکار اور نابغہ روزگار شخصیت حضرت مولانا واصف حسین ندیم الواجدیؒ

0
40

یادرفتگاں : مقصوداحمدضیائی

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

یوں تو اس دارفانی میں سینکڑوں لوگ روزانہ آتے ہیں اور بہت سے لوگ عالم جاودانی کو کوچ کر جاتے ہیں لیکن ایک ایسی شخصیت جن سے اکابر و اصاغر کو بڑی امیدیں وابستہ ہوں جن کے علم و تحقیق کا شہرہ عام ہو ؛ جن کے فضل و کمال کا ہر کوئی مداح ہو ان کے وصال کی خبر پر انسان کا ذہن و دماغ شدت غم و اندوہ کے باعث بے کیفی و بے یقینی کا شکار ہو جاتا ہے کیا واقعی ان کا وصال ہوگیا ہے؟ کیا علم و ادب اور فکر و فن کی یادگار شخصیت اٹھ گئی ہے؟ کہیں یہ خبر افواہ تو نہیں؟

https://ziaululoompoonch.com/branches/

ہر سو بے یقینی کی انتہائی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ایسے میں خبر کی تصدیق پر ہر بندہ مومن اللّٰہ تبارک و تعالٰی کی مرضی پر راضی رہتے ہوئے مرحوم کے حق میں بلندئ درجات کی دعاؤں میں مصروف ہو جاتا ہے کچھ یہی کیفیت میری بھی تھی۔ بتاریخ 10 / ربیع الثانی 1446ھ / 14 / اکتوبر 2024ء کو اس وقت جب دیوبند کے ممتاز عالم دین اور معروف علمی شخصیت مشفق بیکراں حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی۔ اول اول "دیوان الاجتماع والثقافہ” واٹس ایپ گرپ میں یہ خبر کہ "مولانا ندیم الواجدی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے”۔ نظر سے گزری تو عاجز نے فوراً چند دوسرے معتبر گرپوں میں برائے تصدیق یہ خبر شائع کی تو مولانا یاسرندیم الواجدی زیدہ مجدہ کے فیسبک پر شائع شدہ ان الفاظ کہ "والد صاحب کے تعلق سے چلائی جانے والی خبر غلط ہے براہ کرم اس مشکل وقت میں مزید تکلیف نہ دیں”۔ پڑھنے کو ملے اس کے بعد پے درپے درجنوں فون اسی خبر کی تصدیق کے لیے آئے میں ہر ایک کو نہایت اعتماد کے لہجے میں جواب دیتا چلا گیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ رات کے آخری پہر تین بجے الارم بجنے پر آنکھ کھلی تو مبائل فون میں واٹس ایپ ترسیلات میں مولانا یاسرندیم الواجدی صاحب کے الفاظ کہ ” میرے سر سے میرے والد کا سایہ اٹھ گیا”۔ نے رنجور و مغموم کر دیا۔ اٹھا وضو کیا اور درسگاہ پہنچا حسب معمول نماز تہجد ادا کی اور پھر مولانا مرحوم کی بلندئ درجات کے لیے رب کریم کے حضور دعا مانگی مولانا کی خبر وفات پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہو۔ بلاشبہ مولانا ندیم الوجدیؒ کا سانحہ ارتحال اس صدی کا بڑا خسارہ ہے ؛ مولانا ملت کے نمائندہ عالم اور ترجمان تھے ؛ ان کے چلے جانے سے علمی دنیا اپنے ایک مخلص اور جامع الصفات شخصیت سے محروم ہوگئی ہے اس دور قحط الرجال میں مولانا ندیم الواجدیؒ کا وجود انعام خداوندی تھا۔ معروف صاحب قلم ؛ ترجمان دیوبند کے مدیراعلٰی ؛ درجنوں کتابوں کے مصنف ؛ اردو کے مایہ ناز اسکالر ؛ تحقیقی صلاحیت ؛ فکری بصیرت ؛ زبان و ادب پر مہارت یہ ان کی شخصیت کے ایسے درخشاں پہلو تھے کہ جس کا اعتراف بڑے بڑے اصحاب علم و کمال نے کیا تھا۔ مولانا ندیم الواجدیؒ سے تعلق کی ابتداء کا قصہ یوں ہے کہ زمانہ طالب علمی سے ہی کتابوں سے میری وابستگی گویا وجدانی قسم کی رہی ہے بطور خاص ماہناموں کو پڑھنا اور ذخیرہ اندوزی مجھے بڑی محبوب رہی ہے البتہ لکھنے کی جسارت بہت دیر میں جاکر کی اول اول جب لکھنا شروع کیا تو لکھنا کم اور مٹانا زیادہ رہتا تھا۔ 2005ء کی بات ہے کہ ایک روز ترجمان دیوبند کا ایک شمارہ میرے ہاتھ لگا جس میں "تنقید و تبصرے آپ کے خطوط ؛ آپ کی رائے” (گوشہ) پر نگاہ پڑی قارئین کے خطوط نگاہوں میں جچ گئے یہ وہ زمانہ تھا جب بذریعہ پوسٹ کارڈ خط و کتابت کا چلن تھا لہذا ڈاک خانہ سے ایک پوسٹ کارڈ منگوایا اور تاثرات لکھ کر حوالہ ڈاک کر دیئے۔ میری ڈاک جامعہ ضیاءالعلوم پونچھ کے پتے پر آیا کرتی تھی اور آج بھی آتی ہے۔ دوسرے ماہ جب ماہنامہ ترجمان دیوبند آیا تو قارئین کے خطوط میں میرا خط بھی شامل تھا مولانا سعیداحمد حبیب صاحب پڑھ چکے تھے ایک روز اپنے کسی کام سے میرا دفتر اہتمام جانا ہوا حسن اتفاق شیخ الجامعہ حضرت مولانا غلام قادر صاحب مدظلہ بھی تشریف رکھتے تھے ؛ ماہنامہ ترجمان دیوبند تھماتے ہوئے مولانا سعیداحمد صاحب نے کہا کہ جامعہ کی لائبریری کے بعد سب سے زیادہ ماہنامے آپ کے نام آتے ہیں اور کہا کہ مارچ کے ترجمان میں آپ کا خط بھی شامل ہے اور پھر اگلے ماہ جب اپریل کا ترجمان آیا تو مولانا نے بتایا کہ اِس ماہ ان کا خط بھی شامل ہے یہ میری زندگی کی پہلی تحریر تھی جو کسی رسالے میں شائع ہوئی تھی جس سے مجھے غیر معمولی خوشی ہوئی جس کا تفصیلی تذکرہ میرے یادوں کے حسین گلدستہ داستان ناتمام…..(غیر مطبوعہ) میں شامل ہے۔ "مجھے سب کچھ یاد ہے ذرہ ذرہ” اس کے بعد مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ سے بالمشافہ ملاقات کا دل میں شوق پیدا ہوا اس شوق کی تکمیل کا قصہ یوں رہا کہ بحرالعلوم حضرت مولانا غلام نبی قاسمی کشمیریؒ کے وصال کے بعد ان کی حیات و خدمات پر میں نے ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا جو سوشل میڈیا کی وساطت سے مولانا ندیم الواجدیؒ تک پہنچا پڑھنے کے بعد عاجز سے واٹس ایپ پرسنل پیج پر پسندیدگی کی چند قابل تعریف سطریں تحریر فرمائیں ایک نامور قلم کار کی طرف سے دادِ تحسین پر مجھے غیر معمولی خوشی ہوئی اور اپنی نگارشات کو مذید سنوار کر پیش کرنے کا دل میں داعیہ پیدا ہوا۔ حضرت مولانا غلام نبی قاسمی کشمیریؒ کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد میرا دیوبند کا سفر ہوا اس دوران دارالکتاب بھی جانا ہوا مولانا کی صحبت میں بیٹھنا اور گفت و شنید کی سعادت میسر آئی مولانا غلام نبی قاسمی کشمیریؒ پر لکھے گئے میرے مضمون کی بابت فرمایا کہ ” آپ نے تفصیلی مضمون لکھا جو بڑا معلوماتی اور نہایت اثر انگیز ہے میں نے حرف حرف پڑھا اس سے مولانا کی شخصیت انداز فکر اور زندگی کے متعدد مخفی گوشے میرے سامنے آئے”۔ عاجز نے عرض کیا کہ اس کو کتابی شکل دینے کا میرا ارادہ ہے آپ سے اس پر مقدمہ لکھنے کی درخواست ہے فرمایا ضرور لکھوں گا اور شوق سے لکھوں گا چونکہ وہ میرے بھی محسن تھے یہ مولانا سے بالمشافہ میری پہلی ملاقات تھی۔ علمی و تحقیقی صلاحیت کا تو پہلے سے معترف تھا جب آپ کے حسین و جمیل اور نورانی چہرے کی زیارت ہوئی اور عالمانہ رکھ رکھاؤ کو دیکھا تو ایک خوشگوار مسرت ہوئی کہ انھوں نے اپنے خاندانی ورثے میں علم و فضل کی وراثت کے ساتھ عالمانہ وقار بھی پایا ہے۔ وہ مجھ سے عمر میں کئی سال بڑے تھے اور میں ان کی علمیت کا دل سے قائل اور ان کی عظمتوں کا معترف تھا وہ بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ اس کے بعد بھی ان سے تعلق رہا۔ علم دوستی ؛ اصاغر نوازی ؛ حسن اخلاق اور جماعت کے تئیں مثبت پیش قدمی کے جذبات سے آپ کے ذہن و دماغ کو لبریز پایا۔ سفر سے واپسی پر مولانا غلام نبی قاسمی صاحبؒ کی حیات و خدمات پر لکھے گئے اپنے تفصیلی مضمون کو کتابی شکل دی جو مولانا ندیم الواجدیؒ کے قیمتی مقدمہ کے ساتھ مکتبہ رازی دیوبند سے "ایک نابغہ روزگار شخصیت” کے نام سے شائع ہوئی جس کو خاص و عام میں مقبولیت ملی۔ دوسری بار بتاریخ 8 / صفرالمظفرھ 18 / اکتوبر 2018ء دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر کے زیر انتظام منعقدہ مفکر ملت سیمینار جو کہ مولانا عبداللّٰہ کاپودرویؒ کی یاد میں منعقد ہوا تھا کہ موقع پر بالمشافہ ملاقات ہوئی تھی سیمینار میں عاجز کی بہ حیثیت مقالہ نگار و اہل قلم شرکت تھی۔ حسن اتفاق پروگرام میں مجھے مولانا ندیم الواجدیؒ کے قریب والی نشست پر جگہ ملی تھی ؛ جہاں ہم دونوں کے مابین گفت و شنید بھی رہی مولانا نے اپنے مقالے کا اختصار بھی پیش کیا۔ چند سال قبل خیال آیا کیوں نہ اب تک کی بیتی زندگی کی یادداشتوں کو کاغذ کے صفحات میں یکجا کر دیا جائے اس پر کام شروع کیا تو سنہری یادوں کا ایک خوبصورت گلدستہ مرتب ہوگیا مولانا ندیم الواجدی صاحبؒ میرے علمی محسن تھے لہذا اس مجموعہ کے نام سے متعلق درخواست کی کہ چند نام مطلوب ہیں تو مولانا نے درج ذیل نام بتائے۔ "وہ بھی کیا دن تھے ؛ ایک معلم کی سرگزشت ؛ یاد ماضی ؛ میری زندگی کا سفر ؛ اپنی کہانی ؛ ماضی کے تعاقب میں ؛ رو میں ہے رخش عمر ؛ سرگزشت ؛ شب و روز ؛ داستان زندگی ؛ عمر رفتہ ؛ عہد رفتہ کی یاد” ۔ آخری بار بذریعہ فون سال گزشتہ ماہ نومبر 2023ء میں ملاقات ہوئی تھی جس کا قصہ یوں رہا کہ بعد عصر آپ نے کال کی اور فرمایا کہ مجھے دو عدد کشمیری فیرن کی ضرورت ہے ؛ ہمارے یہاں جامعہ کے قریب "یونیک ٹیلر” کا فیرن کا اچھا کاروبار رہتا ہے میں نے مولانا کا رابطہ کرایا اور جب سِل کر تیار ہوگئے تو بذریعہ ڈاکخانہ آپ کو بھیج دئیے گئے وصول ہونے پر مولانا نے عاجز کا شکریہ ادا کیا۔ مولانا ندیم الواجدیؒ ایک ممتاز عالم دین بھی تھے اور معروف صاحب قلم بھی ان کا ذوق علم اور شوق قلم مثالی تھا۔ برسوں ان کا قلم صفحہ قرطاس پر علم و ادب کے جواہر بکھیرتا رہا۔ وہ لکھتے تھے اور خوب لکھتے تھے ان کے مزاج میں شائستگی تھی ؛ جس کی جھلک ان کے رشحات قلم میں خوب صاف نظر آتی تھی۔ اللّٰہ رب العزت نے ان کو قلم کی لاجواب دولت بخشی تھی وہ بولتی تحریری لکھتے تھے ان کے قلم میں وہ سب کچھ تھا جو ایک اچھے قلم کار میں ہونا چاہیے۔ لاریب وہ ہمارے عہد کے لکھنے والوں میں اپنی مثال آپ تھے۔ "انھوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی ہی میں 1970ء سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا, پندرہ روزہ مرکز کے ذریعہ ان کی تحریر میں مہمیز لگی، زمانۂ طالب علمی ہی میں وہ دیواری مجلہ شعور کے ایڈیٹر تھے۔ اس وقت سے 2013ء تک ملک و بیرون ملک کے معیاری اخبارات و رسائل میں ان کے تقریباً 400 مضامین شائع ہو چکے تھے، 2013ء تک ان کے مقالات و مضامین کے تیرہ مجموعے شائع ہو چکے تھے ان کے مضامین اکثر ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، نیا دور لکھنؤ، آج کل، راشٹریہ سہارا، روزنامہ صحافت اور سہ روزہ دعوت وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کا شمار؛ عربی زبان کے موجودہ ہندوستانی ادبا میں ہوتا تھا۔ وہ ایک نامور محقق صاحب قلم و صاحب اسلوب شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر رقم طراز ہیں: ” مبالغہ نہ سمجھیے! اقلیمِ تحریر کے وہ فرماں روا ہیں، جن کی موجودگی میں دوسروں کی جانب نگاہ نہیں اٹھتی۔ لکھنے والے لکھ رہے ہیں اور لکھتے رہیں گے؛ مگر اس قافلے میں جو شریک ہیں وہ سب ان کے پیچھے ہیں۔“ ”مولانا کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ ان کی تحریریں اپنی جاذبیت، اپنے اسلوب، اپنے مواد، اپنے طرزِ نگارش کے اعتبار سے ہم سب کی تحریروں پر بھاری ہیں، پھر ان کا قلم جس برق رفتاری اور تیزی کے ساتھ اپنے موضوع کا احاطہ کرتا ہے اور عنوانات کو نئی آب دیتا ہے، وہ دوسروں کے بس کا روگ نہیں۔“ 2001ء میں انھوں نے اپنے ہی کتب خانہ سے ترجمانِ دیوبند کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا، جو ملک و بیرون ملک تک اہل علم میں مقبول و معروف ہے اور ملک و بیرون ملک کے باوقار اہل قلم کی تحریروں کے ساتھ اس میں مسلسل بیس سال سے ان کے قیمتی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں آپ درجنوں کتابوں کے مصنف تھے انھوں نے اپنے سابق مراسلاتی عربک ٹیچنگ سینٹر کی خدمت کے عرصے میں2001ء تک سات نصابی کتابیں لکھیں، جو کئی مدارس میں داخل نصاب ہیں۔ اب تک ان کی تقریباً پچاس کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں سے بعض کے نام ذیل میں درج ہیں۔ احیاءالعلوم اردو(امام غزالی کی احیاءالعلوم کا اردو ترجمہ:چار جلدوں میں) القاموس الموضوعی (عربی، انگریزی اور اردو میں ایک سہ لسانی لغت)جمع الخصائل شرح الشمائل آزادی سے جمہوریت تک اسلام ؛ حقائق اور غلط فہمیاں ؛ انسانی مسائل اسلامی تناظر میں ؛ تین طلاق؛ عوام کی عدالت میں ؛ اسلام اور ہماری زندگی ؛ قرآن کریم کے واقعات ؛ مسلمانوں کی ملی اور سیاسی زندگی ؛ نئے ذہن کے شبہات اور اسلام کا موقف ؛ ہمارے مدارس ؛ مزاج اور منہاج ؛ رمضان کیسے گزاریں؟ (اردو و ہندی) آج رات کی تراویح (اردو و ہندی) رمضان ؛ نیکیوں کا موسمِ بہار ؛ ملتِ اسلامیہ کا دھڑکتا ہوا دل ؛ نگارشات ؛ رشحاتِ قلم ؛ مقالات ومضامین ؛ قیامت کی نشانیاں اور مولانا وحید الدین خاں کے نظریات ؛ لہُو پکارے گا آستیں کا ؛ آئینۂ افکار ؛ پھر سُوئے حرَم لے چل ؛ ہندوستان کا تازہ سفر ؛ خدا رحمت کُنَد ؛ بے مثال شخصیت باکمال استاذ(ان کےوالد واجدحسین دیوبندیؒ کی سوانح حیات) عربی بولیے ؛ عربی زبان کے قواعد؛ نئے اسلوب میں ؛ عربی میں ترجمہ کیجیے ؛ عربی میں خط لکھیے؛ جدید عربی زبان ایسے بولیے ؛ معلم العربیہ (تین حصے) عربی، انگلش، اردو بول چال انگلش بولنا سیکھیے ؛ التعبیرات ؛ المختارۃ خُطَبُ الجمعة و العيدين۔ (ازآزاد دائرة المعارف)
حضرت مولانا واصف حسین ندیم الواجدیؒ 23 / جولائی 1954ء کو دیوبند ضلع سہارن پور, بھارت میں پیدا ہوئے آپ کا پیدائشی نام واصف حسین ہے جو شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کا تجویز کیا ہوا ہے۔ مولانا ندیم الواجدیؒ کے والد ماجد مولانا واجد حسین دوبندیؒ برصغیر کے معروف دانش گاہ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات کے شیخ الحدیث تھے۔ ان کے ماموں مولانا شریف الحسن دیوبندیؒ ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے۔ مولانا ندیم الواجدیؒ 1393ھ مطابق 1974ء میں دارالعلوم دیوبند سے پہلی پوزیشن کے ساتھ دورہ حدیث سے فارغ ہوئے۔ فراغت کے بعد اپنے اساتذہ کے حکم سے ایک سال کے لیے حیدرآباد , دکن۔ کے ایک مدرسہ عربیہ دارالعلوم رحمانیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1978ء میں مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے اجلاس صد سالہ کے شعبہ تصنیف و تالیف کے نگراں کے طور پر انہیں دارالعلوم مدعو کیا جس کی بنا پر انھوں نے دارالعلوم تشریف لاکر دوسال تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ 1980ء میں انھوں نے اجلاس صد سالہ ؛ دارالعلوم کے بعد دیوبند ہی میں دارالکتاب کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ 2021ء میں انھوں نے سرزمین دیوبند میں معہد عائشہ الصدیقہ للبنات کے نام سے پہلا رہائشی مدرسہ بنات قائم کیا۔ 14 / اکتوبر 2024ء شب کو شکاگو امریکہ میں انتقال فرماگئے اور 15 / اکتوبر 2024ء بروز منگل شکاگو امریکہ میں ہی تدفین عمل میں آئی۔ وفات سے چند ماہ قبل ہی وہ امریکہ تشریف لے گئے تھے اور الحمدللّٰہ باصحت تھے اچانک ہی دل کا عارضہ پیش آنے پر مختصر علالت کے بعد اس دارفانی کو رخصت کہہ کر مالک حقیقی سے جا ملے۔
ڈھونڈیں گےلوگ مجھ کوہرمحفل سخن میں
ہر دور کی غزل میں میرا نشاں ملے گا
آخری بات : مولانا ندیم الواجدیؒ اپنے پیچھے بہت ساری یادگاریں چھوڑکرگئے ہیں ان کی موت علم و حکمت اور تحقیق و تنقید کا بہت بڑا خسارہ ہے۔ مولانا مرحوم کے نقش جمیل صاحبزادے مولانا یاسرندیم الواجدی مدظلہ جو بڑے ذی علم اور اسلاف کی پاکیزہ روایات کے محافظ ہیں کے سر سے والد ماجد کا سایہ اٹھ جانا موصوف اور ان کے اہل خانہ کے لیے بڑا حادثہ اورصدمہ ہے اس صدمہ کی گھڑی میں پہلے تو ہماری طرف سے تعزیت مسنونہ قبول فرمائیں اس کے بعد امید کرتے ہیں کہ آں محترم اپنے والد عظیم کی حیات و خدمات کو کتابی صورت میں بھی منصہ شہود پر لائیں گے اور اخبارات و رسائل و جرائد کے مدیران خصوصی شمارے اور ضمیمے شائع فرمائیں گے ارباب علم و دانش مولانا کی یاد میں سیمینار منعقد کریں گے۔ میرے خیال سے کسی کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے اس سے بہتر اقدام کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ دعا اللّٰہ تعالٰی ان کی قبر پر رحمت و غفران کی بارش نازل فرمائے اور جنت الفردوس کا مکین بنائے انبیاء و صلحاء کے جوار میں جگہ نصیب کرے ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی دینی خدمات قبول فرمائے اور پس ماندگان کو صبر و شکر کی توفیق عطا فرمائے اور قوم کو نعم البدل عطا کرے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖
* خادم التدریس جامعہ ضیاءلعلوم پونچھ
جموں و کشمیر (انڈیا)

https://lazawal.com/?cat=

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا