’جو ہم سے چھینا گیا، وہ واپس لائیں گے‘

0
34

جموں کو انصاف ملے گااورہم حکومت میں سب کو ساتھ لے کر چلیں گے:عمرعبداللہ

کہابی جے پی کی حکمت عملی ناکام: حلقہ بندی اور ریزرویشن سے انتخابات نہیں جیتے جا سکتے

جان محمد

جموں؍؍وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت پرنیشنل کانفرنس کے مؤقف میں کسی قدم کی تبدیلی یانرمی سے انکارکرتے ہوئے سنیچرکوکہاکہجو ہم سے چھینا گیا ہے، اسے واپس حاصل کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس پر یہ الزام غلط ہے کہ وہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔عمر نے اس بات پر زور دیا کہ پہلی بار جموں کے علاقے سے ایک ڈپٹی چیف منسٹر، سریندر چودھری کو منتخب کیا گیا ہے، جو ان کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، اور یہ اقدام جموں کے عوام کو یہ پیغام دینے کے لیے تھا کہ انہیں حکومت میں برابر کا حصہ حاصل ہے۔ انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ نیشنل کانفرنس صرف ایک خاندان یا مسلم اکثریتی جماعت ہے۔

https://jknc.co.in/
عمر نے کہا کہ حالیہ حلقہ بندی اور ریزرویشن جیسے اقدامات بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیے گئے تھے، لیکن یہ حکمت عملی ناکام رہی، کیونکہ بی جے پی ان انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ انتخاب جیتنا ایک چیلنج تھا، لیکن اصل کام اب عوامی مشکلات کو کم کرنے اور حکومت و عوام کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنے کا ہے۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ نیشنل کانفرنس کو ماضی میں ختم کرنے کی بہت کوششیں ہوئیں، لیکن پارٹی کارکنان نے ثابت قدمی سے ان سازشوں کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے میڈیا سے بھی وعدہ کیا کہ ان کے خلاف لکھنے پر کوئی سزا نہیں دی جائے گی اور صحافیوں کے اکریڈیشن اور پریس کارڈز سے متعلق مسائل کو بھی حل کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ہفتہ کے روز اقتدارسنبھالنے کے بعدپہلی مرتبہ جموں آمدپریہاں نیشنل کانفرنس کے ہیڈکوارٹرجموں میں پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مایوس نہ ہوں کیونکہ وہ پوری کوشش کریں گے کہ جو ہم سے چھینا گیا ہے، وہ واپس حاصل کیا جائے۔عمر عبدالہ نے کہا، ’’ہم ایک یونین ٹیریٹری ہیں، لیکن مایوس نہ ہوں۔ ہم وہ سب واپس حاصل کریں گے جو ہم سے چھینا گیا ہے۔‘‘ عمرعبداللہ کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب مختلف حلقوں کی جانب سے نیشنل کانفرنس پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے سے قدم پیچھے ہٹائے ہیں۔
وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ماضی میں جموں و کشمیر کے لوگوں نے ڈپٹی چیف منسٹر دوسری جماعتوں سے دیکھے، اور یہ پہلی بار ہے کہ جموں کے علاقے سے ایک ڈپٹی چیف منسٹر منتخب ہوا ہے۔ ’’یہ ان لوگوں کے لیے جواب ہے جو ہمیں نشانہ بناتے تھے اور کہتے تھے کہ نیشنل کانفرنس صرف ایک خاندان کی جماعت ہے۔ آج ڈپٹی چیف منسٹر سریندر چودھری کا میرے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ عمرعبداللہ نے کہا۔ ’’ڈپٹی چیف منسٹر بنانا میرے لیے مجبوری نہیں تھی۔ میرا واحد مقصد جموں کے لوگوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ حکومت میں ان کا برابر کا حصہ ہے جیسے کشمیر کاہے۔ آج ہمارے پاس وزیر اعلیٰ اور ڈپٹی وزیر اعلیٰ ایک ہی جماعت سے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے جواب ہے جو کہا کرتے تھے کہ نیشنل کانفرنس مسلمانوں کی جماعت ہے۔‘‘
عمر عبداللہ نے کہا کہ کانگریس نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کونسل آف منسٹرز میں کچھ حصہ چاہتی ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس شاید مزید نشستیں جیت سکتی تھی۔ وزیراعلیٰ نے آزاد امیدواروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے جیتنے کے بعد فوراً نیشنل کانفرنس کی حمایت کی۔ عمرعبداللہ نے کہا کہ انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے ہی لوگ بیان دینے لگے تھے کہ جموں کے ساتھ ناانصافی ہوگی کیونکہ حکومت میں ان کا کوئی نمائندہ نہیں ہوگا۔ ’’پہلے دن سے، میں یہ کہتا آیا ہوں کہ میں جموں کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلوں گا تاکہ جموں کے لوگوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ حکومت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘
عمرعبداللہ نے کہا کہ حلقہ بندی کا عمل ایک مخصوص جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا اور ریزرویشن بھی ایک اور اقدام تھا تاکہ ایک خاص جماعت کی کامیابی کو یقینی بنایا جائے۔ ’’لیکن نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ یہ تمام اقدامات ناکام رہے۔ جو اقدامات (بی جے پی) نے اٹھائے، وہ انہیں انتخابات تک لے گئے لیکن انہیں جیت نہ دلا سکے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ انتخابات جیتنا آسان تھا لیکن ’’اصل کام اب شروع ہوتا ہے۔‘‘۔’’ہمیں لوگوں کی مشکلات کو کم کرنا ہے اور عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے کو کم کرنا ہے،‘‘عمر عبداللہ نے کہا، یہ بھی شامل کرتے ہوئے کہ ’’ہمیں عوام کی خدمت کرنی ہے اور ان کے مسائل کو حل کرنا ہے۔‘‘
عمرعبداللہ نے کہا کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں نیشنل کانفرنس کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ’’لیکن ہمارے کارکنان اور رہنما ایک چٹان کی طرح کھڑے رہے اور تمام سازشوں کو ناکام بنایا۔ نیشنل کانفرنس رہنماؤں کی جماعت نہیں بلکہ ایک عزم رکھنے والے کارکنان کی جماعت ہے جیسا کہ حالیہ انتخابات میں ثابت ہوا ہے۔‘‘عمرعبداللہ نے کہاکہ پچھلے دس برسوں میں نیشنل کانفرنس کومٹانے کیلئے ہرممکن حربہ اپنایاگیا۔اُنہوں نے کہاکہ ہمارے لوگوں پردبائوڈالاگیا، کچھ کولالچ دیاگیا لیکن اکثر وبیشتر ڈٹے رہے۔اُنہوں نے کسی کانام لئے بغیر کہا’’ایک دو بہہ گئے اوروہ ان کی غلط فہمی تھی کہ نیشنل کانفرنس ختم ہوجائیگی‘‘۔
وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے واضح کہاکہ حکومت ووٹ شیئر کے مطابق کام نہیں کرے گی بلکہ ’’سب کو ساتھ لے کر چلے گی۔‘‘انہوں نے کہا کہ پہلے ہی پنچایتوں اور ڈی ڈی سی میں ان افسران کو ہدایت دی جا چکی ہے جہاں عوامی رائے نہیں لی گئی، وہاں اس پر نظر ثانی کی جائے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ جب وہ لوک سبھا انتخابات ہارے تو انہیں لگا کہ ان کے لیے دوبارہ اٹھنا مشکل ہوگا۔ ’’لیکن قدرت کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ بہت سے افسران اور دوست شاید میرے بارے میں سوچ رہے تھے کہ ’ختم، مکلو، یہ عمر کا اختتام ہے‘‘۔ لیکن آج، وہی لوگ صبح، دوپہر اور شام کو میرا خیرمقدم کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے دوپہر کا کھانا کھایا؟ بہت سے لوگ اب مجھے ٹیکسٹ میسج کرتے ہیں، ‘شب بخیر، اچھی نیند آئے۔’ یہ قدرت کا طریقہ ہے،‘‘عمرعبداللہ نے کہا۔ ’’لیکن ہمیں انتخابات جیتنے پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔ جس طرح لوگوں نے ہمیں موقع دیا ہے، وہ کل ہمیں سزا بھی دے سکتے ہیں۔‘‘
اس موقع پروزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے صحافیوں کے ساتھ بھی بات چیت کی اور کہا کہ جموں و کشمیر میں میڈیا کے لیے کوئی سخت پالیسی نہیں اپنائی جائے گی۔ ’’میں آپ کو میرے خلاف لکھنے پر سزا نہیں دوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ میڈیا آزاد رہے اور بغیر کسی خوف کے کام کرے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے صحافیوں کو اکریڈیشن اور پریس کارڈ نہیں دیے گئے۔ میں بتدریج اس غلطی کو درست کروں گا،‘‘انہوں نے کہا۔انہوں نے میڈیا والوں سے کہا کہ حکومت کی کسی غلطی کو اجاگر کریں لیکن ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس حکومت کے اچھے کاموں کو بھی نمایاں کریں۔

https://lazawal.com/?cat=

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا