چوہدری اکرم لسانوی اور مظفر اقبال خان : پیر پنجال کی سیاست کے دو چہرے

0
106

ارشد چوہان

عموماً میں کسی شخص جلدی زیادہ متاثر نہیں ہوتا لیکن پیر پنجال جہاں پر ہمیشہ پارٹی ٹکٹ کینڈیڈیٹ کی

جیت میں اہم رول ادا کرتی ہیں اور بالخصوص اس بار تو یہ بالکل سیاسی نظریات کا الیکشن تھا اور جس طرح سے چوہدری اکرم لسانوی اور مظفر اقبال خان نے سیاسی نظریے پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے اپنی کامیاب انتخابی حکمت عملی سے سخت مقابلے کے بیچ آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنے حلقوں سے جیت حاصل کی اس پر لکھنا بنتا ہے –

 

 

جموں و کشمیر میں پچھلے چھ سالوں سے لیول پلینگ فیلڈ صرف ایک ہی جماعت کے پاس تھی جس نے انتخابات جیتنے کے لیے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، ہر طرح کے حربے اپنائے گئے جن میں مذہبی اور ذات پات اور لسانی تقسیم بھی شامل تھے لیکن یہ جموں و کشمیر کے عوام کی اجتماعی دانست تھی کہ آٹھ اکتوبر کو سب تدبیریں ہی الٹی پڑھ گئیں-
یوں تو سیاست کرادر اور نظریات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملکی، ریاستی یا مقامی سطح پر اختیار اور انتظام کا نظام ہے – سیاست کا مقصد انصاف، امن اور ترقی کو بر قرار رکھنا ہوتا ہے – مشہور یونانی فلاسفر اور بابائے سیاسیات اور سکندر اعظم کے استاد حضرت ارسطو نے فرمایا تھا کہ ‘جب انصافی ہو تو ہر شہری کا سیاست میں حصہ لینا لازمی بن جاتا ہے’ – عام عوام کا سیاست میں حصہ لینا جمہوری نظام میں ہی ممکن ہو پاتا ہے – انتخابات کے دوران گلی کوچوں، گھروں چائے کے کھوکوں یعنی ہر سو سیاست کا ماحول ہوتا ہے – ہر انسان اس میں حصہ لیتا اور ووٹ ڈال کر اس اسمبلی کا حلیہ تیار کرتا ہے جو ریاست کے لئے قانون سازی کرتی ہیں –

 

 

https://www.britannica.com/place/Pir-Panjal-Range

پیر پنجال میں انتہائی انتخابی گہما گہمی کے دوران مذکورہ دو شخصیات نے جس طرح سے لوگوں جذبات کو اپنے ووٹوں میں تبدیل کیا وہ واقعی ہی قابل داد ہے – پیر پنجال میں ہمیشہ سیاسی پارٹیوں کا بڑا رول رہا ہے اور پارٹیوں کی ٹکٹ کافی حد تک جیت یا ہار کا فیصلہ کرتی ہیں -لوگوں کی ہر حلقے پر نظر ہوتی ہے کہ بڑی پارٹیاں کس کو ٹکٹ دیں گئیں – اس بار بالخصوص پارٹیوں کے ٹکٹ کافی اہمیت اختیار کر گئے تھے – اسکی اہم وجہ یہ تھی کہ یہ انتخابات دس سال بعد ہو رہے تھے اور جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد پہلے ریاستی انتخابات تھے اور لوگوں کی نگاہیں سیاسی پارٹیوں بالخصوص آلائنس پر تھیں – دوسری طرف مرکزی حکمران جماعت بی جے پی نے بھی بھر پور توانائی لگائی ہوئی تھی کہ پیر پنجال سے زیادہ تر سیٹوں پر کمبل کو جتوانا ہے –
ایسے ماحول میں آزاد امیدواران کے لئے سب سے بڑا چیلنج سیاسی بیانیہ بنانا تھا – لیکن ان دونوں نے عوام میں وہی بیانیہ رکھا جو کہ انڈیا اتحاد کا تھا –
اکرم چوہدری کا تعلق میرے اپنے حلقے سے ہے لیکن مظفر اقبال سے میری کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور پہلی بار ان سے واقفیت اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے ہوئی جب وہ نیشنل کانفرنس کی طرف سے آرٹیکل تین سو ستر کی نظر ثانی درخواست میں سپریم کورٹ میں اس کیس کو لیڈ کر رہے تھے – گو کہ یہ فیصلہ جموں کشمیر کے حق میں نہیں آیا لیکن جس طرح انہوں نے کیس لڑا وہ قابل تعریف ہے –
چوہدری اکرم لسانوی اور مظفر اقبال خان دونوں کا تعلق نیشنل کانفرنس سے تھا، پارٹی کے ساتھ پرخلوص ہونے کے باوجود انڈیا اتحاد کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے باعث دونوں کو اپنے حلقوں سے پارٹی ٹکٹ نہیں ملیں – جب سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی تھی تو میں نے اپنے ایک تجزیے میں اسی وقت کہا تھا کہ یہ اتحاد عجلت میں کیا گیا ہے اور این سی کے لئے یہ اتحاد اچھا نہیں ہے اور آج یہ شاید پارٹی کو بھی اسکا احساس ہو رہا ہو گا کہ اتحاد نہیں ہوتا تو این سی جموں سے کچھ اور سیٹیں بھی جیت سکتی تھی کیونکہ کانگریس کی انتخابی حکمت عملی جموں میں کافی ناقص رہی ہے اور بعض سیٹوں پر اسکے امیدوار بھی مضبوط نہیں تھے – ٹکٹ نہ ملنے والے بڑے رہنماؤں میں یہ دونوں بھی شامل تھے اور دونوں کے پاس آپشن تھا کہ پارٹی بدل لیتے لیکن اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے دونوں نے آزاد حثیت سے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور مارجن سے جیت حاصل کی
جموں و کشمیر اسمبلی کے ان انتخابات میں عوام نے مجموعی طور پر ترقی کے دعوؤں کے برعکس ایک سیاسی نظریے کو ووٹ دیا ہے – وہ سیاسی نظریہ نیشنل کانفرنس کے انتخابی منشور میں جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور ریاستی درجہ واپس لانے کا واضح روڈ میپ ہے – جہاں ایک طرف یہ انتخابات پارٹی پوزیشن پر لڑے گئے ایسے میں اکرم چوہدری اور مظفر اقبال کو ان کے حلقوں میں سخت مقابلے کے باوجود آزاد امیدوار کی حثیت سے بھاری اکثریت سے جیتنے کا مطلب ان کی ذاتی شخصیت اور نظریاتی کمٹمنٹ ہے جسے عوام نے ووٹ دیا انہوں نے بھی جیت کر عوام کی امنگوں کے مطابق واپس این سی کو جوائن کیا ہے تاکہ وہ جموں و کشمیر سے کئے گئے اپنے وعدے کے لئے سیاسی لڑائی لڑ سکے –
کالم نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ریسرچ سکالر ہیں

https://lazawal.com/?cat=14

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا