ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر کے لیے خواتین کی تعلیم ضروری ہے

0
13

رام شری
لنکرنسر، راجستھان

تعلیم کو کسی بھی معاشرے کی ترقی میں ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔ جب ہم خواتین کی تعلیم کی بات

کرتے ہیں تو یہ نہ صرف سماجی ترقی بلکہ سماجی انصاف کا بھی ایک اہم پہلو بن جاتا ہے۔ خواتین کی تعلیم کو نظر انداز کر کے کوئی بھی ملک حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ چونکہ وہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی کی نمائندگی کرتی ہیں، اگر انہیں تعلیمی مواقع فراہم نہ کیے جائیں تو ہم سماجی اور معاشی ترقی کے نصف حصہ سے محروم ہو جائیں گے۔

https://www.pmindia.gov.in/hi/government_tr_rec/%E0%A4%AC%E0%A5%87%E0%A4%9F%E0%A5%80-%E0%A4%AC%E0%A4%9A%E0%A4%BE%E0%A4%93-%E0%A4%AC%E0%A5%87%E0%A4%9F%E0%A5%80-%E0%A4%AA%E0%A4%A2%E0%A4%BC%E0%A4%BE%E0%A4%93-%E0%A4%AC%E0%A4%BE%E0%A4%B2/

ہندوستان جیسے ملک میں جہاں تعلیم حاصل کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، بیداری اور دیگر سماجی وجوہات کی وجہ سے تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔اکثر دیہات میں اسکولوں کی کمی یا ان کی دوری اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔حفاظتی خدشات کے باعث والدین اپنی بچیوں کو دور دراز کے اسکولوں میں نہیں بھیجنا چاہتے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔ایسے میں خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔درحقیقت، دیہی علاقوں میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں اب بھی کئی سطحوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔اگرچہ حکومت لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے کئی سکیمیں چلا رہی ہے، نوعمر لڑکیوں کو بہت سی سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں اسکولوں میں بیت الخلا اور پیڈ کی عدم دستیابی کے ساتھ ساتھ گھر سے اسکول یا کالج کی دوری بھی شامل ہے۔ جو نہ صرف سماجی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے بلکہ لڑکیوں کوخود انحصاربننے سے بھی روکتی ہے۔ اس کے علاوہ پدرانہ معاشرے میں نوعمر لڑکیوں کی تعلیم کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ سکول چھڑوا کران سے گھریلو کام کروائے جاتے ہیں یا کم عمری میں ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔ یہ روایتی خیالات اور تعلیمی مواقع کی کمی انہیں اپنی صلاحیتوں کواجاگر کرنے سے محروم کر دیتی ہے۔
راجستھان کے بیکانیر ضلع کے لنکرانسر بلاک کا راج پورہ ہڈان گاؤں اس کی ایک مثال ہے۔ جہاں لڑکیاں ماہواری کے دوران سکول چھوڑ دیتی ہیں۔ اس حوالے سے دسویں جماعت میں پڑھنے والی 16 سالہ مونیکا کا کہنا ہے کہ مالی طور پر کمزور خاندانی پس منظر سے ہونے کی وجہ سے وہ ہر ماہ پیڈ نہیں خرید پاتی ہے۔ ایسی حالت میں وہ ماہواری کے دوران سکول آنا بند کر دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے اسے پڑھائی میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ 11ویں جماعت میں پڑھنے والی مینا کہتی ہیں کہ اسکول میں بیت الخلا ہے لیکن صفائی نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں اسے استعمال نہیں کر پا رہی ہیں۔ ایسے میں وہ پیڈ بدلنے کے مسئلے سے بچنے کے لیے ماہواری کے دوران اسکول آنا چھوڑ دیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ نہ صرف بیت الخلا گندے ہیں بلکہ اسکول میں پیڈز کو ٹھکانے لگانے کا بھی کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔ شروع شروع میں لڑکیاں اسے کھلے میں پھینک دیتی تھیں۔ لیکن اسکول انتظامیہ کی جانب سے اس پر پابندی عائد کر دی گئی جبکہ ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اسکول انتظامیہ کو نوعمر لڑکیوں کے مسئلے کے حل کے لیے مناسب انتظامات کرنے چاہئیں تاکہ کوئی لڑکی ماہواری کے دوران بھی اسکول سے محروم نہ رہے۔دیہی علاقوں میں نوعمر لڑکیوں کو نہ صرف اسکول کی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بھی بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
اس حوالے سے گاؤں کے 21 سالہ سنتوش کا کہنا ہے کہ 12 ویں کے بعد اسے مزید تعلیم صرف اس لیے چھوڑنی پڑی کیونکہ کالج گاؤں سے 18 کلومیٹر دور لنکرنسر بلاک میں ہے۔ جہاں بہت محدود تعداد میں بسیں یا نقل و حمل کے دیگر ذرائع دستیاب ہیں۔ اس لیے اس کے والدین نے اسے کالج میں داخلہ دلانے سے انکار کر دیا۔ مادھوی کا کہنا ہے کہ کالج دور ہونے کی وجہ سے وہ اپنی پڑھائی چھوڑ کر گھر کے کاموں پر توجہ دینے پر مجبور تھی۔ جبکہ اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور خود انحصاری کا خواب دیکھا تھا جو اب ادھورا رہ گیا ہے۔ دوسری طرف بھائی کو کالج جانے کے لیے موٹر سائیکل دی گئی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ 12ویں کے بعد گاؤں کی تقریباً تمام لڑکیاں کالج دور ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہتی ہیں۔ زیادہ تر نوعمر لڑکیوں کی شادی بارہویں کے بعد ہو جاتی ہے۔ جبکہ لڑکوں کو مزید تعلیم کے لیے کالج جانے کے لیے تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اگر راج پورہ ہڈن کی لڑکیوں کو بہتر تعلیمی مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر کر سکتی ہیں بلکہ اپنے خاندان اور گاؤں کی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں اس کے قدم دیگر دیہی علاقوں کی لڑکیوں کے لیے بھی تحریک کا باعث بن سکتے ہیں ۔

ملک میں مردوں کے مقابلے خواتین کی شرح خواندگی میں بڑا فرق ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں خواتین کی شرح خواندگی صرف 64.46 فیصد ہے جبکہ مردوں کی شرح خواندگی 82.14 فیصد ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ہندوستان کی خواتین کی خواندگی کی شرح دنیا کی خواتین کی خواندگی کی اوسط شرح 79.7 فیصد سے بہت کم ہے۔ راجستھان کی بات کریں تو یہاں خواتین کی خواندگی کی شرح صرف 52.12 فیصد ہے جو کہ بہار (51.50 فیصد) کے بعد ملک میں دوسرے نمبر پر ہے۔درحقیقت نوعمر لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں ثقافتی اور روایتی رکاوٹیں ان کے راستے میں بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔
سماجی تنظیموں اور میڈیا کو بھی اس مسئلے کو اجاگر کرنے اور خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ذریعے ہی ایک ترقی یافتہ اور متوازن معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم حاصل کرنا ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے۔ ایسے میں راجپورہ ہڈن کی لڑکیوں کو اس حق سے محروم کرنا ان کی سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہر لڑکی کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے، تاکہ وہ ایک روشن اور خود مختار مستقبل بنا سکے۔ (چرخہ فیچرس)

https://lazawal.com/?cat=14

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا