انجام سکندر یاد نہیں سب چھوڑ کے جانا پڑتا ہے الوداع رتن ٹاٹا جی الوداع

0
31

۰۰۰
خیال اثر (مالیگاؤں)
۰۰۰
اس حقیقت سے کسی بھی صورت مفر ممکن نہیں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے. حضرت انسان موت کے خلاف چاہے جتنی حصار بندی کرلے یا لاکھوں پہرے بٹھا دے موت جیسی حقیقت سے بچنا محال ٹھہرائے گا. انسان کی لوح مقدر پر اللہ رب العزت نے جتنی زندگی لکھ دی ہے کہ اس سے ایک لمحہ کم یا زیادہ نہیں ہو سکتا. حضرت انسان زندگی گزارنے کے لیے بہر صورت نت نئے امکانات بھلے ہی تلاش لئے ہوں لیکن موت کو جب آنا ہے سارے پہرے اور حصار بندی کو توڑ کر ہر حال میں آنا ہی ہے.

https://www.britannica.com/money/Ratan-Tata

وہ چاہے تو پتھروں میں بھی کیڑوں کو غذا کی فراہمی کرکے انھیں زندگی عطا کردے اور وہ چاہے تو دنیا کی ساری آسائشات اور پر تعیش محلات عطا کرکے بھی زمام زیست اس طرح کھینچ لے کہ سب چھوڑ کر جانا پڑ جائے. آج کا انسان پر تعیش لمحات کی سرشاری میں اس رب سے غافل ہوتا جارہا ہے جس نے زندگی گزارنے کی ساری آسائشات حضرت انسان کی دسترس میں پنہاں کردیں لیکن انسان ہے کہ "ہل من مزید ” پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف موت کو بھلائے بیٹھا ہے بلکہ زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کی لالچ و طمع میں کبھی سمندر کی گہرائیوں میں آشیانہ بنانے کو ترجیح دے رہا ہے تو کبھی فضائے ارض بسیط میں دم بہ دم گردش کرتے ہوئے سیاروں میں زندگی کی کھوج کرتے ہوئے بقائے دوام حاصل کرنا چاہتا ہے. آج بھلے ہی انسان کے قدموں تلے چاند کی بانجھ بنجر بے آب و گیا ہ دھرتی آ گئی ہو لیکن وہاں زندگی کی رمق پانے کی جستجو میں ترقی یافتہ دور کا ترقی یافتہ انسان ایسے چکرویو میں جا پھنسا ہے کہ کچھ بنائے نہیں بنتی. لاکھوں کروڑوں روپیوں کا بیجا اصراف اور سائنسی عوامل کی موجودگی میں جنت نظیر دنیا کو تج کر چاند ستاروں میں زندگی کی رمق ڈھونڈنے والا یہ انسان اگر خالی ہاتھ آیا ہے تو اس حقیقت سے انحراف نہیں کر سکتا کہ دنیا جہان کی دولتیں اور اپنے پر تعیش محلات سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ ہی جانے والا ہے. تاریخ گواہ ہے کہ قارون جیسے شخص کے خزانوں کی چابیاں اگر 40 اونٹوں پر لاد کر لائی لے جائی جاتی تھیں تو اس کی موت کے وقت اس کا سارا خزانہ سرائے فانی میں ہی چھوڑ کر اسے یوں خالی ہاتھ جانا پڑا تھا کہ سب کچھ یہیں کا یہیں رہ گیا. حضرت انسان نے تاریخ کے حوالوں سے کبھی بھی درس عبرت لینے کی کوشش نہیں کی ورنہ اس پر یہ حقیقت وا شگاف ہو جاتی کہ سب کچھ یہیں رہ جانے والا ہے کیونکہ موت ایک حقیقت ہے اور اس سے مفر کسی صورت ممکن نہیں. ازل تا ابد یہی حقیقت جاوداں رہے گی.28 دسمبر 1937 کو جنم لینے والے رتن نول ٹاٹا 10اکتوبر 2024 کو اس دنیا کو الوداع کہہ دیا. رتن ٹاٹا بھارتی صبعت کار، انسان دوست اور ٹاٹا سنز کے سابق چیئرمین ہیں۔ وہ 1990ء تا 2012ء ٹاٹا گروپ کے بھی چیئرمین رہے۔ اس کے بعد اکتوبر 2016ئتا فروری 2017ء عبوری چیئرمین رہے۔ اس دوران میں وہ ٹاٹا کے خیراتی ٹرسٹ کے سربراہ بھی رہے۔[4][5] انھیں حکومت ہند نے 2008ء میں پدم وبھوشن اور 2000ء میں پدم بھوشن عطا کیا تھا۔
آج اگر نامور صنعتکار رتن ٹاٹا کے انتقال پر ملال پر ہندوستان ماتم و گریاں میں مشغول ہے . سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر خوب وائرل ہورہی ہیں اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ رتن ٹاٹا کوئی معمولی انسان نہیں تھے. ان کا شمار ملک کے نامور صنعتکاروں میں ہوتا تھا. ان کی جائداد کا شمار ممکن نہیں ہے. ان کی شاہانہ زندگی اور ان کے ٹھاٹ باٹ کا شمار بھی ممکن نہیں لیکن کیا انھوں نے کبھی سوچا تھا کہ ایک دن موت انھیں اس طرح جکڑ لے گی کہ سب کچھ ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا. حقیقتوں سے انحراف حضرت انسان کی سرشت میں شامل ہے کیونکہ وہ خدا کے وجود سے اس طرح انکاری ہے جیسے کوئی خدا ہی نہیں. موت ایک حقیقت ہے اور زندگی ایک نعمت. اس لیے جب تک انسان زندہ ہے اسے خدا کی عطا کردہ اس نعمت بیش بہا کی قدر کرنا چاہیے. آج کا انسان صرف اور صرف اپنے لئے جینا چاہتا ہے. جبکہ اگلے زمانوں کے انسان خود بھی زندہ رہنا چاہتے تھے اور دوسروں کی زندگی کے بھی طلبگار ہوا کرتے تھے. رتن ٹاٹا ہی نہیں بلکہ ان جیسے تمام پونجی پتیوں کو انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے میدان عمل میں اس طرح آنا چاہیے کہ آنے والے ایام میں ان کے نام لیوا موجود رہیں. اللہ رب العزت کی قدرت ہے کہ وہ کسی کو بھی اس طرح بخش دیتا ہے کہ کبھی ذرے کو خورشید بنا دیتا ہے تو کبھی کسی خورشید کو کسی ذرے سے اس طرح مات دیتا ہے کہ گہن آلود ہونے پر مجبور کردیتا ہے. آج اگر اڈانی امبانی جیسے افراد کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے تو یہ ان معمولی انسانوں کی نوازشات کے طفیل ہے جو کھلے آسمان اور ننگی زمینوں پر زندگی گزرانے پر مجبور ہیں. مال و متاع ہر دور میں زندگی کرنے کا سلیقہ نہیں دیتا بلکہ زندگی گزارنے کا سلیقہ ایسی بیش بہا دولت میں شمار ہوتا ہے جو انسانوں کے کام آنے کو ترجیح دیتا ہے. زندگی وہی ہے جو دوسروں کے کام آ جائے. یہ نہیں کہ اپنے آپ میں مقید رہ کر زندگی گزار لی جائے. آج رتن ٹاٹا کی موت کی خبریں دو چار دن تک اخبارات کی زینت بنے رہے گی. ہو سکتا ہے تاریخ کے گوشواروں میں کہیں کسی حاشیے میں ان کا نام آب زر سے رقم ہو جائے لیکن ایک فرق اور تفاوت ہمیشہ یہ حاوی رہے گا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایسا کوئی کام کیا ہے جس کی وجہ سے انھیں یاد رکھا جائے. تاریخ کے گوشواروں میں مدر ٹریسا کا نام اس طرح ہمیشہ زندہ رہے گا کہ انھوں نے دکھی انسانیت کے مداوا میں نمایاں اقدامات اٹھائے تھے. ملک البانیہ سے آئی مدر ٹریسا نامی اس خاتون نے ریاست بنگال کی بنگالی عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ زخم زخم انسانیت کو مندمل کرنے کے لیے وہ مرہم جانفزاء ایجاد کئے کہ موت بھی شرمندہ ہو کر رہ گئی. انسان وہی ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا سب کچھ داؤں پر لگا دے نا کہ اپنے خزانوں میں اضافہ کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جائے. کیونکہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ….
دولت کے پجاری ہوش میں آ بیکار کسی کا دل نہ دکھا
انجام سکندر یاد نہیں سب چھوڑ کے جانا پڑتا ہے

https://lazawal.com/?cat=14

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا