خانوادۂ لارویہ کا سیاسی سفر، ایک تحقیقی جائزہ

0
104

ڈاکٹر ابراہیم مصباحی

حضرت میاں عبید اللہ المعروف باباجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیر ومرشد حضرت میاں نظام الدین

کیانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر سنجوڑہ بالاکوٹ ضلع مانسہرہ سے 1890ء میں ہجرت کرکےبابا نگری کنگن میں آباد ہوئے، آپ کی ہجرت کے وقت کشمیر میں جغرافیائی تقسیم پرگنوں میں تھی اور سندھ نالہ کے آس پاس کے علاقے کو یہاں کے ایک گاؤں “لار” سے منسوب کرتے ہوئے “پرگنہ لار” کہا جاتا تھا ۔

https://kashmirsufis.wordpress.com/2014/11/21/shrinr-of-lar-sharif/

اسی پرگنہ کی مناسبت سے حضرت جی صاحب اور ان کے خانوادے کے ساتھ“لاروی ” کا الحاق ہے جو ابھی تک لکھا اور بولا جاتا ہے۔
قومِ مسلم پچھلی چند صدیوں سے مستشرقینِ یورپ کی جن سازشوں کا شکار ہوکر اپنی عظمت وشرافت اورقوت وطاقت کھو چکی ہے، ان میں ایک بڑی سازش یہ بھی تھی کہ انھوں نے خانقاہی نظام اور سیاست کے مابین بونِ بعید ثابت کرنے کی انتھک کوششیں کیں تاکہ خانقاہی حضرات جو عوام کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں انھیں خانقاہوں تک محدود کرکے دنیوی اعتبار سے انھیں اپاہج بنادیا جائے اور اس طرح سادہ لوح عوام کے لیے تعمیر وترقی کے دروازے بند کرکے انھیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے پھر ان کے مظلوم کاندھوں پر اپنے روشن مستقبل کی دیواریں بلند کی جائیں۔ اس سازش کے تحت سیاست ا ور خانقاہی نظام کے مابین نسبت ِ تباین کی ایک ایسی روایت قائم ہوئی جس کے صدیوں پر محیط غیر مناسب نظریہ نے خانقاہی حضرات کے نصیبے کے دفتر سے سیاسی قیادت کو نہ صرف محو کر دیا ، بلکہ اس کے برعکس ان کے لیے سیاسی سطح پر گفتگو کو بھی ان کے منصب و مرتبہ کے خلاف لکھ دیا۔ ایسے مسموم نظریہ کی سر کوبی کے لیے پروردِ گار عالم کی طرف سے حضرت باباجی صاحب لاروی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کا انتخاب ہوا۔ حضرت جی صاحب قدس سرہ کی سنجوڑہ سے بابا نگری کی طرف ہجرت اس مہم کے لیے خشتِ اول قرار پائی جو ہجرتِ مدینہ والی عظیم انقلابی سنت کی پیروی کے جذبہ میں رونما ہوئی تھی ،جس کے آغاز و انجام نے اس باب میں “مُدخلِ صدق” اور “مُخرَجِ صدق” کی مستجابی تفسیرو تشریح فرمائی۔
حضرت جی صاحب علیہ الرحمہ کے فرزندحضرت میاں نظام الدین لاروی علیہ الرحمہ وہ پہلی شخصیت ہیں ،جو صدیوں پر محیط مذکورہ استشراقی سازش کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے سیاست کے میدان میں اترے اور جموں کشمیر کی بے لگام سیاست کے گلے میں اسلامی تعلیمات کا پٹہ ڈال کر اسے داخلِ سلسلہ فرمایا اور اپنے کردار سے یہ ثابت کردیا کہ اسلام سیاست کے خلاف نہیں، بلکہ اسلام جہاں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دیگر شعبہ جات میں رہنمائی کے قوانین فراہم کرتا ہے وہیں ایک سچی اور جھوٹ، چغلی وغیرہ سے پاک و صاف سیاست کے لیے بھی رہنما اصول فراہم کرتا ہے ۔ گوکہ انھوں نے خلافتِ راشدہ کے بعد سے سیاست کے چہرے پر پڑے خیانت، بد دیانتی اور جھوٹ چغلی وغیرہ جیسی بھیانک برائیوں کے دبیز پردوں کو دور پھینک کر امتِ مسلمہ کی بھولی بسری قیادت و سیادت کو متعارف کروایا اور سیاسی سطح پر اپنی پاکیزہ سیرت کے ذریعے“شرابِ کہن در جامِ نو ” کے بموجب اس ماحول کی عکاسی کی جو پیغمبر اعظم ﷺ اور خلفاے راشدین نے دنیا میں قائم فرمایا تھا، اس لیے دنیا نے بلا تامل ان کو بیک وقت ایک عظیم سیاسی اور روحانی رہنما تسلیم کیا اور ان کی قیادت میں اپنے کاروانِ سیاست کو کشاں کشاں منزلِ مقصود کی جانب روانہ کیا۔
اس وقت کے سیاسی منظر نامے پر پھیلی بد دیانتیوں اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف قدم اٹھانے کے لیے انھیں ایک ایسی اصلاحی تحریک کی ضرورت تھی جس کے بینر تلے وہ کام کر سکتے۔ 1932ء میں راجوری پونچھ کے اربابِ حل وعقد کی مشاورت سے “گجر جاٹ کانفرنس” کے عنوان سے ایک اصلاحی تحریک وجود میں آئی جس کے صدر امیر القوم حضرت میاں نظام الدین لاروی علیہ الرحمہ منتخب ہوئے۔ اس تحریک نے معاشرے میں رشوت ، سود اور ظلم و زیادتی کے خلاف کام کیا۔امیر القوم کی حق و صداقت پر مبنی آواز نے اس وقت کی حکومت کو ان کے قدموں میں جھکنے پر مجبور کر دیا چنانچہ شیخ محمد عبداللہ نے ان کو اپنا رہنما تسلیم کیا اور ان کی مشاورت و حکم کے زیر اثر حکومت کی خدمات انجام دیں۔
گجر جاٹ کانفرنس کا پہلا اجلاس 12؍اپریل 1932ء کو پروڑی گجراں میں منعقد ہوا جس میں 20000؍افراد نے شرکت کی۔اس کے بعد لگاتار اس کانفرنس کے اجلاس پونچھ، جموں اور راجوری میں ہوئے جن میں صدارت کی کرسی پر حضرت امیر القوم ہی براجمان ہوتے رہے۔1937ء میں کشمیر میں پرجا سبھا کے انتخابات میں پہلی بار گجر جاٹ کانفرنس نے حصہ لیا اور حضرت امیر القوم کے ایماء پر لوگوں نے جوش وجذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے گجرجاٹ کانفرنس کے کنڈیڈیٹ مرزا عطاء اللہ کے حق میں ووٹ کاسٹ کیے اور ان کو کامیاب کیا۔
1947ء میں پرجا سبھا کے آخری انتخابات ہوئے ، پرجاسبھا کی کل 75؍نشستیں تھیں، جن میں سے 40 سیٹوں پر باضابطہ انتخابات ہوتے جبکہ باقی 35؍نشستوں پر ممبران کو اقتدار اعلیٰ کی جانب سے نامزد کیا جاتا تھا۔ اسی قانون کے تحت یکم مارچ 1947ء کو اقتدار اعلیٰ کی جانب سے حضرت امیر القوم علیہ الرحمہ کو پرجاسبھا کا رکن نامزد کیا گیا اور یہ نامزدگی خانوادۂ لارویہ کے سیاسی محل کی خشتِ اول قرار پائی ،جو اس قدر بابرکت ثابت ہوئی کہ 87؍سال کی طویل مدت میں سیاسی تاریخ کے اتار چڑھاؤ اور شکست و ریخت کے طوفانوں کے باوجود اس عمارت میں نہ کبھی کوئی ہلچل دیکھنے کو ملی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی پژمردگی یا مایوسی کا کوئی نشان دکھائی دیا، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نوشتۂ تقدیر میں اس خانوادہ کے نصیبے سے ناکامی کو ہمیشہ کے لیے محو کردیا گیا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ نامزدگی کو حضرت امیر القوم نے اس وقت تک قبول ہی نہیں کیا جب تک اس خصوص میں ان کے پیر خانے سے حضرت میاں مرزا عبد الرشید صاحب علیہ الرحمہ کو بھی نام زد نہیں کیا گیا۔ امیر القوم کی فرمائش پر حضرت موصوف کو بھی اس ممبر شپ میں شامل کر لیا گیا۔
آزادئ ہندوستان کے دوران تقسیمِ ہند کا مرحلہ بڑا ہی صبر آزما مرحلہ تھا ، پھر چار پانچ سالہ سیاسی کشمکش کے بعد 1951ء میں پہلی بار یہاں ریاست کا اپنا آئنہ نافذ ہوا اور پچہتر رکنی آئن ساز اسمبلی وجود میں آئی ، جس میں جلد ہی حضرت امیر القوم کو نیشنل کانفرنس پارٹی کی جانب سے حلقۂ انتخاب کنگن سے بلا مقابلہ اسمبلی کا ممبر چنا گیا۔ قانون ساز اسمبلی میں شامل ہونے کے بعد حضرت امیر القوم علیہ الرحمہ نے عوام کی خدمات کے ساتھ ساتھ حکومت کی گتھیوں کو سلجھانے میں اہم رول ادا کیا اور معاصر سیاست کے پراگندہ خد و خال کو اپنے کردار کے صاف وشفاف پانی سے دھوکر اسے سرخ روئی عطا کر دی۔نتیجتاً آنے والے سالوں میں دوبار مزید وہ حلقۂ انتخاب کنگن سے بلا مقابلہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے۔اس طرح حضرت امیر القوم تین بار ایک ہی حلقۂ انتخاب سےبلا مقابلہ منتخب ہوئے جس سے ان کے سیاسی قدو قامت اور مقبولیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
1967ء میں امیر القوم کی اس میدان سے کنارہ کشی کے بعدان کے فرزند وجانشین حضرت میاں بشیراحمد لاروی علیہ الرحمہ نے میدانِ سیاست کی جادہ پیمائی کی۔ موصوف کی ایک صدی پر مشتمل علمی، ادبی ، سیاسی اور سماجی خدمات آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔سیاسی سطح پر وہ 1967ء سے 1987ء تک لگاتار چارمرتبہ اسمبلی کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے رہے۔ ان میں تین بار حلقۂ انتخاب کنگن سے جب کہ چوتھی مرتبہ خطۂ پیر پنچال کے درہال حلقہ سے کامیاب ہوئے، اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ دربارِ لار شریف کے دوسرے سجادہ نشین کی ذات کے ذریعہ ان کی سیاسی قیادت کے حدودکو خدائے لم یزل نے وادی کے اس پار تک وسعت عطا کر دی ۔ دوسری جانب حضرت میاں بشیر صاحب نے اس اعتبار سے بھی میدان سیاست میں خانوادۂ لارویہ کو ایک قدم آگے بڑھایا کہ وہ لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کی حکومت میں وزارت کے عہدوں پر بھی فائز ہوئے۔ بالآخر بیس سالہ اس مثالی قیادت کے بعد 1987ء میں اپنے فرزند حضرت میاں الطاف احمد صاحب مد ظلہ کو اس میدان میں اتار کر خود بر طرف ہوگئے۔
حضرت میاں الطاف احمد سجادہ نشین دربارِ باباجی صاحب مد ظلہ نے انتہائی خلوص، نیک نیتی، دیانت داری اور کمال سنجیدگی کے ساتھ اپنے باپ دادا کے اس سیاسی سفر کو آگے بڑھایا، کنگن حلقۂ انتخاب سے 1987ء سے 2014ء تک لگاتار پانچ مرتبہ الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کرکے اپنی سیاسی بصیرت اور لوگوں کے دل جیتنے کے ہنر کا مظاہرہ فرمایا۔ انھوں نے اپنے اس سیاسی سفر میں طب، تعلیم اور جنگلات جیسے کئی اہم اور حساس محکموں کی وزارت کے عہدوں پر کام کیا۔ جموں کشمیر کی تاریخ میں میاں الطاف صاحب کا نام ایک بہترین سیاسی قائد کے بطور مشہور ہے۔ حضرت میاں الطاف صاحب نے جہاں ان اہم محکموں میں اپنی کار کردگی انمٹ نقوش مرتب کیے وہیں خانوادۂ لارویہ کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کو بھی وا شگاف کیا۔ چنانچہ 2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں اننت ناگ راجوری پارلیمانی حلقہ سے انھوں نے بحیثیت امیدوار الیکشن میں حصہ لیا اور مد مقابل سے تقریباً تین لاکھ کی لیڈ سے کامیاب ہوکر ممبر آف پارلیہ منٹ منتخب ہوئے۔(اس ضمن میں راقم کا ایک تفصیلی مقالہ بعنوان“اننت ناگ راجوری پارلیمانی حلقہ اور انتخابات 2024ء، ایک تحقیقی مطالعہ” دیکھا جاسکتا ہے۔)
جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات کا حالیہ دورانیہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل تھا۔ 2019ء کے سانحۂ الیمہ کے بعد یہ پہلا اسمبلی چناؤ تھا، جبکہ مجموعی اعتبار سے یہ چناؤ دس سالہ زمانۂ فترت کے بعد ہوا ہے۔ خانوادۂ لارویہ کے جواں سال چشم و چراغ حضرت میاں مہر علی صاحب مد ظلہ اپنے موروثی حلقۂ انتخاب کنگن سے میدان میں اترے۔ 90 ؍اسمبلی حلقوں میں سے کنگن اس اعتبار سے سب سے اہم تھا کہ اس میں میاں مہر علی کی کم عمری، نا تجربہ کاری اور ہر سیٹ پر انقلابی نعروں کی گن گرج جیسی کئی رکاوٹیں ایک ساتھ حائل تھیں، اس لیے اس نشست کے نتائج ہر شخص کی توجہ کا مرکز بنے رہے، تاہم 8؍اکتوبر کا دن خانوادۂ لارویہ کے لیے ایک تاریخی دن بن گیا جس کے اجالے میں میاں خاندان کی لگاتار چوتھی نسل نے اپنی کامیابی کا پرچم لہرا دیا۔ حضرت میاں مہر علی نے اس کم عمری میں کنگن حلقۂ انتخاب سے کامیاب ہوکر جو تاریخ رقم کی ہے اس سے خانوادۂ لارویہ(جہاں تک مجھے معلوم ہے) پورے ملک کا وہ واحد خاندان بن کر ابھرا ہے جس کی چار نسلوں نےپون صدی تک لگاتار بارھویں مرتبہ کامیابی حاصل ہے۔ یہ ایک غیر معمولی تاریخی حقیقت ہے ، جس سے پہلو تہی کرنا ناانصافی ہے۔ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں اس طرح کی انوکھی مثال پر خانوادۂ لارویہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تاریخی حقیقت کے اعتراف میں خانوادہ شریف کو قومی سطح کا ایوارڈدیا جانا چاہیے۔ ہم ایسے موقع پر خدائے قدیر کے شکر کے ساتھ ساتھ حضرت میاں الطاف احمد ، حضرت میاں مہر صاحب اور خانوادہ شریف کے دیگر اہلِ دانش کو ڈھیروں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور یہ دعا بھی کہ اللہ تعالیٰ خانوادۂ لارویہ کو مزید کامیابیوں سے ہم کنار فرمائے۔
استاذ شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
9797344385

https://lazawal.com/?cat=14

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا