راہل گاندھی”شہزادہ”یا زمینی لیڈر؟

0
31

محمد ہاشم القاسمی (خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل نمبر :=9933598528

نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کے "مسحور کن نعرے سے سرخیاں بٹورنے والے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کی پیدائش 19جون 1970کو دہلی کے ہولی فیملی ہسپتال میں ہوئی۔

https://inc.in/leadership/past-party-presidents/shri-rahul-gandhi

راہل گاندھی ہندوستان کے پانچویں وزیر اعظم راجیو گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی سابق صدر سونیا گاندھی کے بیٹے ہیں، راہل گاندھی دو بھائی بہن ہیں وہ اپنی بہن پرینکا گاندھی سے دو سال بڑے ہیں۔21 مئی1991میں ان کے والد راجیو گاندھی ریاست تمل ناڈو میں چنئی کے قریب سریپرمبدور میں ایک انتخابی ریلی کے دوران دھنو نامی ایل ٹی ٹی ای رکن کے خودکش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس خودکش حملے میں ان کے والد اور حملہ آور دھنو سمیت 16افراد کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی، جبکہ 45 افراد شدید زخمی ہو گئے تھے۔

 

اس وقت راہل گاندھی کی عمر بیس سال تھی، اس سے قبل 1984 میں ان کی دادی اندرا گاندھی کو ان کے باڈی گارڈ نے ان کے گھر پر اپنے رائفل سے سترہ گولیاں ان کے سینہ پر اتار کر قتل کر دیا تھا اس وقت راہل گاندھی 14 سال کے تھے، راہل گاندھی کی ابتدائی تعلیم دہلی اور دہرادون میں ہوئی، بعد ازیں وہ ہارورڈ یونیورسٹی کے رولنس کالج فلورڈا سے سنہ 1994 میں آرٹ سے گریجویشن اور 1995 میں کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینٹی کالج سے ایم فل کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد اپنے ملک لوٹ آئے، سنہ 2003 میں راہل گاندھی کے سیاست میں آنے پر کافی بحث ہوئی لیکن انہوں نے اپنا سیاسی سفر 2004 میں اپنے 34 ویں یوم پیدائش سے کچھ روز قبل اپنے والد مرحوم راجیو گاندھی کی روایتی سیٹ امیٹھی سے لوک سبھا کا چناو لڑے اور بی جے پی کے امیدوار کو شکست دی۔ 2007 میں راہل گاندھی کو کانگریس کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے اور کانگریس کے طلبا تنظیم "این ایس یو آئی” کی ذمہ داری کی کمان اپنے ہاتھ لیا، اس پلیٹ فارم سے راہل گاندھی نوجوانوں کی سیاست میں بہتری کا وعدہ کیا اور یوتھ کانگریس میں چناو شروع کرائے۔ اور رکنیت مہم بھی کافی زور شور سے چلائی۔2008 میں کسانوں کی خودکشی کے تعلق سے راہل گاندھی نے مہاراشٹر میں قحط سے متاثرہ ایک بیوہ "کلاوتی” کا اپنے بھاشن میں ذکر کیا۔ ان کی یہ تقریر قومی میڈیا میں چھا گئی اور صحافیوں کی بھیڑ کلاوتی کے گھر پرجا پہنچی۔ 2009 کے عام انتخابات میں امیٹھی سیٹ پر دوبارہ جیت حاصل کی۔ اس دوران رات میں ایک دلت کے گھر میں رہے، کھلے میں کھانا کھایا اور وہیں سوئے۔ ہندوستان بھر کا دورہ کیا اور 6 ہفتوں میں تقریباً 125 ریلیوں سے خطاب کیا۔2011 میں کسانوں کی زمین پر سستے داموں میں سرکاری قبضہ (ایکویزیشن ) کے احتجاج میں بھٹہ پارسول گاوں میں ریاستی حکومت کے خلاف ہو رہے مظاہرہ میں شرکت کی جہاں یو پی پولس نے انہیں حراست میں لے لیا۔ بعد ازیں یو پی اے حکومت نے لینڈ ایکویزیشن اینڈ ری ہبلی ٹیشن قانون کو پاس کرایا۔ 2012 میں راہل نے 16 دسمبر کو "جیوتی سنگھ” کے گینگ ریپ اور قتل کے بعد اس کے دو بھائیوں کی تعلیم کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ 2013 میں کانگریس پارٹی کے نائب صدر مقرر کئے گئے۔ داغی رہنماوں کو نااہل قرار دئے جانے سے روکنے والے اپنی ہی پارٹی کے مجوزہ بل کو "مکمل بکواس” کہا اور بھرے مجمع میں پھاڑ دیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ سیاسی لیڈروں میں جرائم کے عنصر کی آلائش ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہی ہے۔ عوامی نمائندگی کا جو قانون ہے اس میں اگرچہ مجرمانہ معالات میں سزا یافتہ افراد کو انتخاب کے لیے نا اہل قرار دینے کی شق شامل تھی ، لیکن اس میں پیچیدگی صرف اس پہلو سے پیدا ہو رہی تھی کہ جب تک کسی کو سپریم کورٹ سے حتمی سزا نہیں ہو جاتی تب تک وہ سزایاب نہیں مانا جائے گا۔ ہر پارٹی میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی کے سبب ملک کی پارلمینٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں سینکڑوں ایسے ارکان موجود تھے جن کے خلاف مجرمانہ مقدمات زیر سماعت تھیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ارکان تھے، جن کے خلاف ریپ، قتل اور اغوا جیسے سنگین جرائم کے معاملات درج تھے۔ ان دنوں سپریم کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں یہ حکم دیا تھا کہ اب ذیلی عدالت سے سزایاب ہوتے ہی سزا یافتہ شخص انتخاب لڑنے کا اہل نہیں ہوگا، اور اگر سزا یافتہ شخص پارلیمنٹ یا اسمبلی کا رکن ہے، تو اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن سیاسی جماعتوں کے لیے مشکلیں پیدا ہو گئیں تھیں ۔ کیونکہ ہر پارٹی میں کئی رہنماؤں کو مجرمانہ مقدمات کا سامنا تھا۔ اس وقت حکمراں پارٹی یو پی اے اور اپوزیشن سبھی سر جوڑ کر بیٹھ گئیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے بہت سرعت کے ساتھ ایک بل تیار کیا گیا۔ لیکن اچانک بی جے پی کو یہ محسوس ہوا کہ اگر یہ قانون آ گیا تو اس سے لالو پرشاد یادو جیسے بی جے پی کے سخت دشمن بآسانی بچ سکتے ہیں۔ اس لئے اس نے اس بل کے کچھ پہلوؤں کی مخالفت کر دی اور بل کو پارلیمنٹ جوئینٹ کمیٹی میں بھیجنا پڑا ۔ حکمراں کانگریس نے بھی لالو کو بچانے کی کوشش میں عوامی موڈ کا اندازہ لگائے بغیر ایک آرڈیننس کی منظوری دے دی۔ اس آرڈیننس سے کانگریس کی تئیں عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہ بد عنوان سیاستدانوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری پارٹیاں جو اس آرڈینینس کی اندر ہی اندر حمایت کر رہی تھیں شدید عوامی مخالفت کے پیش نظر اچانک اس کی مخالفت کرنے لگ گئیں، یہ تھا وہ پس منظر جس میں راہل گاندھی ایک پریس کانفرنس میں نمودار ہوئے اور خود اپنی ہی حکومت کے آرڈینینس کو ردی کا ٹکڑا قرار دیا ۔اس کی وجہ سے یہ آرڈیننس ہی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا بلکہ بل بھی واپس لے لیا گیا۔ اگر یہ آرڈیننس موجود ہوتا تو لالو پرشاد یادو کی رکنیت ختم نہ ہوتی اور وہ انتخاب بھی لڑ نے کے اہل ہوتے ۔اور ہائی کورٹ میں اپنا دفاع کرتے رہتے۔ 2014: عام انتخابات میں بی جے پی مودی کے "گجرات ماڈل” اور "اب کی بار مودی سرکار” سبز باغ دکھانے میں کامیاب رہے اور دوتہائی سے زیادہ نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی جبکہ کانگریس پارٹی محض 44 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی، بدترین کاگردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد راہل گاندھی نے کئی دنوں تک جائزہ میٹنگوں کا انعقاد کیا۔ انہوں نے مختلف ریاستوں کے پارٹی کارکنان کے خیالات جاننے کی کوشش کی اور ان کی شکایات بھی سنیں۔ ان کارروائی سے پارٹی کی اصل صورتحال ان کے سامنے آئی۔ انہیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ تب تک پارٹی میں بہتری نہیں لائی جاسکتی ہے، جب تک ان منتطمین سے چھٹکارہ نہیں پایا جاتا۔ بس یہیں سے کانگریس میں اندرونی دنگل شروع ہوئی اور یکے بعد دیگرے پارٹی کے پرانے اور دگج لیڈران جنہیں پارٹی نے سب کچھ دیا تھا کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کی گود بیٹھنے لگ گئے، 2015 میں راہل گاندھی دو مہینے تک بیرون ملک میں رہے اور ایک نئی توانائی کے ساتھ وطن واپس لوٹے۔ سب سے پہلے مودی پر زبان کھولنے والے راہل گاندھی مودی حکومت کو "سوٹ بوٹ والی سرکار” کا خطاب دیا جو کافی مشہور ہوا، اس کے بعد بہار اسمبلی انتخاب میں سیاسی حکمت عملی کے تحت لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کے ساتھ مل کر عظیم اتحاد (مہاگٹھبندھن) کا قیام کیا۔ 2015 تا 17 : کانگریس کی مہاراشٹر ، ہریانہ ، جموں و کشمیر، اتراکھنڈ اور کیرالہ کے اسمبلی انتخابات میں ہار ہوئی ۔ یو پی میں اکھلیش یادو کے ساتھ اتحاد بھی سود مند ثابت نہیں ہوا، منی پور اور گوا میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی ہو کر ابھرنے کے باوجود حکومت سازی میں ناکام رہی۔ صرف پنجاب میں ہی کانگریس کو جیت حاصل ہو سکی۔ گجرات میں بی جے پی کے ترقی کے وعدے کا مذاق اڑاتے ہوئے کانگریس نے ایک سوشل میڈیا مہم شروع کی اور "وکاس گنڈو تھایو چھے” نامی ہیش ٹیگ وائرل ہو گیا۔ مودی حکومت کی "جی ایس ٹی” کو گبر سنگھ ٹیکس کا نام دے کر کافی سرخیاں بٹوری، 2017 میں سونیا گاندھی کے کانگریس صدر کا عہدہ چھوڑنے کے بعد 11دسمبر 2017 کو راہل گاندھی کو پارٹی کا بلا مقابلہ صدر منتخب کیا گیا، مئی 2019 لوک سبھا انتخابات کے نتائج راہل گاندھی کے مطابق "منصافانہ اور آزادانہ نہیں تھے۔ بھارتی جنتا پارٹی نے بھارتی میڈیا، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے انہوں نے کہا۔ 2019 کے انتخابات میں ہمارا مقابلہ ایک سیاسی پارٹی سے نہیں بلکہ پوری مشینری سے تھا۔” تاہم راہل گاندھی شکست کی ذمہ اپنے سر لیتے ہوئے 3 جولائی کو پارٹی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا لیکن پارٹی قیادت کی جانب سے امید کی جا رہی تھی کہ شاید وہ اپنا ارادہ بدل لیں لیکن یہ ان کا آخری فیصلہ تھا۔ 2023 میں راہل گاندھی کو "مودی کنیت” کیس میں گجرات کی ایک عدالت سے دو سال قید کی سزا سنائی گئی، جس کی وجہ سے انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کر دیا گیا تھا، اور عجلت میں بنگلہ بھی خالی کرا لیا گیا تھا. 7ستمبر 2023 کو راہل گاندھی نے کنیا کماری سے "بھارت جوڑو یاترا” شروع کیا جو 30 جنوری کو، 136 روز بعد، 14 ریاستوں سے گزرتی ہوئی 4000 کلومیٹر کا پیدل سفر طے کر کے سرینگر میں ختم کیا. سرینگر میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ انھیں ملک بھر سے زبردست مثبت رد عمل ملا ہے۔ ان کے مطابق "اس یاترا کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس ملک کے لوگ اپنے ملک کے لوگوں کی اصل آواز سن سکیں۔” انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ "ہمیں اس سفر کے دوران لوگوں میں مشکلوں کے سامنے ڈٹے رہنے کا جذبہ اور طاقت دیکھنے کو ملی، کاشتکاروں اور ملک کے بے روزگار نوجوانوں کے مسائل سننے کا موقع ملا۔” راہل گاندھی کے مطابق اس سفر کا مقصد "ملک کو متحد کرنا اور ساتھ مل کر ملک کو مضبوط کرنا تھا۔” لاکھوں لوگوں نے راہل گاندھی کے اس سفر میں ان کے ساتھ شرکت کی۔ سفر میں متعدد معروف شخصیات نے بھی حصہ لیا۔ "بھارت جوڑو یاترا” کے دوران راہل گاندھی نے بار بار کہا کہ وہ ملک میں "نفرت کے خلاف محبت کی دکان کھولنا چاہتے ہیں۔” اس سفر کے دوران جگہ جگہ اپنی تقریروں میں اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے راہل گاندھی نے بی جے پی اور مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بے روزگاری، مہنگائی اور اپنے ملک کے علاقے میں چین کے دخل اندازی اور گھس پیٹھ کے موضوعات پر بات کی، اور لوگوں کے دلوں میں خاص جگہ اور الگ شبیہ بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ واضح رہے کہ یہ گذشتہ بیس برس میں ملک کے کسی بھی لیڈر کی طرف سے کیا جانے والا سب سے بڑا یاترا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی ہندوستان کی تاریخ کے وہ واحد سیاستداں ہیں جنہیں سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا اور ان کی شبیہ کو خراب کرنے کیلئے منظم اور منصوبہ بند کوششیں ہوئیں۔ اس میں سیاسی بیان بازیوں کے ساتھ سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا کے ذریعہ عام شہریوں میں گاندھی پریوار کے تعلق سے نفرت اور دوری پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی جس میں بڑی حد تک کامیابی بھی ملی۔ راہل گاندھی کیلئے "شہزادہ” کی اصطلاح یوں ہی نہیں گڑھی گئی۔ اس کا مقصد بھی واضح تھا کہ ایک "شہزادہ” جو اپنے منہ میں چاندی کی چمچ لے کر پیدا ہوا ہے، عام آدمی کے مسائل کو بھلا کیا سمجھے گا۔ ان طریقوں کے ذریعہ عوام کو صرف راہل گاندھی اور ان کے پریوار سے ہی دور کرنے کی کوشش نہیں ہوئی بلکہ کانگریس پارٹی سے بھی دور کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی کیونکہ کانگریس پارٹی اور "گاندھی پریوار” کو ہمیشہ ایک ہی سکے کے دو رُخ کے طور پر پیش کیا گیا۔ ایک طرف جہاں راہل گاندھی نے پارٹی کی صدارت سے دستبردار ہونے اور تمام تر اصرار کے باوجود دوبارہ صدر نہ بننے کی ضد پر اڑے رہ کر پارٹی میں الیکشن کے ذریعہ "غیر گاندھی” صدر کا راستہ ہموار کیا وہیں وہ عوام میں گھل مل جانے اور ان کی سطح پر پہنچ کر ان سے گفتگو کرنے نیز بالکل ان جیسا بن کر ان کے مسائل کو سمجھنے کے ذریعہ گاندھی پریوار کی وہ تصویر بھی عوام کے بیچ لا نے میں کامیاب ہو رہے ہیں، جو ملک کے عوام نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ بھارت جوڑو یاترا سے واپسی کے بعد وہ اچانک چاندنی چوک پہنچ جاتے ہیں جہاں عام لوگوں کے ساتھ گھل مل کر گول گپّوں کا مزہ لیتے ہیں تو وہاں فروخت ہونے والا "محبت کا شربت” پی کر "نفرت کے بازار میں محبت کی دکان” کے اپنے نعرے کو بھی تقویت بخشتے ہیں۔ شملہ جاتے ہوئے وہ امبالہ سے اچانک ٹرک پر سوار ہوجاتے ہیں اور چندی گڑھ تک 50 کلومیٹر کا سفر ٹرک پر طے کرتے ہیں۔ شملہ جاتے وقت وہ کسی طے شدہ پروگرام یا میڈیا کو مدعو کئے بغیر سونی پت کے مدینہ گاؤں میں کسانوں کو کھیت میں کام کرتا ہوا دیکھ کر وہاں راہل گاندھی اپنے جوتے اتار کر، پینٹ کے پائینچے اوپر کر کے کھیت میں اتر کر کسانوں کے ساتھ دھان روپائی کرنے لگتے ہیں، اور کبھی کھیت میں ٹریکٹر چلاتے ہیں اور پھر کام سے فارغ ہو کر کسانوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے گھر سے پک کر آیا ہوا کھانا کسی عام کسان کی طرح کھاتے ہیں۔ کھانا کھانے کے دوران خاتون کسان راہل گاندھی سے کچھ اس طرح گھل مل جاتی ہیں کہ انہوں نے اپنے گھر پر مدعو کرنے کی فرمائش بھی کر ڈالی۔ وہیں سے راہل گاندھی نے اپنی بہن پرینکا گاندھی کو فون لگاتے ہیں ، اسپیکر پر خواتین سے گفتگو کرواتے ہیں، پروگرام طے ہوجاتا ہے اور پھر ہفتے بھر کے اندر اندر راہل گاندھی اپناوعدہ وفا کردیتے ہیں ۔ ہندوستانی سیاست میں اس طرح عام کسانوں کو گھر پر یوں مدعو کرنے کی مثال نہیں ملتی۔ سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی کسی عام خاتون کی طرح ان کسانوں سے ملتی ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتی ہیں اور یوں گھل مل کر باتیں کر تی ہیں جیسے محلے کی عورتیں آپس میں کرتی ہیں۔ اس دوران ایک خاتون نے پرینکا گاندھی سے یہ بھی پوچھ لیتی ہیں کہ بچپن میں زیادہ شرارت وہ کرتی تھیں یا راہل گاندھی؟ جواب میں پرینکا گاندھی نے ہی ہنستے ہوئے سوال داغ دیتی ہیں کہ "آپ کو کیا لگتا ہے؟” پھر خود ہی جواب دیتی ہیں کہ ’’شریف لگتے ہیں نا مگر ایسا نہیں ہے۔” پھر بھائی بہن کی بچپن کی باتیں ہوتی ہیں جو ہر گھر میں ہوتی ہیں۔ کسان خواتین میں سے کوئی اپنے ساتھ بطور تحفہ گائے کا گھی، لسی، اور کسی نے اپنے ہاتھوں سے پرینکا اور راہل کیلئے چورما۔ سونیا گاندھی اور پرینکا ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی لائی ہوئی چیزیں کھاتی ہیں، ان سے گفتگو کرتی ہیں، راجیو گاندھی کے قتل کے بعد کس طرح کی کیفیت رہی ہوگی وہ کوئی خاتون ہی بہتر محسوس کرسکتی ہے، سو خواتین کے ذہن میں اس سلسلے میں سوال اٹھنا بھی لازمی تھا۔ سونیا گاندھی نے اس سوال پر غمزدہ خاموشی اختیار کی اور پرینکا گاندھی نے بتایا کہ کئی دنوں تک پانی بھی پینے کا جی نہیں چاہتا تھا۔ اسی دوران ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کیلئے کسی بوڑھی خاتون نے سونیا گاندھی سے راہل کی شادی کے بارے میں پوچھ لیتی ہیں اور سونیا گاندھی بلا تامل کہتی ہیں کہ "آپ دیکھئے کوئی لڑکی۔” اس ملاقات سے گاندھی پریوار کا سادگی سے پُر وہ پہلو عوام کے سامنے آجاتا ہے جو شاید اب تک پوشیدہ تھا۔ خواتین کے رخصت ہونے سے قبل ان کا سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی کو اپنے ساتھ دیہی رقص کیلئے کھینچ لینا اور کسی بناوٹ اور تصنع کے بغیر دونوں کا اس میں شامل ہوجانا، رخصت کرتے وقت ایک ایک خاتون سے یوں والہانہ طریقے سے گلے ملنا جیسے کہ بہت پرانا تعلق ہو، اس خاندان کی’’راجا‘‘ والی اُس شبیہ کو پاش پاش کر کے رکھ دیتا ہے جو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت تیار کی گئی تھی ۔ وہ ہر دوسرے یا تیسرے دن بھارت جوڑو یاترا کی توسیع کرتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں کسی نہ کسی مزدور، ملازم یا نچلے طبقے کے افراد سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کے کاموں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش انہوں نے سلطانپور کی عدالت میں پیش ہونے کے بعد واپسی میں کی۔ وہاں سے واپس لکھنؤ آتے ہوئے راہل گاندھی کا قافلہ جب ضلع کے گاوں کورے بھار کے ودھایک چوک پر اچانک رُکا تو پورے گاوں میں ہلچل مچ گئی۔ گاڑی سے اتر کر راہل گاندھی سیدھا موچی چیت رام کی دکان پر پہنچ گئے جہاں انہوں نے چیت رام کا نہ صرف حال چال پوچھا بلکہ ان کے کام کا طریقہ بھی سیکھنے کی کوشش کی۔ اس دوران راہل نے اپنی چپل مرمت کروائی اور باتوں باتوں میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ چیت رام اپنا گھر کیسے چلاتے ہیں۔ موچی نے بتایا کہ یہ دکان ہی ان کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے وہ بمشکل اس مہنگائی کے دور میں اپنا گزارہ کرپاتے ہیں۔ انہوں نے راہل سے نہایت سادگی سے درخواست کی کہ وہ بڑے آدمی ہیں اور بڑے بڑے لوگوں کو جانتے ہیں اس لئے موچیوں کی مدد کریں کیوں کہ اس کاروبار میں نہ پہلے بہت زیادہ ملتا تھا اور نہ اب، جبکہ مارکیٹ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور چپل جوتے آسانی سے دستیاب ہیں. 14 جنوری 2024ء کو منی پور کے تھوبل سے "بھارت جوڑو نیائے یاترا کی شروعات کی اور 20 مارچ 2024 ممبئی میں ختم کیا، وہاں انہوں نے کہا کہ ملک کے لوگوں کے ساتھ ہو رہی ناانصافی کے خلاف انصاف کے لیے لڑنے کا سفر جاری رہے گا۔ بھارت جوڑو نیائے یاترا کا اختتام ہو رہا ہے، لیکن یہ اختتام نہیں، بلکہ انصاف کی لڑائی کا آغاز ہے۔ سفر کے دوران میں نے اس خوفناک ناانصافی اور ظلم کو بہت قریب سے جانا اور سمجھا ہے۔ آج میں امید بھری آنکھوں میں چھپے چھوٹے خوابوں کو ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔” انہوں نے کہا کہ "اس یاترا نے میرے اس یقین کو مزید پختہ کیا ہے کہ ملک کی پہلی ضرورت انصاف ہے اور کانگریس کے 5 جسٹس ہر طبقے کے لیے بھارت کی لائف لائن ہیں جو بحران سے گزر رہا ہے۔ آج انتخابی بگل بج گیا ہے۔ کانگریس کے تمام ببر شیر کارکنان، اب آپ سکون سے تبھی بیٹھنا جب ناانصافی کی مترادف بن چکی اس حکومت کو اکھاڑ پھینکیں، ہم لوگوں کی زندگیوں سے جڑے نچلی سطح کے مسائل پر الیکشن لڑیں گے۔ ہماری انتخابی مہم نوجوانوں کو روزگار کی ضمانت، خواتین کے حقوق، کسانوں کو مناسب قیمت، مزدوروں کے احترام اور اشتراک کے لیے بھی وقف ہو گی۔ پس انصاف کی مشعلیں اٹھائیں اور ہر گاؤں اور گلی میں یہ پیغام پھیلائیں کہ ملک کو بچانا ہے اور انڈیا اتحاد کو جیتنا ہے۔” کانگریس کا انتخابی منشور 15 اپریل کو جاری ہوا ۔ کل ہند کانگریس کمیٹی نے اسے "نیائے پتر” کا نام دیا تھا 46 صفحات پر مشتمل انتخابی منشور کا مرکزی موضوع انصاف تھا چونکہ گزشتہ دس برسوں کے دوران عوام کے ایک بڑے حصہ کو انصاف سے محروم رکھا گیا تھا۔ انتخابی منشور میں جس انصاف کی بات کی گئی تھی اس میں سماجی انصاف ، نوجوانوں کے ساتھ انصاف، خواتین کے ساتھ انصاف ، کسانوں کیلئے انصاف اور مزدوروں کیلئے انصاف شامل تھا۔ جیسے ہی کانگریس کا انتخابی منشور جاری کیا گیا اس کے بعد مسٹر مودی اور بی جے پی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا اور ابتداء میں میڈیا نے بھی کانگریس کے انتخابی منشور پر بہت کم توجہہ دی باالفاظ دیگر گودی میڈیا نے جان بوجھ کر کانگریس کے انتخابی منشور کو نظرانداز کیا مگر جیسے ہی انتخابی منشور کے ترجمہ شدہ ورژن ریاستوں میں پہنچے امیدواروں نے اس انتخابی منشور کو عوام کے نام کانگریس کے پیغام کے طورپر گاؤں گاؤں تک پہنچایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کانگریس کا انتخابی منشور لوگوں کے درمیان موضوع بحث بن گیا. یہ انتخاب 19 اپریل سے یکم جون 2024 تک سات مرحلوں میں مکمل ہوئی۔ یہ الیکشن مودی کے این ڈی اے اور راہل گاندھی کے انڈیا کے درمیان لڑا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 2019 میں لوک سبھا کی 543 سیٹوں میں سے 303 سیٹوں پر بی جے پی نے اپنی برتری ثابت کی تھی جبکہ کانگریس کے حصے میں 52 نشستیں آئی تھیں۔ 2024 میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی 240 سیٹس حاصل کر پائی اور مرکز میں حکومت سازی کے لیے کم از کم 272 نشستیں درکار تھیں جو نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کے ممبران سے پوری ہوئیں وہیں کانگریس 99 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی اور انڈیا اتحاد 235 سیٹیں. سی ڈبلیو سی نے متفقہ طور پر راہل گاندھی کو لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری لینے کی درخواست کی اور اس قرارداد میں راہل گاندھی کی انتخابی مہم میں ان کی کوششوں کی ستائش بھی کی گئی۔ جسے راہل گاندھی نے منظور کر لیا. راہل کا آئینی عہدہ قبول کرنا نیک فال ہے کیونکہ سترہویں لوک سبھا میں وہ واحد رکن پارلیمان تھے جنہوں نے رافیل سے اڈانی تک اور ہنڈن برگ رپورٹ سے منی پور تک کئی اہم اور سنگین موضوعات اٹھائے۔ اپوزیشن کے کسی لیڈر نے اتنی جرأت نہیں دکھائی جتنی راہل گاندھی نے۔ اس بات کو وہ لوگ بھی تسلیم کریں گے جو حکمراں طبقے کا حصہ تھے یا اُس کے ساتھ تھے۔ اس دوران راہل گاندھی نے دو بڑے کام کئے ایک تو سب سے زیادہ بے خوف رُکن پارلیمان کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی اور دوسرا یہ کہ دو یاتراؤں کے ذریعہ ہر دلعزیزی پیدا کی۔ اس کا فائدہ ان کو اور ان کی پارٹی کو لوک سبھا الیکشن 2024 میں کچھ اس طرح ملا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس پارٹی سے بھارت کو مُکت کرنا چاہتی تھی اُس نے اپنی سیٹیں دُگنی کرلیں اور جس راہل گاندھی کی تحقیر و تذلیل کیلئے بڑے پیمانے پر مہم جاری کی گئی تھی، وہ عوام کا چہیتا بن گیا اور پارلیمنٹ میں وزیر اعظم مودی کے برابر کھڑا ہوتا دکھائی دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ راہل کی خود اعتمادی بڑھی، مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ، ان کی پارٹی کی سیٹیں بڑھیں، کانگریس کی سیاسی طاقت بڑھی، اس کی وجہ سے اپوزیشن کو اپنے ہونے کا احساس ہوا اور حکمراں جماعت کو اسے تسلیم کرنا پڑا۔ اب یہ ثابت ہو گیا کہ وہ شہزادہ نہیں زمینی لیڈر ہیں،
راہل گاندھی کے سامنے اِس وقت کئی چیلنج ہیں، ملکا ارجن کھرگے کی سرپرستی میں دو ریاستوں ہریانہ اور جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کرنا، پارٹی کا ڈھانچہ مضبوط کرنا، انڈیا اتحاد کی حفاظت کرنا، خود کو اپوزیشن کا موثر لیڈر ثابت کرنا اور آئین کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ تمام چیلنجوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہونگے اور ذمہ دار اپوزیشن کی ضمانت دینگے۔ *

/lazawal.com/?cat**

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا