صدرجمہوریہ کا خطاب حکومت کا ویژن پیپرہوتا ہے: کھڑگے

0
194
NEW DELHI, JUL 1 (UNI):- Leader of the Opposition in Rajya Sabha Mallikarjun Kharge speaking at Rajya Sabha, Parliament House, in New Delhi on Monday.UNI PHOTO-5U

کہاگزشتہ 10 برسوں میں اس حکومت نے صرف نعرے ہی دیے ہیں،ہمہ گیرمسائل کو نظر انداز کیا گیا
یواین آئی

نئی دہلی؍؍راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے نے پیر کو کہا کہ صدرجمہوریہ کا خطاب حکومت کا ویژن پیپر ہوتا ہے، لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔مسٹرکھڑگے نے ایوان میں صدرجمہوریہ دروپدی مرمو کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ 10 برسوں میں ہمہ گیرمسائل کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس بار نعرہ دیا گیا اب کی بار 400 پار۔ جب آئین کو بدلنے کی بات کی جانے لگی، تب انڈیا گروپ نے آئین بچانے کی مہم شروع کی۔ آئین ہو گا تو جمہوریت ہو گی اور الیکشن بھی ہوگا۔ لوگوں خصوصاً غریبوں، نوجوانوں اور خواتین نے یہ محسوس کیا کہ جمہوریت اور آئین کو بچانا ہے، اسی لیے 400 پار نہیں، 200 پارپر روک دیا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے احاطے میں مختلف جگہوں پر عظیم شخصیات کے مجسمے نصب تھے جنہیں اب ایک ہی کونے میں نصب کر دیا گیا ہے۔ ان مجسموں کو پارلیمنٹ کے احاطے میں نصب کرنے کی روایت رہی ہے اور اس کے لیے کمیٹی طے کرتی تھی کہ کون سا مجسمہ کہاں نصب کیا جائے گا، اس لیے درخواست ہے کہ ان تمام مجسموں کو پرانی جگہوں پر نصب کیا جائے۔
اس پر چیئرمین جگدیپ دھنکھر نے کہا کہ لوک سبھا اسپیکر نے انہیں پریرنا استھل کے افتتاح کے لیے مدعو کیا تھا اور انہوں نے اس کی نقاب کشائی کی ہے۔ وہاں تمام ممبرز کو جا کر دیکھنا چاہیے۔ تمام مجسمے ایک ہی جگہ پر نصب ہیں۔اس دوران پارلیمانی امور کے وزیر مملکت کرن رجوجو نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے ایک سنگین مسئلہ اٹھایا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں کسی مجسمے کو کسی کونے میں نصب نہیں کیاگیا ہے، بلکہ یہ پارلیمنٹ ہاؤس سرکلر ہے اور اس میں کوئی بھی گوشہ پیچھے نہیں ہے۔ تمام مجسموں کو ایک ہی جگہ پر نصب کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو ان کو دیکھنے میں آسانی ہو۔
اس پر مسٹر کھڑگے نے کہا کہ یہ مجسمے ان کے دفتر کے سامنے لگائے گئے ہیں۔ ان کے گھر میں بابائے قوم اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے مجسمے ہیں اور وہ صبح ان کو دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 برسوں میں اس حکومت نے صرف نعرے ہی دیے ہیں۔ اچھے دن آئیں گے، آتم نربھر بھارت، میک ان انڈیا، بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ، سب کا ساتھ سب کا وکاس اور 400 پار۔ اس حکومت نے سوائے نعروں کے کچھ نہیں کیا ہے۔ منی پور ایک سال سے جل رہا ہے، وزیراعظم وہاں دیکھنے بھی نہیں گئے۔ غریبوں کو تباہ کردیا گیا ہے، اس لیے اس بار غریب، نوجوان اور خواتین نے روک دیا۔
مسٹرکھڑگے نے کہا کہ عام انتخابات کے دوران دیہی علاقوں میں زیادہ ووٹنگ ہوئی، جب کہ شہری علاقوں میں کم۔ استحصال زدہ، مظلوم، غریب اور خواتین نے جمہوریت کو بچانے کا بہت بڑا کام کیا اور انڈیا گروپ کا ساتھ دیا۔ سماجی انصاف کی سوچ رکھنے والے لوگ اب بھی موجود ہیں۔ اس الیکشن کا نتیجہ ہے کہ حکمران جماعت کے لوگ آئین کو ماتھے پر لگارہے ہیں۔ اس ایوان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں جئے آئین سے بھی مسئلہ ہے۔ اس لیے آئین کو بچانے کی مہم ابھی جاری ہے۔ آئین کو ماتھے پر لگانے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ اس کی اقدار پر چل کر دکھانا ہوگا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پارلیمانی روایات کو کمزور کیا گیا اور اپوزیشن کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی پڑی۔ حکمران جماعت کا موقف تھا کہ اپوزیشن نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے 17 ویں لوک سبھا میں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ خالی رکھا گیا، جب کہ آئین میں اس کا التزام ہے۔ وہ لوگ آج جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ یہ کیسا جمہوری طریقہ ہے۔ یہ آئین کی پیروی ہے۔ یہ آئین اور جمہوریت کے منافی ہے۔ اسی ایوان میں وزیر اعظم نے اپنا سینہ ٹھوکتے ہوئے کہا تھا ایک اکیلا سب پر بھاری۔ آج ایک اکیلے پر کتنے لوگ بھاری ہیں۔ انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ آئین اور عوام سب پر بھاری ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا