راہل گاندھی اپوزیشن لیڈر منتخب

0
194

 

 

 

محمد ہاشم القاسمی
9933598528

پارلیمنٹ میں مسلسل دوسری مرتبہ منتخب ہونے والے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے مورخہ 26 جون 2024 بروز بدھ پارلیمنٹ میں مسلسل چوتھی مرتبہ منتخب ہونے والے کانگریس رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی کو حزب مخالف (اپوزیشن) لیڈر کی شکل میں باضابطہ منظوری دی۔ لوک سبھا سکریٹریٹ نے اس تعلق سے لوک سبھا جنرل سکریٹری اْتپل کمار سنگھ کے دستخط سے ایک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے. جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ "اسپیکر نے پارلیمنٹ ایکٹ 1977 کے تحت حزب مخالف لیڈروں کی تنخواہ اور بھتہ کی دفعہ 2 کے ضمن میں، لوک سبھا میں انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی کو 9 جون 2024 سے لوک سبھا میں حزب مخالف لیڈر کی شکل میں منظوری دی گئی ہے۔” در اصل 26 جون کو کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے کی رہائش گاہ پر ہوئی انڈیا بلاک کی میٹنگ میں راہل گاندھی کو حزب مخالف لیڈر بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے اسی دن لوک سبھا کے کارگزار اسپیکر (پروٹیم اسپیکر) بھرتری ہری مہتاب کو ایک خط بھیج کر کانگریس کمیٹی کے اس فیصلے کے بارے آگاہ کرایا تھا کہ راہل گاندھی حزب مخالف کے لیڈر ہوں گے۔ چنانچہ دستور کے مطابق 27 جون بروز بدھ اوم برلا لوک سبھا اسپیکر منتخب ہونے کے بعد راہل گاندھی کو حزب مخالف لیڈر کے طور پر منظوری دینے کا فیصلہ کیا، حزب مخالف (اپوزیشن) لیڈر کا عہدہ بہت اہم اور کابینہ وزیر کی سطح کا ہوتا ہے۔ ائینی عہدوں پر ہونے والی تقرریوں اور پارلیمانی کمیٹیوں میں بھی حزب مخالف لیڈر کا خاص کردار ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ دس سال بعد کانگریس کو حزب مخالف (اپوزیشن) لیڈر کا عہدہ ملا ہے۔ کیونکہ 2014 اور 2019 میں کانگریس کے پاس ارکان پارلیمنٹ کی اتنی تعداد نہیں تھی کہ وہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کر سکیں۔ دستور کے مطابق اس عہدے کے لئے کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس ارکان پارلیمنٹ کی کل تعداد کا کم از کم 10 فیصد ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس بار کانگریس 99 ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ اس دائرہ پر پہنچ گئی ہے۔ اب راہل گاندھی بطور قائد حزب اختلاف اس کمیٹی کا حصہ بنیں گے، جس میں سی بی آئی کے ڈائریکٹر، سنٹرل ویجیلنس کمشنر، چیف انفارمیشن کمشنر ‘لوک پال’ یا لوک آیکت، قومی انسانی حقوق کمیشن کے چیئر پرسن اور ممبران شامل ہوں گے۔ ان کا کردار الیکشن کمیشن آف انڈیا کا چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کی تقرر ی میں بھی ہوگا۔
ان تمام تقرریوں میں راہل گاندھی اپوزیشن لیڈر کے طور پر اسی میز پر بیٹھیں گے جہاں وزیر اعظم نریندر مودی بیٹھیں گے اور یہ پہلا موقع ہوگا جب ان فیصلوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کو راہل گاندھی کی رضامندی لینی پڑے گی۔
نیز راہل گاندھی کے اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد وہ حکومت کے معاشی فیصلوں کا مسلسل جائزہ لے سکیں گے اور حکومت کے فیصلوں پر تبصرہ بھی کر سکیں گے۔ راہل گاندھی ‘پبلک اکاؤنٹس’ کمیٹی کے سربراہ بھی بنیں گے، جو حکومت کے تمام اخراجات کی جانچ کرتی ہے۔ اور ان کا جائزہ لینے کے بعد وہ تبصرہ بھی کرتی ہیں۔
راہل گاندھی حزب اختلاف کے لیڈر بننے کے بعد لیڈر حزب اختلاف پارلیمنٹ ایکٹ 1977 کے مطابق لیڈر حزب اختلاف کے حقوق اور سہولیات بالکل وہی ہیں جو ایک کابینہ کے وزیر کی ہوتی ہیں۔ اب راہل گاندھی کو اپوزیشن لیڈر ہونے کی وجہ سے حکومتی سکریٹریٹ میں کابینہ وزیر کی طرح دفتر بھی ملے گا۔ کابینہ کے وزیر کو اس کے رینک کے مطابق اعلیٰ سطح کی سیکیورٹی بھی ملے گی۔ اور اسے ماہانہ تنخواہ اور دیگر الاؤنسز کی مد میں 3 لاکھ 30 ہزار روپے ملیں گے جو کہ ایک ممبر پارلیمنٹ کی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہوگی۔ سردست ایک ممبر پارلیمنٹ کو تنخواہ اور دیگر الاؤنس سمیت ہر ماہ تقریباً 2.25 لاکھ روپے ملتے ہیں۔نیز راہل گاندھی کو ایک سرکاری بنگلہ ملے گا جو کابینہ کے وزرائکو دستیاب ہے اور انہیں مفت ہوائی سفر، ریل سفر، سرکاری گاڑیاں اور دیگر سہولیات بھی حاصل ہوں گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ راہل گاندھی اہم کمیٹیوں میں اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔
پارلیمنٹ میں دس برس بعد لوک سبھا میں کوئی اپوزیشن لیڈر منتخب ہوا ہے۔ جس کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ اس دفعہ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ اور پارلیمانی اسپیکر اوم برلا کا راستہ آسان نہیں ہوگا۔ راہل گاندھی اور اکھلیش یادو نے واضح پیغام دے دیا ہے، راہل گاندھی پارلیمنٹ میں نومنتخب اسپیکر اوم برلا کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ "حکومت کے خیالات کی مخالفت کرنے والوں کے بغیر ایوان کو چلانے کا خیال غیر جمہوری ہے۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ آپ ہمیں اپنی آواز بلند کرنے، بولنے اور بھارت کے لوگوں کی آواز بلند کرنے کی اجازت دیں گے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ یہ ایوان کس طرح سے چلتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ایوان میں ہماری آواز کتنی سنی جا رہی ہے۔ جبکہ ملک کے عوام نے اپوزیشن کو زبردست حمایت دی ہے اور انہیں یقین ہے کہ آپ عوام کے جذبات کا مکمل احترام کریں گے۔ اس انتخاب نے ظاہر کیا ہے کہ بھارت کے عوام اپوزیشن سے آئین کی حفاظت کی توقع رکھتے ہیں۔” سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بھی اسپیکر کو مختصر پیغام دیا۔ انہوں نے کہا، ‘میں آپ کو اور اپنے تمام ساتھیوں کی طرف سے مبارک باد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔آپ جس عہدے پر فائز ہیں اس کے ساتھ شاندار روایات وابستہ ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ بغیر کسی امتیاز کے جاری رہے گا اور لوک سبھا کے اسپیکر کی حیثیت سے آپ ہر رکن اور پارٹی کو یکساں مواقع دیں گے۔پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کی بڑے پیمانے پر معطلی کا حوالہ دیتے ہوئے اکھلیش یادو نے کہا کہ غیر جانبداری اس عظیم عہدے کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کسی بھی عوامی نمائندے کی آواز کو دبایا نہیں جائے گا اور نہ ہی دوبارہ معطلی جیسا کوئی اقدام کیا جائے گا۔
اپوزیشن پر آپ کا کنٹرول ہے لیکن حکمران جماعت پر بھی آپ کا کنٹرول ہونا چاہیے۔ ایوان کو آپ کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے، ہم آپ کے تمام جائز فیصلوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپوزیشن کا بھی اتنا ہی احترام کریں گے جتنا آپ حکمران جماعت کا احترام کرتے ہیں اور انہیں اپنا موقف پیش کرنے دیتے ہیں۔ ” این سی پی (شرد پوار دھڑے) کی رکن پارلیمنٹ سپریہ سولے نے بھی درجنوں ارکان پارلیمنٹ کی معطلی کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ بہت کچھ ہو چکا ہے۔آپ نے 5 سالوں میں بہت اچھے کام کیے ہیں لیکن جب میرے 150 ساتھی معطل ہوئے تو ہم سب غمگین ہوئے۔ اس لیے آئندہ 5 سال کے لیے معطلی کے بارے میں نہ سوچیں۔ ہم ہمیشہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔”
راہل گاندھی کے حزب اختلاف لیڈر بنائے جانے پر انہیں بڑی تعداد میں مبارکبادیں موصول ہوئیں۔ ان میں سے مندرجہ ذیل ہیں، این سی پی کے سربراہ اور بانی شرد پوار نے دی راہل گاندھی کو مبارکباد، دیتے ہوئے کہا کہ” آئین و عوامی مفاد کے تحفظ کے سفر کے لیے نیک خواہشات” ان کے علاوہ مشہور اداکار کمل ہاسن، کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے ، شیوسینا یو بی ٹی لیڈر سنجے راوت، تامل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن سمیت کئی سیاستدانوں نے بذریعہ ’ایکس‘ راہل گاندھی کو حزب اختلاف لیڈر کا عہدہ ملنے پر اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ قبول کرنے کے بعد اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک ویڈیو پیغام پوسٹ کیا ہے جس میں انہوں کہا کہ "ملک کے عوام، کانگریس کارکنان اور انڈیا (بلاک) کے ساتھیوں کا مجھ پر بھروسہ ظاہر کرنے پر میں ان کا شکرگزار ہوں۔
انہوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا لیڈر صرف ایک عہدہ نہیں بلکہ یہ اپ کی اواز بن کر اپ کے مفادات اور حقوق کی جنگ لڑنے کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
میں اپ کا ہوں اورآ پ کے لیے ہوں، ہمارا ائین غریبوں، محروموں، اقلیتوں، کسانوں، مزدوروں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور ہم اس پر کیے گئے ہر حملے کا پوری طاقت سے جواب دے کر اس کی حفاظت کریں گے۔
پیغام کے اخر میں راہل گاندھی نے کہا کہ ’میں ا?پ کا ہوں اور اپ کے لیے ہی ہوں”.
راہل گاندھی لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے کی حیثیت سے گاندھی، نہرو خاندان میں یہ پوزیشن حاصل کرنے والے تیسرے شخص بن گئے ہیں۔ اپنی ماں کی طرح راہل گاندھی بھی رائے بریلی کے ایم پی رہتے ہوئے یہ ذمہ داری نبھائیں گے۔ راہل کے والد راجیو گاندھی خاندان سے پہلے اپوزیشن لیڈر تھے. راہل گاندھی کا لوک سبھا میں لیڈر اف اپوزیشن کا عہدہ قبول کرنا قابلِ تعریف ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب اْنہوں نے کسی ائینی عہدہ کیلئے اپنی منظوری دی ہے۔ بہرحال ، دیر سے ہی سہی، راہل گاندھی کا اس ا?ئینی عہدہ کا قبول کرنا کانگریس اس کے گٹھبندھن انڈیا کے لئے نیک فال ہے، کیونکہ سترہویں لوک سبھا میں راہل گاندھی واحد ممبر پارلیمنٹ تھے جنہوں نے رافیل سے لے کر اڈانی تک اور ہنڈن برگ رپورٹ سے لے کر منی پور تک کئی اہم اور سنگین موضوعات اْٹھائے۔ اپوزیشن کے کسی لیڈر نے اتنی جرات نہیں دکھائی جتنی راہل گاندھی نے دکھائی ہے۔ اس بات کو وہ لوگ بھی تسلیم کریں گے جو حکمراں طبقے کا حصہ تھے یا اس کے ساتھ تھے۔ اِس دوران راہل گاندھی نے دو بڑے کام اپنے اور کانگریس پارٹی کے لئے کئے: ایک تو سب سے زیادہ بے خوف رْکن پارلیمان کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی اور دوسرا یہ کہ دو یاتراوں کے ذریعہ "نفرت کے بازار میں محبت کی دکان” کھول کر ہر طبقے میں ہر دلعزیزی پیدا کی۔ اس کا فائدہ اْن کی پارٹی کو لوک سبھا الیکشن 2024 ء میں کچھ اس طرح ہوا کہ وزیر اعظم نریندر مودی جس پارٹی سے بھارت کو مْکت کرنا چاہتی تھے اْس نے اپنی سیٹیں دْگنی کرلیں اور جس راہل کی تحقیر و تذلیل کیلئے بڑے پیمانے پر مہم جاری کی گئی تھی، وہ عوام کا ہردلعزیز بن گیا اور گزشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیر اعظم مودی کے برابر کھڑا ہوتا دکھائی دیا۔ بلا شبہ راہل کی خود اعتمادی بڑھی ہے ، مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، اور ان کی پارٹی کی سیٹیں بڑھیں ہیں ، کانگریس کی سیاسی طاقت میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے اپوزیشن کو اپنے ہونے کا احساس ہوا اور حکمراں جماعت کو اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا. ***

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا