مذہبی اصولوں کے مطابق اساتذہ اکرام کا ڈیوٹی انجام دینا

0
210

 

 

محمد شبیر کھٹانہ
و سجاد احمد بٹ
کوئی بھی مذہب رزق حلال کما کر کھانے کی تلقین کرتا ھے کسی بھی عبادت کی قبولیت کے لئے رزق حلال اول شرط ھے جب کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شحص رزق حلال کما کر کھاتا ھے تو پھر اس کی کوئی بھی عبادت سخاوت اور ریاضت مالک دو جہاں تبارک تعالی قبول کرتاہے سخاوت کا مطلب ھے غریبوں مسکینو بیواؤں غرض مندو یا حاجت مندوں کی مدد کرنا اس طرح اس سخاوت کاثواب بھی تب ہی ملے گا جب حلال کی کمائی میں سے کسی کی مدد کی جائے گی
اب رزق حلال سے مراد یہ ھے کہ وہ رزق جو حلال کی کمائی سے خریدا گیا ہو اور حلال کی کمائی سے مراد ہے وہ کمائی جو پوری محنت لگن اور ایمانداری سے کام۔ کر کے کمائی گئی ہو تقوا کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ہر ایک استاد کو اپنے اندر اتنی قابلیت پیدا کر کے محنت سے کام۔ کرنا واجب بنتا ھے کہ جنتی قابلیت برابر عہدے پر کام۔ کرنے والے دیگر اساتذہ کے اندر موجود ہے وہی ٹیچینگ سکلز وہی ہنر استعمال کرنا َاس کے لئے لازمی ھے جو برابر کام کرنے والے اساتذہ اکرام میں پائے جاتے ہیں اور اتنی ہی محنت لگن اور ایمانداری سے کام کرنا اس پر فرض جے جتنی محنت لگن اور ایمانداری سے برابرعہدے پر کام کرنے والا کوئی بھی دوسرا استاد کام کرتا ھے
اتنی مہارت حاصل کرنا اس کے لئے ضروری ھے جتنی مہارت برابر عہدے پر کام کرنے والے استاد نے حاصل کی ھے پورا وقت یکساں کام۔ کرنا جو وقت کسی بھی اسکول کے سربراہ نے مقررہ کیا ھے یا پھر سرکار نے کام۔ کاج کے لئے مقررہ کیا ھے وہ تمام ٹیچینگ ایڈز استعمال کر کے کام۔ کرنا جو ٹیچینگ ایڈز ساتھ کام۔ کرنے والااستاد استعمال کرتا ہے
جب کوئی بھی فرد سرکاری نوکری حاصل کرتا ھے تو وہ وہ ایک انڈر ٹیکنگ دیتا ھے جو ایک قسم کا حلف ھے کہ وہ ساری سروس کے دوران پوری محنت لگن اور ایمانداری سے کام۔ کرے اپنی ڈیوٹی انجام دینے میں کسی بھی قسم۔ کی کوتائی نہیں کرے گا اب یہ تمام۔ کام کرنے کے عوض میں اس کو ایک شاندار تنخواہ بھی ملتی ھے اور یہ تنخواہ تبھی حلال ہو گی جب وہ محنت لگن ایماندار اور دیانت داری سے کام۔ کرے گا
یہ کام ایک سرکاری ملازم کے فرض کے ذمرے میں آتا ھے اور فرض تبھی پورا ہو گا جب متعلقہ سرکاری ملازم پوری محنت لگن اور ایمانداری سے کام کرے گا
اللہ تبارک تعالی نے کسی بھی فرد کو تعلیم کی لازوال دولت سے اس لئے نوازہ ھے کہ اس تعلیم کی بدولت وہ فرد ایک شاندار عہدہ حاصل کر کے سماج کی شاندار خدمت کر سکے یہ تمام خدمت بھی ایک عبادت ہے جو اللہ کو بہت ہی پسند ہے
اساتذہ اکرام کے کام۔ کاج کی ایک اہم اہمیت ھے جب ایک استاد کا پڑھایا ہوا شاگرد استاد بنتا ھے پھر وہ محنت اور لگن سے کام کرتا ھے اتنی محنت اور لگن سے کہ اس کے پڑھائے ہوئے شاگرد بھی استاد بن جاتے ہیں جب اس کے ہر ایک شاگرد کے شاگرد بھی استاد بنتے ہیں تو استاد کی تیسری جنریشن تک استاد بن گے جب تیسری جنریشن کے بننے والے اساتذہ اکرام محنت لگن اور ایمانداری سے کام کریں گے تو دوسری جنریشن کے اساتذہ اکرام اور پہلی جنریشن کے استاد کو بھی ان کی محنت ثواب ملے گا ایک اور بات جو قابل تحریر ھے وہ یہ کہ جو پہلی جنریشن کے استاد نے اپنا پڑھانے کا ہنر دوسری جنریشن میں منتقل کیا اور دوسری جنریشن نے کہ ہنر تیسری جنریشن تک منتقل کیا تیسری جنریشن اپنا ہنر چوتھی جنریشن میں منتقل کرے گی اس طرح یہ ہنر منتقل کرنے کا سلسلہ صدیوں تک چلتا رہے گا اور پھر ایک فرد کے پاس پڑھانے سے متعلق جو بھی ہنر تھا وہ صدیوں تک زندہ رہے گا دوسری طرف اگر ایک استاد کے پاس جو بھی ہنر تھا اور اپنا یہ ہنر منتقل نہ کر سکا تو پھر یہ اس کا تمام ہنر اس کی موت پر اس کے ساتھ قبر میں دفن ہو جائے گا ثابت ہوتاھے کہ کسی بھی استاد کو اپنے ہنر کو صدیوں تک زندہ رکھنے کے لئے محنت لگن اور ایمانداری سے کام۔ کرنا ضروری ھے
اب اگر پوری محنت لگن اور ایماندری سے کام۔ کرنے کے طریقے کے بارے میں سوچا جائے جو کہ مذہبی اصولوں کے مطابق کرنا اساتذہ اکرام کے لئے لازمی بنتا ھے تو یہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کو اچھی طرح لاگوں کرنے سے ممکن بنایا جا سکتا ھے اس کے لئے تمام اساتذہ اکرام کو NEP 2020 میں دی گئی کوالٹیز (qualities ) اور خوبیاں (values) اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ھے جس کی تفصیل حسب ذیل درج ھے
نیشنل ایجوکیشن پالیسی کے مطابق بچوں میں جن اقدار کو شامل کیا جانا ہے وہ تمام اقدار اساتذہ اکرام کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ھے تبھی اساتذہ اکرام یہ تمام اقدار بچوں میں پیدا کر سکیں گے اب اگر ان اقدار کا ذکر کیا جائے تو وہ ہیں تخلیقی صلاحیت اور تنقیدی سوچ ہیں تاکہ منطقی فیصلہ سازی اور اختراع کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ اخلاقیات اور انسانی اور آئینی اقدار میں ہمدردی، دوسروں کا احترام، خود کا احترام، صفائی، آداب، شائستگی، جمہوری جذبہ، خدمت کا جذبہ، سائنسی مزاج، آزادی، ذمہ داری، مساوات اور انصاف شامل ہیں۔ زندگی کی مہارتوں کی قدروں میں تعاون، ٹیم ورک، مواصلات، لچک شامل ہیں۔
چونکہ تعلیم عوامی خدمت ہے؛ اساتذہ اور فیکلٹی سیکھنے کے عمل کا دل ہیں NEP 2020 کے پیرا 0.13 میں بیان کردہ تمام اقدار Values کو اپنے اندر شامل کرنے کی ضرورت ہے اس کے بعد وہ بچوں (طلبا ) میں ایسی تمام اقدار پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔اگر کسی بھی استادکی ذاتی عزت کی بات کی جائے تو اس میں تعلیم اور علم کا مکمل احترام شامل ہے جو علم تمام اساتذہ کو نصیب ہوا ہے اور جس کی بنیاد پر ان سب نے ایک بہت ہی شاندار عہدہ بھی حاصل کیا ہے۔ اب ایسی تعلیم اور علم کا مناسب اور مکمل احترام یہ ہوگا کہ تمام اساتذہ اکرام یہ علم تمام بچوں کو انتہائی محنت لگن ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ خلوص اور مشنری جوش و جذبے کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی بشمول آئی سی ٹی لیبز اور سی اے ایل سینٹرز کا استعمال کرکے جدید تدریسی ہنر کا علم حاصل کرکے معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔ اگر تعلیمی نظام میں کوئی غفلت کا عنصر ہو اور وہ اپنی ہی تعلیم کی بے عزتی کر رہا ہو جو کسی سرکاری ملازم یا کسی شہری کے لیے آئینی قوانین یا محکمہ سکول ایجوکیشن کے قواعد و ضوابط کے تحت جائز نہیں اور اس سلسلے میں سب سے مضبوط اور طاقتور قانون خود NEP 2020 ہے اس کا مطلب ہے کہ کنٹرول کرنے والے آفسیران NEP 2020 کے تحت ایسے غیر ذمہ واروں کے خلاف کارروائی شروع کر سکتے ہیں جو اپنے ساتھ انصاف نہیں کر رہے یا اپنی تعلیم کا احترام نہیں کر رہے۔ اپنی تعلیم اور علم کا احترام کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک استاد پوری تیاری کے بعد NEP 2020 میں بیان کردہ تمام اقدار کو شامل کرنے کے بعد طلباء کو معیاری تعلیم پوری محنت لگن اور ایمانداری کے ساتھ فراہم کرے۔
استاد کا پڑھایا ہوا (طالب علم) جب قانون کی ڈگری حاصل کرتا ہے اور پھر اسی ڈگری کی بنیاد پر جج یا جسٹس کا عہدہ حاصل کرتا ہے اور جسٹس کی کرسی پر بیٹھ کر انتہائی قابلیت کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔ اب جب ایک استاد کے ایسے طالب علموں میں انصاف کرنے کی صلاحیت اور خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو پھر یہ کہ اس طرح کی صلاحیت قابلیت اور معیار تدریسی برادری کے تمام افراد یعنی اساتذہ اکرام میں کیوں نہیں پیدا ہوتے؟
جب اساتذہ NEP 2020 میں متعین تمام اقدار value اپنے اندر پیدا کریں گے تو ان کے مہربان ہاتھوں سے ناانصافی کا صفر فیصد امکان ہوگا کیونکہ NEP 2020 کے تحت اساتذہ اکرم کے لئے قابلیت کا ایک اعلی معیار مقررہ کیا گیا ھے
اب اگر NEP 2020 کے تحت اساتذہ کی مستقبل میں بھرتی پر غور کیا جاتا ہے تو مستقبل میں ان کے انتخاب اور تقرری کے لیے صرف ایسے امیدواروں پر غور کیا جائے گا جن کے پاس اساتذہ کی اہلیت کا امتحان (TET) ہوگا جو سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (CBSE) کے ذریعے منعقد کیا جاتا ہے۔ اگر اس طرح کے امتحان کے نصاب پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتا ہے کہ صرف ایسے امیدوار ہی ٹی ای ٹی TET کے امتحان میں کوالیفائی کر سکیں گے جن کے پاس بیس ہزار سے زیادہ مناسب الفاظ کا ذخیرہ ہو، مکمل فہم کی طاقت، عمومی علوم SST سائنس ریاضی کا کافی علم ہو، ہندوستانی سیاست اور شہریات اور انگریزی اور جو خود اظہار خیال یا اپنی طرف سے کسی بھی موضوع پر لکھنے میں کافی ماہر اور قابل ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس قابلیت صلاحیت اور کافی استعداد ہونی چاہیے کہ وہ اپنے انداز میں کسی بھی موضوع پر اس حد تک صحیح اور درست لکھ سکیں تاکہ کوئی بھی بڑے سے بڑا قابل اور ماہر۔ ان کی تحریر میں ایک بھی غلطی نہ نکال سکے۔ جہاں تک TET کوالیفائی کرنے کے لیے تعلیمی کارکردگی کا تعلق ہے تو اگر بارھویں جماعت تک کے نصاب میں سے سوالیہ پرچے مرتب کیے جائیں تو ایسے تمام امیدوار جو تمام پرچوں میں 90% سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کے قابل ہوں گے وہی اس امتحان کو کوالیفائی کر سکیں گے۔ اہم نوعیت کے اس امتحان میں یہ سب ایسے امیدوار کی کارکردگی کو ظاہر کرتا ہے جسے مستقبل قریب میں NEP 2020 کے تحت بطور استاد منتخب کیا جائے گا۔
اب NEP 2020 کے تحت معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے پہلے سے کام کرنے والے اساتذہ کو بھی اپنی قابلیت اور تدریسی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایسے امیدواروں کے جو کہ مستقبل قریب میں بطور استاد منتخب کیے جائیں گے اور یہ کام تمام اساتذہ مسلسل اچھی تعلیمی کتابیں پڑھ کر حاصل کر سکیں گے ہیں۔
اگر تمام استاد اپنے آپ سے مسابقت کی عادت ڈالیں گے جس کا مطلب ہے کہ ہر استاد کو اپنے تجربے میں اختراعی خیالات، فیصلہ سازی، مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت، تنقیدی یا منطقی سوچ، علم اور تدریسی صلاحیتوں میں ہر روز ہر پچھلے دن کے مقابلے میں اضافہ کرنے کی عادت پیدا کرنی چاہیے۔ یہ سب اس وقت ممکن ہوگا جب تمام اساتذہ اپنے اندر خود شناسی اور انصاف پسندی کی عادت پیدا کریں گے۔
ٹیچنگ کمیونٹی کے تمام ممبران کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اہم دستاویز یعنی NEP 2020 کو اچھی طرح سے پڑھیں، اسے اچھی طرح سمجھیں اور اپنے ملک کے سب سے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے مشنری جوش اور جذبے کے ساتھ اس تعلیمی پالیسی کو صحیح طریقے سے لاگو کرنے کے لیے خود کو تیار کریں تاکہ اس پالیسی کو اچھی طرح لاگوں کیا جا سکے۔ اس پر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے اور سوسائٹی کو سو فیصد فائدہ دیا جا سکے۔
اب اس مضمون کو لکھنے کا مقصد اس ذی عزت اخبار میں شائع کر کے تدریسی برادری کے تمام افراد خاص طور پر یونین ٹیریٹری جموں و کشمیر کے اساتذہ اور بالخصوص ضلع شوپیاں کے اساتذہ کو آگاہ کرنا ہے تاکہ اساتذہ خود کو مکمل طور پر علم کے حوالے سے اور قدار کو فروغ دینے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے خود کو تیار کر کے قابل اور لائق بن سکیں اور پھر یہ سب انتہائی موثر اور بہترین طریقے سے کام کر سکیں اور سماج اور ملک کو زیادہ سے زیادہ فائدہ دے سکیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا