’’ آج کے دور میں عزت نا پید ہو گئی ہے ‘‘

0
176

 

 

قیصر محمو د عراقی

کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت میں واپس جا رہے ہیں , اس زمانے میں جب انسان جانوروں کی طرح رہتے تھے تو حرام ، حلال ، جائز و ناجائز کی تمیز نہ تھی ، عزت و ذلت کا تصور نہ تھا ، ہر طاقت ور اور زور آور درندہ اپنے کمزور اور لڑائی سے عاری یا ناواقف کی جان ، مال اور عزت سب لوٹ لیتا اور اس کو پچھتاوا بھی نہ ہو تا کہ اس نے کچھ غلط کیا ہے بلکہ وہ سینہ تان کر کہتا تم دیکھو میں نے کیا خوب کام کیا ہے ، تو اس جیسے سبھی درندے اس کو داد دینے اور واہ واہ کر نے اکٹھے ہو جا تے اور اس کے بر عکس معصوم کے پاس سوائے چپ رہنے ، جبر سہنے اور بلا و جہہ خوف بد نامی کے سہہ جا نے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو تا ۔ کوئی حق اور انصاف کی بات نہ کر تا ، کوئی زور آور بد تمیز بے لگام بے حیا کے آگے سینہ سپر نہ ہو تا ، ہر کوئی اپنے ہی مدار میں گھومتا رہتا اور خود کے بچ جا نے میں عافیت جا نتا اور اس طرح اُس زمانے میں عزت و آبرو کا آنا جا نا ایک معمول سا بن گیا۔
قارئین محترم ! یہاں عزت و آبرو سے مراد جنسی عزت نہیں بلکہ کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچا نا ہے، کسی کی کردار کشی کر نا اور اس پر بہتان لگانا ، نیز اس کی معاشی زندگی کو تباہ کر نا ہے ۔ کیا آج ہم خود غرض نہیں بن گئے ، کیا آج معاشرے کا ہر انسان اس بات کا گواہ نہیں ہے کہ پھر سے معاشرے میں نا سوروں سے کسی کی بھی عزت اور جان و مال محفوظ نہیں رہی ؟ کیا آج پھر ہم اشرف المخلوقات کے اُتار ے گئے اصولو ں کو بھلا کر زندگیاں بسر نہیں کر رہے ہیں َ کیا آج پھر یہ معاشرہ عزت دار کو عزت دینے سے قاصر نہیں ہے ؟ کیا آج پھر جھوٹ کا بول بالا نہیں ہے ؟ کیا آج کا ہر ذی شعور ، پڑھا لکھا انسان خود کو اہلِ علم کہلانے والا ایک ڈر میں نہیں ہے ۔ آج یہ جو منفی پرا پگنڈا کر نے والے ٹولے ہر گلی ، محلے ، کوچے کوچے میں موجود ہیں ان کا مقابلہ کر نا ناگزیر ہو گیا ہے ۔ یہ سب کچھ جانتے ہو ئے بھی آج اہل علم نے چپ سادھ رکھی ہے اور بد معاشوں نے دھوم مچا رکھی ہے ۔ جن کے آگے کوئی عزت دار کھڑا نہیں رہ سکتا ۔
میرے دوستو، بہن اور بھائیو ! آپ مجھ سے اتفاق کریں یا نہ کریں ، آپ اپنے ارد گرد نظر ڈالیں آپ کو ہر انسان مشکل میں گھرا نظر آئے گا ۔ یہ مشکلات انسانوں کا ایک دوسرے کے لئے خو د پیدا کر دہ ہیں ۔ آج آپ کو ہمارے ملک میں عزت نام کی کوئی چیز نظر نہ آئے گی چونکہ کسی کی عزت محفوظ نہ رہی ۔ آج کوئی کسی کو عزت دینے کو تیار نہیں خواہ وہ عالم ہیں یا اساتذہ ، چیف جسٹس ہے یا وزیر اعظم ، وہ کلکر ک ہے یا آفسر دیکھو تو بک رہا ہے سب۔ کوئی عزت بچانے کے لئے بھاگا پھر رہا ہے اور کوئی عزت بنانے کے لئے جبکہ عزت آج کے دور میں ناپید ہو گئی ہے ۔ عزت مہنگی سے مہنگی ہو تی جا رہی ہے چونکہ عزت کمرشل ہو چکی ہے معاشرے کا ہر فرد چاہتا ہے لیکن دوسرے کو عزت دینے کے لئے تیار نہیں ۔ کبھی وہ عزت کے ہاتھوں مجبور بولتا نہیں اور کبھی عزت کے ہاتھوں مجبور سوچتا نہیں اور نہ ہی کبھی لکھ پا تا ہے ۔ جس معاشرے میں بلیک میل ہو تا ہے اُس معاشرے سے آج کا انسان عزت چاہتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ جس عزت کی تلاش میں لوگ سر گر داں ہیں وہ عزت آج کمرشل ہو گئی ہے ،بکنے لگی ہے ، بغیر پیسے کے عزت کو رکھنا نا ممکن ہو گیا ہے ۔ یہ وہی عزت ہے جس کے لئے انسان سب کچھ کر تا ہے ، جس کے لئے اس دنیا میں رہنے اور اخلاقیات سکھانے کے لئے کتابیں نازل ہو ئیں ، قانون بنے ، جنگیں لڑی گئیں ۔
قارئین ! عزت ہی ہے جس کے لئے چادر ، چار دیواری بنی تا کہ انسان ایک دوسرے کی جان و مال اور چادر و چار دیواری کی پاسداری کرے تا کہ اس کی عزت نفس بر قرار رہے اور زندگیوں میں اطمینان سکون آسکے ۔ چونکہ ہر انسان کو اس عارضی اسٹیج پر اپنی زندگی میں اپنا کردار ادا کر کے واپس لوٹ جا نا ہے ۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا نا گزیر ہو گا کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی بدلتے گئے ۔ اس دور جدید میں لوگ عزت کے نام کو ترسنے لگے جبکہ اسی دور جدید میں ہر کوئی جدت کو استعمال کر کے عزت کو چاہتا ہے لیکن عزت کسی کی نہ رہی ۔ ہم نفرتوں ، بہتان بازیوں ، بغض ، حسد اور لالچ میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ اس بات کا خیال بھی نہیں رکھتے کہ جو چیز آج اس دور حیات میں ہمیں میسر نہیں وہ کل کو ہمارے بچوں کو کہاں سے ملے گی ۔ اور اس عزت کی دھجیاں اڑانے میں سب سے کار آمد اور موثر ہتھیار یہ سوشل میڈیا ہے ، جس پر کسی کی بھی عزت اچھال دی جا تی ہے ۔
، کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔۵۸
mob:6291697668
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا