سید نثار بخاری
ڈائریکٹر سدرۃ المنتہی ایجوکیشنل فاؤنڈیشن
آپ کا اصل نام حضرت سید عبد الخالق حسین شاہ تھا ۔آپ کے والدمحترم حضرت سید نبی شاہ بن حضرت سید یتیم شاہ بن حضرت سید گلاب شاہ بن حضرت سید جمال شاہ رحمتہ اللہ علیہ بن حضرت سید تاج الدین شاہ رحمتہ اللہ علیہ تھے۔آپ کی ولادت باسعادت ضلع پونچھ کی تحصیل مہنڈر کے گاؤں کالابن میں 1947 عیسوی میں ہوئی۔ اور 10 رمضان المبارک 1445 ھجری 21 مارچ 2024 بروز جمعرات کی صبح 8:46 منٹ پر اس دارفانی سے دارالبقاء کی طرف کوچ کرگئے۔آپ دبستان علم و تحقیق کی معزز و مؤثر شخصیت، صاحب فہم و بصیرت، فضل و عمل اور خلوص و صداقت کے پیکر، فکر تصوف کے پاسبان تھے۔انکی پوری زندگی ملت کی خدمت سے عبارت تھی۔ وہ علم و عرفان کے حسین سنگم تھے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی دین و اسلام کی خدمت کیلئے وقف کردی۔ موصوف تقریبا چار دہائیوں سے اس علاقے میں بحثیت دہ امام کے منصب پر فائز رہے۔ انکا شمار ان بزرگ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جنکی دینی و علمی خدمات سے تاریخ کے بے شمار باب روشن ہیں۔ حضرت کا تعلق صوفی سلسلہ نقشبندیہ کے ایک نامور بزرگ قبلہ مکرم الحاج پیر خواجہ خادم حسین شاہ صاحب مدظلہ علیہ محلہ مرشد آباد سادات کالونی بستی کاریگراں پشاور روڈ واہ فیکٹری ڈاکحانہ ٹیکسلا ضلع راولپنڈی سے تھا ان کے ہاتھ پر 1965 عیسوی میں بیعت کی۔ نیز 1976 عیسوی میں بزریعہ بحری سفر حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔پیری مریدی کا سلسلہ بھی اپ کے ساتھ منسلک رہا ہزاروں لوگوں نے ان سے روحانی فیض حاصل کیا اور بہت نے ان کے ہاتھ پر بیعت لی۔راحل بزرگ کی پشت سے ایک فرزند ارجمند اوردو بیٹیوں نے تولت ہونے کا شرف بھی حاصل کیا۔ اپنے آبائی گاؤں میں تشریف اشرف رکھنے کے دوران حضرت فقرمیں اوردرویشی کے اعلیٰ مقام پر براجمان ہو گئے۔ حضرت غرباء اور مساکین کے لیے سرا پا ر حمت و شفقت کا مجسمہ تھے اور غریبوں سے بے مثال محبت و شفقت کی وجہ سے دنیا آپ کو ہمیشہ یاد کرے گی۔ آپ بڑے حلیم و بر د بار ، منکسر المزاج اور بڑے متوا ضع تھے۔آپ کے پیش نظر زندگی کا اصل مقصد تبلیغ اسلام اور خدمت خلق تھا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
بلاشبہ حضرت سادات کے طبقہ کی آبرو اور اہل سنت وجماعت کے علمی سالار تھے، انھوں نے تقریباً ۶۳ سال دربار حضرت چھوٹے شاہ بادشاہ پر بحثیت دعاگو اپنی خدمات انجام دیں اور ایک عرصہ تک حضرت سائیں بابا میراں بخش رحمتہ اللہ علیہ کی سنگت میں رہے اور ان اولیائے کرام سے روحانی فیض حاصل کرتے رہے۔ موصوف گاؤں کالہ بن اور مضافاتی علاقوں میں طریقت اور روحانیت کی نہ صرف شروعات کی بلکہ اس کو فروغ بھی دیا اور میلاد شریف کی محافل کا اغاز کیا ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتے ہی پورا علاقے میں میلادِ مصطفیٰ کی خوشی میں اِنعقادِ تقریبات کا آغاز کر تے۔ اور بالخصوص 12 ربیع الاول میں میلاد شریف پڑھتے موصوف محبت آمیز جذبات کے ساتھ یہ مہینہ مناتیتھے۔ان کا شوق تدریس اور سبق میں انہماک حضرات اکابر کی یاد تازہ کرتا تھا ، حقیقت یہ ہے کہ وہ فنا فی العلم تھے اور ان کی شخصیت سے علم کی خوشبو مہکتی تھی، علم ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، وہ اپنی مسلسل محنت اور علمی اشتغال کے اعتبار سے اسلاف کی یادگار تھے، ایسی شخصیت کا اٹھ جانا پوری جماعت اہل سنت کے لیے عظیم سانحہ ہے۔
جب کسی باعمل شخصیت کی موت کی خبر سننے کو ملتی ہے تو سمجھ دار انسان پر سکتے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے،اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہم کسی قریبی عزیز یا سرپرست کی شفقتوں سے محروم ہوگئے ،چلچلاتی ہوئی دھوپ میں بادلوں کا سائہ ہم سے ہٹ گیا ہے۔زمین قدموں کے نیچے سے سرک گئی ہے۔بہاریں ہم سے روٹھ گئی ہیں۔ اور دل میں خیال ابھرتا ہے کہ اب ہم روحانی توانائی کہاں سے حاصل کریں گے،سینہ غم سے تنگ ہوجاتا ہے،انکھیں پرنم ہوجاتی ہیں۔مگر جب ان کی وفات کے بعد ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند اس روحانی و صوفی بزرگ کو عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کیلئے جنازہ گاہ میں حاضر ہوئے جن میں ایک اچھی خاصی تعداد میں نوجوان پیڑی کے لوگ بھی شامل تھے۔ اور علمائے کرام و حفاظ کرام کے خوبصورت الفاظ اور دعائیں سننے کو ملیں تو دل گواہی دیتا ہے کہ بامقصد زندگی تو انہی کی تھی اور سعادت کی موت بھی انہیں کی ہے جو مرتے دم تک رب کا قرآن اور نبی کا فرمان سنا گئے،اور اپنے رب کے فضل اور نیک اعمال کے زریعے دنیا کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابیوں کو سمیٹ گئے۔
موصوف معرفت و شریعت کے علمبدار صوفیانہ شعر و ادب کامزاج رکھنے والے ایک ایسے ستارے تھے جو تا قیام قیامت تک کالابن میں صوفیانہ مزاج رکھنے والے خواتین و حضرات کے دلوں کو روشن اور منور کرتے رہے گے۔انہوں نے جو صوفیانہ اور عارفانہ کلام بالخصوص سیف الملوک اور دیگر صوفی شعرا کے اشعار ترنم کے ساتھ گنگنائے ہیں وہ آج بھی سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر بشکل visual موجود ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ماہ صیام کے صدقے سے راحل کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل اور اجر عظیم عطا فرمائے۔