گداگری مجبوری یا پیشہ

0
119

۰۰۰
محمد امین اللہ
۰۰۰
اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کا رزق مقرر کر دیا ہے۔ جب تک وہ اپنے رزق کا آخری دانا نہیں کھا لے گا اس وقت تک ا سیموت نہیں آنی ہے۔ انسان کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق اپنے جیسے ہم جنس کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ اک انسانکے لئے سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ وہ اپنے جیسے آدمی کے سامنے ہاتھ پھیلائے جب کہ وہ اپنا رزق کمانے کے لائق ہو۔ اللّٰہ نے یتیموں ، ناداروں ، غربا و مساکین کی داد رسی کا حکم دیا ہے بلکہ سورہ الماعون میں تو یہ فرمایا کیا تم نیاس شخص کو دیکھا ہے جو آخرت کو جھٹلاتا ہے یہ وہی تو ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور مسکینوں کوکھانا نہیںاللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم در یتیم تھے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے زیادہ کون اس مظلوم طبقے کا بہی خواہ ہوسکتا ہے۔قرآن مقدس میں اللّٰہ تعالیٰ نے یتیم و بے کسوں کی سرپرستی اور داد رسی کا حکم دیا ہے۔ زکوٰۃ ، صدقات اور خیرات میںغربا و مساکین کا حق مقرر کیا گیا ہے۔ یہ انفرادی خیر کا کام خدمت خلق خدا ہے اور نیکیوں میں اس کا افضل مقام ہے۔لیکن اک منظم ریاست کی موجودگی میں یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ ہر شہری کے لئے روٹی کپڑا مکان ، تعلیمو صحت اور انصاف کی فراہمی کا احسن انتظام و ذرائع مہیا کرے مدینے میں ابتدائی دور مسلمانوں کے لئے معاشی دقتوں اور پریشانی کا زمانہ تھا جنگ خندق کے وقت تو اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اسی دور میں اک صحابی جب دست سوال لے کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے انہوں نے یہ کہا کہ میرے پاس مٹی کا ایک پیالہہے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان سے وہ پیالہ منگوایا اور صحابہ سے کہا کہ تم میں سے کون اس کو خریدے گا اک صحابی نے دو درہم میں اسے خرید لیا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو اک درہم دیا اور کہا جاؤ بازار سے کلہاڑی خرید کر جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچو اور اک درہم سے کھانے پینے کی اشیاء خریدنا۔ صحابی نیبازار سے لکڑیاں خریدیں بیچا اور رزق کمانا شروع کیا۔ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کسی کو بھیک میں مچھلی نہیں دو بلکہمچھلی پکڑنا سیکھا دو۔ صاحب صحت آدمی کے کے لئے گدا گری لعنت ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اس پر پابندی ہے۔اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص صاحب صحت ہونے کے باوجود بھیک مانگتا ہے وہ قیامت میں اللّٰہ کے حضور ایسے پیش ہوگا کہ اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا اسلامی فلاحی ریاست میں گداگری اک قابل جرم عمل ہے وہ اس لیئے کہ ریاست کا بیت المال اپنے ہر شہری کے روزگاراور صحت و انصاف کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تو بچے کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ہی اس کاروزینہ بیت المال سے اس وقت تک مقرر دیا تھا جب تلک وہ برسر روزگار نہیں ہو جاتا تھا۔ آج بھی دنیا کے تمام ترقییافتہ ممالک میں UN employment وظیفے مقرر ہیں۔ سویڈن میں تو عمر لاء نافذ ہے اور سویڈن کی حکومت پیدائش سے لیکر موت تک ہر شہری کو روٹی کپڑا مکان صحت تعلیم اور انصاف فراہم کرنے کا ذرائع مہیا کراتی ہے۔ اس کیباوجود دنیا کے ہر خطے میں گداگری اک منظم پیشہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ بے شمار لوگوں نے گداگری کواپنا پیشہ بنا لیا ہے۔ اس میں مافیا کے گروہ بڑے سفاکانہ طریقے سے بچوں کو اغوا کرکے ان کو معذور کرتے ہیں اور ان کو شہر کے مختلف علاقوں میں بیٹھا کر ان سے بھیک منگواتے ہیں۔ یہ شہر کے چوکوں چوراہوں پر اپنی اجارہداری قائم کیئے ہوئے ہیں اس میں علاقے کی پولیس بھی ملوث ہوتی ہے۔ آج سوشل میڈیا کا دور ہے لہذا اب بہت سے گداگر اس کو استعمال کرتے ہیں اور مخیر حضرات سے کثیر رقم وصول کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس کو جدیدیت کارنگ دے کر جعلی خدمت کے ادارے بنا کر سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے کروڑوں روپے خدمت کے نام پرحاصل کر رہے ہیں۔ جعلی یتیم خانوں کے نام پر مائک لگا کر قرآن وسنت کا واسطہ دیکر گلی محلے میں مانگتے چلتے ہیں۔
اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہیسور ا ل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ایمان والے مالدار ہوں یا غریب ہر حال میں انفاق کرتے ہیںاس قرآن وسنت کی روشنی میں گداگری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب کہ سورہ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔ وہ سفید پوش لوگ تمہاری مدد کے مستحق ہیں جو اللّٰہ کے دین کے کام میں لگے رہنے کی وجہ سے مالی تنگی کاشکار ہونے کے باوجود کسی کے سامنے خود داری کی وجہ سے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔اکبر بادشاہ کے نورتن رحیم خان خانا نے کہا۔ماگن سے مرنا بھلا جے کیہو ماگن جائے۔اس سے پہلے وہ مرے ہے جن مکھ نکست نائے۔یعنی مانگنے سے مر جانا بہتر ہے جو کوء مانگتا ہے۔ مگر اس سے پہلے وہ مر جاتا ہے جو مانگنے والے کو نہیں دیتاہے۔آج سوشل میڈیا کا دور ہے لہذا کئی ایسے کروڑ پتی بھکاریوں کے انٹرویو بھی شائع ہو رہے ہیں جو بھیک مانگ کرکروڑ پتی بنے ہیں۔فی الحال کراچی سے اک نوجوان خوبرو لڑکی کا انٹرویو سوشل میڈیا کی زینت بنا جو اندھی بن کر پوش علاقوں میں
بھیک مانگتی تھی جس نے اسی گدا گری سے کروڑوں روپے کما کر ملیشیا میں کء فلیٹس اور ریسٹورنٹ کی مالک بنچکی ہے۔ آج تمام بڑے شہروں مسجد کے دروازے ، بازاروں ، ہوٹلوں چوکوں چوراہوں ، بس اڈوں اور بسوں کے اندر
پیشہ ور بھکاریوں کی اک بھیڑ نظر آتی ہے۔ حد تو یہ ہو گئی کہ عید بقر عید کے موقع پر تمام بڑے شہروں میں ہزاروںکی تعداد میں گاؤں دیہاتوں سے بھکاریوں کا ریوڑ آ جاتا ہے جس میں تو اکثر مصنوئی طور پر اپاہج بنے رہتے ہیں تاکہ لوگ ترس کھا کر زیادہ پیسے دیں۔اب تو منظم طریقے سے ہندوستان پاکستان کے گداگری کے مافیا کے ٹھیکیداروں نے سیکڑوں کی تعداد میں بھکاریوں کوحج اور عمرہ کے لئے بھیج رہے ہیں اور وہ لاکھوں ریال بھیک مانگ کر لاتے ہیں جس میں سے کچھ ان کو بھی ملتا ہیباقی ٹھیکے داروں کا ہوتا ہے۔ فی الحال ہی سعودی عرب نے ایسے سیکڑوں بھکاریوں کو گرفتار کرکے ڈیپورٹ کیا ہے۔ اک قابل ذکر تعداد ان بھکاریوں کی بھی ہے جو نشہ کے عادی ہوکر فٹ پاتھ کے باسی ہو جاتے ہیں یہ بھیک مانگتے ہیں اور چوریاں بھی کرتے ہیں۔ اس لعنت میں مبتلا تیسری دنیا کے غریب ممالک کے لوگ ہیں جہاں کے
حکمران بد عنوانیوں میں مبتلا ہو کر اپنی جیبوں کو بھرنے میں لگے ہوئے ہیں یہ تعداد ہندوستان ، پاکستان میں بہت زیادہ ہے۔اک فلاحی ریاست میں ہی اس لعنت کا خاتمہ ممکن ہے۔اک حیرت انگیز صورت حال یہ ہے کہ امریکہ ، یورپ اور جاپان جیسے G10 کے ممالک نے غریب اور تیسری دنیا کیکے ممالک کو قومی سطح پر I.M.F اور دیگر مالیاتی اداروں سے ملکر ان کو بھکاری بنا دیا ہے۔ پاکستان کا نمبر سرفہرست ہے آج پاکستان کی پہچان اک بھکاری ملک کے طور پر لیا جا رہا ہے اور اس ملک کو بھکاری بنانے میں ریاست پر حکمرانی کرنے والے وہ تمام عناصر ملوث ہیں جن میں سیاست دان، بیوروکریٹ ، اور پنڈی کے پنڈتوں کا کرداربنیادی ہے۔ یہ سب ملکر ملک کو کنگال بنا چکے ہیں۔ عام آدمی کا بھیک مانگنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر جب کوئی قوم
بھیک مانگنے لگے تو یہ المیہ سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے ملکوں کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔ اسعمل کو حکمران غیرت اور خود داری کے منافی بھی نہیں سمجھتے بلکہ اس کو ہنر بنا لیا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا