دستور ہند اور مسلمان_________

0
514

تحریر: محمد تحسین رضا نوری شیرپور کلاں پورن پور پیلی بھیت

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں طویل عرصہ تک مسلمانوں کی حکومت رہی، ایک ایسی حکومت جس میں تمام مذہب و ملت کے لوگوں کو ہر طرح کی آزادی کے ساتھ رہنے کا حق حاصل تھا، ان کے مذہبی اور سماجی حقوق کا پورا خیال رکھا جاتا، اسلامی سلطنت کے تمام بادشاہ امن و آشتی اور اخوت و محبت کا پیغام دیتے، اپنے ہوں یا بیگانے سب کی فریادیں سنتے اور حق فیصلہ کر کے مجرموں کو ان کے جرم کی سزا دیتے۔ تاریخ اس طرح کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے۔ پھر اچانک اس ملک کے امن و امان کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ ہندوستان پر فرنگیوں کا قبضہ ہو گیا، اور مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا خاتمہ کر کے انگریز پوری طرح سے ہندوستان پر قابض ہوگئے تھے، ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء میں جب ملک ہندوستان انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا تو دستور ساز اسمبلی نے قانون سازی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس میں سید محمد سعد اللہ بھی شامل تھے اور کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر بنائے گئے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے آئین ہند کا مسودہ ۴ مئی ۱۹۴۸ء میں تیار کر دیا تھا، پھر اس پر کافی بحثیں ہوئیں، اور کافی تحقیق و تفتیش اور چھانٹ بین کے بعد ۲ سال، ۱۱ مہینے اور ۱۸ دن میں ۲۶ نومبر ۱۹۴۹ء کو بن کر تیار ہوا اور اس کا نفاذ دو مہینے کے بعد ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو عمل میں آیا۔ آئین کے نفاذ کا دن چونکہ اہمیت کا حامل ہے اسی مناسبت سے یہ دن ۲۶جنوری کو ملک بھر میں یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

جس طرح سے علماء کرام اور مسلمانوں نے آزادی ہند میں اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی پرواہ کیے بغیر حصہ لیا تھا، اور کئی ہزار علماء کرام کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا تھا، اسی طرح دستور ساز اسمبلی میں تقریباً 35 مسلمان اور علماء کرام شامل تھے جنہوں نے آئین ہند کی تشکیل و ترتیب اور تحقیق و تخریج میں اہم رول ادا کیا ہے، ہندوستان کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے اور اخوت و مودت کو عام کرنے میں مسلمانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ آج ہندوستان کو جمہوری ملک کہا جاتا ہے وہ اس لیے کہ دنیا میں مختلف طرز کی حکومتیں پائی جاتی ہیں، لیکن ہندوستان کی موجودہ حکومت، جمہوری نظام کے تحت حکمرانی کرتی ہے، اس کی باگ ڈور براہ راست عوام کے ہاتھوں میں ہے۔ کیوں کہ جمہوریت کا مطلب ہے یہ ہے کہ ایسی طرز حکومت کو جس میں حاکمیت اعلیٰ اور اقتدار، جمہور کے نمائندوں کو حاصل ہو۔ ان نمائندوں کا انتخاب عوام کرتی ہے۔ جو اپنی پسند کا حکمراں چنتے ہیں، اور اسے ووٹ دے کر اپنا حاکم تسلیم کرتے ہیں، جمہوری ملک کے بے شمار فوائد ہیں، اس میں عوام کو کئی قسم کے حقوق حاصل ہوتے ہیں، اس کے بنیادی حقوق میں مساوات اور برابری شامل ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے تمام شہری حکومت کی نظر میں برابر ہیں، اس میں کسی طرح کی تفریق نہیں ہوتی، اس کے علاوہ بہت سے حقوق ہیں جیسے: اظہار رائے کی آزادی، اپنے اپنے مذاہب وعبادات پر عمل کرنے کاحق، تعلیم کا حق، ووٹ ڈالنے کا حق، اپنے مذہب کے مطابق شادی بیاہ کرنے کا حق، کسی قوم کی عبادت یا عبادت گاہوں پر کسی کو رد و بدل کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے ہندوستان کو جمہوری ملک کہا جاتا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا