ڈاکٹر احسان عالم
سید محمد خورشید حیات اپنے قلمی نام خورشید حیات سے معروف ہیں۔ ان کی پیدائش ۲۸؍ نومبر ۱۹۶۰ء کو رانچی میں ہوئی۔ انہوں نے مگدھ یونیورسٹی ، بودھ گیا سے ۱۹۸۴ء میں اردو سے ایم اے کیا۔ سائوتھ ایسٹ سنٹرل ریلوے زون ، بلاسپور میںملازمت اختیارکی۔ گزشتہ پینتیس برسوں سے بلاسپور ، چھتیس گڑھ میں قیام پذیر ہیں۔ انہوں نے صرف ۱۴؍ سال کی عمرمیں کہانی لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ ۱۹۷۴ء میں ان کی پہلی کہانی ’’انوکھی تبدیلی‘‘ رامپو ر ، یوپی سے نکلنے والے ایک رسالہ ’’نور‘‘ میں شائع ہوئی۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’ایڈز‘‘ ۲۰۰۰ ء میں منظر عام پر آیا ۔ ہندی زبان میں ایک افسانوی مجموعہ ’’سورج ابھی جاگ رہا ہے ‘‘ ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا۔ تخلیقی تنقید کے تحت ایک مجموعہ ’’لفظ تم بولتے کیوں ہو‘‘ دسمبر ۲۰۱۷ء میں شائع ہوا جو قارئین کے درمیان کافی مقبول ہوا۔ کئی کتابیں مثلاً ’’پہاڑ ندی عورت‘‘ (افسانوی مجموعہ ) اور ’’انوکھی تبدیلی‘‘ (بچوں کی کہانیاں) اشاعتی مرحلے میں ہیں۔
خورشید حیات کو ان کے ادبی کارنامے کے لئے کئی چھوٹے بڑے اعزازات و انعامات سے نوازا گیا ، جن میں چند اہم درج ذیل ہیں:
٭۲۵؍جنوری ۱۹۸۵ء کو گورنر بہار ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے ہاتھوں قاضی عبدالودود پر ہونے والے نویں ایشیا ء سیمینار میں انعام سے نوازا گیا۔
٭ ۱۲؍ اگست ۲۰۱۶ء میں ڈاکٹر منظر کاظمی نیشنل فکشن ایوارڈ
٭ مارچ ۲۰۱۸ء میںکلیم الدین احمد ایوارڈ
٭ ۲۰۱۸ء میں ’’لفظ تم بولتے کیوں ہو؟ کتاب پر اتر پردیش اردو اکادمی کا انعام
خورشید حیات کے اعزاز میں ’’آہنگ‘‘ گیا ، اپریل ۱۹۸۵ئ، ’’معلم اردو‘‘ ، لکھنو ، اکتوبر ۱۹۸۶ئ، ’’قوس‘‘ (نیا افسانہ نئے نام) ۱۹۸۵ئ، ’’پتر کار سدن‘‘ لکھنو ، جنوری ۔ مارچ ۲۰۰۱ئ، ’’شاعر‘‘ ممبئی ، نومبر ۲۰۱۰ئ، ’’لائف اینڈ لیجینڈ‘‘ ۲۰۱۸ء ، امریکہ ،’کاروان ادب ‘‘بھوپال ۲۰۱۸ء اور پنج آب ،مالیر کوٹلہ، جنوری ۲۰۲۰ء نے خصوصی گوشے شائع کئے ۔
انہوںنے افسانہ نگاری، تنقید اور نظمیں لکھیں ہیں۔ ان کے تحریروں سے دلکشی جھلکتی ہے۔ ان کی تحریروں کے منفرد انداز نے مشاہیر ادب کو کافی متاثر کیا ہے۔ چند نامور مشاہیر ادب کے تاثرات کا اظہار پیش کرنا یہاں لازمی سمجھتا ہوں۔
٭خورشید حیات کی تحریروں پر اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے معروف ادیب احمد سہیل لکھتے ہیں:
’’ خورشید حیات کی تخلیقی تنقید میں خلاقانہ شعور اور فطانت موجود ہوتی ہے۔ ’لفظ تم بولتے کیوں ہو؟‘ میں وہ اپنے کئی معروضات اور نکات سامنے رکھتے ہیں تو اس میں تخلیقی نوعیت کے عناصر کہیں نہ کہیں لاشعوری طور پر بہتے دکھائی دیتے ہیں جس کو ’حیات تنقید‘ کے لاشعور کا ادراک اور محرکات بھی کہا جاسکتا ہے۔
خورشید حیات کی تخلیق کی جمالیات کی ہیئت اور ساخت کو زیرک اور باشعور قاری ہی محسوس کرسکتا ہے کہ اس من و تو کی دنیامیں ایک دانشور یا عالم بھی وجود میںا ٓجاتا ہے۔ جو کسی نہ کسی طور پر کسی کرشمہ قدرت سے کم نہیں ہوتا۔ یہی خورشید حیات کی تخلیقی تنقید کا خمیر ہے۔
اردو ادبی تنقید میں جہاں ’قحط الرجال‘ ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ کوتاہ ذہنی اردو ادبی انتقاد کو دیمک کی طرح کھوکھلا کررہی ہے۔ وہیں خورشید حیات اردو کے پہلے تخلیقی نقاد ’میرا جی‘ کی راہ پر چلتے نظر آتے ہیں۔‘‘
٭ڈاکٹر ابرار رحمانی نے خورشید حیات کی تخلیقات سے متاثر ہوکر اپنے خیالات کا اظہار ان جملوں میں کیا ہے:
’’خورشید حیات کا ’ادب کا بدلا ہوا چہرہ‘ پسند آیا۔ اس وجہ سے نہیں کہ اس میں ناچیز کا بھی ذکر ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ اس میں بے باکانہ باتیں کہی گئی ہیں۔یہ بھی صحیح ہے کہ بعض باتیں متنازع فیہ اور قابل توضیح ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر کتنے چغادریوں نے پہلو بدلے ہوں گے۔ یہ حالات آپ کے لئے پریشان کن ضرور ہوں گے۔ لیکن اس سے گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔‘‘
(ڈاکٹر ابرار رحمانی ،مژگاں کولکاتا، شمارہ ۲۶۔۲۵)
٭مشہور ناقد حقانی القاسمی (نئی دہلی) نے اپنے قلم کا جادو دکھاتے ہوئے خورشید حیات کی متاثر کن تخلیقات کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’خورشید حیات ایک نکتہ شناس تخلیقی ذہن کانام ہے جو ہر ایک شئے کوگنگوتری کے تازہ پانی کی صورت میں دیکھنے کا عادی ہے۔ ان کی ہر تحریر میں ایک نئی برقِ تجلی ملتی ہے اور ایک نیا طور بھی۔ انھوں نے اپنی تخلیقی مسافت میں تنقیدی ادراک و بصارت کو بھی شامل کررکھا ہے۔ تنقید بھی ان کی ایک نئی جولان گاہ ہے۔ وہ تخلیق اور تنقید کے امتزاج سے ادب کی نئی تختیاں تحریر کررہے ہیں۔ ان تختیوں پر بہت سے گمنام اور فراموش کردہ شخصیتوں کے چہرے بھی روشن ہیں۔وہ اجاڑ اور ویران علاقوں کو بھی اپنے لفظوں سے آباد کررہے ہیں۔ ان کے یہاں لفظ بولتے ہیں اور بولتے بولتے جو لفظ خاموش ہوجاتے ہیں ان میں بھی بڑی توانائی ہے۔‘‘
اب مضمون کے اصل موضوع پر لوٹتے ہوئے خورشید حیات کی افسانہ نگاری پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔
خورشید حیات ۱۹۸۰ء کے بعد کی نسل سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے کلام حیدری اور غیاث احمد گدی کی سرپرستی میں اپنا تخلیقی سفر شروع کیا ۔ ان کے افسانوں کا مطالعہ ہمیں افسانوی فضا سے دور کسی ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں ہم زندگی کے بنیادی مسائل پر غور کرنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔
خورشید حیات کے افسانوں کا پیرایۂ بیان گر چہ علامتی ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ انسانی شعور اور فہم سے باہر ہو۔ ان کی علامتیں بامعنی اور سمجھ میں آنے والی ہوتی ہیں۔نئے عہد کے سماجی مسائل اور انسان کے دُکھ درد کی بڑی خوبصورتی سے عکاسی کی ہے۔ وقت اور حالات کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے انہوں نے اپنا ادبی سفرجاری رکھااورافسانوی ادب میں نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔ خورشید حیات چار دہائیوں سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے کم لکھا ہے لیکن کم لکھنے کے باوجود اردو افسانے کو کئی خوبصورت اور شاہکار کہانیاں دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے افسانوی ادب میں اپنی منفرد اور مستحکم شناخت قائم کر لی ہے۔ ان کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو اپنی گرفت میں اس طرح لے لیتے ہیں کہ قاری افسانہ ختم کرکے ہی دم لیتا ہے۔
خورشید حیات اخلاقی قدروں کے زوال اور معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ختم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں ان برائیوں پر زیادہ روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیںمگر اشاروں کنایوں میں۔ ’’دائرے کا قیدی‘‘ ’’طوفان میں دستک‘‘ ’’وقت کے احاطے میں‘‘ اور ’’سوالیہ نشان کے نیچے کا نقطہ‘‘ان کے اچھے افسانے ہیں۔
’’ایڈز‘‘ کے عنوان سے خورشید حیات کا ایک مختصر افسانہ بہت مقبول ہوا۔ ان کا تخلیقی فن و شعور، تہذیبی اور تمدنی یافت کی وہ ابتدائی منزل ہے جہاں سے اکیسویں صدی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ان کے سبھی افسانے مشرقی اقدار حیات، شعور و احساس کے ترجمان ہیں۔ ’’ایڈز ‘‘ کا موضوع محتاج تعارف نہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح اس بیماری نے کافی تیزی سے اپنا پائوں پھیلا رکھا ہے۔ حرص و ہوس نے انسانی جسم کے اندر کی قوت چھین لی ہے۔
خورشید حیات کے افسانے ’ پہاڑ ۔ ندی۔ عورت‘ ،’ خبر ہونے تک‘ ،’آدم خور‘ اور ’سورج ابھی جاگ رہا ہے ‘ قارئین کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ تمام افسانے کائنات اور موجودات پر گہرے سوالیہ نشان کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور ہمیں کائنات پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ان افسانوں میں کہانی پن کم اور فکری تمثیل کا عنصرزیادہ ہے۔ ان فکری بنیادوں کا اثر ان کے افسانوں پرایسا ہے کہ افسانے کی پہلی قرات دوسری قرات کے مقابلے میں دب کر رہ جاتی ہے۔ قصہ کوئی بھی ہو اس پر ان کا کائناتی عمل جاری ہو جاتا ہے۔ گویا قرات اوّل پر اکتفا کرنا یا اس کو محدود کردینا ان کے اختیار سے باہر جاتا ہے۔ ’ پہاڑ۔ ندی۔ عورت‘ میں پہلی قرات تو قدرتی آفات سے متعلق ہے مگر دوسری قرات آندھی اور طوفان کے آفاقی نظام اور قدرتی آفات سے آگے بڑھ کر اس کے اسرار و تحیّر کی حکایت بن گئی ہے۔ پہلی قرات فوری واقعہ کی طرف لے چلتی ہے مگر دوسری قرات اسی فکری نظریہ حیات کو اپنے اندر شامل کرلیتی ہے جو اس کائنات اوراس کے تمام اسرار کی کنجی ہے۔ د’ خبر ہونے تک ‘ اور ’ سورج ابھی جاگ رہا ہے‘ میں دوسری قرات میں کائنات کی سیر کرائی گئی ہے۔ دونوں افسانے تحیّر سے پر ہیں۔ ’خبر ہونے تک ‘ میں مو ت کا پہلو بھی لیا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موت سے آزادانہ طور پر افسانہ نگار معنی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر موت اس کی کوشش کو بے معنی بنا دیتی ہے۔
خورشید حیات نے اپنے افسانے’’ نروان‘‘ میں کچھ فلسفیانہ سوالات مرتب کیے ہیں لیکن افسانے کی مجموعی فضا کو ہر جگہ بوجھل ہونے سے بچایا ہے۔ خورشید حیات ایک ذہین، حساس اور جینوئن افسانہ نگار ہیں اور اپنے تخلیقی سفر میں ایماندار نظر آتے ہیں۔ انہوں نے تقریباً دس برس افسانہ تحریر کرنے سے خود کو روکے رکھا۔ ا س کی وجہ اپنی گھریلوں ذمہ داریوں کو بتاتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے دس برسوں تک اپنے ذہن میں افسانے خلق کرتے رہے اور اب انہیں قارئین کے سامنے پیش کرکے اپنے افسانوں کو نئی سمت میں روشن کررہے ہیں۔ نئی صدی کے آغاز میں خورشید حیات نے کئی عمدہ افسانے لکھے ہیں جن میں’’ پہاڑ ندی عورت‘‘ آدم خور، ’’ پانچ انگلیاں‘‘، ’’ آنگن میرے گھر کا ‘‘،’’ تتلی سہیلی حویلی‘‘ وغیرہ ان کے نمائندہ افسانے ہیں۔
خورشید حیات کے افسانے سے متاثر ہوکر ڈاکٹر حسین آرزو نے ان کے افسانوی صلاحیت کو اپنے منفرد لہجے میں پیش کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’خورشید حیات نے علامتی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ تجریدی بھی اور اور بھی۔ وہ علامتوں کا سہارا لے کر ایک نئی دنیا کو تلاش کرتے ہیں۔ اور اس فن کو چابک دستی سے تلاش کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں کہ ان کے طرز ادا میں کہیں بھی جھول نہیں معلوم ہوتا ہے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کامیاب کہانی کار کو اس کے نظریات اور مشاہدات میں بیکراں وسعت کے ساتھ اس کے اسلوب بیان میں ایک نیا انداز بھی چاہئے۔ ان کا انداز بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ افسانوں کے لئے نیک فال ہیں۔‘‘
واقعی خورشید حیات افسانوی ادب کے لئے نیک فال ہیں۔ آج بہار میں بہت سے افسانہ نگار ہیں لیکن خورشید حیات کا لہجہ سب سے منفرد ہے۔ ان کے جملوں کی چاشنی قارئین کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی۔ خورشید حیات نے حقوقِ انسانی کے موضوعات کو برتنے میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ ان کے افسانوں کے مواد میں ایسی باتیں کثرت سے مل جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے حقوقِ انسانی کے موضوعات کو ٹچ کرتی ہیں۔
مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خورشید حیات کی افسانوی کائنات بڑی وسیع ہے۔ان کے افسانوں کے موضوعات میں ایک تنوع پایا جاتا ہے۔ انہوںنے اپنے افسانوںمیںاپنے عہدکے جلتے موضوعات کو بھی فنی پاسداریوں کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ افسانوی ادب کی تاریخ میں ان کا نام سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔
٭٭٭
Dr. Ahsan Alam
Principal Al-Hira Public School
Moh: Raham Khan, P.O. Lalbagh, Darbhanga-846004
Mob: 9431414808