حافظؔ کرناٹکی
دارالحافظ، جے نگر،شکاری پور
ضلع شیموگہ، کرناٹک
حیدر بیابانی صاحب ایک خاموش طبع شاعر و ادیب تھے، ان کے مزاج میں سادگی اور انکسار کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ ان سے میری بہت زیادہ ملاقاتیں نہیں تھیں مگر ان سے ایک خاص قسم کا رشتہ ضرور تھا۔ ان سے ایک ملاقات بمبئی کے مشاعرے میں ہوئی۔ تب بھی وہ بہت بھولے بھالے اور خاموش طبع لگے پھر جب میں نے شکاری پور میں ادب اطفال پر ایک دور روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا تو انہیں بطور خاص دعوت دی۔ اور وہ بغیر کسی معذرت کے راضی خوشی شکاری پور تشریف لائے۔ وہ ہمارے ساتھ دو دنوں تک رہے۔ مگر ان کی سادگی اور کم گوئی دور نہیں ہوئی۔ گویا کم بولنا، اور زیادہ سننا کے فارمولے پر کا ربندرہنے والے انسان ہوں۔ اچھی بات یہ ہے کہ وہ جتنا کم بولتے تھے اتنا کم لکھتے نہیںتھے۔ دوسرے لفظوں میں اسے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ زبان سے کم مگر قلم سے زیادہ بولتے تھے۔ وہ اردو ادب اطفال کے ایسے باکمال فنکار تھے جن کا فن بولتا تھا۔ ان کی خاموشی گراں نہیں گذرتی تھی۔ کیوں کہ ان کی خاموشی میں بھی ایک خاص طرح کی معنیٰ خیزی اور اپنائیت ہوتی تھی۔ وہ جب شکاری پور آئے تھے تو بہت صحت مند نظر نہیں آتے تھے۔ مگر توانا تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ کتابیں ہی ان کی خوراک تھی۔ اور غور و فکر ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ انہوں نے اردو ادب اطفال کو بہت ساری عمدہ عمدہ اور دلچسپ کتابیں دی ہیں۔ ان کی نظموں میں موضوعات کی پابندی اور اس کی وضاحت کے باوجود بلاکی چاشنی اور شعریت پائی جاتی ہے۔ کسی بھی بات کو دلچسپ انداز میں پیش کرنے میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ان میں شعر گوئی کا بڑا مادہ پایا جاتا تھا۔ میں اس سے پہلے بھی ان کی شاعری کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون لکھ چکا ہوں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ ان کی ہر کتاب پر ایک بھرپور مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت میرے پیش نظر ان کی کتاب ’’ننھی منی باتیں‘‘ کے دو حصّے یعنی حصّہ چہارم، ششم ہیں۔ مجھے ٹھیک سے نہیں معلوم ہے کہ یہ کتاب کتنے حصوں پر مشتمل ہے۔ صرف ان دوحصوں میں ان کی ایک سوپچیس دلکش نظمیں شامل ہیں۔ اس تناظر میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کس تعدادمیں نظمیں کہی ہوں گی، کیوں کہ ان کی تین درجن سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ حیدر بیابانی نے سچ مچ اپنے زرخیز قلم سے اردو ادب اطفال کے سرمایہ میں اضافہ کیا ہے۔ وہ دوباتیں کے تحت رقم طراز ہیں کہ؛
’’کتاب ننھی منی باتیں‘‘ چہارم پیش ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام نظمیں ملک و بیرون ملک مختلف اخباروں، رسالوں اور درسی کتابوں میں شامل ہو چکی ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارا لکھا، بچوں کا شعری ادب بچوں اور بڑوں کو یکساں طور سے پسند آتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کو کچھ اتنا پسند آجاتا ہے کہ وہ اس کی نقل کرنے، اسے ہتھیانے یا اسے چوری کرنے پر اتارو ہوجاتے ہیں۔ ہمارے خوشہ چینوں میں چھوٹے بڑے سب شامل ہیں۔ ہمارے ادب میں سرقہ کی یہ لت ایک مدت سے چلی آرہی ہے۔ چوروں کے اس ٹولے میں بڑے بڑے نام نہاد لوگوں کے ساتھ چھوٹے بڑے ادارے بھی نظر آتے ہیں۔اس لیے ہمارے چھوٹے بڑے قارئین سے درخواست ہے کہ وہ ادب کے ان خوشہ چینوں پر نظر رکھیں۔ اور خود بھی کاشانۂ ادب میں داخل ہونے کے لیے کسی چور دروازے کا استعمال کریں۔‘‘
حیدر بیابانی کے اس پیش لفظ سے صاف ظاہر ہے کہ انہیں کس قسم کی اذیتوں سے گذرنا پڑاتھا۔ مگر یہ ان کی اعلیٰ ظرفی کہی جائے گی کہ انہوں نے جانتے ہوئے بھی کسی کا نام نہیں لیا۔ نہ کسی انسان کا نہ کسی چھوٹے بڑے ادارے کا۔
بچوں کے شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ اکثر اس قسم کی ناانصافیاں ہوتی رہتی ہیں۔ پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ بچوں کے شاعروں اور ادیبوں کے مال پر ہاتھ صاف کرنے میں کبھی کوئی تکلّف سے کام نہیں لیتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی صاحب بچوں کی نصابی ضرورت کے لیے کتابیں مرتب کرتے ہیں تو جن شاعروں کی نظمیں انہیں پسند آتی ہیں۔ انہیں اپنی کتابوں میں ان کی اجازت کے بغیر نہ صرف یہ کہ شامل کرلیتے ہیں بلکہ شاعر کا نام لکھنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ یہی کام ادارے انجام دیتے ہیں۔ حالاں کہ اردو میں شاعروں اور مصنفوں کو رائلٹی دینے کی روایت تویوں بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس بد دیانتی کی روایت کا سلسلہ دراز ہی ہوتا جارہا ہے۔ بہرحال یہ تو کچھ جملۂ معترضہ قسم کی باتیں درمیان میں آگئیں۔ مگر کیا کیجئے گا کہ ادب اطفال کے فنکار کا درد ادب اطفال پر لکھنے والا بھی بیان نہیں کرے گا تو دوسرا کون کرے گا۔
دوسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ کہ حیدربیابانی بھلے سے بہ حیثیت شاعر کے مشہور و مقبول ہیں مگر انہیں نثر پر بھی اچھی گرفت حاصل تھی۔ اور خوبی کی بات یہ تھی کہ وہ بچوں کے مزاج کے مطابق نثر لکھنے پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ اگر کچھ نہیں تو صرف ان کی کتابوں پر لکھے گئے ان کے پیش لفظوں پر ہی نظرڈال لی جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ بچوں کی توجہ حاصل کرنے میں کتنی مہارت سے کام لیتے تھے۔ اور یہ بھی کہ جب وہ مختصر سا پیش لفظ لکھتے تھے تو اس میں بھی لطف پیدا کردیتے تھے۔ ایسی سادہ، پراثر، اور دلچسپ نثر لکھنا آسان نہیں تھا۔ اور نہ ہے۔ مگر حیدربیابانی نے اس مشکل کام کو بھی آسان بنادیاتھا۔ ملاحظہ فرمائیے؛
پیارے بچو!
آپ کے شعری ادب کی ایک اور کتاب پیش ہے۔ دیکھئے، پڑھیے اور ہمیں اپنی معصوم دعاؤں میں یادرکھیے، بچوں سے باتیں کرنا، بچوں کی باتیں کرنا، اور بچوں سی باتیں کرنا اب ہمارے معمولات میں شامل ہوگیا ہے۔
عزیزو! آپ کے دلوں میں کیا ہے؟ آپ کے دماغ کیا سوچتے ہیں اور آپ کے جی کیا چاہتے ہیں ان سب کا علم ہمیں بہ خوبی ہے۔ ہر کسی کو بھی ہونا چاہیے کیوں کہ ہر کوئی کبھی نہ کبھی آپ جیسا ایک بچہ ضرور ہوگا۔ لیکن ہماری بات ذرا ان سب سے الگ ہے ہم نے تو اس پکی عمر میں بھی اپنے دل و دماغ کو آپ کے لیے ایک بچہ بنارکھا ہے۔
عمر ہماری پچپن ہے
لیکن اب تک بچپن ہے
ایک توحیدر بیابانی کی نثر کی سادگی، دوسرے حیدربیابانی کا انداز تخاطب دونوں مل کران کی تحریر کو جاذبیت عطا کرتی ہے۔ اور پھر ان کا لہجہ ایسا اپنائیت سے بھرا کہ بچے اپنے آپ ان سے قریب ہوجاتے ہیں۔ یہ خوبی بہت کم بچوں کے ادیبوں کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ دوسری بات جو قابل توجہ ہے وہ حیدربیابانی کا اعتماد ہے۔ اسی لیے وہ اتنی صفائی سے بچوں کو بتارہے ہیں کہ میں آپ کی سوچ، فکر اور آپ کی پسند کو بہت اچھے سے سمجھتا ہوں۔ بچوں کا جو بھی شاعر اور ادیب اس خود اعتمادی کی دولت سے مالامال ہوگا وہ بچوں کے دل میں ضرور جگہ بنالے گا۔ آج حیدربیابانی صاحب جس طرح بچوں کے دلوں کی دھڑکن بنے ہوئے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں کی فطرت سے آگاہی ہے۔ اب آئیے حیدربیابانی کی نظموں کی کرشماتی دنیا پر نظر ڈال لیں۔ تا کہ پتہ چل سکے کہ ان کی شاعری کی زبان سادگی میں کیسی پرکاری رکھتی ہے۔
روز سویرے نیند سے تم اٹھ جاتے ہو
ہر چھت پر ہر آنگن میں لہراتے ہو
ہر کھڑکی سے جھانک کے دستک دیتے ہو
کُھلواکے سب دروازے دم لیتے ہو
اپنی عادت ہم سب کو دے جاؤ نا
سورج بھیا نیل گگن سے آؤ نا
(سورج بھیا)
گھنگھور بادلوں پہ زمانے کی ہے نظر
پریاں اتر رہی ہیں فلک سے زمین پر
رستے دھلے ہوئے ہیں نہائے ہوئے درخت
پھل پھول کو بدن پہ سجائے ہوئے درخت
ہم نے بڑا کیا ہے انہیں پال کر حضور
کرنی کا پھل ملے گا ہمیں ایک دن ضرور
کل چھاؤں دیں گے آج لگائے ہوئے درخت
پھل پھول کو بدن پہ سجائے ہوئے درخت
(خدا کے بنائے درخت)
یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر اب تک سیکڑوں شاعروں نے قلم اٹھایا ہے، اور اپنے فکر کے گل بوٹے اگائے ہیں۔ لیکن حیدربیابانی نے سیکڑوں بار استعمال میں آنے والے موضوعات اور عناوین پر اس طرح قلم اٹھایا ہے کہ اس میں نئی تازگی ،چاشنی اور جان بھردی ہے۔ ان نظموں کو پڑھتے ہوئے بالکل ایسا نہیں لگتا ہے کہ ہم بار بار پڑھی ہوئی نظموں کی بے مزہ جگالی کررہے ہیں۔ دراصل یہی چیز کسی بھی شاعر کو انفرادوامتیاز بخشتی ہے۔ ان کی نظم ’’قدرت کے تحفے‘‘ دیکھیے؛
قدرت نے تحفے بھجوائے
کیا اچھے اچھے بھجوائے
بارش کے ہاتھوں سے بھیجے
ہریالی کے یہ غالیچے
میٹھے میٹھے پھل چن چن کر
رکھ کر ان پیڑوں کے سرپر
پودوں نے لائے گلدستے
رنگ برنگے پھول مہکتے
مٹی لائے دانا پانی
ہُن برسائے برکھا رانی
بھجوائی برسات گھٹا سے
خوش بو کی سوغات ہوا سے
دھوپ کی دولت ہم کو بانٹے
اپنے سورج کے ہاتھوں سے
چاند کے ہاتھوں روشن کردی
اپنی کالی پیلی دھرتی
آئیں جھرنے دریا، ساگر
پانی کی سوغاتیں لے کر
رات سہانی دن مستانے
بخشے ہیں کیا خوب خدا نے
شکر کریں کس کس نعمت کا
کیا کہنے اس کی قدرت کا
یہ نظم صرف اس لیے اچھی نہیں لگتی ہے کہ زبان صاف، رواں، اور شستہ استعمال کی گئی ہے، یہ نظم اس لیے بھی اچھی لگتی ہے کہ شاعر نے نہایت ہنر مندی اور خوب صورتی کے ساتھ ایک چیز کا رشتہ دوسری چیز سے جوڑ کر بچوں کے تخیل کی قوّت میں اضافہ کیا ہے۔ وہ بھی اس بے ساختگی اور روانی کے ساتھ کہ کسی بھی جگہ تصنع اور بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ بچے تصنع، بناوٹ، اور پندونصیحت سے گھبراتے ہیں انہیں لطف کلام کے سے انداز میں اشارے کنائے میں جو بھی باتیں سمجھائی جائیں وہ آسانی سے سمجھ لیتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیال، فکر، اور تمثال میں توازن سے کسی بھی کلام میں حسن پیدا ہوجاتا ہے۔ اس بات سے حیدربیابانی خوب واقف تھے اور انہوں نے اس سے کام بھی خوب خوب لیاہے۔ اسی لیے ان کی نظمیں پر کشش اور دلکش بن گئی ہیں۔ چند اور مثالیں دیکھئے؛
ایسا کاش کبھی ہوجائے
بیلوں پر ٹافی کھل جائے
چائے کافی نل سے آئے
بچہ بچہ جس کو چھولے
بسکٹ ڈالی ڈالی جھولے
بچہ بچہ جس کو چھولے
بگیا ہوگی کتنی پیاری
لڈو ہوں جب کیاری کیاری
بوندیں ٹپکے بوندی بن کر
برفی پھیلے گھر کی چھت پر
حلوے کا بادل گھر آئے
ایسا کاش کبھی ہوجائے
پیڑوں پر پیڑے لگ جائیں
جب چاہیں ہم توڑ کے کھائیں
ہر جانب سوہن حلوہ ہو
بالو شاہی کا جلوہ ہو
جھرنا کھیر کا بہتا جائے
خوب جلیبی تیرتی آئے
بیری پر جب ماریں پتھر
کھیل بتاشیں ٹپکیں دن بھر
بچہ کھائے بوڑھا کھائے
ایسا کاش کبھی ہوجائے
نظم میں پیش کی جانے والی چیزوں کی مصوّری پر غور کریں تو ہر چیز فطری لگے گی۔ بیلوں پر ٹافی کا کھلنا ننھے منے پھولوں کے کھلنے سے مشابہت رکھتا ہے۔ نل سے کافی اور چائے کا آنا بالکل حقیقی صورت حال کی پیش کش کو درشاتا ہے۔ اسی طرح ڈالی پر بسکٹ کا جھولنا، بگیا کی کیاریوں میں لڈو کا پھوٹنا، بوندی کا بوند بن کر ٹپکنا، برفی کا چھت پر بکھرجانا، پیڑوں پر پیڑے کا لگنا، اور کھیر کا جھرنا بہنا اور جلیبی کا تیر ناسب کی سب مثالیں اپنی اپنی جگہ پربالکل درست اور چسپاں ہیں۔ کیا جھرنے کی سفید چادر کو دیکھ کر دل میں کھیر کا خیال آنا فطری نہیں ہے۔ اور جلیبی کی بناوٹ کے اعتبار سے اس کا پانی میں تیرنا حقیقی منظر نہیں معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ جلیبی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک حلوائی کی بنائی اور ایک قدرت کی پیدا کردہ ۔
قدرت کی پیدا کردہ جلیبی کا کوئی درخت جب کسی جھیل، تالاب، یا ندی کے کنارے موجود ہوتا ہے تو اس کی شاخوں سے ٹوٹ کر گرنے والی جلیبی پانی میں تیرتی ہوئی نہ صرف یہ کہ بچوں کے من کو لبھاتی ہے بلکہ بڑوں کو بھی للچاتی ہے۔ دراصل اشیاء کے تشبیہات کا یہ انداز ایسا دلکش منظر پیش کرتا ہے کہ بچے حیدربیابانی کی نظمیں پڑھتے چلے جاتے ہیں؛
جب بادلوں میں جاکر ڈولی پتنگ پیاری
اترا کے ڈور سے تب بولی پتنگ پیاری
تجھ کو اگر میں لے کر جاتی نہ آسماں پر
رہتی پڑی ہوئی تو بس خاک میں وہاں پر
تجھ کو نہ منہ لگاؤں دامن اگر چھڑاؤں
کٹ کٹ کے تو بٹے گی جانے کہاں کہاں پر
جھنجھلا کر ڈور بولی میں ساتھ گر نہ ہوتی
اڑتی نہ تو ہوا میں یوں بام پر نہ ہوتی
میں ہوں تو اڑ رہی ہو لہرا کے بادلوں میں
یوں بات کر رہی ہو اترا کے بادلوں میں
رشتہ اگر میں توڑوں جو تجھ سے منہ کو موڑوں
کٹ جاؤ لٹ بھی جاؤ چکرا کے بادلوں میں
(ڈور اور پتنگ)
جنگل میں اک میلہ ہے
موسم جو البیلا ہے
پروائی اٹھلاتی ہے
ندیا کل کل گاتی ہے
جھرنے کا اک تارا ہے
گیت ہوا کا پیارا ہے
ساون کی پازیب بجے
دلہن سی ہر بیل سجے
توتا مینا کوئل، مور
چاروں سمت مچائیں شور
ہنگامہ ہنگامہ ہے
گونجے سارے گاما ہے
(جنگل کا میلہ)
ہے کتنی بیش قیمت یہ زمیں بھی
بہت ہی خوب صورت دلنشیں بھی
یہاں سرسبز دلکش وادیاں ہیں
اچھلتی گنگناتی ندّیاں ہیں
زمیں مٹی سے پتھر سے بنی ہے
مگر اس میں غضب کی دلکشی ہے
وہ سب کو دے رہی ہے آب و دانہ
سدا مقروض ہے اس کا زمانہ
بچھاتی ہے ہرے مخمل کا بستر
سجاتی ہے گلوں کو ڈالیوں پر
اگلتی ہے وہ چاندی اور سونا
دکھاتی ہے ہمیں سپنا سلونا
وہ چکر کاٹ کے دن رات لائے
مہینہ سال کی سوغات لائے
رکھے محفوظ جسم و جاں ہماری
زمیں مشفق ہے جیسے ماں ہماری
اس کتاب میں حیدربیابانی کی پچپن نظمیں شامل ہیں۔ جن میں ’’ہمارا خدا‘‘، ’’بھارت ہمارا‘‘، ’’قلم گوید‘‘، ’’تحفۂ خداوندی‘‘، ’’برا ہوا ہے‘‘، ’’اچھے ہیں ہم تم‘‘، ’’سورج بھیا‘‘، ’’وادیٔ کشمیر‘‘، ’’کلنڈر‘‘، ’’یادوں کے پھول‘‘، ’’اسکول جانے دو‘‘، ’’سردی سردی‘‘، ’’گھر کی مرغی‘‘، ’’منزل ندی کی‘‘، ’’خدا کے بنائے درخت‘‘، ’’قدرت کے تحفے‘‘، ’’کائنات‘‘، ’’چائے‘‘، ’’ایساکاش‘‘، ’’ڈور اور پتنگ‘‘اور بہت ساری دوسری نظمیں اتنی دلکش ہیں کہ ایک بار نظم شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر دم نہیں لیا جاتاہے۔ بانو سرتاج قاضی نے حیدربیابانی کی نظموں پر تبصرہ کرتے ہوئے بجاطور پر لکھا ہے کہ؛
’’ان نظموں اور گیتوں میں الفاظ کا انتخاب نہایت مناسب ہے۔ طفلانہ شوخیوں، اور معصوم خواہشات کا اظہار بڑی خوش اسلوبی سے کیا گیاہے۔ تقریباً ہر موضوع کا احاطہ کرنے کی انہوں نے کامیاب کوشش کی ہے۔ کائنات کے خالق کی نعمتوں کا ذکر ہوا ہے۔ ساتھ ہی اس کی مہربانیوں کا سر جھکا کر اقبال کیا گیا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ بڑی خوب صورت نظم ہے۔
جنگل بچوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔ جانور انہیں بہت عزیز ہوتے ہیں، بچے جانوروں سے دوستی ہی نہیں کرتے ان کے ساتھ اپنا سکھ دکھ بھی بانٹتے ہیں۔ بلی کی ہڑتال، کالی گائے، مینا بولے، چڑیا، جشن سال گرہ وغیرہ نظموں کے ذریعہ حیدربیابانی نے نہ صرف چرندوں پرندوں کی عادتوں اور خصوصیات کو ظاہر کیا ہے بلکہ انہیں انسانی زندگی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
اور یہ سچ بھی ہے کیوں کہ ہر فنکار اپنے طور پر یہ کوشش کرتا ہے کہ بچہ اپنے ماحول سے گھر خاندان سے، مذہب سے، اپنے رب سے، والدین اور دوسرے رشتے داروں سے، زمین اور آسمان سے اور قدرت کے تمام مظاہر سے اس طرح جڑجائے کہ وہ اس کائنات کا حصّہ بن جائے۔ ’’ننھی منی باتیں‘‘ حصّہ سوم پر تبصرہ کرتے ہوئے عبدالرّحیم نشتر صاحب نے لکھا ہے کہ؛
’’ننھی منی باتیں‘‘ بچوں کے لیے لکھی گئی شاندار نظموں کا ایک شاہکار مجموعہ ہے…………اس کتاب کی ہر نظم حیدربیابانی کے شاندار فکر و فن کی مظہر ہے بے شک یہ کتاب حالیہ برسوں میں شائع ہونیوالی بچوں کی شاعری میں سب سے اچھی کتاب ہے، جس کی تصدیق بلندپایہ ادیبوں نے بھی کی ہے۔‘‘
بات دراصل یہ ہے کہ جب فن بولنے لگتا ہے تو فنکار کو بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ یہی سب کچھ حیدربیابانی کی نظموں کی خوبیاں ہیں، وہ جس موضوع کو بھی ہاتھ لگاتے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ انوکھا پن ضرور پیدا کر دیتے ہیں۔ حمددیکھئے؛
مولا سارے کام سنوارے اللہ ہو
کردے دل پر نقش ہمارے اللہ ہو
کہتے جائیں ہاتھ پسارے اللہ ہو
ایک ہی نعرہ ہم بنجارے اللہ ہو
ہیّا ہیّا کہہ کہہ کر سب ہار چکے
پہونچائے اب ناؤ کنارے، اللہ ہو
بستی بستی جنگل جنگل ایک صدا
آنگن آنگن دوارے دوارے اللہ ہو
(اللہ ہو)
ہم چلتے ہیں سینہ تان
آندھی آئے یا طوفان
کوئی دیکھے اپنی شان
ہم ہیں دیش کے ویر جوان
مندر، مسجد، گرجا گھر
سب پر اپنی ایک نظر
من میں سب کا ہے استھان
ہم ہیں دیش کے ویر جوان
(ویر جوان)
پھول ہوں کنول کا میں
آفتاب جل کا میں
حوض میں کھلا ایسے
جل گیا دیا جیسے
(قومی پھول)
ایک صاحب تھے عقل سے پیدل بولے اپنے بھائی سے
حیرت ہے انڈوں سے بچے کیسے بھائی نکل آتے ہیں
بھائی بھی تھے ان کے جیسے سوچ سمجھ کر آخر بولے
حیرت ہے انڈوں میں پہلے بچے کیسے گھس جاتے ہیں
(انڈے اور بچے)
آہا دیکھو تاج محل
دھرتی کی معراج محل
اس کے آگے تارے ماند
اس کے ہوتے مدھم چاند
موتی کی قربان چمک
کندن کی بے جان دمک
جو اس کا دیدار کرے
حیرت کا اظہار کرے
(جادوئی فن پارہ)
انجمن سبزیوں کی بنی رات میں
آ گیا حوصلہ یوں نباتات میں
اپنے غصّے کا اظہار گاجر کرے
کہہ کے روداد مولی بھی آہیں بھرے
لال ہو کر ٹماٹرنے فریاد کی
تیز لہجے میں مرچی نے اپنی کہی
بات کڑوی کسیلی کریلے کی تھی
سب کو لیکن وہی بات اچھی لگی
سب سے آخر میں کدو میاں نے کہا
بھائیو آدمی سے بچائے خدا
سبزیوں کا ہے بے شک وہ دشمن بڑا
ہر گھڑی توڑتا ہے ستم وہ کڑا
(سبزیوں کی انجمن)
حیدربیابانی کی نظموں سے جتنی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان پر توجہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے عہد کے ایک ممتاز شاعر تھے۔ اور اپنے منفرد لب و لہجے کی وجہ سے دور سے ہی پہچان لیے جاتے تھے۔ انہوں نے جس انداز میں نظم کے پیرائے میں بچوں سے مکالمہ کیا ہے اور جو طرز اور اسلوب اپنایا ہے وہ یقینا ہر طرح دلچسپ اور دلکش و دل نشین ہے، بچوں کے لیے اس طرح ڈوب کر شاعری کرنا، اور بچوں کی معصومیت اور اس کی فطرت کو اپنے اندر جذب کر کے تمام موضوعات کو اس طرح برتنا کہ بچوں کو اپنے دل کی آواز سنائی دینے لگے بہت بڑی کامیابی ہے۔ اسی لیے حیدربیابانی کی شاعری کی تعریف اس عہد کے تقریباً سبھی اہم فنکاروں نے کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے؛
’’حیدربیابانی کا مجموعہ پڑھتے وقت مجھے احساس ہوا کہ وہ نہ صرف بچوں کی نفسیات سے واقف ہیں بلکہ لکھنے بیٹھتے ہیں تو ان کا بچپن بھی لوٹ آتا ہے، ان نظموں کی زبان وہی ہے جو بچے بولتے ہیں اور سننا پسند کرتے ہیں۔ ‘‘
(دلیپ سنگھ)
’’ان نظموں میں کہنے کے لیے اچھی بات بھی ہے اور بات کہنے کا دلکش انداز بھی ہے۔ قدیم رواجوں سے، اخلاقیات سے بنی دنیا اس کے مناظر اور عصری ضروریات کا سفر دلچسپ اور متأثر کن ہے۔ اور ایک سوچنے والے ذہن اور باشعور شخصیت کا پتہ دیتا ہے۔ زبان معیاری بھی ہے اور آسان بھی۔ سب سے اہم خصوصیت اس کی موسیقیت ہے، ان میں بڑی روانی اور بے ساختگی اور ترنم ہے۔‘‘
(شفیقہ فرحت)
’’سچ تو یہ ہے کہ مجھے خوش فہمی تھی کہ گذشتہ پندرہ سالوں میں جتنی پابندی سے میں نے نظم و نثر میں لکھا ہے اتنا کوئی نہیں لکھ سکا۔ لیکن حیدربیابانی اس میدان میں مجھ سے آگے ہیں۔‘‘
(مرتضیٰ ساحل تسلیمی)
’’اس دور آزادی میں چند ہی اہل نظر شعراء اور ادباء نے بچوں کو نوازا ہے۔ اس میں بچوں کے شعری ادب کے سلسلے میں حیدربیابانی کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ جنہوں نے خصوصیت کے ساتھ بچوں کے ادب کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ان کی توجہ چھوٹے بچوں کی طرف زیادہ رہی ہے اور یہ بڑی بات ہے۔‘‘
(عبداللہ ولی بخش قادری)
حیدربیابانی کی خدمات کا اعتراف یوں تو بہت سارے لوگوں نے کیا ہے مگر ان پر جتنا کام ہونا چاہیے اتنا نہیں ہوا ہے۔ میری معلومات کے مطابق ان پر ایک پی ایچ ڈی بھی ہوچکی ہے،مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کے اس طرح کے ادیبوں، اور فنکاروں پر سیمینار بھی ہوں اور ان پر اخبار و رسائل کے خصوصی گوشے بھی شائع ہوں تا کہ اردو دنیا کے خواب غفلت میں سوئے ناقدوں، اور دانشوروں کو ادب اطفال کے فنکاروں کی فن کی قدر و قیمت کے تعین پر توجہ کرنے میں آسانی ہو۔