آئندہ مالی سال میں مالی خسارہ 6.5 -6 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان : ایس بی آئی رپورٹ

0
0

یواین آئی
نئی دہلی؍؍ اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کووڈ-19 کے جھٹکوں کے بعد ہندوستانی معیشت کی حالت بہتر ہو رہی ہے اور اس سے آئندہ مالی سال میں سرکاری خزانے کے خسارے میں ہلکی کمی آئے گی۔ایس بی آئی کے چیف اکنامک ایڈوائزر ڈاکٹر سومیا کانتی گھوش کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق سال 2022-23 میں مرکزی حکومت کا مالی خسارہ کم ہو کرمجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے 6.5 -6 فیصد کے درمیان رہے گا۔اندازہ ہے کہ سال کے دوران حکومت مارکیٹ سے کل 12 لاکھ کروڑ روپے کا قرض لے سکتی ہے، جس میں سے ایک تہائی سے زیادہ رقم پرانے قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کی جائے گی۔ اس طرح مارکیٹ سے خالص قرضہ 8.2 لاکھ کروڑ روپے ہوگا۔غور طلب ہے کہ مارکیٹ سے سرکار کے زیادہ قرض لینے سے دوسرے کاموں کے لیے قرض کی دستیابی متاثر ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے سود بڑھنے کا امکان ہوتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2020-21 میں کووڈ-19 وبا کے قہرکے جھٹکوں کے بعد ہندوستان کی معیشت آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے۔ اس میں آئندہ مالی سال کے لیے ’’بجٹ کا بنیادی مقصد طویل المدتی پالیسی کے بجائے قلیل مدتی استحکام پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے تاکہ ماحول کو وقتی طور پر مزید سازگار بنایا جا سکے۔رپورٹ میں حکومت سے پراپرٹی ٹیکس جیسا کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ آئندہ بجٹ میں مالیاتی پوزیشن کو بتدریج مضبوط ہونے دیا جائے اور مالیاتی خسارے کو زیادہ سے زیادہ 0.30 سے 0.40 فیصد تک کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔رپورٹ کے مطابق اگر حکومت اگلے بجٹ میں اخراجات میں اضافے کو رواں مالی سال سے آٹھ فیصد اوپربرقرار رکھنا چاہتی ہے تو یہ 38 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی۔ اسی طرح اگلے بجٹ میں اگر قرض اور دیگر واجبات کو چھوڑ کر وصولی میں اضافے کا تخمینہ 10.8 فیصد لگایا جاتا ہے، تو مالیاتی خسارہ تقریباً 16.5 لاکھ کروڑ روپے ہوگا۔ یہ جی ڈی پی کے 6.3 فیصد کے برابر ہوگا۔ایس بی آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر رواں مالی سال میں لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) کی مجوزہ سرمایہ کشی ممکن ہوئی تو حکومت کوعوامی کھاتوں میں مالی سال کے اختتام تک 3 لاکھ کروڑ روپے کا کیش بیلنس رہ سکتا ہے۔ جس سے مارکیٹ میں قرض لیے بغیر مالیاتی خسارے کے ایک بڑے حصے سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا