سیاسی پارٹیوں کے’وار روم‘ سے لڑی جارہی ہے انتخابی جنگ

0
0

ورچول ذرائع سے انتخابی تشہیر کرنے کی لازمیت کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کے تکنیکی اہلیت کا بھی سخت امتحان ہورہا ہے۰سوشل میڈیا کا کردار فیصلہ کن حیثیت اختیار کرچکا
یواین آئی

لکھنو؍؍ملک کی سیاسی سمت کو طے کرنے والے صوبے اترپردیش میں کورونا بحران کے درمیان ہورہے اسمبلی انتخابات میں ورچول ذرائع سے انتخابی تشہیر کرنے کی لازمیت کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کے تکنیکی اہلیت کا بھی سخت امتحان ہورہا ہے۔عالمی وبا کووڈ۔19 کی تیسری لہر کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے ذریعہ عوامی ریلیوں و دیگر پروگراموں میں پابندی عائد کئے جانے کے بعد سات مراحل میں منعقد ہونے والے انتخابات میں سوشل میڈیا کا کردار فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)،عام آدمی پارٹی(عاپ)، سماج وادی پارٹی(ایس پی) اور کانگریس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے پارٹی دفاتر پر باقاعدہ وار روم بنا رکھے ہیں۔ ان میں تکنیک اور سیاسی ماہرین کی تربیت یافتہ ٹیمیں موجود ہیں۔ ان کی مدد سے وہاٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام پر بوتھ سطح تک بنے سینکڑوں ہزاروں گروپ کے ذریعہ ووٹروں کے دل و دماغ پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی پر کام چل رہا ہے۔تاہم ڈیجیٹل جنگ میں بی جے پی نے دوسری پارٹیوں پرفوقیت حاصل کر رکھی ہے۔اس بات کو حال ہی میں ایس پی صدر اکھلیش یادو نے کھلے عام اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی فی الحال ڈیجیٹل جنگ میں کافی آگے ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ایس پی صدر کے ایماندارانہ اعتراف کو اس نقطہ نظر سے سمجھا جا سکتا ہے کہ بی جے پی نے پانچ سال پہلے ہی ڈیجیٹل انتخابی تشہیر اور خود کو ورچوئل ڈائیلاگ کے طور پر کھڑا کرنے کی بنیا رکھ دی تھی۔۔ اس کے لیے پارٹی نے بوتھ لیول تک کارکنوں کی تربیت بھی شروع کردیا تھا جس کا نتیجہ آج انتخابات میں صاف نظر آرہا ہے۔ایس پی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ ایس پی ڈیجیٹل لڑائی میں میں بی جے پی سے قطعی پیچھے نہیں ہے۔ پارٹی کی ورچوئل میٹنگیں ہو رہی ہیں۔ ان میں زمینی سطح کے کارکنوں سے بہتر رابطہ قائم کیا جا رہا ہے۔ پارٹی کی حکمت عملی کو شیئر کرنے میں ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی اہمیت سامنے آرہی ہے۔ وہیں فیس بک، یوٹیوب اور واٹس ایپ کے ذریعے پارٹی کہ ہر چھوٹے بڑے واقعہ یا اطلاعات کو شیئر کیا جا رہا ہے۔ پارٹی کے صدر اکھلیش یادو اور دیگر عہدیدار طویل عرصے سے ٹوئٹر پر سرگرم ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے ماہرین کے مطابق موجودہ اسمبلی انتخابات میں فیس بک لائیو، یوٹیوب، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کا کردار کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں ہوا بنانے میں کافی اہم ہو سکتا ہے۔ بی جے پی، عاپ، ایس پی اور کانگریس نے باقاعدہ طور پر اپنے ’ ڈیجیٹل وار روم‘ بنارکھے ہیں جہاں ان کی آئی ٹی سیل کی ٹیم ان وسائل کا بہترین استعمال کر رہی ہے۔وہیں کئی چھوٹی پارٹیوں نے اپنی اس مہم کو آگے بڑھانے کے لیے ڈیجیٹل اشتہاری ایجنسیوں کی مدد لی ہے۔ یہ ایجنسیاں نہ صرف یوٹیوب لائیو کے لیے مطلوبہ کم از کم 1000 سبسکرائبرز بنانے میں مدد کرتی ہیں بلکہ اشتہارات کے ذریعے پارٹی کے کلپس کو مفت یوٹیوب سبسکرائبرز کو دیکھنے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ریاست میں تقریباً 70 فیصد رائے دہندگان سیل فون اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ ہر پارٹی کا مقصد سوشل میڈیا کے ان پلیٹ فارمس کے ذریعے ووٹرز کے دل و دماغ پر قبضہ کرنا ہے۔ تاہم ان میں یوٹیوب سٹریم اور واٹس ایپ کا کردار اس لیے بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ دونوں پلیٹ فارم سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں اور ان کے لیے زیادہ تکنیکی مہارت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔یوٹیوب ایپلی کیشن ہر کسی کے لیے مفت دستیاب ہے اور اس کا ڈیٹا ریٹ بھی کم ہے، یعنی انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے پر بھی ‘نیٹ سرفنگ’ کی جا سکتی ہے۔ اپنے چینل کو لائیو بنانے کے لیے کم از کم ایک ہزار سبسکرائبرز کی ضرورت ہے، جسے ڈیجیٹل پروموشن ایجنسیوں کی مدد سے آسانی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ ایک بار چینل کے لائیو ہونے کے بعد، پارٹی کو صرف اپنے کارکنوں کے درمیان لنک شیئر کرنا ہوتا ہے اور دلچسپی رکھنے والے لوگ اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں جس سے سیاسی جماعت کا لیڈر یا امیدوار ہزاروں لاکھوں لوگوں تک اپنی بات آسانی سے پہنچا سکتاہے۔بی جے پی کے سوشل میڈیا سیل سے وابستہ ایک عہدیدار نے بتایا کہ پارٹی سوشل میڈیا کے چاروں پلیٹ فارموں پر سرگرم ہے۔ پارٹی کے ٹوئیڑ ہینڈل پر پر 2.9 ملین سے زیادہ فالوورس ہیں جبکہ فیس بک پر اس کے 48 لاکھ سے زیادہ فالوورس ہیں۔ بی جے پی کے پاس مقامی سطح پر انتخابی مہم چلانے کے لیے وار روم بھی ہیں۔کانگریس بھی ڈیجیٹل لڑائی میں ایس پی، بی جے پی اور عآپ سے پیچھے نہیں ہے۔ اس کی مثال پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کی ورچوئل میٹنگوں اور یوٹیوب، فیس بک لائیو کے علاوہ ٹوئٹر کی شکل میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان ورچوئل ذرائع سے وہ عوام الناس کے جم غفری کو پارٹی کے حق میں کی گئی باتوں کو سننے کے لئے راغب کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔تاہم ، بی ایس پی اپنے حریفوں کے مقابلے ورچوئل انتخابی تشہیر میں پیچھے ہے۔ بی ایس پی کے سینئر لیڈر ستیش چندر مشرا فی الحال لائیو ریلیوں کے انعقاد کے لئے فیس بک کا استعمال کر رہے ہیں، لیکن پارٹی میں اس کے حریف جماعتوں کے ذریعہ اپنائی گئی جارح سوشل میڈیا حکمت عملی کے مقابلے تھوڑی کمی ہے۔عام آدمی پارٹی بھی بڑھتے کووڈ۔19معاملوں کے درمیان ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعہ انتخابی مہم کی حامی ہے۔ راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر عوام محفوظ ہیں تو انتخابات بھی ہوں گے۔ 8 جنوری کو وارانسی میں ایک ورچوئل ریلی میں سنجے سنگھ نے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب کے ذریعے لوگوں سے خطاب کیا۔سوشل میڈیا کے ماہرین کے مطابق جنہوں نیسال 2019 میں سب سے زیادہ تیاری کی ہوگی انہیں اس الیکشن میں سب سے زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔حالانکہ تمام سیاسی جماعتوں کا اپنا اپنا دعویٰ ہے کہ وہ ڈیجیٹل وار روم کے ذریعے نہ صرف مکمل طور سیالیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں بلکہ بہت تیزی سے آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔ تقریباً تمام بڑی جماعتوں کے پاس نہ صرف آئی ٹی ماہرین ہیں بلکہ ان کی اپنی بڑی ٹیمیں بھی گزشتہ کئی سالوں سے انتخابی میدان میں مصروف عمل ہیں۔آئی ٹی کے شعبے میں کام کرنے والے اشوک کمار کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے بوتھ لیول تک کارکنوں کا کردار سوشل میڈیا کے حوالے سے اہم ثابت ہوگی۔ کیونکہ وہ گروپ بنا کر اپنی پارٹی یا امیدوار کا لنک شیئر کریں گے جس سے لوگوں تک ان کی بات پہنچ سکے۔ عالمی وبا کے اس دور میں جسمانی طور پر ملنا مشکل ہو سکتا ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ ٹی وی چینل بھی ہر پارٹی کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے۔ موجودہ دور میں ٹی وی سے کئی گنا زیادہ لوگ سوشل میڈیا کے شوقین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک اور یوٹیوب انتخابی مہم کے سب سے کم خرچ اور بہترین ذرائع بن کر ابھر رہے ہیں۔آئی ٹی ماہرین کے مطابق ا سمارٹ فون، سوشل میڈیا اور پاپولر میڈیا کے ذریعے ورچوئل ریلیوں اور انتخابی مہم کے آغاز کے بعد یہ مارکیٹ بڑھے گی اور نئی تکنیک یا آئیڈیاز آئیں گے۔ سوشل میڈیا ٹیم کے لیے بھی اشتہاری کام کا ہدف بھی مقرر کیا جا رہا ہے۔ حکمت سازوں کا ماننا ہے کہ ورچوئل ریلی کی توسیع زیادہ ہے اور اس میں کم وسائل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی نہیں، بڑے لیڈر اپنے گھروں سے یا دفاتر سے ہی عام لوگوں سے براہ راست خطاب کر سکتے ہیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لوگوں کو انتظار نہیں کرنا پڑتاہے۔ عام انتخابی ریلی کے مقابلے اس میں مقامی لوگوں کی شرکت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے میں اسمبلی انتخابات میں یہ موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا