لوگ پانی بجلی کی قلت سڑکوں کی خستہ حالت طبی سہولیات کے فقدان پر نالاں
چودھری محمد اسلم
چھاترو؍؍ بجلی کی عدم دستیابی ہر گزرتے یوم کے ساتھ جاری رہنے کے باعث جہاں لوگ ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں اگر 21 ویں صدی میں لوگ بنیادی سہولیات کے حوالے سے پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیںتو انتظامیہ کی کاروائی پر سوالیہ نشان لگنا ایک لازمی امر ہے56 فیصد لوگ چناب میں پانی کی عدم دستیابی 65فیصد نا صاف پانی 70فیصد بجلی کی آنکھ مچولی اور فیصد85 لوگ سڑکوں کی خستہ حالت اور 72فیصد طبی سہولیت کی عدم دستیابی کی شکایت کررہے ہیں اور سرکار کی جانب سے چناب میں اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے بیان بازی کے سوا اور کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق جل شکتی محکمہ وادی چناب میں لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے میں بری طرح سے ناکام ثابت ہوچکا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے نیتی آیوگ اور نے نجی طور پر جو رپورٹ سامنے لائے ہے ۔ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے 56فیصد وادی کے لوگوں کو پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے اور 65 فیصدلوگ ناصاف پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔جل شکتی محکمہ ہر سال چھ سو سے لیکر سات سو کروڑ روپے پانی کی فراہمی واٹر سپلائی اسکیموں کی مرمت فلٹریشن پلانٹ نصب کرنے پر خرچ کررہا ہے اور پھر بھی لوگوں کو شرب آب کی قلت سے گزرنا پڑرہا ہے۔وادی چناب میں طبی سہولیات فراہم کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے گئے ہے تاہم سرکاری اسپتال زبح خانوں میں تبدیل ہو گئے ہیں ڈاکٹر دستیاب نہیں نیم طبی عملہ موجود نہیں پرائیویٹ کلنکوں لیبارٹریوں اور اسپتالوں میں عام لوگوں کو علاج کرنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے تنخواہیں نیم طبی عملہ سرکاری خزانے سے حاصل کررہے ہیں اور کام پرائیویٹ اداروں میں کرنے سے گریز نہیں کررہے ہیں ۔بجلی کے بحران نے وادی میں سنگین رخ اختیار کیا ہے چھ سے آٹھ چار سے چھ گھنٹے کٹوتیوں کا اعلان بھی بے معنی اور بے مقصد ثابت ہو رہا ہے ۔آنکھ مچولی وادی کے طول ارض میں جاری ہے اور ساٹھ فیصد لوگ مسلسل بجلی کی عدم دستیابی کا سامنا کررہے ہیں سڑکوں کی خستہ حالت عروج پر ہے ۔آر اینڈ بی محکمہ نے سال 2021 کے موسم گرما میں دو سو کلو میٹر سڑکوں پر میگڈم بچھایا اور ایک سو پچاس کلو میٹر کی پیواندکاری کی رواں برس میں دو سو کلو میٹر سڑکوں پر میگڈم بچھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے وادی میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اگر لوگوں کا مقصد ہے تو اداروں کی کارکردگی کہاں ہے ؟کیا سرکاری اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ مختص کی گئی بجٹ اگر خرچ ہوئی تو پھر لوگ پریشان کیوں ؟اگر رقومات خرچ نہیں کی گئی تو قصور کس کا کیا ڈیجیٹل انڈیا اور ایکسوی صدی میں بھی سرکار اور عوام کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ بجلی طبی سہولیات تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کا رونارو رہے ہیں ۔دعوے تو کئے جارہے ہیں کہ ملک ایک طاقت ور ملک کی حیثیت سے اْبھر کر سامنے آرہا ہے کیا دنیا اس بات سے بے خبر ہے کہ ملک بھر میں لوگوں کو بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی سے گزرنا پڑا رہا ہے کیا ادارے بھی سیاست کی بھنیٹ چڑھ گئے ہیں ؟شفافیت قائم کرنے جوابدہی کو یقینی بنانے کے یہ تمام دعوے اور وعدے اس وقت بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں جب لوگ بجلی پانی کی عدم دستیابی سڑکوں کی خستہ حالت کے فقدان کا روناروئیں۔