تین سو معذورطلبا کی کھیل کے مختلف شعبوں میں سائن لنگویج (اشاروں کی زبان) مہارت سے تربیت دینا شروع کی
یواین آئی
سرینگر؍؍قوت گویائی و سماعت سے محروم اپنی والدہ کے کرب و درد سے متاثر ہو کر ایک 18 سالہ کشمیری طالبہ نے اسی نوعیت کے معذور قریب تین سو طلبا کی کھیل کے مختلف شعبوں میں سائن لنگویج (اشاروں کی زبان) مہارت سے تربیت دینا شروع کی ہے۔سری نگر کے نوگام علاقے سے تعلق رکھنے والی بارہویں جماعت کی طالبہ ارویٰ امتیاز جس کی والدہ قوت گویائی و سماعت سے محروم ہے، پہلی کشمیری لڑکی ہے جو قوت گویائی و سماعت سے محروم قریب تین سو طلبا کو کھیل کے مختلف شعبوں میں سائن لنگویج مہارت کی وساطت سے تربیت دے رہی ہے۔ارویٰ امتیاز نے سائن لنگویج سیکھ کر یہ کام کرنے کے محرکات کے بارے میں بات کرتے ہوئے یو این آئی کو بتایا: ‘سائن لنگویج سیکھنے کی ضرورت مجھے اس وقت شدت سے محسوس ہوئی جب میں اپنی والدہ ریحانہ امتیاز جو قوت گویائی و سماعت سے محروم ہے، کے ساتھ اچھی طرح سے بات چیت کرنے میں ناکام ہوئی’۔انہوں نے کہا کہ میری والدہ بھی بسا اوقات بہت پریشان ہو جاتی تھی جب وہ اپنی بات مجھے سمجھانے میں ناکام ہو جاتی تھی۔موصوف طالبہ نے کہا کہ میں نے سائن لنگویج کا ہنر اپنے قریبی رشتہ داروں سے سیکھا۔انہوں نے بتایا: ‘میرے قریبی رشتہ دار محمد سلیم اور گلشن درابو گذشتہ پندرہ برسوں سے نوگام میں ہی آل جموں و کشمیر سپورٹس ایسوسی ایشن فار ڈیف چلڈرن کے نام کے تحت ایک کلب چلا رہے ہیں، میں ان کے پاس ہی گئی اور سائن لنگویج سیکھی’۔ان کا کہنا تھا: ‘میں نے اس لنگویج میں مہارت حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس کافی وقت گذارا۔ارویٰ امتیاز کا کہنا تھا کہ گلشن درابو اس کلب کی جنرل سکریٹری ہیں اور حکومت اس کلب کی مالی معانت کر رہی ہے۔انہوں نے کہا: ‘میں ان (محمد سلیم اور گلشن درابو) کے ساتھ اسٹیڈیم جایا کرتی تھی جہاں میں ان کو طلبا کے ساتھ سائن لنگویج کی وساطت سے محو گفتگو ہوتے ہوئے دیکھتی تھی’۔ان کا کہنا تھا بعض اوقات مجھے یہ دیکھتے ہوئے کافی تکلیف ہوتی تھی کہ یہ خوبصوت بچے بول نہیں پا رہے ہیں۔موصوفہ نے کہا کہ میں نے انتہائی انہماک کے ساتھ ان بچوں کے حرکات وسکنات اور جذبات کا مشاہدہ کیا تاکہ میں سائن لنگویج کی وساطت سے ان کی زبان بن سکوں۔انہوں نے کہا: ‘میں نے پہلے سائن لنگویج اپنی والدہ کو سمجھنے کے لئے سیکھی تاکہ میں ان کے جذبات و خیالات و احساسات کی زبان بن سکوں لیکن بعد میں ان لاچار بچوں کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہوا’۔ان کا کہنا تھا: ‘ہمارے گھر کا کوئی بھی فرد میری والدہ سے بات نہیں کر سکتا تھا جس سے گھر میں گوناگوں مشکلات پیدا ہو جاتے تھے’۔موصوفہ نے کہا کہ میں خود بھی اپنی ماں کی بات نہ سمجھ سکتی تھی اور نہ ہی وہ میری بات سمجھتی تھی جس سے کافی تکلیف ہوتی تھی۔انہوں نے کہا: ‘آج میں بہت ہی خوش ہوں کہ میری والدہ میری بات سمجھ پاتی ہے میں ان کی بات سمجھ سکتی ہوں’۔ان کا کہنا تھا کہ رفتہ رفتہ اس ہنر میں میری دلچسپی بڑھتی گئی اور اب میں سائن لنگویج اسکل کورس کرنا چاہتی ہوں۔ارویٰ امتیاز دلی یا بنگلور میں کسی قوت گویائی و سماعت سے محروم افراد کے اسکول سے سائن لنگویج میں اعلیٰ ڈگری حاصل کرنا چاہتی ہے۔ارویٰ قوت گویائی و سماعت سے محروم کھلاڑیوں کے ٹیموں کے ہمراہ جموں، دلی اور چنئی بھی گئی ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے کئی اعزازات سے نوازا بھی گیا ہے۔ان کا کہنا ہے: ‘مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ان بچوں کی رضاکارانہ طور پر خدمت کر رہی ہوں اور ان کے ساتھ وادی سے باہر منعقد ہونے والی کھیل تقریبوں میں شرکت کر رہی ہوں’۔موصوفہ نے کہا کہ قوت گویائی و سماعت سے محروم بچوں کے کئی والدین سائن لنگویج سیکھنے کے لئے میرے پاس آتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بہ آسانی بات کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگوں خاص کر معذور افراد کی الٰہی خدمت ہے جس کے کے لئے میں اللہ تعالیٰ کی مشکور ہوں کہ مجھے یہ خدمت کرنے کا موقع نصیب ہوا۔موصوفہ نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس نوعیت کے معذور بچوں کو مزید سہولیات فراہم کرے اور وادی میں ان بچوں کے لئے مزید اسکول قائم کرے۔انہوں نے کہا کہ یہ بچے کافی چالاک اور ہوشیار ہیں لیکن ان کو حکومت کی طرف سے خصوصی سپورٹ کی ضرورت ہے۔