آزادی کے 75 سالہ جشن و بہا در شاہ ظفر کی سالگرہ

0
0

اردو کارواں کی جانب سے آخری مغل تاجدار بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو شاندار خراج،آن لائن مذاکرہ و آل انڈیا مشاعرہ کا انعقاد
لازوال ڈیسک

ممبئی؍؍آخری مغل تاجدار بادشاہ اور شاعر بہادر شاہ ظفر کو ان کی یوم پیدائش کے موقع پر اردو کارواں ممبئی و اورنگ آباد نے آل انڈیا مشاعرہ کا انعقاد کر کے خراج عقیدت پیش کیا۔ اردو کارواں کا تعارف نفیسہ شیخ رابطہ کار اردو کارواں اورنگ آباد نے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اردو کارواں کا مقصد اردو زبان اور گنگا جمنی تہذیب کو نوجوان نسل تک پہنچانا ہے ۔وہ تہذیب جو آہستہ آہستہ مفقود ہوتی جا رہی ہے اس کو اردو اصناف ادب کے مختلف پروگراموں اور مقابلوں کے ذریعے اردو کارواں زندہ کرنے کی کوشش اور جدوجہد کررہا ہے یہی اس کا مقصد ہے۔اورنگ آباد کی طالبہ عفت جہاں نے بہادر شاہ ظفر کے فن و شخصیت پر مختصر روشنی ڈالی۔فرید احمد خان صدر اردو کارواں نے بہادر شاہ ظفر کی شخصیت کے تاریخی پہلو پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بادشاہ تھے جن کا جس کے سر پر تاج تو تھا مگر اختیارات نہیں تھے جس کے پاس فوج تو موجود تھی مگر طاقت نہیں تھی وظیفہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مقرر کر رکھا تھا اور مغلیہ سلطنت صرف لال قلع کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی تھی 1857 کی جنگ آزادی کے نتیجے میں وہ بھی ہاتھ سے جاتی رہی مگر ان کو اپنی حکومت کے جانے کا اتنا غم نہیں تھا جتنا ہندوستان کے غلام ہو جانے کا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اسی سالہ بوڑھے بادشاہ نے آزادی کی جنگ کا بگل بجایا اور اپنی حتی المقدور استطاعت کے ساتھ آخری دم تک لڑتا رہا۔ شہزادوں کے سر تھال میں سجا کر پیش کئے، شکر خدا دا کیا، رنگون بھیج دیا گیا، انہوں نے اس کا غم نہیں منایا بلکہ آخری سانس تک ایک ہی خواہش کو زندہ رکھا کہ وطن عزیز آزاد ہو جائے. وطن کی آزادی کی خواہش لئے دنیا سے چلا گیا اور یہ حسرت لے کر گیا کہ دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں۔شبانہ خان جنرل سیکرٹری اردو کارواں نے ان کے ادبی و شعری پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک عظیم شاعر تھے مگر ان کو ادبی دنیا میں ناقدین اور محققین نے یکسر نظر انداز کیا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نے ان کا ذکر تک نہیں کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب تاریخ ادب اردو میں بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کی شاعری زندگی کے تجربات و حوادث کا نچوڑ ہے۔ ان کے کلام میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے۔ غزل کے علاوہ دوسری اصناف سخن سن میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کی غزلوں میں حسرت و یاس کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے وطن سے جدائی کی کسک اور تڑپ ان کے ہاں جابجا نظر آتی ہے اردو زبان و ادب کے شیدائی آخری مغل تاجدار بہادر شاہ بہادر شاہ ظفر کے ہمیشہ مقروض و احسان مند رہیں گے کہ اپنی کسمپرسی کے عالم میں بھی انہوں نے علم و ادب کی آبیاری کی اور ہمیں ذوق غالب مومن اور داغ اور خود بہادر شاہ ظفر جیسے بیش قیمت نگینے عطا کیے جس پر اردو ادب کو ہمیشہ ناز رہے گا۔ناظم مشاعرہ شعیب ابجی نائب صدر اردو کاروان نے بہادر شاہ ظفر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بہادر شاہ ظفر کے علمی و ادبی پہلو پر بہت کم بات ہوتی ہے یہ اردو کارواں کی خوش قسمتی ہے کہ قدرت نے یہ موقع اردو کارواں کو فراہم کیا، وہ مشاعرے کی نظامت کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔مشاعرے کا آغاز محسن ساحل (شاعر وادیب) کے کلام سے ہوا منور حسین (احمد نگر) نذر بجنوری( ممبئی) نے بہادر شاہ ظفر کی زمین میں غزل پیش کی، تیری فطرت میرے قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی… ہارون افروز (سینیئر صحافی اور شاعر) نے نعتیہ کلام پیش کیا. عرفان کاریگر (شولاپور) اعجاز الحق شہاب (جئے پور) قاضی جاوید (اورنگ آباد) زبیر بسوانی(لکھنؤ).نے اپنے کلام سے محفل کو منور کر دیا، عرفان عارف صدر تحریک بقاء اردو (کشمیر) نے ستم گر کے ستم سہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے… اندھیروں میں پڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے.. غزل پیش کی. ڈاکٹرسرور ساجد ( شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے غم کو پردے یوں چھپا لونگا… دل دکھے گا تو مسکرا دونگا… کلام پیش کیا عرفان عارف اور ڈاکٹر سرور ساجد نے ممبئی اردو کارواں کی کوششوں کو سراہا۔فرید احمد خان صدر اردو کارواں نے اردو کارواں کی دوسری شاخ احمد نگر میں قائم ہونے کا اعلان کیا ساتھ ہی احمد نگر میں قائم ہونے والی شاخ کے رابطہ کار منور حسین خان ہوں گے انہوں نے بتایا۔رسم شکریہ محسن ساحل نے ادا کی اس آن لائن مجلس میں طلباء طالبات اساتذہ اور محبان اردو کے علاوہ اردو کارواں ممبئی اورنگ آباد کے ممبران ڈاکٹر مبین الدین قریشی، سایرہ خان، ظفر عباس، بن ناصر، راشدہ کوثر صرف عرفان سوداگر و دیگر گئی شہروں سے محبان اردو بڑی تعداد میں شریک تھے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا