لوآپ اپنے دام میں……!!

0
0

 

 

 

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001

دفترسے تنخواہ لے کرمیں خوشی خوشی میٹاڈورمیں بیٹھاگھرجارہاتھا۔ سٹاپ پرمیٹاڈور رکی اوراس میں ایک عمررسیدہ بڑھیا سوار ہوئی۔ چونکہ کوئی سیٹ خالی نہ تھی اس لئے وہ بیچاری کھڑی کھڑی ہی کسی سیٹ کے خالی ہونے کاانتظار کررہی تھی۔ مجھ سے اس بے چاری ناتواں کامیٹاڈورمیں ہچکولے کھانادیکھا نہ گیا۔اس لئے اپنی سیٹ خالی کرکے اس کووہاں بٹھادیا۔اس نے مجھے دعائیں دیں کہ اللہ تجھے صحت دے، عزت دے، وغیرہ وغیرہ اس کی یہ دعائیں سن کر میں اورزیادہ پسیج گیا۔اب میںنے جیب سے روپے نکال کراس بڑھیاکابھی کرایہ اداکیا۔
میٹاڈورتھوڑی دورجاکرسٹاپ پررکی۔ تب ہی اس بڑھیانے شورمچانا شرو ع کیا۔لوگو!میری جیب کسی نے کاٹ لی۔ہائے !میں لٹ گئی ۔اب کیا کروں۔
باقی سواریوں نے ڈرائیورکورکنے کے لئے کہا۔اتنے میں بڑھیانے کہا کہ مجھے اس شخص پرشک ہے۔بڑھیانے میری طرف اشارہ کیا،اورمزید کہا میرے پاس پچاس پچاس کے نوٹ تھے۔ اورکچھ پانچ پانچ کے اورکچھ دوروپے کے نوٹ تھے۔جس وقت میںنے اس بڑھیاکاکرایا دیاتھا۔اسی وقت اس محترمہ نے میرے یہ نوٹ دیکھ لیے تھے۔
میںحیران ہوگیاکہ اس بڑھیاکوکیاہوگیا۔بڑی عجیب عورت ہے۔ایک تو میںنے اس کو اپنی سیٹ دی۔پھراس کاکرایہ بھی دیا۔اب یہ مجھ پرہی اتنا بڑا الزام لگارہی ہے۔سواریوں نے کہا۔بھئی صاحب ۔کیابات ہے ۔’’دکھاؤ اپنی جیب ٹٹول کر‘‘۔میں نے پھٹ کراپنی جیب سے دفترسے ملی ہوئی تنخواہ کے روپے نکال کرسبھوں کودکھائے کہ یہ تومیری تنخواہ ہے جو مجھے ابھی ابھی اپنے دفترسے ملی ہے۔اس میں واقعی پچاس پچاس۔پانچ پانچ اوردودو روپے کے نوٹ تھے۔میںنے ہی اس بڑھیاکاکرایہ بھی دیا۔اسی وقت اس محترمہ نے یہ سب روپے دیکھے ہوں گے۔ مجھے اس کایہ صلہ دے رہی ہے؟‘‘سواریوں نے بڑھیاکی بات سچ مان کر مجھے ہی لعنت ملامت کرنی شروع کی۔سبھوںنے میری بے عزتی کی۔ میں ہکابکارہ گیا۔اتنے میں پولیس مجھے اوربڑھیا کوتھانے لے گئی۔ پوچھ تاچھ کے دوران میں نے تھانیداکوکہا’’آپ جناب میرے دفترفون کرکے پتہ کریں کہ کیا واقعی مجھے ابھی ابھی تنخواہ ملی ہے کہ نہیں اورکتنی تنخواہ ملی ہے۔بڑھیاکاجھوٹ خود بخودثابت ہوجائے گا۔‘‘
تھانیدارمیری بات مان گیااورسمجھ بھی گیا۔اورمیرے دفترفون کرکے تسلی کرلی کہ واقعی یہ میری تنخواہ ہی ہے اوربڑھیاجھوٹ بک رہی ہے۔
اب تھانیدار نے بڑھیاکی بڑی بے عزتی کی اورحوالدار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’سپاہی! اس جھوٹی اورفراڈ بڑھیا کواندر ڈال دو۔‘‘
اب بڑھیا کواپنے کئے کاانجام نظرآنے لگا۔اس نے اب دوسرا داؤ شروع کیا۔بولی !’’جناب مجھے معاف کردو۔مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے۔میں ہی قصوروارہوں۔ خداکے لئے مجھے بخش دو۔‘‘
اب بڑھیازاروقطار ہونے لگی۔کبھی تھانیدارتوکبھی میرے پاؤں پکڑنے لگی۔ کبھی ادھرتوکبھی ادھرماتھارگڑنے لگی۔ اوراپنی غلطی مان گئی۔
اس کے باربارپاؤں پکڑنے اورگڑگڑ انے سے میرا غصہ ٹھنڈاپڑگیا اور پھر تھانیدار نے بھی کہاکہ آپ اسے معاف کریںتواللہ آپ کواس کااجردے گاتب جاکرہی میں اس کوچھوڑدوںگا ۔ورنہ اس کاقید ہوناطے ہے۔
میںنے تھانیدارکی بات مان لی اوربڑھیاکومعاف کردیا۔ساتھ ہی کہاکہ تھانیدارصاحب !بڑھیاکوسمجھادیں۔آگے سے دوبارہ یہ ایسانہ کرے کیونکہ پھر اس طرح کوئی بھی آدمی کسی مجبور پر جوصحیح معنوں میں تکلیف میں ہوترس نہیں کھائے گا۔

٭٭٭

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا